تازہ ترین

روز “دحو الارض” کا مقام منزلت / تحریر و ترتیب: محسن عباس مقپون

روز “دحو الارض” کا مقام منزلت
اشاریہ
اسلامی سال کے گیارہویں مہینے کی پچیس تاریخ یعنی ۲۵ ذو القعدہ اسلامی تاریخ میں (روز دَحوُ الأرض) کے نام سے مشہور ہے، یہ دن زمین کا پانی سے باہر آنے کا دن ہے۔ بعض احادیث کے مطابق اس دن زمین کو موجودہ کائنات میں پھیلایا گیا۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن حضرت نوح کی کشتی کا کوہ جودی پر لنگر ڈالنا، حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی کی ولادت اور حضرت آدم پر پہلی بار خدا کی رحمت کے نزول جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں دحو الارض بافضلیت دنوں میں شمار ہوتا ہے جس میں مختلف عبادات کی سفارش ہوئی ہے من جملہ ان میں غسل کرنا، روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا شامل ہیں۔

شئیر
32 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5473

سال کے چار بڑے بافضیلت ایام کونسے ہیں؟
میرداماد نے (میرا داماد کا پورا نام میر برہان الدین محمد باقر بن محمد حسین استر آبادی ہے، صفوی دور میں اہل تشیع کے چوٹی کے فلسفہ دان ، شاعر اور شیخ بہائی کے ہم عصر تھے، فلسفے میں ان کی کتاب قبسات کے نام مشہور ہے ، ہجری سال کے گیارہویں قرن کی مشہور فلسفی شخصیت ملا صدا میرداماد کے شاگردوں میں سے ہیں۔ میرداماد کو معلم سوم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) اپنی گراں قدر کتاب “رسالہ اربعہ ایام” میں سال کے چار بڑے بافضیلت ایام کی عظمت و اہمیت کے بارے میں اسلامی روایات کو جمع کیا ہے اس کتاب کی پہلی فصل میں میر داماد یوں رقمطراز ہے: سال میں چار دن نہایت ہی عظیم المرتبہ اور اللہ تعالی کے نزدیک شان و منزلت کے حامل ہیں شریعت کی اصطلاح میں انہیں ایام ربعہ کہا جاتا ہے۔ ایام اربعہ یہ ہیں:
۱: غدیر کا دن، جو ذی الحجہ الحرام کی ۱۸ ویں تاریخ ہے۔
2: یوم المولود، یعنی ماہ ربیع الاول کی ۱۷ ویں تاریخ جس میں پیغمبر اکرم کی ولادت و باسعادت ہوئی۔
3: مبعث کادن، ماہ رجب المرجب کی ۲۷ ویں تاریخ ہے۔
4: یوم دحو الارض، یعنی ماہ ذو القعدہ کی ۲۵ ویں تاریخ جس دن اللہ تعالی نے زمین کو پھیلایا۔ یہ وہ ایام ہیں کہ سال کا کوئی دن فضیلت اور مقام و منزلت میں ان کا ثانی نہیں بن سکتا۔
زمین کا پھیلاو تجلی رحمت خدا
اس کائنات میں زمین کا پھیلاو یقینا اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس ذات کی رحمت کی تجلی ہے کیونکہ زمین کے پھیلاو اور زمین کے استقرار دے کر ہی انسانی زندگی کا سامان فراہم کیا گیا۔ پس ۲۵ ذو القعدہ کا دن درحقیقت روی زمین پر موجود اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کادن ہے۔ یہ دن سال میں ایک مرتبہ آتا ہے لہذا اس دن میں اللہ کی برکتوں کو سمیٹنے کا سنہرا موقع ہے۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: إنّ لِرَبِّكُم في أيّامِ دَهرِكُم نَفَحاتٍ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ لَعَلَّهُ أن يُصِيبَكُم نَفحَةٌ مِنها فلا تَشقَونَ بَعدَها أبدا(کنزل العمال، حدیث: 21324) ۔ بے شک تمہاری زندگی کے کچھ لمحات میں پروردگار کی طرف سے نسیم رحمت چلتی ہے ، لہذااپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کرو تاکہ اس اس نسیم رحمت کی برکت سے تم ہمیشہ کے لیے بدبختی سے دور ہوجاو۔
روز دحو الارض قرآنی آیات کی روشنی میں
“دحو الارض” ایک قرآنی اور حدیثی اصطلاح ہے، سورہ نازعات کی تیسویں آیت میں (دَحْوُ الارض) زمین کے پھیلائے جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ زمین کے پھیلائے جانے سے مراد خشکی کا پانی کے اندر سے باہر نکل آنے کے ہیں۔ (مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۰۰ ـ ۱۰۱۔) عربی زبان میں “دحو‌” پھیلانے،گسترش دینے اور کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح “دحوالارض‌” کے معنی زمین کے پھیلانے اور اسے گسترش دینے کے ہیں۔ زمین کے پھیلانے سے مراد یہ ہے جب زمین سورج سے جدا ہوئی تھی تو آگ کا ایک دہکتا ہوا گولا تھی، بعد میں اس کی گرمی سے اس کے چاروں طرف پانی وجود میں آیا جس سے سیلابی بارش کا سلسلہ شروع ہوا اور نتیجہ میں زمین کی پوری سطح پانی میں پوشیدہ ہوگئی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پانی زمین میں سمانے لگااور زمین پر جگہ جگہ خشکی نظر آنے لگی۔ پس “دحو الارض” پانی کے نیچے سے زمین کے ظاہر ہونے کا د ن ہے۔ بعض تاریخی شواہد کے مطابق زمین کو خانہ کعبہ کی نچلی سطح سے باہر کی طرف مسطح کیا گیا ، زمین کے پہلی بار اس مقام پر پھیلاو کی وجہ سے کعبہ کو “ام القری” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (وقایع الایام، ص101۔)
سوره آل عمران، آیه 96 میں اللہ کا فرمان ہے:إِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذی بِبَکةَ مُبارَکاً وَ هُدی لِلْعالَمینَ، بیشک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکّہ میں ہے مبارک ہے اور عالمین کے لئے مجسم ہدایت ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام امام محمد باقرعلیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے: لَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ یخْلُقَ الْأَرْضَ أَمَرَ الرِّیاحَ فَضَرَبْنَ وَجْهَ الْماءِ حتَّی صَارَ مَوْجاً ثُمَّ أَزْبَدَ فَصَارَ زَبَداً وَاحِداً فَجَمَعَهُ فِی مَوْضِعِ الْبَیتِ ثُمَّ جَعَلَهُ جَبَلًا مِنْ زَبَدٍ ثُمَّ دَحَا الْأَرْضَ مِنْ تَحْتِهِ وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضعَ لِلناسِ لَلَّذِی بِبَکةَ مُبارَکاً؛ جب اللہ نے زمین کی تخلیق کا ارادہ کیا تو ہواووں کو حکم دیا کہ پانی سے ٹکراجائیں تاکہ پانی میں موج پیدا ہوجائے ، موج کے نتیجے میں پانی کی سطح پر کثرت سے جھاگ بنی اور ایک جگہ جمع ہوئی، اللہ کے حکم سے یہ ساری جھاگ خانہ کعبہ کی جگہ پر قرار دی اس طرح گویا جھاگ کی ایک پہاڑ بن گیا اس کے بعد اس سے زمین کے پھیلاو کا آغازکیا۔ اللہ کے اس کلام : إِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذی بِبَکةَ مُبارَکاً کا مقصود یہ ہے۔( طباطبایی، المیزان ، ج۲۰، ص۱۹۲۔)
یوم دحو الارض کا مقام امیر المومنین علی علیہ السلام کی نظر میں
حضرت علی علیہ السلام اس دن کے بارے میں فرماتے ہیں: اللہ کی طرف سے آسمان سے سب سے پہلی رحمت ۲۵ ذو القعدہ کو نازل ہوئی۔ پس جس شخص نے اس دن روزہ رکھا اور رات کو عبادت میں گزارا سو سال کا اجر و ثواب اسے اللہ عطا کرے گا، ایسا سو سال جس کے دنوں روزہ رکھا گیا ہو اور راتوں میں عبادت کی ہو۔ یہ ایسا دن ہے جس میں اگر لوگ اجتماعی عبادت انجام دیں تو ان کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے ان کی حاجتوں کو اللہ تعالی پورا کرے گا۔ اسی دن اللہ کی طرف سے ہزاروں رحمتیں پر نازل ہوتی ہیں ان رحمتوں میں سے 99 فیصد رحمتیں ان لوگوں کو نصیب ہونگی جو دن کو روزہ رکھے اور رات کو عبادت میں گزارے۔ (مراقبات، ص 186 و 187۔)
دحو الارض کا دن امام علی الرضا علیہ السلام کی نظر میں
امام رضا علیہ السلام کے خاص صحابی اور راویوں اور محدثین کی چوٹی کی شخصیت حسن بن علی وشّا کہتے ہیں: میرے بچپنے کے دوران ایک دن میں اپنے بابا کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا امام علیہ السلام اس دوران رات کا کھانا تناول فرمارہے تھے امام کی فرمائش کے مطابق ہم بھی کاکھانا تناول کیا۔ اسی دوران امام علیہ السلام نے فرمایا: آج کی رات ۲۵ ذوالقعدہ کی رات ہے اسی رات حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی کی ولادت ہوئی اور زمین کو کعبے کے نیچے سے پھیلایا گیا۔ جس شخص نے اس دن روزہ رکھا اسے ساٹھ مہینے کے روزوں کا ثواب دیا جائے گا۔ (مفاتیح الجنان ، ص 451۔) ۲۵ ذوالقعدہ کا دن سال کے چار بڑے بافضیلت ایام میں سے ہے۔
یوم دحو الارض کے آداب
اس مبارک دن میں کچھ عباتیں انجام دینا اس دن کے آداب میں سے ہے۔
1: روزہ رکھنا
جیسا کہ بیان ہوا کہ ۲۵ ذو القعدہ سال کے چار بڑے بافضیلت ایام میں سے ہے لہذا اس دن روزہ رکھنےکا ثواب ستر سال کی عبادت کا ثواب ملے گا، ایک اور روایت میں اس دن کے روزے کا ثواب ستر سال کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ روایت کے مطابق زمین و آسمان کے درمیان میں موجود تمام مخلوقات اس دن کے روزہ دار کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔
2: نماز
اس دن میں مستحب ہے کہ سورج طلوع ہونے کے تھوڑی دیر بعد دو رکعت نماز پڑھ لے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ شمس پڑھ لے۔ اور سلام نماز کے بعد کہے: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔ اس کے بعد دعاس کرے اور یہ دعا پڑھے: يا مُقِيلَ الْعَثَرَاتِ أَقِلْنِي عَثْرَتِي يا مُجِيبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِي يا سَامِعَ الْأَصْوَاتِ اسْمَعْ صَوْتِي وَ ارْحَمْنِي وَ تَجَاوَزْ عَنْ سَيئَاتِي وَ مَا عِنْدِي يا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ۔
3: زیارت امام رضا علیہ السلام
مرحوم میرداماد نے اس دن زیارت امام رضا علیہ السلام کو بہترین مستحب اعمال میں سے قرار دیا ہے۔
4: غسل
اس دن روز دحو الارض کی نیت سے غسل کرنا مستحب ہے
5: احیاء شب
دحو الارض کی رات کو عبادت کرتے جاگنا سو سال کی عبادت کے برابر ہے۔
التماس دعا

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *