تازہ ترین

عزاداری امام حسین کے پانچ اہم فوائد

ماتم اور مجلس کا ثواب احادیث معصومین علیہم السلام میں حج اور عمرہ کے برابر بیان ہوا ہے۔ یہاں تک کہ احادیث میں آیا ہے کہ عزاداری تمام اعمال سے افضل ہے۔ نیز احادیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوگ منانے اور ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب عرش پر خدا سبحان کی زیارت کے مترادف ہے۔
شئیر
9 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10216

عزاداری امام حسین کے پانچ اہم فوائد
احمد علی جواہری
امام حسین ؑ کی یہ مجالس عزاء و سوگواری اور نوحہ سرائی اور اس ذات کی مظلومیت کا اظہار جس نے اپنی اور اپنے دوستوں اور اولاد کی جان کو خدا اور اس کی رضا کے لئے فدا کیا ہےایک بہت بڑی طاقت ہے دنیا کی کسی قوم کے پاس عزاداری جیسا بہترین وسیلہ نہیں ہے جس کے ذریعے اپنی ترقیوں کا سامان کرسکیں اور معاشرے کو سنوار سکیں۔ عزاداری کے بہت سے فائدے ہیں یہاں مختصرا پانچ اہم فائدے بیان کرتاہوں۔
پہلا: گناہوں کی بخشش
عزاداری کا پہلا فائدہ گناہوں کی معافی ہے۔ روایات کے مطابق جو شخص امام حسین علیہ السلام پر ماتم کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (تفسیر القمی، ج 2، ص 292؛ بحار الانوار، ج 45، ص 257) جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسین ؑ پر گریہ کرنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
دوسرا: اجر و ثواب
ماتم اور مجلس کا ثواب احادیث معصومین علیہم السلام میں حج اور عمرہ کے برابر بیان ہوا ہے۔ یہاں تک کہ احادیث میں آیا ہے کہ عزاداری تمام اعمال سے افضل ہے۔ نیز احادیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوگ منانے اور ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب عرش پر خدا سبحان کی زیارت کے مترادف ہے۔ (کامل الزیارات، ص 156)
گناہوں کی معافی
عزاداری امام حسین علیہ السلام گناہوں کی بخشش کا سبب ہے اور اس کے لیے حیرت انگیز اجر وثواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ماتم کرنے والے کو امام سے جذباتی تعلق قائم کرنا چاہیے اس لحاظ سے کہ جس قدر وہ اپنے گناہوں سے افسردہ اور غمگین ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری تشریح میں اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لیے مجلس عزا میں داخل ہو اور اپنے گناہوں سے توبہ و ندامت کرے، خواہ اس کے گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ اسے معاف کر دیا جائے گا.

لہٰذا امام حسین علیہ السلام سے جذباتی اور عملی تعلق قائم کرنا توبہ کی ایک صورت سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے مطابق گناہ کتنا ہی بڑا اور بے شمار کیوں نہ ہو، توبہ سے معاف ہو جاتا ہے۔
قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلى‌ أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ (زمر / 53)
کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔
یہ محبت بھرا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ یہاں ارتکاب جرم کے بعد اللہ کی طرف پلٹنے (توبہ کرنے) کی بات ہے، وگرنہ جرم کے ارتکاب کے ساتھ عفو اور درگزر نامعقول بات ہے کہ قوم جرم کا ارتکاب جاری رکھے اور ساتھ معافی بھی جاری رہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ جرم کا ارتکاب ممکن ہونے کی صورت میں بندہ توبہ کرے تو تمام گناہ بخشے جائیں گے، خواہ شرک ہو یا غیر شرک اور اگر جرم کے ارتکاب کا امکان ختم ہو جائے، یعنی موت آ جائے تو اس صورت میں اللہ مشرک کو معاف نہیں کرتا۔ شرک کے علاوہ باقی گناہ پھر بھی معاف ہو سکتے ہیں: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغفِرُ اَن یُّشرَکَ بِه وَ یَغفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَّشَآءُ ۔ (نساء :48) اللہ شرک کو نہیں بخشتا، اس سے کمتر (گناہوں) کو جس کے لیے چاہے بخش دیتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ قرآن میں اس آیت سے وسیع تر کوئی آیت نہیں ہے۔ ممکن ہے وسعت سے مراد یہ ہو کہ یہ آیت سب بندوں اور سب گناہوں کو شامل ہے۔ (شیخ محسن علی نجفی، بلاغ القرآن)
تیسرا: عاقبت بخیری
عزاداری کا تیسرا فائدہ عاقبت بخیری ہے۔ دوسرے لفظوں میں امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں کے سروں پر دست شفقت رکھتا ہے اور اس سے وہ برے انجام سے محفوظ رہیں گے۔
حسن عاقبت کے تین معنی ہیں:
1۔ عزت کے بعد ذلت نہیں ۔ 2۔ موت تک صراط مستقیم سے انحراف کا خطرہ نہیں ۔
3۔ جب وہ مرتا ہے تو اہل بیت ؑ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ عزاداری کرنے والوں کے لیے عاقبت بخیری کے تینوں معنی صدق آتا ہے۔ اچھی تقدیر دنیا سے زیادہ قیمتی ہے۔ کسی شخص کے لیے عزت کی زندگی کے بعد ذلیل ہونا، یا دینداری کی زندگی کے بعد، شک کے ساتھ دین سے ہٹنا یا مرتے وقت جب ملک الموت انسان کے سرہانے پہنچ جائے تو اہلبیت ؑ اس کی مدد کیلئے نہ پہنچنا یہ واقعا بہت بڑا نقصان ہے۔
چوتھا: تحفظ اسلام و احیاء شیعیت
عزاداری کا چوتھا فائدہ جو کہ دوسرے فوائد سے زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ عزاداری اسلام اور تشیع کی بقاء کا ضامن ہے ۔
امام حسینؑ اسلام اور شیعیت کو زندہ کرنے کے لیے کربلا تشریف لے گئے اس وقت جب اسلام خطرے میں تھا اور شیعیت تباہ ہو رہی تھی اور شیعہ اظہار رائے نہیں کر سکتے تھے، لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اسلام باقی رہا اور تشیع کا احیاء ہوا۔ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں سے اسلام پھیلا اور تعلیمات اسلامی سے لوگ بہرہ مند ہوئے جو سقیفہ بنی ساعدہ کے افسوس ناک واقعے کے بعد معدوم ہو رہی تھیں۔ امیر المومنین علیہ السلام بھی خلافت سے پہلے اور بعد میں سخت مشکلات میں رہے۔ ان کے بعد امام مجتبی علیہ السلام تنہا تھے اور اسی وجہ سے وہ معاویہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی وفات تک اپنے بھائی کی صلح پر کاربند رہے۔ لیکن اس کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا جو کہ وعدہ خلافی تھی تو انہوں نے اس انقلاب کا آغاز کیا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یزید کے وجود اسلام کیلئے خطرہ تھا، اس لیے انہوں نے خود فرمایا: اگر کوئی یزید جیسا حکمران ہو تو اسلام تباہ ہو جائے گا: عَلَى الْإِسْلَامِ السَّلَامُ إِذْ قَدْ بُلِیَتِ الْأُمَّةُ بِرَاعٍ مِثْلِ یَزِید” (اللهوف، ص 24)
چنانچہ انہوں نے اس انقلاب کا آغاز فرمایا اور تاریخ گواہ ہے ان کی شہادت کے بعد بنی امیہ کی جڑیں خشک ہونے میں دیر نہیں لگی اور اسلام زندہ رہا۔ درحقیقت تحریک حسینی پہلے خاندان عصمت و طہارت کی اسیری ، جناب زینب علیا و امام سجاد ؑ کی خطبات اور پھر شیعوں کے ماتم کے ذریعے ابدی اور آفاقی ہو گئی اور ہمیشہ رہے گی۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے: شہادت، اسیری اور عزاداری امام حسین ؑ ایک ہی سمت میں ہیں۔دوسرے لفظوں میں، قیامت تک عزاداری کا جاری رہنا، اسلام کی بقا اور شیعیت کے احیاء کا سبب اور عامل ہے۔ اس لیے اگر اس کا ثواب حج اور عمرہ سے زیادہ ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔
پانچواں: استجابت دعا
عزاداری کا ایک اور فائدہ دعا کی قبولیت ہے۔ مرحوم آیت اللہ دستغیب “رہ” بیان کرتے ہیں: ایران کے شہر شیراز میں ٹائیفائیڈ سے بہت سے لوگ مرگئے اور اس وقت ٹائیفائیڈ کی کوئی دوا نہیں تھی۔آیت اللہ دستغیب نے ان لوگوں میں سے ایک کا حوالہ دے کر بیان کرتا ہے جن کے گھر والوں کو ٹائیفائیڈ تھا، کہ انہوں نے کہا: ایک دن ہمارے پڑوسی کی دعائیہ مجلس تھی۔ میں اس مجلس میں گیا اور امام حسین علیہ السلام کے غم میں رویا اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے درخواست کی کہ میری بیوی اور بچے کو شفاء دیں۔ جب میں گھر آیا تو دیکھا کہ میری بیوی اور بچے بیٹھ کرکھانا کھا رہے ہیں اور وہ صحت مند ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی۔
میری بیٹی نے کہا: ابا جان، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا یہاں تشریف لائے اور وہ سیاہ لباس میں ملبوس تھیں۔ جب وہ بیٹھ گئے تو انہوں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا: اپنے ہاتھ ان کے سر پر رکھو تاکہ وہ صحت یاب ہو جائیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ہمارے سر پر ہاتھ رکھا اور ہم سب بہتر ہو گئے لیکن انہوں نے ماں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔ حضرت زہرا نے فرمایا: تم نے ان کی ماں کے سر پر ہاتھ کیوں نہیں رکھا؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: یہ نماز نہیں پڑھتی۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ اس کے شوہر نے دعا کی ہے کہ انہیں شفا دوں، اس لیے اس کے سر پر بھی ہاتھ رکھو۔ تو امام حسین ؑ نے ماں کے سر پر ہاتھ رکھا اور وہ بھی ٹھیک ہو گئیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ طاہرین (علیہم السلام) سےعزاداری کی اہمیت کے بارے میں بہت سے روایات نقل کی ہوئی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر گریہ کرنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (بحار الانوار، ج 44، ص .293)
یہ واقعات تجربے سے ثابت ہیں اور سوگواروں کے لیے معصومین کی خصوصی عنایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *