خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً ….نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل/ اثر: محمد سجاد شاکری
درس نمبر 10: ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۰
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَکَوْا عَلَیْکُمْ، وَإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَیْکُمْ.
لوگوں کے ساتھ ایسی معاشرت اختیار کرو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ خَالِطُوا: گل مل کر رہو، معاشرت کرو، میل جول رکھو۔
۲۔ النَّاسَ: لوگ۔
۳۔ مُخَالَطَة: معاشرت، گل مل کر رہنا، میل جول۔
۴۔ إِنْ مُتُّمْ: اگر مرجاؤ۔ اگر تمہاری موت آجائے۔
۵۔ بَکَوْا: وہ روئیں، وہ گریہ کریں۔
۶۔ إِنْ عِشْتُمْ: اگر زندہ رہو۔
۷۔ حَنُّوا: وہ لوگ مشتاق ہوں۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
لوگوں کے ساتھ ایسی معاشرت اختیار کرو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
حصہ سوم: شرح کلام
اسلام انسان کی اجتماعی اور سماجی زندگی کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ حتی کہ بعض اوقات فردی منافع کو اجتماعی منافع پر قربان کرنے کا دستور دیتا ہے۔ اگر کہیں کلی طور پر اچھی معاشرت اور اچھے میل جول کے بارے میں تاکید کی ہے تو کہیں جزئی طور پر گھر میں بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائیوں اور تمام رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک اور معاشرے میں دوست، ہمسفر، ہمسایہ، ہم مکتب، ہم مذہب، ہم کلاس، ہم شغل الغرض زندگی میں واسطہ پڑنے والے ہر انسان کے ساتھ حسن رفتار و گفتار کی بہت ہی تاکید کی ہے۔
اگر آپ لوگوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقینا لوگ بھی آپ کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے۔ لیکن اگر ادھر سے محبت ہی نہ ہو تو یقینا دوسری طرف سے بھی کبھی محبت نہیں ملے گی۔ حسن معاشرت کے لئے محبت بانٹنا بہت ضروی ہے۔ ایسی زندگی نہ ہو کہ جب تک زندہ ہے لوگ گالیاں، برا بھلا اور کم سے کم دل ہی دل میں برے احساسات رکھتے ہوں اور مرنے کے بعد ٹھنڈی سانس لے کر بولے مرگیا مردود نہ فاتحہ نہ درود۔
پیغمبر اپنی ایک حدیث میں حسن معاشرت کو اسلام کی نشانی قرار دیتے ہیں:
’’ أَحْسِنْ مُصَاحَبَةَ مَنْ صَاحَبَکَ تَکُنْ مُسْلِماً ‘‘
’’ہمنشین کے ساتھ اچھا رفتار اختیار کرو تاکہ مسلمان شمار کئے جاؤ۔‘‘
اور امام صادق(ع) خوش رفتاری کو شیعیت کے لئے شرط قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ إِنَّهُ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُحْسِنْ صُحْبَةَ مَنْ صَحِبَهُ وَمُرَافَقَةَ مَنْ رَافَقَه ‘‘
’’جو اپنے دوست کے ساتھ اچھا برتاؤ اور رفیق کے ساتھ اچھی رفاقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
موجودہ حالت
آج کے زمانے میں دیکھا جائے تو لوگوں کے پاس اچھی معاشرت یا بری معاشرت کا معیار فقط اور فقط مادی منافع اور فوائد ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ میرے منافع وابستہ ہیں اس وقت تک میں اس کے ساتھ بہت ہی اچھی معاشرت اور رفاقت اپنانے کی کوشش کروں گا اور جیسے ہی میرے منافع بر آوردہ ہوگئے تو پھر میں پلٹ کر کبھی دیکھوں گا بھی نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کی وجہ سے میرے مادی و مالی منافع کو خطرہ لاحق ہے تو اس کے خون کا پیساسا ہوجاوں گا لیکن جیسے ہی اسی کی وجہ سے میرے منافع میسر ہوجائیں تو وہی دشمن گہرا دوست بن جائے گا۔ لہذا ایسی دوستی اور دشمنی کا بھی کوئی دوام نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی دوستی پر لوگ کسی کا مشتاق ہوجاتے ہیں اور نہ ہی مرنے پر زار و قطار گریہ کرنے لگتے ہیں۔
اب تو گھر سے باہر کے لوگوں کے ساتھ اچھی معاشرت تو دور کی بات، گھر کے اندر بھی اچھی معاشرت، احترام، محبت، خلوص اور روداری نامی چیزیں بالکل غائب ہوکر رہ گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے گھریلو اختلافات کے مقدمات کی ایک بہت بڑی تعداد عدالت کے فائلوں میں ہیں تو ایک بڑی تعداد لوگوں کے سینوں میں دفن ہیں۔ جب تک حسن معاشرت اختیار نہ کیا جائے، پیار و محبت کی زندگی نہ جیا جائے، اس وقت تک ہمارے معاشرے میں جرائم کا ریشو کم نہیں ہو سکتا۔ اور ایک اچھا اسلامی و قرآنی معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا۔ پس دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو تاکہ آپ کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جائے۔
ایک غلط فہمی
جن آیات و روایات میں اچھا برتاؤ، حسن معاشرت، اچھا میل جول اور گھل مل کر رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ان کو پڑھنے کے بعد بعض لوگ ایک بہت ہی خطرناک اور غلط نتیجہ و مفہوم اخذ کرتے ہیں۔ وہ مفہوم یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا چاہئے۔ چاہے وہ اچھا کردار رکھنے والا ہو یا برا کردار والا۔ اگر سامنے والا ایک تھپڑؑ مارے تو ہمیں اپنا دوسرا گال اس کے لئے پیش کرنا چاہئے۔ کوئی معاشرے میں برائی کر رہا ہو معاشرے کو خراب کر رہا ہو، جوانوں کی زندگی تباہ کر رہا ہو۔ الغرض معاشرے میں کوئی کچھ بھی کرے ہمیں ہر کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اچھی معاشرت کرنی چاہئے۔!!!
جبکہ مولا کے فرمان یا دیگر آیات و روایات کا ہرگز یہ مراد نہیں ہے۔ مولا خود اس شخص کے بارے میں جو معاشرے کی اچھائی برائی، خیر و شر اور ترقی و تباہی کے سامنے خاموش تماشائی بنا رہتا ہے، فرماتے ہیں:
’’ وَ مِنْهُمْ تَارِكٌ لاِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِهِ وَقَلْبِهِ وَيَدِهِ، فَذلِكَ مَيِّتُ الاْحْيَاءِ.‘‘
’’اور ان میں سے ایک وہ ہے جو نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے اور نہ ہی دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے، یہ زندوں میں (چلتی پھرتی) لاش ہے۔‘‘(نہج البلاغہ، حکمت: 374)
جب تک ان دونوں کلام کو ساتھ نہ رکھیں مطلوبہ نتیجہ اخذ نہیں ہو سکتا ہے۔ پس حسن معاشرت اور اچھے برتاؤ کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کے مقابلے میں خاموش تماشائی بنے رہے، یا اس سے بھی بڑھ کر شریف کی شرافت پر بھی داد تحسین دیا جائے اور جنایت کار کی جنایت پر بھی تالیاں بجایا جائے۔ سماج اور معاشرے کے اصلاح کرنے والے کو بھی پھولوں کا ہار پہنایا جائے اور معاشرے کے مجرم کو بھی بنگڑے ڈال کر استقبال کیا جائے۔
مولا کے کلام کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے۔ بلکہ مولا نے تو اپنے ایک اور کلام میں عہد شکن، اصول شکن، قانون شکن اور حرمتوں کو پائمال کرنے والے کے ساتھ اچھائی اور وفاداری کرنے کو خدا کے نزدیک غداری و عہد شکنی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ أَلْوَفَا لاِهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللّهِ، وَالْغَدْرُ بِأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَاللّهِ ‘‘
’’عہد شکن غداروں کے ساتھ وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے، اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفاداری ہے۔‘‘(نہج البلاغہ، حکمت 259)
پس مولا کے کلام کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ اچھے کے ساتھ بھی اچھا اور برے کے ساتھ بھی اچھا کیا جائے۔ بلکہ مولا کے کلام کا مطلب ہے کلی طور پر عوام الناس کے ساتھ اچھی معاشرت اور اچھا برتاؤ رکھو۔ لیکن اگر کوئی مجرم ہے، کوئی علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور خدا کے ساتھ اپنے رابطے کی حرمت کا خیال نہیں رکھتا تو ایسے بندوں کے لئے بھی پھر باقی بندگان خدا کے نزدیک کوئی حرمت باقی نہیں رہتی۔
دیدگاهتان را بنویسید