تازہ ترین

سیاست کے رنگ اور اندیشے/تحریر: ارشاد حسین ناصر

ملکی سیاسی فضا ایک بار پھر مکدر ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس کی ابتدا تو کافی عرصہ پہلے ہوگئی تھی مگر موجودہ فیز اس وقت سامنے آیا، جب سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی میں حکمران خاندان کی پیشیاں شروع ہوئیں، ان میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی دختر […]

شئیر
22 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2557

ملکی سیاسی فضا ایک بار پھر مکدر ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس کی ابتدا تو کافی عرصہ پہلے ہوگئی تھی مگر موجودہ فیز اس وقت سامنے آیا، جب سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی میں حکمران خاندان کی پیشیاں شروع ہوئیں، ان میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی دختر مریم صفدر بھی شامل تھیں۔ اس موقعہ پر اسلام آباد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر لگنے والے میلہ میں بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملتا، حکومتی وزراء کی بڑھکیں اور اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے وکلا و حامیوں کے بلند بانگ دعوے اور نئی امیدیں، خوشخبریاں اور دعوے۔ یہ سب چل رہا تھا، اسی دوران وزراء کی جانب سے کئی پروگراموں میں بھی بھرپور جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے فضا کو گرمانا شروع کر دیا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ملک میں کوئی طوفان آنے کو ہے، کوئی ان ہونی ہونے کو ہے، کوئی سازش کارفرما ہے۔ جیسے جیسے جے آئی ٹی کا رپورٹ جمع کروانے کا مقررہ وقت قریب آرہا تھا، ہلچل میں اضافہ ہو رہا تھا اور رپورٹ آنے سے ایک دن پہلے ہی ایک نیوز پیپر نے اس کے غلط مندرجات کی خبر شائع کر دی، جس کے ساتھ ہی اس جے آئی ٹی کو رد کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، حالانکہ رپورٹ ابھی سامنے بھی نہیں آئی تھی کہ حکمرانوں کے وفادار اس پر چڑھ دوڑے۔ خیر 10 جولائی کو ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی، جس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ اب تو لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کام جے آئی ٹی نے کیا ہے، وہ ستر برس میں نہیں ہوسکا، حکومتی وزیر رانا ثناء اللہ نے اسے جن آئی ٹی کا خطاب دیا ہے اور یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ بہت سے نامور لوگ جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس میں شامل افراد کے اپنے اداروں کے سربراہوں کے زیر اثر ہونے اور صحیح انویسٹیگیشن نہ کرسکنے کے مفروضے کی بنیاد پہ شکوک و شبہات کا برملا اظہار کر رہے تھے، ان میں چودھری اعتزاز احسن اور علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا نام نمایاں طور پہ لیا جا سکتا ہے۔

بہرحال پاناما کیس شریف خاندان کے لئے کٹھن مرحلہ اور مسلم لیگ نواز کے لئے چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد ایک طرف تو اپوزیشن جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان، جماعت اسلامی پاکستان، پاکستان مسلم لیگ، پاک سرزمین پارٹی، مجلس وحدت مسلمین اور دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں، نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کیس کے اگلے مرحلے کا مقابلہ وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے کریں، جو الزامات لگے تھے، وہ درست ثابت ہوئے ہیں اور وزیراعظم کی کرپشن ثابت ہوچکی ہے، وہ صادق و امین نہیں رہے، جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں ملاقاتوں اور میٹنگز کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے۔ کون کس کیساتھ کاندھا ملاتا ہے اور کون کس کے کاندھے کو استعمال کرتا ہے، یہ کھیل اب شروع ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں نون لیگ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیگی، اس نے تو پہلے ہی اپنے پیادے میدان میں اتار دیئے تھے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاناما مقدمہ جہاں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے لئے کٹھن مرحلہ ہے، وہیں پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (نواز) کے لئے بھی سیاسی طور پر نہ صرف ایک بحران بلکہ چیلنج بھی ہے۔ اس بحرانی حالت میں ہی اس نے اپنے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر ڈٹ جانے اور مستعفی ہونے کے مطالبے کو سختی سے رد کر دیا ہے، جبکہ اس کے ساتھ جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی بھی دکھائی دے رہی رہیں اور مولانا نے وزیراعظم کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا ہے۔

ظاہراً اس وقت اس صورتحال کے کچھ اخلاقی تقاضے ہیں اور کچھ قانونی و آئینی تقاضے۔ قانونی تقاضوں کا مطلب ہے کہ حکمران پارٹی جے آئی ٹی پر سخت تنقید کے باوجود اس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے یا اس سے پہلے ہی اس رپورٹ کو رد کرتے ہوئے اس کے خلاف درخواست دے اور عدم ا عتماد کا اظہار کرے، سپریم کورٹ کے بینچ کا فیصلہ کیا آتا ہے، مزید تحقیقات یا اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے اس کی روشنی میں وزیراعظم اور اس کے خاندان سمیت وہ تمام افراد جن پر الزامات سامنے آچکے ہیں اور جو شریک جرم رہے ہیں، کی قسمت کا فیصلہ ملکی سیاست پر گہرا اثر ڈالنے جا رہا ہے، مگر سابقہ رویوں اور تاریخ کو مدنظر رکھیں تو حالات سنگین صورتحال اختیار کرسکتے ہیں، جو ملک میں انارکی اور افراتفری کیساتھ جمہوریت کا بستر لپیٹے جانے پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ سکیورٹی ادارے اب ایسا نہیں چاہتے، مگر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں میں ایسے بہت سے ہیں، جو حالات کو اس نہج پہ لے جانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ نون اس وقت مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں مشترکہ حکومت رکھتی ہے، پنجاب میں اس کے میگا پراجیکٹس زوروں پہ چل رہے ہیں، سی پیک کا بھی اپنا معاملہ ہے، اگرچہ اس کی ذمہ داری افواج پاکستان کے پاس ہے، وہی اس کی نگرانی کر رہی ہے، بہت سے سیاستدانوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنی جگہ کسی بااعتماد شخص کو وزیراعظم بنا دینا چاہیئے اور کیس کا سامنا کرنا چاہیئے، مگر ان کے مزاج اور طبیعت سے شناسا جانتے ہیں کہ وہ کسی پر اس قدر اعتماد نہیں کرتے، حتٰی اپنے برادر خورد میاں شہباز پر بھی اس قدر مہربان نہیں ہو سکتے، لہذا نتیجہ میں ہم ٹکراؤ کی سیاست دیکھیں گے، جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب آئینی ادارے، سکیورٹی و تفتیشی ادارے اور پارلیمان سب کیا کردار ادا کرتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا کہ سب کا کردار اپنی جگہ اہم ہے، البتہ اپوزیشن جماعتوں کا کسی ایک چھتری تلے جمع ہونا بذات خود ایک مسئلہ ہے۔

عملی طور پہ حکومت کے گیارہ ماہ باقی ہیں، اگر یہ گیارہ ماہ اسے پورا نہ کرنے دیئے گئے تو الیکشن میں ان کا یہی رنڈی رونا ہوگا کہ ہم تو ترقی کے مینار کھڑے کر رہے تھے، ہم تو یہ کر رہے تھے، ہم نے تو یوں کر دینا تھا، مگر ہمارے خلاف سازش کی گئی اور ہمیں اپنا وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ ایک بات جس کا اعتراف کرنا بے حد ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے جس طرح اس حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہے، اگر یہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح ان سے ملی ہوتی تو میاں نواز شریف کو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا تھا۔ اب بھی شائد زرداری اینڈ کمپنی اپنے معاملات کلیئر کروانے کے چکر میں اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھنے دیں، حکومت پر پریشر ڈال کے رکھیں اور اندر کھاتے اپنے کیسز پر ڈیل کر لیں، مگر اس کا انحصار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی سیاست کا رخ بدل دے گا اور ملک کو جس جہت پہ جانا ہے، اس کا تعین کر دے گا۔ نون لیگ کی کوشش ہے کہ اسے سیاسی شہید کا درجہ حاصل ہو جائے، جس کا فائدہ آئندہ الیکشن میں اٹھایا جا سکے گا، مگر اس کا چانس شائد مشکل سے ملے، پاکستان میں حالات کروٹ بدلتے دیر نہیں لگاتے، نظر کچھ آرہا ہوتا ہے اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔ اس کا چانس بھی ہے، البتہ الیکشن کی تیاری ہے، عام انتخابات کے بارے میں ہماری قومی و ملی جماعتوں نے کیا تیاری کی ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملت تشیع یہ سوچ رہی ہے کہ کہ اس نے کس کا کہنا ماننا ہے، کس کی آواز پر لبیک کہنا ہے، اس بار کونسا نعرہ بلند کیا جائے گا، اس وقت تمام سیاسی و دینی جماعتیں الیکشن کی تیاری کر رہی ہیں اور ان کے تھنک ٹینک لائحہ عمل بنانے میں لگے ہیں اور یہی وہ وقت ہے، جب پارٹیوں میں اکھاڑ پچھار اور جوڑ توڑ عروج پکڑتا ہے۔ بہرحال حالات روز بروز گھمبیر ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔اللہ کرے سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کیلئے قابل قبول اور مسائل کا حل ہو، یہ توقع اور امید تو رکھی جا سکتی ہے، باقی دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *