تازہ ترین

عالمی شخصیت بننے کے لئے آفاقی سوچ رکھنا ضروری ہے /تحریر:محمد حسن جمالی 

ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عالمی شخصیت بن کر ابھرے، علمی اور عملی میدان میں ایسی عظمت کا مالک بن جائے جس کے سبھی لوگ معترف ہوں، وہ معاشرہ انسانی میں ایسی خدمات سرانجام دینے میں کامیاب ہوجائے جو اخلاص سے بھرپور ہوں، وہ ایسے کارھائے نمایاں انجام دینے میں موفق ہوجائے جو بنی نوع انسان کو درپیش مسائل اور مشکلات کی گرہیں کھولنے میں ممد ومعاون ثابت ہوجائیں، غرض ہر عقل سلیم کے حامل انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ  وہ قومی ،لسانی اور علاقائی حدود اور چاردیواری سے نکل کر عالم انسانیت کی فلاح وبہبودی کے لئے وسیع پیمانے پر کام کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرکے دنیا وآخرت دونوں میں سرخرو نکلے ـ

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4284

 بغیر کسی تردید کے یہ تمنا ہر انسان کے دل میں موجزن رہتی ہے، مگر تاریخ بشریت اس بات پر گواہ ہے کہ عالم واقع و خارج میں میدان علم وعمل کے شہسواروں میں سے محدود افراد ہی عالمی شخصیت کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اکثریت کی شخصیت اپنی قوم ،قبیلے، گاؤں، مذہب اور علاقے کی حد تک محدود رہی ـ

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی شخصیت بننے کا راز کیا ہے؟ اس کے بہت سارے راز ہوسکتے ہیں ہم یہاں اس کے ایک اہم اور بنیادی راز کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کریں گے ـ یہ بات واضح ہے کہ انسان کی فکر اور عمل میں ناقابل تفکیک اتصال پایا جاتا ہےـ اس کی جیسی سوچ ہوگی ویسا اس کا عمل ہوگا ـانسان کی فکر اسے عمل کی طرف دعوت دیتی ہےـ اسی حقیقت کے پیش نظر اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کو عمل سے پہلے اعتقاد مضبوط کرنے کی تاکید وتلقین کی گئی ہے، یہاں تک کہ اسلام کی نظر میں عقائد کی درستگی کے بغیر بجالانے والے اعمال کی کوئی ارزش نہیں اور دین کے اصولوں پر تقلیدی عقیدہ رکھنے کو بھی ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ازروئے بصیرت جان کر باور قلبی پیدا کرنا ہر مکلف کے لئے ضروری ہے ـ صحیح نظر و عقیدہ ہی میدان عمل میں انسان کو صراط مستقیم دکھانے کا منحصر چراغ ہےـ پس عالمی شخصیت بننے کے لئے بھی آفاقی سوچ رکھنا ناگزیر ہےـ 

 جس قدر انسان کی فکر میں وسعت ہوتی ہے اسی مقدار سے اس کی شخصیت کے دائرے میں وسعت پائی جاتی ہے ـ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی انسان زندگی بھر فقط اپنے علاقے، قوم ،مذہب یا خاندان کے بارے میں فکرمند رہے اور وہ عالمی شخصیات کی صف میں شامل بھی رہے ـ اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ انسان کو اپنی قوم اور علاقے کے مسائل کے بارے میں ترجیحی بنیاد پر سوچنا بھی نہیں چاہئے بلکہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی فکر کو فقط ایک گاؤں، شھر اور ایک قوم  کے مسائل کے بارے میں مشغول ومقید  نہ رکھے بلکہ اپنی سوچ کو آذاد رکھے ،وہ عالم انسانیت کے جملہ مسائل کے بارے میں فکرمند رہے، کائنات کی مظلوم قوموں کو ظلم سے نجات دلانے کی سوچ رکھے، ہررنگ ،نسل ،مذہب اور زبان کی محدودیت سے بالاتر ہوکر بشریت تک آواز حق پہنچاکر سکھ کا سانس لینے کا پختہ تصور ذھن میں رکھےـجب انسان آفاقی سوچ کے ہتھیار سے لیس ہو کر عملی میدان میں وارد ہوگا تو وہ اپنی وسیع فکر کے مطابق فعالیت شروع کرے گا اور وہ اپنی آفاقی سوچ کے مطابق وسیع پیمانے پر عالم انسانیت کی خدمت کرکے مفید عالمی شخصیات کے زمرے میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگے گی ـ

 ہمارے پاکستان میں بھی الله کے فضل وکرم سے علمی شخصیات تو بہت ہیں لیکن عالمی شخصیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی بنیادی وجہ ہماری علمی شخصیات کی سوچ اور فکر عالمی نہ ہونا ہے، اسی محدود فکر کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے دینی مدارس اور علمی درسگاہیں وراثتی بن چکی ہیں ـ جب کسی شخصیت نے اپنی قابلیت اور محنت سے کہیں علمی درسگاہ قائم کی ہو تو اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ہی اس کی سرپرستی کریں گے خواہ وہ کتنے نالائق ہی کیوں نہ ہوں ـ اسی طرح ہمارے موجودہ تعلیم وتربیت گاہوں میں پڑھانے والے ٹیچر کو قابلیت اور باصلاحیت ہونے کے بجائے رشتہ دار خاندان یا دوست وسفارشی بنیاد پر انتخاب کرنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے جب کہ یہ عمل انصاف کے تقاضے کا سوفیصد برخلاف ہے ـ اسی طرح کچھ کو چھوڑ کر ہماری علمی شخصیات میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کا مادہ بہت کم پایا جاتا ہے، بسااوقات یہ دیکھنے میں آتاہے کہ ہدف ایک ہونے کے باوجود معمولی نظریاتی اختلافات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی، بلکہ وہ اپنے اپنے مریدوں کے ذریعے ایک دوسرے کی شخصیت کشی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی ـ اس طرح کی ناروا حرکتوں کی ریشہ یابی کرکے اس کا خلاصہ مشاہدہ کرنا چاہیں تو یہ ہے کہ یہ سبب معلول ہیں کوتاہ فکری اور سوچ کی محدودیت کاـ

 سوشل میڈیا پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بحث وگفتگو کرنے والے حلقوں میں بھی  فکری محدودیت کے حامل افراد کی تعداد ذیادہ دکھائی دیتی ہے جس کے سبب قومی ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی تعصبات کی بیماریاں پھیلتی جارہی ہیں درنتیجہ اس سے نہ فقط ان کی شخصیات متاثر ہوتی جارہی ہیں بلکہ پورے سماج میں منفی اثرات نمایاں ہوتے جارہے ہیں ـ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری محدودیت کے خول سے باہر لائے ، آفاقی سوچ رکھنے کی عادت کرے، سیاسی اور سماجی مسائل پر بحث ومباحثہ ضرور کریں مگر فکری آذادی کے ساتھ ـ اپنے علاقےاور قوم کے دفاع یاحمایت کرتے ہوئے درپیش مشکلات پر ضرور ڈ سکس کریں مگر اخلاق حدود میں رہتے ہوئے ـ یہی روش ہماری علمی عالمی شخصیات کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے ـ بدون تردید آفاقی سوچ ہی انسان کو آفاقی شخصیت بنادیتی ہے ـ جب ہم عالمی شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں وسعت ذہنی کا عنصر نمایاں دکھائی دیتے ہیں ـ بطور نمونہ          

عالمی شخصیات میں سے ایک جناب مرحوم آیت اللہ شھید صدر کی ذات ہے ـ اس عظیم شخصیت کے بارے میں رھبر معظم انقلاب فرماتے ہیں : شہید باقرالصدر زمانے کے نابغہ افراد میں سے ایک تھے، ہماری دینی درسگاہوں میں با استعداد افراد کی کمی نہیں، نہایت سجمھدار، با سلیقہ اور سخت کوش افراد موجود تھے اور ہیں جہنوں نے دین مبین اسلام کے لئے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں، جیسے حالیہ صدی کے بزرگ مراجع عظام جو ایران اور عراق میں موجود رہے ہیں وہ سب کے سب نہایت عظیم اور با استعداد ہیں، لیکن جو نابغہ ہوتا ہے اس کی الگ ایک خصوصیت ہوتی ہے ہرکوئی اس قسم کے نبوغ سے سرشار نہیں ہوتا ہے، میرے خیال میں مرحوم صدر ایک نابغہ تھے کیونکہ جو کام شہیدصدر کرسکتے تھے وہ کام بہت سے علماء، فقہاء اور حوزہ علمیہ کے متفکرین نہیں کرسکتے۔ شہید صدر وسیع ذہنیت کے مالک تھے اور عالم اسلام کی ضرورتوں کو سمجھتے تھے اور حاضر جواب ہونے کے ساتھ ساتھ ہرنیک کام کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اسی طرح رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی کی آفاقی شخصیت کی عظمت وجلالت کے دوست ودشمن قائل ومعترف تھے، کیونکہ امام خمینی آفاقی سوچ کے مالک تھے یہاں تک کہ جب انہوں نے تخت سلطنت رضا شاہ کو زمین بوس کرنے کا سوچا تو فقط ایرانی قوم کو عزت وسربلندی سے سرشار کرنے کی فکر نہیں کی بلکہ اس انقلاب کے نور سے عالم اسلام کے مقہور ومظلوم تمام مسلمانوں کو ظلم کے اندھیرے سے نکالنے کا سوچا وہ انسان  کی آزادی کے طلبگار تھے، چنانچہ اس آفاقی سوچ سے وہ آگے بڑھے ،قوم کی قیادت کی در نتیجہ مدد الہی سے انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا جس نے مختصر وقت میں پورے عالم اسلام کو بیدار کر دیا، یہ بات مسلم ہے کہ عالمی شخصیت بننے کے لئے آفاقی سوچ رکھنا ضروری ہے

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *