شب معراج اور سائنس
علماء اسلام كے درميان مشہور يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) جس وقت مكہ ميں تھے تو ايک ہى رات ميں آپ قدرت الٰہى سے مسجد الحرام سے اقصٰى پہنچے كہ جو بہت المقدس ميں ہے، وہاں سے آپ آسمانوں كى طرف گئے،
آسمانى وسعتوں ميں عظمت الٰہى كے آثار مشاہدہ كئے اور اسى رات مكہ واپس آگئے۔ نيز يہ بھى مشہور ہے كہ يہ زمينى اور آسمانى سير جسم اور روح كے ساتھ تھى البتہ يہ سير چونكہ بہت عجيب و غريب اور بےنظير تھى لہٰذا بعض حضرات نے اس كى توجيہہ كى اور اسے معراج روحانى قرار ديا اور كہا كہ يہ ايک طرح كا خواب تھا يا مكاشفہ روحى تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں يہ بات قرآن كے ظاہرى مفہوم كے بالكل خلاف ہے كيونكہ ظاہر قرآن اس معراج كے جسمانى ہونے كى گواہى ديتا ہے۔
معراج كى كيفيت قرآن و حديث كى نظر سے
قرآن حكيم میں دو سورہ مبارک ميں اس مسئلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے پہلى سورۃ بنى اسرائيل ہے اس ميں اس سفر كے ابتدائی حصے كا تذكرہ ہے۔ (يعنى مكہ كى مسجد الحرام سے بيت المقدس كى مسجد الاقصى تک كا سفر) اس سلسلے كى دوسرى سورۃ سورہ نجم ہے اس كى آيت 13 تا 18 ميں معراج كا دوسرا حصہ بيان كيا گيا ہے اور يہ آسمانى سير كے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے، ان چھ آيات كا مفہوم يہ ہے، رسول اللہ نے فرشتہ وحى جبرئيل كو اس كو اصلى صورت ميں دوسرى مرتبہ ديكھا (پہلے آپ اسے نزول وحى كے آغاز ميں كوہ حرا ميں ديكھ چكے تھے) يہ ملاقات بہشت جاوداں كے پاس ہوئی، يہ منظر ديكھتے ہوئے رسول اللہ (ص) كسى اشتباہ كا
شكار نہ تھے آپ نے عظمت الٰہى كى عظيم نشانياں مشاہدہ كيں۔
يہ آيات كہ جو اكثر مفسرين كے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہيں يہ بھى نشاندہى كرتى ہيں كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں پيش آيا خصوصا ”مازاغ البصر وما طغي” اس امر كا شاہد ہے كہ رسول اللہ (ص) كى آنكھ كسى خطا و اشتباہ اور انحراف سے دوچار نہيں ہوئی۔ اس واقعے كے سلسلے ميں مشہور اسلامى كتابوں ميں بہت زيادہ روايات نقل ہوئي ہيں، علماء اسلام نے ان روايات كے تواتر اور شہرت كى گواہى دى ہے۔
معراج كى تاريخ
واقعہ معراج كى تاريخ كے سلسلے ميں اسلامى مورخين كے درميان اختلاف ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال 27 /رجب كى شب پيش آيا، بعض كہتے ہيں كہ يہ بعثت كے بارہويں سال 17/رمضان المبارك كى رات وقوع پذير ہوا جب كہ بعض اسے اوائل بعثت ميں ذكر كرتے ہيں ليكن اس كے وقوع پذير ہونیكى تاريخ ميں اختلاف، اصل واقعہ پر اختلاف ميں حائل نہيں ہوتا۔ اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ صرف مسلمان ہى معراج كا عقيدہ نہيں كھتے بلكہ ديگر اديان كے پيروكاروں ميں بھى كم و بيش يہ عقيدہ پايا جاتا ہے ان ميں حضرت
عيسى عليہ السلام كے بارے ميں يہ عقيدہ عجيب تر صورت ميں نظر آتا ہے جيسا كہ انجيل مرقس كے باب 6/ لوقا كے باب 24/ اور يوحنا كے باب ا2/ ميں ہے؛ عيسى عليہ السلام مصلوب ہونے كے بعد دفن ہوگئے تو مردوں ميں سے اٹھ كھڑے ہوئے اور چاليس روز تک لوگوں ميں موجود رہے پھر آسمان كى بلندیوں کی طرف چلے گئے ( اور ہميشہ كے لئے معراج پر چلے گئے) ضمناً يہ وضاحت بھى ہو جائے كہ بعض اسلامى روايات سے بھى معلوم ہوتا ہے كہ بعض گذشتہ انبياء كو بھى معراج نصيب ہوئی تھى۔ پيغمبرگرامى (ص) نے يہ آسمانى سفر چند مرحلوں ميں طے كيا۔
پہلا مرحلہ، مسجدالحرام اور مسجد اقصى كے درميانى فاصلہ كا مرحلہ تھا، جس كى طرف سورہ اسراء كى پہلى آيت ميں اشارہ ہوا ہے، ”منزہ ہے وہ خدا جو ايک رات ميں اپنے بندہ كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تک لے گيا”۔ بعض معتبر روايات كے مطابق
آپ (ص) نے اثناء راہ ميں جبرئيل (ع) كى معيت ميں سرزمين مدينہ ميں نزول فرمايا اور وہاں نماز پڑھى۔ اور مسجد الاقصٰى ميں بھى ابراہيم و موسى و عيسى عليہم السلام انبياء كى ارواح كى موجودگى ميں نماز پڑھى اور امام جماعت پيغمبر (ص) تھے، اس كے بعد وہاں سے پيغمبر (ص) كا آسمانى سفر شروع ہوا، اور آپ (ص) نے ساتوں آسمانوں كو يكے بعد ديگرے عبور كيا اور ہر آسمان پر ايک نيا ہى منظر ديكھا، بعض آسمانوں ميں پيغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں ميں دوزخ اور دوزخيوں سے اور بعض ميں جنت اور جنتيوں سے ملاقات كى، اور پيغمبر (ص) نے ان ميں سے ہر ايک سے بہت سى تربيت اور اصلاحى قيمتى باتيں اپنى روح پاک ميں ذخيرہ كيں اور بہت سے عجائبات كا مشاہدہ كيا، جن ميں سے ہر ايک عالم ہستى كے اسرار ميں سے ايک راز تھا، اور واپس آنے كے بعد ان كو صراحت كے ساتھ اور بعض اوقات كنايہ اور مثال كى زبان ميں امت كى آگاہى كے لئے مناسب فرصتوں ميں بيان فرماتے تھے، اور تعليم و تربيت كے لئے اس سے بہت زيادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔ يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ اس آسمانى سفر كا اين اہم مقصد، ان قيمتى مشاہدات كے تربيتى و عرفانى نتائج سے استفادہ كرنا تھا، اور قرآن كى يہ پر معنى تعبير”لقد راى من آيات ربہ الكبرى” ۔
سورہ نجم آيت18 ان تمام امور كى طرف ايک اجمالى اور سربستہ اشارہ ہو سكتى ہے۔ البتہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ وہ بہشت اور دوزخ جس كو پيغمبر (ص) نے سفر معراج ميں مشاہدہ كيا اور كچھ لوگوں كو وہاں عيش و آرام ميں اور کچھ کو عذاب ميں ديكھا، وہ قيامت والى جنت اور دوزخ نہيں تھيں، بلكہ وہ برزخ والى جنت و دوزخ تھيں، كيونكہ قرآن مجيد كے مطابق جيسا كہ كہتا ہے كہ قيامت والى جنت و دوزخ قيام قيامت اور حساب و كتاب سے فراغت كے بعد نيكو كاروں اور بدكاروں كو نصيب ہوگى۔ آخر كار آپ ساتويں آسمان پر پہنچ گئے، وہاں نور كے بہت سے حجابوں كا مشاہدہ كيا، وہى جگہ جہاں پر ”سدرة المنتہى” اور ”جنة الماوى ”واقع تھی، اور پيغمبر (ص) اس جہان سراسر نور و روشنى ميں، شہود باطنى كى اوج، اور قرب الى اللہ اور مقام ”قاب قوسين او ادنٰی” پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر ميں آپ كو مخاطب كرتے ہوئے بہت سے اہم احكام ديئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن كا ايک مجموعہ اس وقت اسلامى روايات ميں ” احاديث قدسى ” كى صورت ميں ہمارے لئے يادگار رہ گيا ہے۔
قابل توجہ بات يہ ہے كہ بہت سى روايات كى تصريح كے مطابق پيغمبر (ص) نے اس عظيم سفر كے مختلف حصوں ميں اچانک على عليہ السلام كو اپنے پہلو ميں ديكھا، اور ان روايات ميں كچھ ايسى تعبيريں نظر آتى ہيں، جو پيغمبر اكرم (ص) كے بعد على عليہ السلام كے مقام كى حد سے زيادہ عظمت كى گواہ ہيں۔ معراج كى ان سب روايات كے باوجود كچھ ايسے پيچيدہ اور اسرار آميز جملے ہيں جن كے مطالب كو كشف كرنا آسان نہيں ہے، اور اصطلاح كے مطابق روايات متشابہ كا حصہ ہيں يعنى ايسى روايات جن كى تشريح كو خود معصومين عليہم السلام كے سپرد كر دينا چاہیئے۔
ضمنى طورپر، معراج كى روايات اہل سنت كى كتابوں ميں بھى تفصيل سے آئي ہيں، اور ان كے راويوں ميں سے تقريباً 30/افراد نے حديث معراج كو نقل كيا ہے۔ يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے، يہ اتنا لمبا سفر طے كرنا اور يہ سب عجيب اور قسم قسم كے حادثات، اور يہ سارى لمبى چوڑى گفتگو ، اور يہ سب كے سب مشاہدات ايک ہى رات ميں يا ايک رات سے بھى كم وقت ميں كس طرح سے انجام پا گئے؟ ليكن ايک نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس سوال كا جواب واضح ہو جاتا ہے، سفر معراج ہرگز ايک عام سفر نہيں تھا، كہ اسے عام معياروں سے پركھا جائے نہ تو اصل سفر معمولى تھا اور نہ ہى آپ كى سوارى معمولى اور عام تھی، نہ آپ كے مشاہدات عام اور معمولى تھے اور نہ ہى آپ كى گفتگو، اور نہ ہى وہ پيمانے جو اس ميں استعمال ہوئے، ہمارے كرہ خاكى كے محدود اور چھوٹے پيمانوں كے مانند تھے، اور نہ ہى وہ تشبيہات جو اس ميں بيان ہوئی ہيں، ان مناظر كى عظمت كو بيان كر سكتى ہيں جو پيغمبر (ص) نے مشاہدہ كيے، تمام چيزيں خارق العادت صورت ميں، اور اس مكان و زمان سے خارج ہونے كے پيمانوں ميں، جن سے ہم آشنا نہيں، واقع ہوئيں۔ اس بنا پر كوئی تعجب كى بات نہيں ہے كہ يہ امور ہمارے كرہ زمين كے زمانى پيمانوں كے ساتھ ايک رات يا ايک رات سے بھى كم وقت ميں واقع ہوئے ہوں۔
معراج جسمانى تھى يا روحانى؟
شيعہ اور سنى علمائے اسلام كے درميان مشہور ہے كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں صورت پذير ہوا، سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى مذكورہ آيات كا ظاہرى مفہوم بھى اس امر كا شاہد ہے كہ يہ واقعہ بيدارى كى حالت ميں پيش آيا۔ تواريخ اسلامى بھى اس امر پر شاہد و صادق ہيں، تاريخ كہتى ہے، جس وقت رسول اللہ (ص) نے واقعہ معراج كا ذكر كيا تو مشركين نے شدت سے اس كا انكار كر ديا اور اسے آپ كے خلاف ايک بہانہ بنا ليا۔
معراج كا مقصد
گذشتہ مباحث پر غور كرنے سے يہ بات واضح ہو جاتى ہے كہ معراج كا مقصد يہ نہيں كہ رسول اكرم (ص) ديدار خدا كے لئے آسمانوں پر جائيں، جيسا كہ سادہ لوح افراد خيال كرتے ہيں، افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بعض مغربى دانشور بھى ناآگاہى كى بناء پر دوسروں كے سامنے اسلام كا چہرہ بگاڑ كر پيش كرنے كے لئے ايسى باتيں كرتے ہيں ان ميں سے ايک مسڑ” گيور گيو” بھى ہيں وہ بھى كتاب ”محمد وہ پيغمبر ہيں جنہيں پھر سے پہچاننا چاہیئے” ميں كہتے ہيں، محمد اپنے سفر معراج ميں ايسى جگہ پہنچے كہ انہيں خدا كے قلم كى آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا كہ اللہ اپنے بندوں كے حساب كتاب ميں مشغول ہے البتہ وہ اللہ كے قلم كى آواز تو سننے تھے مگر انہيں اللہ دكھائي نہ ديتا تھا كيونكہ كوئی شخص خدا كو نہيں ديكھ سكتا خواہ پيغمبر ہى كيوں نہ ہوں”يہ عبارت نشاندھى كرتى ہے كہ قلم لكڑى كا تھا، ايسا كہ كاغذ پر لكھتے وقت لرزتا تھا اور آواز پيدا كرتا تھا، اسى طرح كى اور بہت سارے خرافات اس ميں موجود ہيں”۔ جب كہ مقصد معراج يہ تھا كہ اللہ كے عظيم پيغمبر كائنات ميں بالخصوص عالم بالا ميں موجود عظمت الٰہى كى نشانيوں كا مشاہدہ كريں اور انسانوں كى ہدايت و رہبرى كے لئے ايک نيا ادراک اور ايک نئی بصيرت حاصل كريں۔ وہ ہدف واضح طور پر سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى آيت 18 ميں بيان ہوا ہے۔
امام صادق عليہ السلام سے مقصد معراج پوچھا گيا تو آپ نے فرمايا،
”خدا ہرگز كوئی مكان نہيں ركھتا اور نہ اس پر كوئی زمانہ گزرتا ہے ليكن وہ چاہتا تھا كہ فرشتوں اور آسمان كے باسيوں كو اپنے پيغمبر كى تشريف آورى سے عزت بخشے اور انہيں آپ كى زيارت كا شرف عطا كرے نيز آپ كو اپنى عظمت كے عجائبات دكھائے تاكہ واپس آكر آپ انہيں لوگوں سے بيان كريں”۔
رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ ! جب مجھے (ص) شب معراج آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر سونے کے پانی سے لکھا ہے، اللہ کے علاوہ خدا نہیں۔ محمد اس کے رسول ہیں، علی (ع) اس کے ولی ہیں، فاطمہ (ع) اس کی کنیز ہیں، حسن (ع) و حسین (ع) اس کے منتخب ہیں اور ان کے دشمنوں پہ خدا کی لعنت ہے۔
(مقتل خوارزمی 1، ص 108 ، خصال ص 324 / 10، مائتہ منقبہ 109 / 54 روایت اسماعیل بن موسیٰ).
معراج اور سائنس
گذشتہ زمانے ميں بعض فلاسفہ بطليموس كى طرح يہ نظريہ ركھتے تھے كہ نو آسمان پياز كے چھلكے كى طرح تہہ بہ تہہ ايک دوسرے كے اوپر ہيں واقعہ معراج كو قبول كرنے ميں ان كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ان كا يہى نظريہ تھا ان كے خيال ميں اس طرح تو يہ ماننا پڑتا ہے كہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس ميں مل گئے، ليكن ” بطليموسى” نظريہ ختم ہو گيا تو آسمانوں كے شگافتہ ہونے كا مسئلہ ختم ہوگيا البتہ علم ہئيت ميں جو ترقى ہوئي ہے اس سے معراج كے سلسلے ميں نئے سوالات ابھر ے ہيں مثلاً
1۔ ايسے فضائی سفر ميں پہلى بار ركاوٹ كشش ثقل ہے كہ جس پر كنٹرول حاصل كرنے كے لئے غير معمولى وسائل و ذرائع كى ضرورت ہے كيونكہ زمين كے مدار اور مركز ثقل سے نكلنے كے لئے كم از كم چاليس ہزار كلو ميٹر فى گھنٹہ رفتار كى ضرورت ہے۔
2۔ دوسرى ركاوٹ يہ ہے كہ زمين كے باہر خلا ميں ہوا نہيں ہے جبكہ ہوا كے بغير انسان زندہ نہيں رہ سكتا۔
بعض قديم فلاسفہ كا نظريہ يہ تھا كہ آسمانوں ميں ايسا ہونا ممكن نہيں ہے۔ اصطلاح ميں وہ كہتے تھے كہ افلاك ميں –”خرق ”(پھٹنا) اور
”التيام” (ملنا) ممكن نہيں۔
3۔ تيسرى ركاوٹ ايسے سفر ميں اس حصہ ميں سورج كى جلا دينے والى تپش ہے جبكہ جس حصہ پر سورج كى مستقيماً روشنى پڑ رہى ہے اور اسى طرح اس حصے ميں جان ليوا سردى ہے جس ميں سورج كى روشنى نہيں پڑرہى ہے۔
4۔ اس سفر ميں چوتھى ركاوٹ وہ خطرناک شعاعيں ہيں كہ جو فضائے زمين كے اوپر موجود ہيں مثلا كاسمك ريز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ريز ultrra ravs اور ايكس ريز x ravs يہ شعاعيں اگر تھوڑى مقدار ميں انسانى بدن پر پڑيں تو بدن كے آرگانزم otganismكے لئے نقصان دہ نہيں ہيں ليكن فضائے زمين كے باہر يہ شعاعيں بہت تباہ كن ہوتى ہيں (زمين پر رہنے والوں كے لئے زمين كے اوپر موجود فضا كى وجہ سے ان كى تپش ختم ہو جاتى ہے.)
5۔ ايک اور مشكل اس سلسلہ ميں يہ ہے كہ خلا ميں انسان بے وزنى كى كيفيت سے دوچار ہو جاتا ہے اگرچہ تدريجاً بے وزنى كى عادت پيدا كى جا سكتى ہے ليكن اگر زمين كے باسى بغير كسى تيارى اور تمہيد كے خلا ميں جا پہنچيں تو بےوزنى سے نمٹنا بہت ہى مشكل ہے۔
6۔ آخرى مشكل اس سلسلے ميں زمانے كى مشكل ہے اور يہ نہايت اہم ركاوٹ ہے كيونكہ دورحاضر كے سان سى علوم كے مطابق روشنى كى رفتار ہر چيز سے زيادہ ہے اور اگر كوئی آسمانوں كى سير كرنا چاہے تو ضرورى ہو گا كہ اس كى رفتار سے زيادہ ہو۔
ان سوالات كے پيش نظر چند چيزوں پر توجہ
ان امور كے جواب ميں ان نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے۔
1۔ ہم جانتے ہيں كہ فضائی سفر كى تمام تر مشكلات كے باوجود آخر كار انسان علم كى قوت سے اس پر دسترس حاصل كر چكا ہے اور سوائے زمانے كى مشكل كے باقى تمام مشكلات حل ہو چكى ہيں اور زمانے والى مشكل بھى بہت دور كے سفر سے مربوط ہے۔
2۔ اس ميں شک نہيں كہ مسئلہ معراج عمومى اور معمولى پہلو نہيں ركھتا بلكہ يہ اللہ كى لامتناہى قدرت و طاقت كے ذريعے صورت پذير ہوا اور انبياء كے تمام معجزات اسى قسم كے تھے زيادہ واضح الفاظ ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ معجزہ عقلاً محال نہيں ہونا چاہیئے اور جب معجزہ بھى عقلاً ممكن ہے، تو باقى معاملات اللہ كى قدرت سے حل ہو جاتے ہيں۔ جب انسان يہ طاقت ركھتا ہے كہ سائنسى ترقى كى بنياد پر ايسى چيزيں بنالے جو زمينى مركز ثقل سے باہر نكل سكتى ہيں ، ايسى چيزيں تيار كرلے كہ فضائے زمين سے باہر كى ہولناک شعاعيں ان پر اثر نہ كر سكيں اور ايسے لباس تيار كرلے كہ جو اسے
انتہائی زيادہ گرمى اور سردى سے محفوظ ركھ سكيں اور مشق كے ذريعے بے وزنى كى كيفيت ميں رہنے كى عادت پيدا كرلے، يعنى جب انسان اپنى محدود قوت كے ذريعے يہ كام كرسكتا ہے تو پھر كيا اللہ اپنى لامحدود طاقت كے ذريعہ يہ كام نہيں كر سكتا؟ ہميں يقين ہے كہ اللہ نے اپنے رسول كو اس سفر كے لئے انتہائی تيز رفتار سوارى دى تھى اور اس سفر ميں در پيش خطرات سے محفوظ رہنے كے لئے انہيں اپنى مدد كا لباس پہنايا تھا، ہاں يہ سوارى كس قسم كى تھى اور اس كا نام كيا تھا براق؟ رفرف؟ يا كوئی اور؟ يہ مسئلہ قدرت كا راز ہے، ہميں اس كا علم نہيں۔
ان تمام چيزوں سے قطع نظر تيز ترين رفتار كے بارے ميں مذكورہ نظريہ آج كے سائنسدانوں كے درميان متزلزل ہو چكا ہے اگرچہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظريہ پر پختہ يقين ركھتا ہے۔ آج كے سائنسداں كہتے ہيں كہ امواج جاذمہ rdvs of at f fion زمانے كى احتياج كے بغير آن واحد ميں دنيا كى ايک طرف سے دوسرى طرف منتقل ہو جاتى ہيں اور اپنا اثر چھوڑتى ہيں يہاں تک كہ يہ احتمال بھى ہے كہ عالم كے پھيلائو سے مربوط حركات ميں ايسے منظومے موجود ہيں كہ جو روشنى كى رفتار سے زيادہ تيزى سے مركز جہان سے دور ہو جاتے ہيں (ہم جانتے ہيں كہ كائنات پھيل رہى ہے اور ستارے اور نظام ہائے شمسى تيزى كے ساتھ ايک دوسرے سے دور ہو رہے ہيں) (غور كيجئے گا) مختصر يہ كہ اس سفر كے لئے جو بھى مشكلات بيان كى گئی ہيں ان ميں سے كوئی بھى عقلى طور پر اس راہ ميں حائل نہيں ہے اور ايسى كوئی بنياد نہيں كہ واقعہ معراج كو محال عقلى سمجھا جائے اس راستے ميں درپيش مسائل كو حل كرنے كے لئے جو وسائل دركار ہيں وہ موجود ہوں تو ايسا ہو سكتا ہے۔
بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلى دلائل كے حوالے سے ناممكن ہے اور نہ دور حاضر كے سائنسى معياروں كے لحاظ سے، البتہ اس كے غير معمولى اور معجزہ ہونے كو سب قبول كرتے ہيں لہذٰا جب قطعى اور يقينى نقلى دليل سے ثابت ہو جائے تو اسے قبول كرلينا چاہیئے۔
شب معراج پيغمبر (ص) سے خدا كى باتيں
پيغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال كيا،
پروردگارا: كونسا عمل افضل ہے؟
خداوند تعالى نے فرمايا؛” كوئی چيز ميرے نزديک مجھ پر توكل كرنے، اور جو كچھ ميں نے تقسيم كركے ديا ہے اس پر راضى ہونے سے بہتر نہيں ہے، اے محمد جو لوگ ميرى خاطر ايک دوسرے كو دوست ركھتے ہيں ميرى محبت ان كے شامل حال ہوگى اور جو لوگ ميرى خاطر ايک دوسرے پر مہربان ہيں اور ميرى خاطر دوستى كے تعلقات ركھتے ہيں انہيں دوست ركھتا ہوں علاوہ بر ايں ميرى محبت ان لوكوں كے لئے جو مجھ پر توكل كريں فرض اور لازم ہے اور ميرى محبت كے لئے كوئی حد اور كنارہ اور اس كى انتہا نہيں ہے۔ ”
اس طرح سے محبت كى باتيں شروع ہوتى ہيں ايسى محبت جس كى كوئی انتہا نہيں ،جو كشادہ اور اصولى طور پر عالم ہستى ميں اسى محور محبت پر گردش كر رہا ہے۔
ايک اور ددسرے حصہ ميں يہ آيا ہے؛
”اے احمد بچوں كى طرح نہ ہونا جو سبز و زرد اور زرق و برق كو دوست ركھتے ہيں اور جب انہيں كوئی عمدہ اور شيريں غذا ديدى جاتى ہے تو وہ مغرور ہو جاتے ہيں اور ہر چيز كو بھول جاتے ہيں”۔
پيغمبر نے اس موقع پر عرض كيا؛ پروردگارا، مجھے كسى ايسے عمل كى ہدايت فرما جو تيرى بارگاہ ميں قرب كا باعث ہو۔ فرمايا، رات كو دن اور دن كو رات قرار دے۔ عرض كيا؛ كس طرح؟ فرمايا؛ اس طرح كہ تيرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شكم كو مكمل طور پر سير نہ كرنا۔
ايک اور حصہ ميں آيا ہے؛
”اے احمد ميرى محبت فقيروں اور محروموں سے محبت ہے، ان كے قريب ہو جاو اور انكى مجلس كے قريب بيٹھو كہ ميں تيرے نزديک ہوں اور دنيا پرست اور ثروت مندوں كو اپنے سے دور ركھو اور ان كى مجالس سے بچتے رہو ”۔
اہل دنيا و آخرت
ايک اور حصہ ميں آيا ہے؛
”اے احمد دنيا كے زرق برق اور دنيا پرستوں كو مبغوض شمار كر اور آخرت كو محبوب ركھ” آپ نے عرض كی، پروردگارا؛ اہل دنيا اور اہل آخرت كون ہيں؟ فرمايا، ”اہل دنيا تو وہ لوگ ہيں جو زيادہ كھاتے ہيں، زيادہ ہنستے ہيں، زيادہ سوتے ہيں اور غصہ كرتے ہيں اور تھوڑا خوش ہوتے ہيں نہ ہى تو برائيوں كے مقابلہ ميں كسى سے عذر چاہتے ہيں اور نہ ہى كسى عذر چاہنے والے سے اس كا عذر قبول كرتے ہيں۔ اطاعت خدا ميں سست ہيں اور گناہ كرنے ميں دلير ہيں، لمبى چوڑى آرزوئيں
ركھتے ہيں حالانكہ ان كى اجل قريب آ پہنچى ہے مگر وہ ہرگز اپنے اعمال كا حساب نہيں كرتے ان سے لوگوں كو بہت كم نفع ہوتا ہے، باتيں زيادہ كرتے ہيں احساس ذمہ دارى نہيں ركھتے اور كھانے پينے سے ہى غرض ركھتے ہيں۔ اہل دنيا نہ تو نعمت ميں خدا كا شكريہ ادا كرتے ہيں اورنہ ہى مصائب ميں صبر كرتے ہيں۔ زيادہ خدمات بھى ان كى نظر ميں تھوڑى ہيں (اور خود ان كى اپنى خدمات تھوڑى بھى زيادہ ہيں) اپنے اس كام كے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہيں ديا ہے تعريف كرتے ہيں اور ايسى چيز كا مطالبہ كرتے ہيں جو ان كا حق نہيں ہے۔ ہميشہ اپنى آرزوئوں اور تمناوں كى بات كرتے ہيں اور لوگوں كے عيوب تو بيان كرتے رہتے ہيں ليكن ان كى نيكيوں كو چھپاتے ہيں۔
” عرض كی، پروردگارا؛ كيا دنيا پرست اس كے علاوہ بھى كوئی عيب ركھتے ہيں؟ ”فرمايا، اے احمد ان كا عيب يہ ہے كہ جہل اور حماقت ان ميں بہت زيادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سيكھا ہے وہ اس سے تواضع نہيں كرتے اور اپنے آپ كو عاقل كل سمجھتے ہيں حالانكہ وہ صاحبان علم كے نزديک نادان اور احمق ہيں”۔
اہل بہشت كی صفات
خدا وند عالم اس كے بعد اہل آخرت اور بہشتيوں كے اوصاف كو يوں بيان فرماتا ہے، ”وہ ايسے لوگ ہيں جو باحيا ہيں ان كى جہالت كم ہے، ان كے منافع زيادہ ہيں، لوگ ان سے راحت و آرام ميں ہوتے ہيں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تكليف ميں ہوتے ہيں اور ان كى باتيں سنجيدہ ہوتى ہيں”۔ وہ ہميشہ اپنے اعمال كا حساب كرتے رہتے ہيں اور اسى وجہ سے وہ خود كو زحمت ميں ڈالتے رہتے ہيں ان كى آنكھيں سوئی ہوئی ہوتى ہيں ليكن ان كے دل بيدار ہوتے ہيں ان كى آنكھ گرياں ہوتى ہے اور ان كا دل ہميشہ ياد خدا ميں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں كے زمرہ ميں لكھے جا رہے ہوں وہ اس وقت ذكر كرنے والوں ميں لكھے جاتے ہيں۔ نعمتوں كے آغاز ميں حمد خدا بجا لاتے ہيں اور ختم ہونے پر اس كا شكر ادا كرتے ہيں، ان كى دعائيں بارگاہ خدا ميں قبول ہوتى ہيں اور ان كى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں اور فرشتے ان كے وجود سے مسرور اور خوش رہتے ہيں (غافل) لوگ ان كے نزديک مردہ ہيں اور خدا اُن كے نزديک حى و قيوم اور كريم ہے (ان كى ہمت اتنى بلند ہے كہ وہ اس كے سوا كسى كے اوپر نظر نہيں ركھتے۔) لوگ تو اپنى عمر ميں صرف ايک ہى دفعہ مرتے ہيں ليكن وہ جہاد بالنفس اور ہوا و ہوس كى مخالفت كى وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہيں (اور نئی زندگى پاتے ہيں)۔ جس وقت عبادت كے لئے ميرے سامنے كھڑے ہوتے ہيں تو ايک فولادى باندھ اور بنيان مرصوص كی مانند ہوتے ہيں اور ان كے دل ميں مخلوقات كى طرف كوئی توجہ نہيں ہوتى مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم ہے كہ ميں انہيں ايک پاكيزہ زندگى بخشونگا اور عمر كے اختتام پر ميں خود ان كى روح كو قبض كروںگا اور ان كى پرواز كے لئے آسمان كے دروازوں كو كھول دوں گا تمام حجابوں كو ان كے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حكم دوں گا كہ بہشت خود کو اپنے ان كے لئے آراستہ كرے ”اے احمد عبادت كے دس حصہ ہيں جن ميں سے نو حصے طلب رزق حلال ميں ہيں جب تيرا كھانا اور پينا حلال ہوگا تو تيرى حفظ و حمايت ميں ہوگا”
بہترين اور جاويدانى زندگی
ايک اور حصہ ميں آيا ہے؛ ”اے احمد كيا تو جانتا ہے كہ كونسى زندگى زيادہ گوارا اور زيادہ دوام ركھتى ہے”؟
عرض كيا، خداوندا نہيں۔
فرمايا، گوارا زندگى وہ ہوتى ہے جس كا صاحب ايک لمحہ كے لئے بھى ميرى ياد سے غافل نہ رہے، ميرى نعمت كو فراموش نہ كرے، ميرے حق سے بےخبر نہ رہے اور رات دن ميرى رضا كو طلب كرے۔
ليكن باقى رہنے والى زندگى وہ ہے جس ميں اپنى نجات كے لئے عمل كرے، دنيا اس كى نظر ميں حقير ہو اور آخرت بڑى اور بزرگ ہو، ميرى رضا كو اپنى رضا پر مقدم كرے، اور ہميشہ ميرى خوشنودى كو طلب كرے، ميرے حق كو بڑا سمجھے اور اپنى نسبت ميرى آگاہى كى طرف توجہ ركھے۔ ہرگناہ اور معصيت پر مجھے ياد كرليا كرے، اور اپنے دل كو اس چيز سے جو مجھے پسند نہيں ہے پاک ركھے، شيطانى وسوسوں كو مبغوض ركھے، اور ابليس كو اپنے دل پر مسلط نہ كرے۔
جب وہ ايسا كرے گا تو ميں ايک خاص قسم كى محبت كو اس كے دل ميں ڈال دوں گا اس طرح سے كہ اس كا دل ميرے اختيار ميں ہو گا، اس كى فرصت اور مشغوليت اس كا ہم و غم اور اس كى بات ان نعمتوں كے بارے ميں ہوگى جو ميں اہل محبت كو بخشتا ہوں۔ ميں اس كى آنكھ اور دل كے كان كھول ديتا ہوں تاكہ وہ اپنے دل كے كان سے غيب كے حقائق كو سننے اور اپنے دل سے ميرے جلال و عظمت كو ديكھے”، اور آخر ميں يہ نورانى حديث ان بيدار كرنے والے جملوں پر ختم ہو جاتى ہے۔ ” اے احمد اگر كوئی بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمين كے برابر نماز ادا كرے، اور تمام اہل آسمان و زمين كے برابر روزہ ركھے، فرشتوں كى طرح كھانا نہ كھائے اور كوئی فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتہائی زہد اور پارسائی كى زندگى بسر كرے) ليكن اس كے دل ميں ذرہ برابر بھى دنيا پرستى يا رياست طلبى يا زينت دنيا كا عشق ہو تو وہ ميرے جاودانى گھر ميں ميرے جوار ميں نہيں ہوگا اور ميں اپنى محبت كو اس كے دل سے نكال دوں گا، ميرا سلام و رحمت تجھ پر ہو، والحمد للہ رب العالمين ”
_حديث قدسى كا صرف ايک حصہ ہے _
يہ عرشى باتيں __جو انسانى روح كو آسمانوں كى طرف بلند كرتى ہيں ، اور آستان عشق و شہود كى طرف كھينچتى ہيں مزيد براں ہميں اطمينان ہے كہ پيغمبر نے اپنے ارشادات ميں جو كچھ بيان فرمايا ہے ان كے علاوہ بھی، اس شبِ عشق و شوق اور جذبہ و وصال ميں ايسى باتيں، اسرار اور اشارے آپ كے اور اپ كے محبوب كے درميان ہوتے ہيں جن كو نہ تو كان سننے كى طاقت ركھتے ہيں اور نہ عام افكار ميں ان كے درک كى صلاحيت ہے، اور اسى بناپر وہ ہميشہ پيغمبر كے دل و جان كے اندر ہى مكتوم اور پوشيدہ رہے، اور آپ كے خواص كے علاوہ كوئی بھى ان سے آگاہ نہيں ہوا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید