تازہ ترین

سوفٹ وار کے عہد میں سیرت حضرت فاطمۃ الزہرا (س)

ٹیکنالوجی اور سانئس کی روز افزوں ترقی و پیشرفت سے ماورائی ہستی کا وجود اور اس کے علم و قدرت کی شاہکاریوں پر ایمان مزید پختہ ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے بھی تسخیر آسمان وزمین کی تعبیر کر کے شاید اسی بات پر مہر تائید ثبت کرنا مقصد ہو کہ اس اشرف المخلوق کے اندر خدا نے بے پناہ صلاحیت رکھی ہے گویا پوری کائنات اس کے اندر سمو دی گئی ہے۔
شئیر
22 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10552

تحریر : صادق الوعد قم المقدسہ

موجودہ دور ہرگزرتے لمحے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ ماضی قریب میں شروع ہونے والا ڈیجیٹل دور بام عروج پر ہی تھا اس سے زیادہ مشکل ساز، پیچیدہ ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت کا اختراع کیا گیا۔ اکیسویں صدی ایسا دور ہے جس میں ٹیکنالوجی انسانی سماج اور زندگی کا اہم حصہ بن چکی یے ۔ جب اس نئی ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا تو بشر اس خوش فہمی میں جھوم اٹھے کہ اب تو چاروں سمت سے شہد اور دودھ کی نہریں بہہ جائیں گی، مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار انسان اسے اپنے لئے سپیده سحر ،تاریک رات میں چمکتا ستارے کے طور پر دیکھنے لگے، بشر کی یہ خوش فہمی اس وقت چکنا چور ہوکر رہ گئی جب وہ خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کی بدولت خود کا اختراع شدہ جدید ٹیکنالوجی کے سامنے سر بسجود ہوگئے۔
دوسری طرف کچھ لوگ فرط حیرت سے انگشت بہ دندان ہیں کہ خدائے حکیم اس عالم صغیر کے اندر کیا کیا صلاحیتیں ودیعت کر رکھی ہے ۔ یہ صلاحتیں کیا ظاہر ہوئیں یہ یا ناقابل ذکر مخلوق انا ربکم الاعلی کا دعویدار بن گئی ۔
یقینا ٹیکنالوجی اور سانئس کی روز افزوں ترقی و پیشرفت سے ماورائی ہستی کا وجود اور اس کے علم و قدرت کی شاہکاریوں پر ایمان مزید پختہ ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے بھی تسخیر آسمان وزمین کی تعبیر کر کے شاید اسی بات پر مہر تائید ثبت کرنا مقصد ہو کہ اس اشرف المخلوق کے اندر خدا نے بے پناہ صلاحیت رکھی ہے گویا پوری کائنات اس کے اندر سمو دی گئی ہے۔
جب سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں قدم رکھا ہے اسی دن سے انسانی سماج میں ایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ انسان کے رہن سہن سے لیکر طرز تفکر، طرز زندگی حتیٰ کہ انداز گفت وگو تک کو متاثر کردیا ۔اس جدید ٹیکنالوجی کی افادیت کو دیکھتے ہوئے دنیا کے پالیسی میکرز جن کے معمولی اشارہ اور ایک جنبش قلم سے پورا کا پورا ایک ملک، ایک معاشرہ زیر و زبر ہو جایا کرتا ہے، اس سے پیچھے کیسے رہ سکتے تھے،انہوں نے بھی زمانے کے ساتھ چلنے کا ٹھان لیتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کئے۔
بطور مثال ایک زمانہ تھا جس میں جنگیں (ہارڈ وار) نیزہ و تلوار سے لڑی جاتی تھیں، پھر کلاشنکوف اور ٹینک نے اس کی جگہ لے لی اب یہ سب بیکار سا ہوکر ره گئے ۔اکیسویں صدی سافٹ وار کی حکمرانی کا دور شروع ہوچکا ہے ۔یقینا جو سختیاں ہارڈ وار میں ہیں وہ سافٹ وار میں نہیں لیکن اس کے باوجود یہ ماضی کی جنگوں کی نسبت مشکل بھی ہے اور پیچیده بھی ۔ اس تحریر میں ہم سافٹ وار کی پیچیدگیوں اور اس جنگ کی روش پر طائرانہ نظر کریں گے کہ سافٹ ہوتی کیاہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے ، پھر حضرت فاطمہ زهرا (ع) کی سیرت کی روشنی میں راه حل بیان کریں گے۔

سوفٹ وار(Soft War)) کیا ہے؟
سافٹ وار سے مراد ایسے منظم (activity) اور حکمت عملی کا تسلسل ہے جس کے ذریعے کسی ملک یا معاشرے سے وابستہ افراد کے افکار و خیالات، احساسات اور طرز عمل میں تبدیلی لانا مقصد ہوتا ہے ۔اس جنگ میں چونکہ کسی انسان کو قتل کرنا یا ملٹری اوزار وآلات کے ذریعے ہدف تک پہنچنا نہیں اس لئے عام طور پر فوجی طاقت یا تو ہوتی ہی نہیں، اگر ہو تو بھی بلواسطہ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کو اس جنگ کا احساس تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہو ۔یہاں تک اس جنگ میں دشمن بھی اپنی دشمنی کو چھپاتا ہے یا دوستی کا لباس پہن رکھتا ہے ، کیونکہ سوفٹ وار کی پوری توجہ اس معاشرے کے باسیوں کے افکار اور نظریات کو غیر محسوس طریقے سے تبدیل کرنا ہے اسی لئے اسے جنگ نرم یا سوفٹ وار سے تعبیر کرتے ہیں۔ جوزف نی(Joseph Nye) ایک امریکی دانشمند، سیاست پر گہری نظر اور پالیسی میکر ہے جس نے پہلی بار اس اصطلاح کو ایجاد کیا۔ اس کا خیال تھا امریکی ثقافت کی کشش اور دلربائی کی وجہ سے امریکہ دنیا کا سپر طاقت بن چکا ہے ۔اس نے امریکی حکمرانوں سے کہا بین الاقوامی سطح پر امریکی طاقت کے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرنے کا اہم ہتھیار یہی ہے۔

سوفٹ وارکے اوزار

1. انفارمیشن اورمیڈیا

سافٹ وارکے اہم ہتھیاروں میں سے ایک،ذرائع ابلاغ خاص کر سوشل نیٹ ورک ہے۔چونکہ اس کے ذریعے خاص فکر اور معلومات برق رفتاری سے جیسا چاہے کثیر افرادی تک پہنچائے جاسکتے ہیں ۔کسی مشکل کے بغیر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بناکر پیش کردیا جاتا ہے، میڈیا خاص کر سوشل میڈیا سے منسلک افراد اس بات کی تصدیق کریں گے کہ کس حد تک من گھڑت خبریں اور غلط معلومات پھیلائے جاتے ہیں ۔ نہ جانے ان غلط معلومات کی بنیاد پر کتنے ملکوں اور انسانی عظیم جانیں زیر خاک ہوگئیں ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اس حد تک من گھڑت خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ فقط فطین اور زیرک افراد ہی سمجھ پاتے ہیں، لہذا میڈیا کے ذریعے معاشرے کو الجھنوں کا شکار کرنے، اسی طرح غلط اور صحیح معلومات کی شناخت کو سخت سے سخت تر بنانے کا مناسب اور بہترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے ۔اس کی ایک مثال گزشتہ سال شروع ہونے والا طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب امریکی وزیر خارجہ بلینکن اسرائیلی حکمرانوں سے ملاقات کرنے تل ابیب پہنچا ، اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ کو ایک تصویر دکھائی جس کے ذریعے یہ بتانا تھا میں کہ یہ ایک اسرائیلی بچے کی جلی ہوئی لاش ہے۔ جسے حماس نے زندہ جلایا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم اس تصویر کے ذریعے اسرائیل کی مظلومیت اور مقاومت کے مظالم بیان کرنا تھا اور اسے بہانہ بناکر فلسطینی مظلوم عوام پر مزید وحشی گری کرنا مقصد تھا۔
جب اس تصویر کی تحقیقات شروع کر دی گئی تو پتا چلا کہ در حقیقت وہ ایک کتے کا بچہ تھا جسے مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی شکل میں بنائی تھی، اسرائیل نے اسی جعلی تصویر کو بنیاد بناکر رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی انتھک کوشش کی تاکہ فلسطین کے مظلوم عوام پر مزید ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاسکے۔
سوفٹ وار میں میڈیا کو۔ پروپیگنڈے اور منفی تبلیغات کے لئے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے، یعنی ایسے مضامین اور مواد کی جمع آوری کے بعد ان کو خاص اینگل اور زاوئے کے تحت لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ جو بھی اسے دیکھے یا پڑھے تو خود بخود اس کے افکار اور سوچ بدل جائے ۔ ذہن سازی کے مختلف طریقے ہوسکتےہیں منجملہ، مقالہ جات، پوڈ کاسٹ،یہاں تک کہ اسٹریٹ بل بورڈز، ویڈیوز اسی طرح بچوں کی ذہن سازی کے لئے ویڈیو گیم اور انیمیشن ہیں جس میں ایک خاص کردار یا کسی سلیبریٹیز کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بچہ اسی کو ہی اپنے لئے رول ماڈل سمجھے، پھر اس کی مانند طرز زندگی، کو اپنی زندگی کا آخری ہدف بنائے ۔جس کے نتیجے میں وہ بچہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ جب اس کے سامنے اس مقصد تک پہنچنے میں مشکلات پیش آجاتی ہیں تو ممکن ہے وہ بڑے بڑے جرائم کا مرتکب ہو جائے۔
جو بچے بڑے ہوکر جرائم کا مرتکب، یا اچھے کام کرنے لگ جاتے ہے حقیقت میں دوران طفولیت اور بچپنے میں تربیت اور ذہن سازی کا نتیجہ ہے۔اسی لئے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بچہ تربیتی مراحل طے کرنے کے بعد پہلے محسن انسانیت بنتے ہیں یا مجرم انسانیت بنتے ہیں، احسان، یا جرائم بعد میں کرتے ہیں، یعنی اچھی یا بری شخصیت پہلے تشکیل پاتی ہے احسان یا جرائم کا ارتکاب بعد میں ہوتا ہے ۔ایک شاعر اسی نکتے کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے۔

تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے.
جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے۔
جب سوفٹ وار کا اہم ذریعہ میڈیا ہے تو ہمیں سیرت حضرت فاطمہ (ع) کی روشنی میں کیا کرنا چاہئے؟
کیا میڈیا اور سوشل میڈیا سے لاتعلقی کا اظہار کریں؟
یا جو کچھ میڈیا کے ذریعے ہماری ذہن سازی کرتے ہیں اس کا بھر پور مقابلہ کریں؟
اگر مقابلہ کرنا ہے تو کیسے مقابلہ کریں؟
حضرت فاطمہ (س) کے دور میں دستیاب اہم ذرائع ابلاغ میں منبروں سے تقاریر اور عوامی اجتماعات میں خطاب شامل تھا۔ انہوں نے ان ذرائع کو لوگوں تک الٰہی دین کے پیغام پہنچانے اور رائے عامہ کو حق کی جانب رہنمائی کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا۔
انصار و مہاجرین سے بھرے مجمع میں دئے گئے خطبہ فدکیہ اس کی واضح مثال ہے ۔ اس خطبے نے نہ صرف اپنے زمانے میں اپنا اثر دکھایا بلکہ تاریخ اسلام میں ایک تاریخی اور ثقافتی اہم دستاویز کے طور پر امت کو سونپ دی ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) نے ایک ایسے زمانے میں مسجد جاکر خطبہ ارشاد فرمایا کہ کسی عورت کا خطبہ دینا معمول کے بر خلاف تھا بلکہ مسجد جانے کا رواج تک نہیں تھا ،یہاں تک کہ اس وقت بھی پاکستان جیسے معاشرے میں عورتوں کے لئے مسجد جانے کو عیب سمجھا جاتا ہے اس لئے عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی جگہ نہیں بناتے ۔حضرت فاطمہ (ع) نے اس دور میں دستیاب ذرائع ابلاغ کو عوام میں شعور لانے اور لوگوں کو صحیح بات پہنچانے کے لئے استعمال کرکے رہتی دنیا تک یہ پیغام دیا کہ اس معاملے میں زن ومرد میں کوئی فرق نہیں بلکہ اس معاشرے کا ہر فرد زمہ دار ہے ۔
دوسرا یہ کہ جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا: پتھر جہاں سے آیا ہے وہیں پلٹا دو۔
جس ذرائع ابلاغ پر ہر لمحہ ہمارے عقائد اور افکار پر حملے ہوتے ہیں ہمیں بھی چاہئے اسی طرح حملے کریں ۔جہاں سے جس انداز سے حملے ہوتے ہیں اسی انداز یا اس سے بھر پور سے جواب دیا جائے کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے۔

2. ثقافت اور فنون

عصر حاضر میں ثقافت اور فنون سوفٹ وار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔فنون چونکہ بلا واسطہ انسان کے احساسات اور افکار سے جھڑے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی معاشرے میں فنکار لوگوں کے خیالات اور احساسات کو متاثر کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے سوفٹ وار کے موثر اور کامیاب ہونے میں ثقافت وفنون کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔

سوفٹ وار میں مخصوص پیغام پہنچانے ،کسی ثقافت کی بنیادوں کو کھوکھلا یا متاثر کرنے کے لیے آرٹ،تھیٹر، موسیقی، فلم اور ادب کا سہارا لیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر فلمیں اور ٹی وی سیریز اس دور میں ہنر کے جوہر دکھانے کی بجائے سیاسی،ثقافتی یا مذہبی پیغام پہنچانے کا اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔
بالی ووڈ اور ہولی ووڈ موویز کا سوفٹ وار میں تیسرے کھلاڑی کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے ۔امریکا یا مغرب جب بھی بڑے اقدام اٹھانے کا ارادہ کرتا ہے سب سے پہلے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے فلمی دستاویزات کے ذریعے راہ ہموار کرتے ہیں پھر عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک عزیز پاکستان کے اکثر فنکاروں کی کوشش یہی ہوتی ہے کسی طرح بالی ووڈ میں کوئی موقع ملے تاکہ دولت کے ساتھ سلیبریٹیز کی صف میں شامل ہو جائیں ۔
خطہ ارض شمال یعنی گلگت بلتستان میں بھی ناگفتہ بحال ہے ۔ کرگل لداخ سے بلتی ثقافت کے نام سے جو زہر اس خطے کے باشندوں کو پلایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ اب آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگا ہے ۔ پہلے یہ کام کرگل لداخ سے ہوتا تھا تو اب یہی کام گلگت بلتستان کے اندر فیسٹول اور بلتی ثقافت کے نام سے شروع کردیا ہے۔جس کا نتیجہ گلگت بلتستان کے ذہین نوجوان بچے جن کی عمر پڑھنے کی ہوتی ہے، بجائے اس کے کی تعلیم اور شعور کے ذریعے قوم کی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ قوم کے معمار بن جائیں قوم وملک کی ترقی میں سوچیں ، اس عمر میں نائٹ کلب اور مختلف فیسٹول میں آواز خوانی کو کامیاب زندگی اور مقصد حیات تصور کرنے لگے ہیں۔فنون اور میڈیا کے اثر کا ایک اور جھلک ہمارے بچوں کے نام بھی میں دکھائی دیں گے۔ آج سے تیس سال پہلے بچوں کو اسلامی ثقافت کے مطابق والدین یا رشتے دار بہترین اسلامی نام دیا کرتے تھے مگر آج کل کھیل اور فنون سے متاثر ہوکر ، سوفٹ وار کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بچوں کو ایسے ایسے نام دیتے ہیں کہ شاید لوگوں کے لئے ان ناموں کو زبان پر ادا کرنا بھی دشوار ہو ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی کی حیثیت سے نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی میں بلکہ سماجی اور سیاسی میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وقت کے چیلنجوں اور مسائل کا سامنا کرنے میں بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد سوفٹ وار سے مقابلہ کے لئے آپ کی ذات موثر نمونہ ہے۔حضرت فاطمہ (س) نے اپنے بچوں کی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں نمونے کے طور پر پرورش کر کے اسلامی اقدار اور اصولوں کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔حضرت فاطمہ (ع) نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ اگر حسنین کریمین امت اسلامی کے امام نہ بھی ہوتے تو بھی ایک بہترین لیڈر ضرور بن جاتے ۔آپ (ع) نے تربیت کے اصول دکھا دئیے کہ نسل نو کی ایسی تربیت کرے کہ وہ اسلامی اور فطری اصولوں سے آگاہ بھی ہو اور پابند بھی رہے کیونکہ دین اور ملک کے حقیقی محافظ بننا ہے۔
ان شاء اللہ تیسری قسط میں سوفٹ وار کی روش اور حضرت فاطمہ ع کی سیرت کی روشنی میں حل پر لکھیں گے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *