تازہ ترین

زندگي نامه شيخ جوادعلي صالحی

زندگي نامه شيخ جوادعلي صالحی
محمد جعفر جعفري راموي
اسلامی سماج میں مسلم امہ کی فکری ،علمی ،عقیدتی، سیاسی ،فرہنگی اور مبارزاتی پہلووں کی رشد ونمو کا انحصار بلاشبہ اس خطے کے علما کرام کی بصیرت افروز جدو جہد اور ایمان سے سر شار سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہر دور میں مکتب تشیع کے دامن میں بابصیرت علما کرام کی بڑی تعداد پائی جاتی تھی جنھوں نے اسلام کی بقاء کے لئے بہت سے کارنامے انجام دیے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مجاہد علما کے دین مبین کے لیے پرخلوص جد و جہدکو تاریخ کےکوڑے دان میں ڈالنے کے بجائے نئی نسل کے لیے بطور نمونہ پیش کیا جائے تاکہ دور حاضر کے استعمار و استکبار سے مقابلے میں توحید و امامت کی راہ میں مجاہدوں کے لیے صحیح رہنمائی میسر آسکے ۔ انہی مجاہدوں میں سے ایک عظیم شخصیت جناب حجۃالاالسلام شیخ جواد علی صالحیی کی ہیں۔جن کی شخصیت میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ دین مبین کے حوالے سے ان کی احساس ذمہ داری تھی، جس نے ان سے دنیوی آسائشات ،آرام طلبی اور دیگر خواہشات کو چھین کر ان کو دین کی راہ میں متحرک و سر گرم عمل رکھا۔

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5503

قبلہ مرحوم نے بچپن سے ہی تقویٰ اور پرہیزگاری کو اپنا پیشہ قرار دیا تھا ۔ شب زندہ داری ان کی دوسری خصوصیت تھی جس نے آخری دم تک مرحوم کو تنہائی میں یاد خدا میں تڑپتے دیکھا۔ توکل اور یقین ان کا تیسرا رفیق تھا جس نے انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی مرحوم کے چہرے پر اطمینان کا نور دیکھا۔بچپن سے ہی دینی علم کے حصول کا شوق تھا لہذا سکول میں طالب علمی کے زمانے سے ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز کیا اور جب میٹرک کا امتحان پاس کرکے کالج میں داخلے کاوقت آیا تو واشگاف الفاظ میں دینی تعلیم کی طرف اپنی رغبت کا اظہار کرتے ہوئے کالج میں داخلہ لینے سے انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ جامعہ امامیہ سکردو میں حصول تعلیم میں مشغول رہنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ المنتظر لاہور میں داخلہ لیا اور پوری دلجمعی کے ساتھ حصول علم میں مشغول ہوگئے ۔ جامعۃ المنتظر سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے مشہد مقدس تشریف لے گئے اور حضرت ثامن الائمہ کی بارگاہ میں عظیم فقہا سے کسب فیض میں مصروف رہے۔ عرصہ دو سال مشہد رضوی میں دسترخوان علم رضوی سے توشہ اندوزی کے بعد کچھ مخلص احباب کے مشورے سے آپ قم المقدسہ تشریف لے گئے اور قم کی تاریخی درسگاہ مدرسہ فیضیہ میں داخلہ لیا۔ یہ زمانہ آپ کی تعلیمی جد و جہد کا زمانہ تھا آپ حصول علم کیلئے جس بلند عزم کے ساتھ مکتب آل محمد ﷺ میں آئے تھے اس عقیدت کا اظہار اسی زمانے کی انتھک کوششوں سے ہوتا ہے ۔فجر کی نماز سے لے کر رات گئے تک آپ مختلف فقہا کے دروس میں شرکت کرتے، مطالعہ، مباحثہ،مختلف فقہاء کی علمی گفتگو کی سماعت اور تبلیغی امور میں غور و فکر کرنا آپ کی روز مرہ کی زندگی کا معمول تھا۔ آپ نےسطحیات مکمل کرکے عظیم مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی۔ ابھی ڈیڑھ دو سال ہی گزرے تھے کہ آپ شدید بیمار ہوگئے اور آپ کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھنا غیرممکن ہوگیا۔ اس لئے آپ نے وطن واپسی کا ارادہ کیا تو بعض احباب نے آپ کو ترک حوزہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ جتنی توفیق خدا نے حصول علم کی دی تھی اس کی فرصت ختم ہوگئی ہے اور اب مجھے حاصل کردہ علم قوم کو ہدیہ کرنا ہے ، پاکستان کی سرزمین کو اسلام ناب محمدیﷺ کی تبلیغ کی ضرورت ہے اس ارادے کے ساتھ ہی آپ نے ایران کو خیر باد کہا اور پنجاب کے شہر گوجرانوالا کے ایک دیہات بھاکرانوالی میں تبلیغ کا آغاز کیا ۔ پاکستان میں آج بھی سینکڑوں علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ دین کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی نہیں رکھتے ، پر تعیش ماحول کو چھوڑ کر تبلیغ کی خاطر ان علاقوں میں جانے والوں کی شدید کمی ہے۔ بھاکرانوالی بھی دین سے محروم تھا مگراس میں قبلہ مرحوم کی آمد اور ان کی جد و جہد نے اس علاقے میں تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ۔ بچوں کے لیے قرآن مجید اوربنیادی اسلامی عقائد کی تدریس کے ساتھ ساتھ شیخ صاحب نے نماز جمعہ قائم کرکے اپنی مشن کا آغاز کردیا۔ آپ کے خطبات کے ذریعے سے علاقے کے کشیدہ فضا میں پہلی دفعہ اسلامی اخوت کے لیے توانا صدا بلند ہوئی ۔ یہ صدا پاکستان کے اس دور افتادہ دیہات کے باسیوں کے لیے بالکل ناشناختہ تھی جو دینی تعلیم سےعاری ملاؤں کی نفرت انگیز بے سروپا تقریروں کی وجہ سے میدان جنگ بنی ہوئی تھی ۔ قبلہ مرحوم کی لاؤڈ سپیکر کے ذریعے نشر ہونے والی تقریر شیعوں سے زیادہ اہل سنت کے لیے حیران کن تھی اور وہ بہت ہی غور سے ان تقریروں کو سنتے تھے ۔ ایک دفعہ مقامی اہل سنت عالم ایک سر گرم شیعہ بزرگ کو مشورہ دینے لگا کہ تم اس عالم کو کبھی نہ چھوڑنا کیونکہ ان کی تقریروں نے اس علاقہ میں شیعہ سنی مسلمانوں میں موجود نفرتیں ختم کردی ہے ۔ پھر یہی سنی عالم ایک دن اہل سنت کے ایک وفد کے ساتھ آکر قبلہ مرحوم سے کہتا ہے کہ آپ صرف شیعوں کے عالم نہیں ہمارے لیے بھی محترم ہیں ۔ اس خطے میں شیخ صاحب کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت اہل سنت کے چند جوانوں نے مذہب اہل بیت ؑ کو اختیار کیا۔شدید آب و ہوا کی وجہ سے شیخ صاحب زیادہ عرصہ اس خطے میں نہ رہ سکے اور گیارہ مہینے بعد آب و ہواکی تبدیلی کی غرض سے بلتستان چلے گئے اور وہاں جناب شیخ محمد علی مظفری صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اور شیخ مظفری صاحب کی شدید اصرار پر سکردو کے علاقے کھرپتو چوسپہ میں واقع مدرسہ الامام الہادی ؑ میں تدریس اور اسی علاقے میں دینی تبلیغ کے لیے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ زمانہ قبلہ مرحوم کی سرگرمیوں کا سب سے بہترین زمانہ تھا ۔ ایک طرف آپ مدرسہ میں دو سو سے زائد طلبا و طالبات کو قرآن کریم ، عقائد اور احکام کی تدریس کرتے تو دوسری طرف تیس طلبا کے لیے جامع المقدمات توضیح المسائل ، اور حدیث کی تدریس کرتے اور ہفتے میں تین مساجد میں باری باری نماز جماعت اور درس کا پروگرام بھی منعقد کرتےتھے۔ سردیوں کی طویل راتوں میں ہفتہ وار درس بھی آپ کے پروگرام میں شامل تھا ۔ پھر آپ محکمہ شرعیہ سکردو سے بھی منسلک ہوگئے اور قضاوت اسلامی میں بھی علما کرام کا ہاتھ بٹانے لگے ۔اگرچہ اس سلسلے میں اعصاب شکن حالات سے دوچار رہتے مگر بار بار اس حدیث کریمہ کی قراٗت فرماتے کہ دو مسلمانوں کے درمیان سے نزاع ختم کرنا ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔آپ کی کاوشوں سے کئی ایک قدیم عوامی اجتماعی تنازعات رفع ہوگئے۔جناب حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محسن علی نجفی اورمومنین کی مدد سے رگیول میں نماز جمعہ قائم کرنا اس علاقے میں ایک اہم تاریخی کارنامہ تھا ۔ عظیم الشان جامع مسجد کی تکمیل سے پہلے ہی نماز جمعہ کا آغاز امام بارگاہ رنگا رگیول میں قبلہ مرحوم کی امامت میں جاری ہو چکا تھا ۔ قبلہ مرحوم انقلاب اسلامی ایران سے شدید متاثر اور بانی انقلاب امام امت خمینی بت شکن کے عاشق تھے ۔ ان کے خطبات میں انقلاب اسلامی کے افکار کی آمیزش نے جوانوں کی بڑی تعداد کو نمازجمعہ کی طرف راغب کیا۔ خاص طور پر جدید تعلیم سے آراستہ نئی نسل بڑی ذوق و شوق کے ساتھ قبلہ کی دروس میں شرکت کرنے لگے ۔ دین اسلام کی خدمت کرنا قبلہ صاحب کی دلی ارمان تھی اور آپ ہمیشہ شہرت اور منصب سے دور رہنے کی کوشش کرتے ۔ ایک دفعہ حجۃ الالسلام و المسلمین شیخ محمد حسن جعفری مرکزی امام جمعہ سکردو کی غیر موجودگی میں جمعہ انتظامیہ کی طرف سے مرکزی نماز جمعہ سکردوپڑھانے کی دعوت دی گئی مگر شیخ صاحب نے انکار کردیا استفسار کرنے پر فرمایا نماز جمعہ رگیول ترک کرکے جانا کسی صورت درست نہیں سمجھتاہوں۔
آخر کار اس خدمت گذار عالم دین نے آٹھ جولائی 2003عیسوی میں دعوت حق کو لبیک کہا اور ہم سب کو داغ فراق دے گئے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *