تازہ ترین

عالمی سیاست پر امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے اثرات/فرمان علی سعیدی

عالمی سیاست پر امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے اثرات

مقدمہ

بیسویں عیسوی صدی  کے آخر میں اسلامی انقلاب ایران کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ،جسکی  مختلف زاویوں سے دقت کے ساتہ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ 

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3708

 

ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرا عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ ہوچکا تھا اور خاص کر اس زمانے میں یہ انقلاب ایران میں کامیاب ہوا جب حکومت کو امریکہ کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد  کے لئے ریڑہ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا تھا۔ جسکا کنٹرول  امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا۔ جن کی اولین  ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظمیں اور  خطہ کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے ۔ اس لیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں انکے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران اور خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بہ خوبی آگاہ تھے کے یہ انقلاب تھمنے والا نہیں، انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے ۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جس کا شعار نہ  شرقی و  نہ غربی تھا ،غربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا  کیونکہ اس سے یورپی خاص کر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔  

انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔  یہ انقلاب لیبریزم اور سوشلیزم کے مقابلے میں ، تیسری دنیا والوں کے لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل گیا۔ جس کا نتیجہ عالمی سیاست میں انقلاب کے عمیق اثرات کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا۔

اس مقالہ میں عالمی سیاست پر امام خمینی (س ح)  اور انقلاب کے اثرات کے حوالہ سے قلم فرسا‏ئی کرنے کی گوشش کی گئی ہے۔ 

صدور انقلاب کے بارے میں امام خمینی (س ح) کا فرمان

امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔  انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے ایک خالص اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد آخری دم تک جاری رکھی  ….دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے پاکیزہ دل  نوجوان ، اور خواتین جن کے سینوں میں جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ۔  انہوں نے شاہی نظام کے مقابلے میں ،امام خمینی(رہ) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوے،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا ۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرپسی ہویی قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔ امام خمینی (ر ح) کا مقصد صرف ایرانی قوم نہیں تھا بلکہ آپ دنیا کے سوۓ ہوۓ اقوام کو جگانا تھا اور دنیا کے تمام مظلومین کو اپنے حق لینے اور باطل اور ظالم کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کیلیے بیدار کرنا تھا اس لے لۓ آپ نے فرمایا:” اس انقلاب کوصادر (دوسروں تک پہنچانے کے لۓ) کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام سپر طاقتیں اور دیگر حکومتیں ہمیں نابود کرنا چاہتی ہیں، اگر ہم ایک بند ماحول میں رہیں تو اس کا نتیجہ نا کامی اور شکست ہوگا۔” 

الحمد للہ امام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور مختصر مدت میں اس کا اثر پوری دنیا پر پڑھا اور اسکے اثرات  دنیا پر نمایان ہوے۔ جن کو  ہم اختصار کے ساتھ ذیل میں بیان کررہے ہیں۔

انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر

1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر

جب سے ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپا ہوا یہ سئوال بڑی شد و مد کے ساتھ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے صرف مسلم دنیا اسلامی ممالک نہیں بلکہ پوری مہذب متمدن جدید دنیا کی فضا، عالمی اداروں، نشریات، مراکز مواصلات ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں ثقافتی مراکز  میں ایک سئوال کو اٹھایا گیا  کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ 

پوری دنیا  حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی اس پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹا گیا ہے ؟

جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے بندوں پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:” پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہوا ہے تو اسکا مقصد معاشرہ کا اصلاح تھا اور ان طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ 

اس مادی چمک اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسےابھرا ۔ جب شیعہ عالم امام خمینی (ر ح) کی قیادت میںاسلامی انقلاب برپا ہوا تو وہ ممالک جو اقوام متحدہ کے رکن تہے، تمام حکومتیں چاہۓ جن ممالک کا شمار مشرقی  یا مغربی چاہیے جن ممالک کا شمار ترقی پذیر ممالک سے ہو، یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ اکثر  حکومتوں نے اسلامی انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھےکیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا۔ 

دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف  تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقا‏ء کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور  کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ نتیجہ کے طور پر ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی بات تھی۔ خصوصیت کے ساتھ ایسی  حکومتیں جن کے  سیاسی نظام سیکولر تھے جس  کی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر  ہے۔ اسلیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سیسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک ور امریکہ اس انقلاب کےمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آے اور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی ۔ 

1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور  اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔ 

2۔ اصولی طور پر جو انقلابات اسکی بنیاد دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی ہو، ایسے انقلاب لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلینج کرتے ہوۓ‎ ان کی آئیڈیالوجی اور آیندہ کو نابود کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان حکومتوں کی جغرافیائی موقعیت اور ان کے ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک  ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمسای تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کا احساس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہ خطرہ تھا لہذا ان ممالک نے  انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت  اقدامات کیے ۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کھ ساتہ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ  انہوں مختلف حیلے و بہانوں سے انقلاب کو ناکام  کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ 

اقوام عالم پر انقلاب اسلامی کا اثر

چونکہ انقلاب اسلامی ایک عوامی انقلاب تھا اسلیے اسنے اکثر اقوام عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عوام نے اسکو مستضعفین کیلیے نیک شگون سمجھا۔ البتہ  انقلاب کی مقبولیت اور حمایت کی زیادہ  اور کھی کمتر تھی  جسکی  وجہ مختلف مذبہی اور سیاسی وجوہات تھی۔ ایرانی عوام کے انقلابی مقاصد میں جتنی ہماہنگی تھی، اسی اعتبار سے اسے دیگر اقوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ چونکہ ان اقوام کےارباب اقتدار اپنی عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان میں سے اکثر حکمران طبقہ اقتدار پسند تھے اور ایک خاص ٹولہ ملکی اقتدار اور وسایل پر  حکومت پر قابض تھا۔ یہی وجہ ہے کہ  انکی حکومتوں  ایرانی شہنشاہیت کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتی تھی۔ دنیا کے مظلوموں اور اکثر  عوام نے اس انقلاب کے ساتھ ہمدردی اور ہمدلی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف کیونکہ اسلامی انقلاب  میں ثقافتی اور مذہبی پہلو زيادہ نمایاں تھا اور دینی احکامات کو اس ملک میں نفاذ کرنے کیلے یہ انقلاب برپا ہوا تھا، اسلیے وہ  قومیں جو ثقافتی اور مذہبی حوالہ سے ایران کے ساتھ زیادہ نزدیک تھی، اس انقلاب سے مثاتر ہوئی۔ اسی بناء پر مسلمان قوم خصوصیت کے ساتھ شیعوں نے سب سے زيادہ انقلاب اسلامی کی کامیابی پر زيادہ خوشی کا اظہار کیا۔ اور در واقع وہ اسکو اپنا انقلاب سمجھتے تہے۔ انقلاب کا اثر ان معاشروں پر بہت کم پڑھا جن کے ایران کے ساتھ روابط اچہے نا تہے۔جسکی  وجہ انقلاب اسلامی کے حوالے سےان تک خبریں نہیں پہنچتی تھی، یا یورپی ممالک، امریکہ اور  وہ ممالک جو یورپ اور امریکہ کے ساتھ گٹ جھوڑ کئے ہوۓ تھے، ان ممالک نے میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ  اس انقلاب اور نظام کے خلاف کہل کر غلط اور منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ 

2۔ بین الاقوامی نظام پر انقلاب اسلامی کا اثر

اس وقت اسلامی انقلاب قائم ہوا، جس وقت عالمی سیاست اور نظام  غرب محوری کے بنیاد پر چل رہا تھا اور غرب محوری  تقریبا چھار صدیوں سے ایک بدیھی امر اور مانا ہوا ایک سسٹم کی حیثیت سے عالمی سوسائٹی کی قبول کیا تھا۔ دنیا میں جو بھی تبدیلی چاہیے وہ تبدیلی فکری ہو، یا ثقافتی، اقتصادی ہو یا جدید نظریات، ان سب کا سرچشمہ اور بنیاد یورب اور غرب تھا۔ اور اس زمان میں کسی چیز نے غرب کو چیلنیج نہیں کیا گیا تھا۔ درحالیکہ اسلامی انقلاب ایک نیا فکر اور آئیڈيالوجی کے ساتھ یورب اور مغرب کو مختلف سیکٹرز پر چیلنیج کیا تھا۔ اور ان کے افکار کے بنیادوں اور اساس کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔  پس نتجیہ کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک گہرا اثر پڑا اور یورب کے افکار اور ان کی تمام پالیسیز کو مختلف سے چلینچ کیا گیا اور اس انقلاب کے اثرات عالمی سیاست پر نمایاں ہونے لگے، اور بہت سے اثرات چھوڑے جن کو ہم مندرجہ ذيل بیان کریں گے۔

الف) عالمی سطح پر دین اسلام  کا حیاء،  ایک جامع مکتب  اور دین کی حیثیت سے

اسلامی انقلاب نے سب سے زیادہ اثر، اسلامی ارزشوں اور افکار کی احیاء تھا اور اس انقلاب کے ذریعہ اقوام عالم، خصوصیت کے ساتھ اسلامی دنیا کو، دین اسلامی کی مبانی، افکار اور نظریات سے آگاہ کرنا تھا۔ اسلامی انقلاب نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ادیان مخصوصا دین اسلام کا زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ مادی ہوش ربا ترقیوں کے باوجود، اس کا دور اور زمانہ نہ تنہا ختم ہوا ہے بلکہ مادیات ڈوبے ہوۓ انسانیت اور اس کائنات میں عالم بشریت اور مظلوموں کی نجات کا واحد راستہ دین اسلام کے فرامین پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اور دنیاوی لذات میں اور سرگران انسان کو صرف دین اسلام نجات دلا سکتا ہے۔ اس انقلاب نے ایک معنوی طاقت اور دینی اور مذہبی اعتقادات کا دوازہ وا کیا۔جس کے ذریعہ اقوام عالم خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل جو دنیا پرستی اور مادی پرستی کے دلدل میں پھسے ہوۓ تھے، اسلام نے اپنی اغوش ان کے لئے کھول د‎یے، قرآن اور اسکی آیات، اسلامی انقلاب کے بعد ایک نیا معنی اور مفہوم پیدا کرنے لگا۔ 

ب) دو قطبی نظام کا خاتمہ 

دو قطبی نظام اور سسٹم غرب میں معرض وجود میں آیا۔ باوجود اینکہ اسلامی انقلاب کے زمانے عالمی سیاست پر دو نظام حاکم تھا جونہی ایران میں انقلاب آیا اس بین الاقوامی سسٹم کو چیلنج کر دیا، نہ صرف اس کے خلاف بر سر پیکار آیا بلکہ اس کے بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا نتیجہ کے طور پر دو سپر پاور طاقتیں جو ایک دوسرے کو نیچلے دکھانے کے درپے تھے، اپنے درمیان موجود اختلافات کو چھوڑ کر اس نئے انقلاب کے خلاف نبرد آزما ہوا، یہاں تک دو قطبی نظام کے خاتمہ کے بعد بھی غرب نے اپنی تمام طاقت استعمال کیا تاکہ ایک قطبی نظام، جہانی سازی اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریات کو چیلنچ کیا اور ایک ایسے نظام کو بروۓ کار لانے کی کوشش، جو مغربی معیاروں اور افکار ساتھ ہماہنگ نہیں تھا بلکہ اس کے سو فیصد خلاف تھا۔

ج) عالمی اختلافات کا رخ بدلنا

عمومی طور پر عالمی اختلافات حکومتوں کے درمیان پائی جاتی تھی اور صلح اور اصلاح کے ذریعہ اختلافات کا خاتمہ ہوجاتا تھا۔ اسلامی انقلاب نے نہ تنہا اس ڈائیلاگ کو بدل دیا بلکہ اصلی ایکٹرز کو جو بین الاقوامی اختلافات کو قوم اور حکومت کے دا‏ئرہ سے نکال کر، ایک نیا بلاک بنا لیا جس بلاگ کی بنیاد حکومتوں کے مفادات کی خاطر نہیں تھا بلکہ  اختلافات کی بنیاد ارباب اقتدار  اور مفاد پرست ٹولے، اور دنیا کے مظلوم عوام کے درمیان تھا ۔ دوسری طرف جنگ، عالمی استکبار اور دنیا کے مظلومین کے آپس میں تھی۔ اس نئے بلاگ نے زبانی، نسلی، جغرافیائی اور یہاں تک دینی اور مذہبی اختلافات کے حدوں کو عبور اور کراس کرتے ہوۓ، حکومتوں کو استکبار اور مستکبرین کی شکل میں اور اقوام عالم کو مستضعفین کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور سب اس انقلاب کی مرہون منت تھی۔

د) سیاسی اسلام کو نئے بلاگ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنا

اسلامی انقلاب کی کامیابی، اسلامی معیاروں اور ارزشوں پر پہلی مرتبہ جدید اور ماڈرن دنیا میں، اسلامی سیاسی نظریہ پیش کردیا سیاسی علوم اور ماہرین سیاسیات، اور بین الاقوامی مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے اسلام کی سیاسی نظریہ کی تجزیہ اور تبصرہ کرنے لگے۔ اسلام کا سیاسی نظریہ غرب محور سیاسی نظریہ کی نفی کرتا تھا۔ عملی میدان میں اسلامی انقلاب نے مغربی تمام اسٹراٹیجیز کو چلینچ کیا اور یورب کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس انقلاب کا  آغاز  اس سر زمین سے ہوا کہ وہ سر زمین یورب کا زیر اثر تھا۔ 

ھ) دین اسلام کو ایک بین الاقوامی نظام کی حیثيت سے پیش کرنا

اسلامی انقلاب کی کامیابی مسلمان قوم کی بیداری کا سبب بنا اور ان کے درمیان میں ایک امید پیدا ہو گئی۔ اور تمام مسلمانوں کو ایک مشترک کے لئے ایک پیلٹ فارم اکھٹا کر دیا۔

ح) بین الاقوامی طاقت کی معیاروں کو بین الاقوامی سطح پر تبدیل کردینا

مختلف ممالک کو طاقت کے بل بوتے پر مختلف بلاگ میں تقسیم کیا ہوا تھا اور اس کا معیار دفاعی، سیاسی ، جغرافیائی ، مالی ، اور اقتصادی لحاظ سے زيادہ طاقتور ہونا تھا یعنی جو ملک ان میں آگے ہونگے ان کو عالمی سطح پر زیادہ طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی انقلاب قا‏ئم ہوا تو اس نے عالمی سطح پر ایک قومی مومنٹ اور جنبش تیار کیا جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور ان کا اسلحہ خدا پر ایمان اور ظلم کے چکی ہوئی دنیا کی مظلوموں کی حمایت تھا۔ اور ان کے دشمن کو دنیا  تمام ماڈرن اسلحوں سے لیس، دنیا سپر پاورز حکومتوں  کی پشت پناہی حاصل تھی۔ 

نتیجہ

ہم نے اس مقالہ میں عالمی سیاست پر امام خمینی (ر ح) اور انقلاب اسلامی کے اثرات کے حوالہ کچھ مطالب بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ اس مقالے تمام اثرات کو تفصیل سے بیان نہیں کرسکا کیونکہ امام خمینی (ر ح) اور انقلاب اسلامی عالم سیاست پر بہت سے اثرات چھوڑے ہیں۔ اس موضوع پر محققین اور ریسرچ اسکالرز سے گزارس ہے کہ مزید اس موضوع پر قلم فرسائی کریں۔ 

اسلامی انقلاب نے کلی طور پر دو جگہوں پر اپنا لوہا منوایا ایک دنیا کے مظلوم عوام کو مایوسی اور ناامیدی سے نکال کر ان ظالم حمکرانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا اور انہیں بتلا دیا کہ ظلم ہمیشہ باقی رہنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ سختی سے ٹمٹا سکتا اور اسکو ہمیشہ کے لئے نابود کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں اس انقلاب نے دنیا میں دو بنیادی اثر چھوڑا ایک اثر نظریاتی ہے جس کے ذریعہ دنیا دین اسلام کے حقیقی چہرہ کو نمایان کردیا اور دوسرا ظالموں سے ٹکرنے اور ان سے مقابلہ کرنے سلیقہ اور طریقہ سکھایا۔

منابع

 1۔حمید معبادی-حسن رخدادی، قدرت ہای بزرگ و جہوری اسلامی ایران،تہران:مرکز اسناد انقلاب اسلامی،1385۔ 

2۔ سید مہدی طاہری ازخوانی تاثیرات انقلاب اسلامی بر بیداری مسلمانان، سید مہدی طاہری، بازتاب انقلاب اسلامی بر نظام بین الملل،مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)،1388۔ 

3۔محسن مجرد، تاثیر انقلاب اسلامی بر سیاست بین الملل،تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1386۔ 

4۔ روح اللہ خمینی،صحیفہ امام،  تہران:وزات ارشاد اسلامی،1361۔

5۔احمد خطیب فاضل دمشق،انقلاب اسلامی ایران امام خمینی سے رہبر خامنہ ای تک، ادارہ فروغ افکار امام خمینی(الحسین اکیڈمی) لاہور1998۔ 

6۔ آیین انقلاب اسلامی، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، تہران: انتشارات مرکز انقلاب اسلامی 1389۔ 

7۔محمد باقر خرمشاد و ہمکاران، بازتابھای انقلاب اسلامی، تہران: انتشارات سمت،1393۔ 

8۔جواد منصوری، جنگ فرہنگی علیہ انقلاب اسلامی،مشہد: آستان قدس رضوی،1369۔ 

9۔محمد باقر حشمت زادہ،تاثیر انقلاب اسلامی بر کشورھای اسلامی،تہران: سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی،1387۔ 

10۔حمزہ امرایی، انقلاب اسلامی ایران ، جنبش ھای اسلامی معاصر،تہران: انتشارات مرکز انقلاب اسلامی،1383۔ 

11۔علی فلاح نژاد، سیاست صدور انقلاب اسلامی،تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی،1384۔  

12۔جان ال-اسپوزیتو، انقلاب ایران ر بازتاب جہانی آن، ترجمہ، محسن مدیر شانہ چی،تہران:انتشارات باز۔ 

13۔۔فرانسواتوال،ژئوپلیتک شیعہ، ترجمہ، کتایون باصر،تہران:انتشارات ویستار،1384۔

14۔محمد اعظم چوہدری،بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، کراچی: قمر کتاب گھر، اردو بازار ،2004۔ 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *