عزاداری، انسانیت سازی کا اہم وسیلہ / تحریر: محمد حسن جمالی
عزاداری ہدف نہیں انسانیت سازی کا اہم وسیلہ ہے ، انسانیت جوہرہ انسان ہے، اس سے قطع نظر وہ ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں، تمام انبیاء اور اولیاء الہی کی آمد کاہدف انسان کی تربیت کرکے اس میں انسانیت کو پروان چڑھانا تھا ،بدون تردید یہ بہت سخت، پیچیدہ اور دشوار کام تھا اور ہے ،چنانچہ کہا جاتا ہے انسان بننا آسان ہے مگر انسانیت کا خوگر بننا انتہائی سخت ـ اس گوہر ناب کو پانے کے لئے انسان کو بہت ریاضت اور محنت کرنا پڑتی ہے ،خواہشتات نفسانی پر کنٹرول کرکے عقل کے حکم کے مطابق چلنا پڑھتا ہے ، ہدایت کے وسیلوں سے متمسک ہوکر اسے حاصل کرنے کے لئے تگ ودو کرنا پڑھتا ہے، مادیات کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے معنویات پر بھی توجہ دینا پڑھتا ہے اور دائرہ اسلام کے اندر مقید رہ کر اس کے اصولوں کو چراغ زندگی قرار دینا پڑھتا ہے تب جاکر انسان کے اندر انسانیت کا نشونما پانا ممکن ہوجاتا ہےـ
عشرہ محرم الحرام انسانیت سازی کے لئے ایک سنہری موقع ہے، البتہ اس کے لئے عزادری کا باہدف برپا ہونا اساسی شرط ہے ،کیونکہ عموما پوری کائنات میں اور خاص طور پر برصغیر کے معاشرے میں محرم کے دس دن وسیع پیمانے پر عزاداری برپا ہوتی ہے، ان دنوں میں لوگ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر مجالس میں جوق درجوق شرکت کرتے ہیں ، غم حسین مناتے ہیں، مرثیہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں منعقد ہونے والی ساری مجلسیں باہدف ہوتی ہیں ؟ کیا ان سب میں پیغام کربلا بیان ہوتا ہے؟ کیا ان میں سامعین کو تربیتی مواد سننے کو ملتے ہیں؟ کیا سارے شرکت کرنے والے تربیت گاہ سمجھ کر مجالس میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں ؟ اگر غور سے دیکھا اور پرکھا جائے تو بعض مجالس کے حوالے سے جواب نفی میں ملتا ہے جو نہایت ہی افسوس کا مقام اور لمحہ فکریہ ہے ـ
بہت ساری جگہوں پر عزاداری ایک رسم کی شکل اختیار کرچکی ہے ، جب محرم آتا ہے تو لوگ فرش عزا پر بیٹھ کر اس رسم کو ادا کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بیشتر مقامات پر مجالس کے مجمع سے خطاب کرنے کے لئے جب کسی خطیب کو دعوت دی جاتی ہے تو بانیاں مجالس کے مدنظر ہرگز یہ چیزیں نہیں ہوتیں کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا نہیں؟ وہ متدین متقی اور پابند صوم وصلواة ہے یا نہیں؟ وہ قرآن اور حدیث کا عالم ہے یا نہیں ؟ وہ اپنی گفتگو کے ذریعے مجمع کی فکری تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس کا عقیدہ کیسا ہے کیا اس نے اسلامی تربیت گاہ سے تعلیم وتربیت حاصل کرچکا ہے ؟ کیا واجبات ومحرمات کا وہ علم رکھتا ہے؟ کیا متون دینی سے وہ آشنا ہے؟ وہ تاریخ کربلا مخصوصا مصائب کربلا مستند کتابوں کا مطالعہ کرکے لوگوں کو بیان کرنے والا ہے یا آنکھیں بند کرکے من گھڑت باتیں کرکے سنی سنائے مصائب کے جملے سنانے والا ہے؟
عزاداری رسم کی ادائیگی کے لئے برپا ہونے کی وجہ سے آج کل بانیان مجالس ان خطباء کو زیادہ ترجیح دیتے نظر آتے ہیں جو مشہور ہوں ،لفاظی میں ماہر ہوں، سر لگاکر پڑھتے ہوں، جن کی آواز اچھی ہو ، جن کو فضائل سناکر کر مجلس گرمانے کا ڈھنگ آتا ہو اور وہ بانی مجلس کی پسند کی باتیں کرنے والے ہوں ـ چنانچہ ایسی صفات کے حامل افراد کو وہ منہ مانگی فیس دے کر بلاتے ہیں اور لاکر ممبر حسینی پر بٹھاتے ہیں خواہ علم اور عمل کے اعتبار سے وہ جاہل اور بے عمل ہی کیوں نہ ہوں ـ
عرصے سے پنجاب اور سندھ میں ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ ریش تراش نادانوں کو بانیاں مجالس دعوت دے کر مجالس میں ذاکری کرواتے ہیں ، وہ آتے ہیں اور گانے کے طرز میں کچھ بے سروپا اشعار اداکاری کرتے ہوئے اپنی سریلی آواز میں پڑھ کر لوگوں کا وقت ضائع کرکے اپنی فیس لے کر چلے جاتے ہیں، وہ نہ فقط مجمع کے فائدے کی باتیں نہیں کرتے بلکہ سامعین کے عقائد کو بھی اپنی من گھڑت باتوں ،غلط تاویلات اور تفسیر بالرای کے ذریعے خراب کرکے چلے جاتے ہیں نیز وہ طرح طرح کی بدعتوں کو ایجاد کرنے کے ساتھ سادہ لوح عوام کے ذھنوں میں عجیب وغریب شبھات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے در نتیجہ اس طرح کی مجالس نہ فقط ملت تشیع کی تقویت کا باعث نہیں بنتیں بلکہ یہ لوگوں کے عقیدے اور ایمان کی کمزوری کا سبب بنتی جارہی ہیں ،دشمنوں کے ناپاک عزائم کو پختہ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتی جارہی ہیں، وہ مذہب تشیع کی بنیادیں ہلانے کے اسباب فراہم کرتی جارہی ہیں، وہ عزادران سید الشھداء کو بے دینی کی جانب کھینچنے والے مقناطیس ثابت ہوتی جارہی ہیں اور وہ جہالت وخرافات پھیلانے والے مرکز کے طور پر نمایاں ہوتی جارہی ہیں، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بانیاں مجالس خواب غفلت سے بیدار ہوکر اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں ، عزاداری سید الشھداء کے تقدس کو بحال رکھتے ہوئے خطابت کے لئے جھلاء کو دعوت دینے کے بجائے علماء باعمل کو مدعو کریں تاکہ عزاداری مثمر ثمر ہو اور وہ خدا ورسول اور ائمہ کی خوشنودی کا باعث بنے ـ
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ عزاداری ہدف نہیں وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ (ع) کے مقدس قیام اور آپ کی بے نظیر عظیم قربانی کے اہداف و مقاصد سے روشناس ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے قیام عاشورا کا پیغام پہنچاسکتے ہیں ـ بلاشبہ عزاداری حضرت اباعبداللہ الحسین بشریت کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کا اہم وسیلہ ہے ـ جب امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے باوفا انصار و اعوان شہید ہوگئے تو یزید اور اس کے گورنر ابن زیاد نے فتح کا جشن منایا مگر ان کا جشن زیادہ طویل عرصے تک جاری نہ رہ سکا کیونکہ عقیلۂ بنی ہاشم زینب کبری سلام اللہ علیھا نے کوفہ میں داخل ہوتے ہی عزاداری کا اہتمام کیا ،اونٹ کی پشت پر سے خطبہ پڑھا، کوفی جو “خوارج کے اسیروں” کا تماشا دیکھنے آئے تھے نے اچانک نئی صورت حال کا سامنا کیا اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے نبی (ص) کے خاندان کو اسیر کرکے لایا گیا ہے چنانچہ وہ گریہ و بکاء میں مصروف ہوگئے ، اس موقع پر سیدہ زینب (س) نے عزاداری کا نمونہ پیش کرکے کوفیوں کو خواب غفلت سے بیدار کردیا اور ہمیں بھی یہ پیغام دیا ہے کہ عزاداری کا مقصد خوابیدہ ضمیروں کو جگانا، انسانوں کو غفلت سے بیدار کرکے صالح افراد کی قیادت کے زیر سایہ عزت کی زندگی گزارنے کی تلقین کرنا ہے ـ
ہماری عزاداری اور گریہ وبکا پر اعتراض کرنے والے نادانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نواسہ رسول کی مظلومیت پر گریہ کرتے ہیں، ہم عزاداری کرتے کیونکہ عزاداری انسانیت سازی کا بہترین اور اہم وسیلہ ہے ـ سید الشھداء نے اپنے لہو کے ذریعے اسلام کو حیات نو بخشی ، دنیا والوں کو ظلم کے خلاف مقاومت کرنے کا درس دیا ، عزت سے جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھایا ،حق و اہل حق کی زبانی اور عملی نصرت کرنے کی تعلیم سکھائی اور انہیں بتایا کہ اہل باطل کی حمایت کرنے والوں کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہوگا، بے شک عزاداری انسانیت سازی کا اہم وسیلہ ہے ـ
۔
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوووں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا ، آگ پہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارےکو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا
(جوش ملیح آبادی)
دیدگاهتان را بنویسید