تازہ ترین

خوشحالی کا معیار مالداری یا اطمینان و سکون!تحریر: محمد ابراہیم نوری

اللہ تعالی کی ذات بابرکت قابل شناخت نہیں۔ اس کی پاکیزہ  اسماء و صفات ہی اس ذات کی حکایت کرتی ہیں۔ صفات اور افعال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت، تعظیم اور توحید کے اقرار کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک […]

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2223

اللہ تعالی کی ذات بابرکت قابل شناخت نہیں۔ اس کی پاکیزہ  اسماء و صفات ہی اس ذات کی حکایت کرتی ہیں۔ صفات اور افعال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت، تعظیم اور توحید کے اقرار کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’الوہاب‘ اور اس کی ایک صفت ’الکرم‘ ہے۔ اسی صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کو نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایسی نعمتوں سےسرفراز کرتاہے جسے وہ مانگتے ہیں۔ بسا اوقات  اسے بن مانگے نعمتیں بھی عطا کی جاتی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوه ٗ ٗ۔ ترجمہ : اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں نے تم کو عنایت کیا۔ (1) 

????مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال آسکتا ہے کہ مسلمان مشکلات میں جبکہ کافر کیوں آسائش میں ہوتے ہیں؟ 

جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ:   

  وَلَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔(2)

ترجمہ :اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لےتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔” 

عام طور پر لوگوں میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ جس قوم و ملت کے پاس ترقی یافتہ ٹیکنیک ہے یا بہت زیادہ مال و دولت ہے وہی خوش بخت ہے، حقیقت میں ایسا نہیں۔ اگر ان اقوام کو نزدیک   سے دیکھیں تو ان کے یہاں نفسیاتی اور جسمانی بے پناہ درد اور مشکلات پائی جا تی ہیں۔پھر ہمیں یہ باور ہوجائے گا کہ ان میں سے متعدد لوگ دنیا کے سب سے ناچار افراد ہیں، قطع نظر اس بات سے کہ یہی نسبی ترقی ان کی سعی و کوشش، نظم و نسق اور ذمہ داری کے احساس جیسے اصول پر عمل کا نتیجہ ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں بیان ہوئےہیں۔  

دنیا میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے بارے میں تاثر ہے کہ وہاں کے عوام معاشی بدحالی کی بدولت دباؤ کا شکار ہوں گے اور و ہ پریشانی کے باعث دنیا سے جلد نجات پانے کا آرزومند ہوں گے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں پر معاشی خوشحالی کی بدولت خوشیوں کا راج ہو گا، ہر فرد خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہو گا۔جبکہ  امریکہ میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ امریکہ جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے اسے عموماً ہر حوالے سے رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ میڈیا کے پروپیگنڈے کے باعث ممکن ہوا ہے۔ نیویارک، واشنگٹن، کیلی فورنیا وغیرہ امریکی ریاستوں کی میڈیا ایسی تصویر کشی کرتی ہے جس سے تصور ابھر کر سامنے آتا ہے کہ امریکی عوام ”سپر نیشن“ ہیں۔ جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے وہاں کے عوام ہر قسم کے دباؤ کا شکار ہیں اور ان کے لئے یہ دنیا جہنم سے کم نہیں ہے، وہ اس دنیا سے جلد از جلد نجات پانا چاہتے ہیں، مگر اس کا  حیران کن پہلو یہ ہے کہ تمام تر مادی خوشحالی کے باوجود امریکی شہریوں میں خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی واضح دلیل ہے  کہ ان کی مادی ترقی اور خوشحالی کے باوجود ان کے شہری پرمسرت زندگی نہیں گزار رہے ہیں۔ بہت سارے مایوسی کی دنیا میں غرق ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔  

????????ا مریکہ ایک جدید ترقی یافتہ مُلک ہونے کے باوجود تمام ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے  میں وہاں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتاہے۔ خودکشی کا سبب غربت ہوتی تو سب سے زیادہ خودکشیاں غریب ممالک میں ہوتیں۔ ایک مادہ پرست سوسائٹی، جس میں روحانی تسکین کے سامان کا  فراہم نہ ہونا خودکشی کا بنیادی سبب ہے۔ مشکلات سے فرار اور تلخ حقائق سے گریز انسان کو موت کی طرف لے جاتا ہے۔ مادہ پرستی نے انسان کی روحانی خوشی کو چھین لیا ہے۔ مادہ پرست سوسائٹی کے شہری کو جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اسے اس مشکل سے رہائی پانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔  تسکین کے لیے منشیات کا راستہ اپنا تھا، اس سے بھی معاملہ بن نہیں پاتا کیونکہ  جب نشہ اترتا ہے تو اضطراب اور بے چینی دوبارہ اسے اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ایک تجزیاتی رپورٹ امریکہ کے بارے میں شائع ہوئی ہے، جس کے تحت امریکہ میں روزانہ سابق فوجی موت کو گلے لگارہےہیں(3)   

البتہ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جن معاشروں میں ایمان اور پرہیز گاری پائی جاتی ہے وہ پسماندہ ہیں ۔ اگر ایمان اور پرہیزگاری سے مراد صرف دعوائے  اسلام اور تعلیمات ا نبیاء  کی پابندی کا نعرہ ہو تو اس بات کو تسلیم کرنا  پڑئے گا  کہ ایسے افراد پسماندہ ہیں۔ اسلام، طہارت، صحیح عمل، امانت، عدل و انصاف، امن و امان، برادری، مساوات، مسلسل کوشش، حصول علم، صنعت میں ترقی، اسرار کائنات میں غور و فکر اور تحقیق کا حکم دیتا ہے۔ علاوہ ازیں رشوت ستانی، کرپشن ، فتنہ و فساد، دہشت گردی، اختلافات ، تعصب ، تنگ نظری سے روکتا بھی ہے۔  ہمارے مسلمان معاشرے میں یہ تمام مذکورہ خوبیاں غائب ہیں۔جبکہ  تمام خرابیاں موجود ہیں جو ترقی کی راہ میں رکادٹ ہیں، پس ہمارا معاشرہ مسلمانوں کا معاشرہ تو ہے لیکن صحیح اسلامی معاشرہ نہیں۔  ادھر کافر ممالک نے اگر ترقی کی ہے تو اس کے پیچھے بھی بہت اچھے اصول پر عمل کارفرما ہیں۔ جن اصولوں کو عملی کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ مثلا علم و حکمت کو عام کرنا ، اسرار کائنات میں غور و خوض  اورتحقیق کرنا ، فکری آزادی پر اعتقاد رکھنا،محنت و مشقت سے کام انجام دینا، صنعت و حرفت کو عام کرنے کے لیے  جدو جہدکرنا، ہر شعبے میں قابل لوگوں کا انتخاب کرنا، ہر اہم کام میں صحیح اسلام تو علم و دانش اور بیداری و ہوشیاری کی دعوت دیتا ہے، لیکن مسلمان ان سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔   

????اسلام اتحاد و فدارکاری کی دعوت دیتا ہے،کیا اسلامی معاشروں میں ان اصول پر عمل کیا جارہا ہے؟     

ایسا نہیں تو پھر انہیں پسماندہ ہونا ہی چاہیے ۔  بنابریں ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اسلام ایک الگ حقیقت کا نام ہے جبکہ ہم مسلمان ایک الگ چیز،  

ورنہ اگر اسلام کے اصول و قواعد عملی جامہ پہنایا جائے تو اسلام اس جامع نظام الٰہی کا نام ہے جس کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلمان خوش حال نظر آئیں گے۔ 

حوالہ جات: 

1  ۔ سورہ   ابراہیم : 34      

2-  سورہ اعراف ، آیت۹۶  

3:روزنامہ پاکستان(  15 اگست 2015)

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *