تازہ ترین

عقیدہ توحید/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

اسلامی عقائد میں سب سے اہم ترین عقیدہ ،عقیدہ  ٴتوحید ہے  ۔انبیائے الہیٰ  کی بعثت کےاہداف میں سے ایک توحید  کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اور شرک سے منع کرنا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فىِ كُلّ‏ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت}

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3596

۱اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرواور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔ توحید پر اعتقاد رکھنے نیز شرک سے منع کرنے میں تمام اسلامی مذاہب اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود توحید اور شرک کی تفسیر و تبین میں  ان کے ہاںمختلف نظریات پائےجاتے ہیں ۔یہاں ہم صرف شیعہ امامیہ کے نزدیک توحید اور شرک کے مراتب اور اقسام بیان کرنے کی کوشش  کریں گے  ۔توحید خداوندی کو عام طور پر توحید ذاتی ،توحید افعالی اور توحید عبادی میں تقسیم کیا گیاہے ۔بعض اوقات توحیدافعالی کے بجائے توحیدِ خالقیت اورتوحیدِ ربوبیت کا ذکر کیا جاتا ہے جو کتاب و سنت کی نصوص کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔

1۔توحید ذاتی:

 توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال کی ذات یکتا ہے ،اس کا مثل کوئی نہیں یعنی خداوند متعال واجب الوجود بالذات ہے نیزوہ اپنےوجود اور کمالات میں کسی چیز کا محتاج نہیں جبکہ اس کے علاوہ باقی تمام مخلوقات ممکن الوجود بالذات اور محتاج ہیں۔کیونکہ ہر ممکن الوجود مرکب ہے خواہ  وہ عقلی و ذہنی  اجزاءسے مرکب ہو یا خارجی و عینی اجزاءسے ،جبکہ خدا  کے واجب الوجود ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ بسیط ہے۔ اس میں کسی قسم کی کثرت اور ترکیب ممکن نہیں ۔ائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں بھی مذکورہ دو معانی پر زوردیا گیا ہے ۔اس سلسلہ میں ہم صرف حضرت علی علیہ السلام  کی احادیث کونقل کرنےپر اکتفا کرتے ہیں۔کسی نے حضرت علی علیہ السلام سے خدا وند متعال کی وحدانیت اور یکتائی   کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے فرمایا: وحدانیت کے مختلف معانی ہیں  :کبھی وحدانیت سے مراد عددی اور مفہومی  وحدانیت ہے [جیسے پاکستان دنیا کے ممالک میں سے ایک ملک ہے ۔انسان حیوانات کی ایک قسم ہے }لیکن خداوند متعال کے بارے میں اس طرح کا تصور صحیح نہیں ہے۔کبھی وحدانیت سے مراد یہ ہے کہ اس کا کوئی مانند اور نظیر نہیں ۔اسی طرح اس کے لئے اجزائے عقلی ،وہمی اور خارجی بھی نہیں ۔ یہی وحدانیت خداوند ہے  ۔۲حضرت علی  علیہ السلام فرماتے ہیں :1۔ هو واحد لیس له فی الاشیاء.وہ یکتا ہے اور موجودات میں اس کا کوئی مانند و نظیر نہیں ۔2۔{و انه عزوجل احدی المعنی لا ینقسم فی وجود و لا وهم و لا عقل} .وہ احدی المعنی ہے یعنی نہ خارج میں اور نہ وہم و عقل میں اس کا وجود کسی بھی طرح تقسیم نہیں ہو سکتا ۔{یعنی خداوند متعال یکتا،یگانہ اور بے مثال ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔}۳جنگ جمل میں ایک شخص حضرت علی  علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنےلگا یا امیر المومنین آپ فرماتے ہیں کہ خدا ایک ہے ؟لوگوں نے ہر طرف سے اعتراضات شروع کر دئیے اور کہنے لگے کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو کس قدر پریشانی اور تشویش ہے اور تم یہ سوال پوچھ رہے ہو ؟آپ ؑ نے فرمایا:اس کو سوال کرنےدو کیونکہ جو کچھ یہ شخص جاننا چاہتا ہے یہ وہی مطلب ہے جو ہم اس جماعت پر واضح کرنا چاہتے ہیں ۔پھر آپ ؑنے فرمایا :کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداا یک ہے  چار طرح کے ہیں ،جن میں سے دو طریقے غلط اور دو طریقے صحیح ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ خدا ایک ہے اور اس کے لئے عدد وغیرہ کو سامنے رکھے تو یہ معنی صحیح نہیں ہے کیونکہ جس کی مثال نہیں وہ عدد میں محدود نہیں ہو سکتا ۔آیا تجھے معلوم نہیں کہ جو لوگ کہتے تھے کہ خدا تین ہیں {باپ،بیٹا ،روح}وہ کافر ہو گئے تھے ۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی کہے ،فلان شخص انسانوںمیں سے ایک ہے یعنی انسانوں کی جنس میں سے ایک ہے یہ معنی بھی خدا وند متعال کے لئےصحیح نہیں ہے کیونکہ یہ تشبیہ ہے اور خداوند تشبیہ سے مبرا اور پاک ہے لیکن اگر  کہے  کہ خدا ایک ہے جس کی اشیاء میں کوئی مثال یا تشبیہ نہیں ملتی تو یہ معنی صحیح ہے اسی طرح کہے کہ خدا ایک ہے {احد ہے اور اس میں کوئی کثرت نہیں اور نہ ہی اس کی قسمیں ہیں}یعنی نہ تو عقل کے اندر سما سکتا ہے اور نہ ہی وہم وگمان میں آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی حد موجود ہے ۔ اسی طرح آپ ؑ فرماتے ہیں: خدا کو پہچاننے کا مطلب یہی ہے کہ اس کو واحد ،یگانہ ،یکتا اور بے مثال جاننا چاہیے ۔

2۔توحید صفاتی:

اس سے مراد خدا وند متعال کی صفات مثلا علم ،قدرت اور حیات وغیرہ کے بارےمیں وحدت کاعقیدہ ہے ۔ جاننا چاہیے کہ اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے یہ صفات ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب وحدت کی حامل ہیں اور ان کے درمیان نہ اختلاف ہے اور نہ ان میں کثرت پائی جاتی ہے۔ ان تمام صفات کا مصداق ذات الہیٰ ٰ ہے جو بسیط اورغیر مرکب ہے۔یعنی یہ صفات عین ذات الہیٰ ہیں اور زائد بر ذات نہیں ۔ورنہ  ذات الہیٰ  میں اختلاف اور کثرت کی موجودگی لازم آتی ہے جو توحید ذاتی  کے ساتھ منافات رکھتی ہے ۔بنابریں توحید صفاتی توحیدذاتی کا لازمہ  ہے ۔اگر خداوند متعال کی صفات ذاتی کو اس کا عین ذات قرار نہ دیا جائے تو کثرت اور اختلاف کے ساتھ ساتھ واجب الوجود کا تعدداور اس کی کثرت بھی  لازم آئیں گی ۔اس لئے ہم صفات الہیٰ  کو ممکن الوجودقرار نہیں دے سکتے ۔حضرت علی علیہ السلام خداوند متعال کی صفات کو عین ذات قرار دینے کو توحیدکا کمال قرار دیتےہیں جیساکہ آپ ؑارشاد فرماتے ہیں :{کمال توحیده الاخلاص له،و کمال الاخلاص له نفی الصفات عنه … فمن وصف الله سبحانه فقد قرنه ،و من قرنه فقد ثنّاه ، و من ثناه فقد جزّاه ومن جزّاه فقد جهله}۴توحید کا کمال، اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے {اگرچہ صفت کا مفہوم خود گواہ ہے کہ وہ موصوف سےالگ شئے ہے اور موصوف کا مفہوم یہی ہے کہ وہ صفت سے جداگانہ چیز ہے }گویااس کے لئےالگ صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاءکا ثبوت ہے اور اجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ۔۵امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا کی ذات اور ہستی ثابت ہے {ناقابل تغیر اور ناقابل تقسیم} اس کا علم بھی وہ خود ہے حالانکہ معلوم {وہ چیز جس کا علم ہو } نہیں تھا اور اس کی شنوائی بھی وہ خود ہی ہے  حالانکہ سنی جانے والی چیز {صدا اور آواز }موجود نہ تھی اور اس کی بینائی بھی وہ خود ہی ہے حالانکہ دیکھی جانے والی چیز موجود  نہ تھی ۔خدا کا علم اس کی بینائی اور شنوائی کی کوئی مثال نہیں ہےکیونکہ یہ صفات اس وقت بھی موجود تھیں جبکہ کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔اسی طرح امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند متعال ایک نور ہے جو ظلمت کے ساتھ مخلوط نہیں ہے اور خدا ایک علم ہے جس میں جہالت موجود نہیں ہے اور وہ ایک زندگی ہے جس کو کبھی موت نہیں ہے ۔

3۔خالقیت اور ربوبیت میں توحید:

خالقیت اور ربوبیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اور خالق و پروردگار نہیں ہے اور تخلیق کائنات نیز نظام کائنات کو چلانے میں خداوند متعال کے ساتھ کوئی شریک نہیں  ہے۔ اگرچہ نظام کائنات علل واسباب پراستوار ہے لیکن یہ علل واسباب{خواہ طبیعی ہو ں یا غیر طبیعی}کبھی بھی خود مختار نہیں بلکہ خداوند متعال کا ارادہ اوراس کی مشیت ان پر حاکم ہیں۔قرآن کریم ان مطالب کو دو قسم کی آیتوں میں بیان کرتا ہے۔ ایک قسم کی آیت میں خالقیت اور ربوبیت کو خداوند متعال کے ساتھ مختص قرار دیتا ہے جبکہ دوسری قسم کی آیت میں افعال و آثار کو طبیعی و غیر طبیعی موجودات جیسے انسانوں اور فرشتوں کی طرف نسبت دیتا ہے چنانچہ قبض روح کی نسبت کبھی خدا کی طرف دی گئی ہے { اللَّهُ يَتَوَفىَّ الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا}۶{اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنےقبضےمیں لیتا ہے }اور کبھی ملک الموت کی طرف { قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وُكلّ‏ بِكُم}۷{آپ کہہ دیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا  جو تم پر تعینات کیا گیا ہے }اور کبھی دوسرے فرشتوں کی طرف دی گئی ہے  {تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا}۸ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اسے اپنی تحویل میں لیتے ہیں۔

4۔عبادت میں توحید:

عبادت میں توحید سے مراد یہ ہےکہ خدا  کے سوا کوئی عبادت و پرستش کے لائق نہیں اور وہی سزاوار عبادت ہے۔عبادت سے مراد یہ ہے کہ انسان ایک موجود کے سامنے ،اس  کی الوہیت پراعتقاد رکھتے ہوئے خشوع وخضوع کا اظہارکرے ۔جس طرح خداوند متعال اپنی ذات ،صفات اور افعال میں خود مختار ہے اسی طرح مقام الوہیت اور عبادت بھی اسی کے ساتھ مختص ہے لہذا اس  کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ظاہر ہے کہ غیر اللہ  کے سامنے عبادت کے قصد کے بغیر صرف احترام کے قصد سے خضوع کا اظہارکرنا شرک نہیں ہےخواہ  یہ خضوع وخشوع برترین طریقے سے انجام  کیوں نہ دیا جائے۔جیسا کہ قرآن کریم فرشتوں کے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے۹{وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئكَةِ اسْجُدُواْ لاَدَمَ فَسَجَدُواْ إِلَّا إِبْلِيس }:جب ہم نےفرشتوں سےکہا کہآدم کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کےعلاوہ سب نےسجدہ کیا}نیز حضرت یعقوب علیہ السلام اوران کے بیٹوں کا حضرت یوسف علیہ السلام کے  لئے سجدہ کرنے{وَ رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلىَ الْعَرْشِ وَ خَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا  وَ قَالَ يَأَبَتِ هَاذَا تَأْوِيلُ رُءْيَاىَ مِن قَبْل }۱۰ اور انہوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے۔یوسف نے کہا کہ بابایہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے }کے بارے میں اشارہ کرتا ہے جبکہ فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا خدا کے حکم سے تھا ۔اسی طرح حضرت یعقوبعلیہ السلام بھی ہر قسم کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا سجدہ بھی صرف احترام وتعظیم کی خاطر تھا جس کی بنا پروہ  ملامت کے مستحق  نہیں ٹھہرےکیونکہ اگر وہ مستحق  ملامت قرار پاتے تو یہ ان کے افعال کے صحیح نہ ہونے پر دلالت کرتا کیونکہ  شرک ظلم عظیم ہے {إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم }:بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔۱۱اور ذاتا قباحت رکھتا ہے اور خدا  ہر گز کسی فعل قبیح کا حکم نہیں دیتا ۔{ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَ تَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُون آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم دے ہی نہیں سکتا ہے کیا تم خدا کےخلاف وہ کہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو }۱۲ بنابریں فرشتوں کےحضرت آدمعلیہ السلام کو سجدہ کرنے نیز حضرت یعقوب  علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سجدہ پرستش اور عبادت کے قصد سے نہ ہو بلکہ احترام وتکریم کے قصد سے ہو تو وہ شرک اور حرام نہیں ہے ،یہ کہنادرست ہو سکتاہے کہ شریعت اسلامیہ کے ظواہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرنا چاہیے خواہ  یہ پرستش اور عبادت کے قصد سے نہ بھی ہو ۔ ۱۳

یہاں سے وہابیت اور تکفیری گروہ کے عقائد کے بطلان کا علم بھی ہوجاتا ہے جو انبیاء اور اولیائے الہیٰ  سے توسل نیز ان کے قبور یا ان کے باقی ماندہ آثار سے تبرک حاصل کرنے ہونے کو شرک قرار دیتے ہیں حالانکہ مسلمان صرف تکریم و تعظیم کی خاطر اس طرح کے اعمال بجا لاتےہیں اور ہر گز ان افراد کی عبادت کا قصد نہیں رکھتے ،کیونکہ یہ لوگ انبیاء و اولیائے الہیٰ  کےلئے مقام الوہیت کےقائل نہیں ،بلکہ صرف اور صرف قرب خداوندی کی خاطر انبیاء و معصومین علیہم السلام کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔

عصر رسالت میں مشرکین {جس طرح سے آیت کریمہ میں صریحا بیان ہوا ہے}بتوں کی کی پرستش اور عبادت کرتے تھے  اور بعض کاموں میں ان کی ربوبیت کے قائل تھے ،چنانچہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے کہیں گے{ تَاللَّهِ إِن كُنَّا لَفِى ضَلَالٍ مُّبِين}{ إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبّ‏ الْعَالَمِين}۱۴خدا کی قسم! ہم تو صریح گمراہی میں تھےکیونکہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔یہ لوگ اپنے معبودوں کو خدا کے اذن کے بغیر خود مختارشفیع قراردیتے تھے۔ اسی بنا پر قرآن کریم انہیں مردود قرار دیتا ہے جیساکہ ارشاد فرماتاہے  :{ مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِه}۱۵کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟  یقینا اس طرح کا عقیدہ رکھنا بغیر کسی شک و تردید کے خدا کی ربوبیت اور تدبیر میں شرک ہے اور کوئی بھی آگاہ مسلمان اس قسم کاعقیدہ نہیں رکھ سکتا  ۔

حوالہ جات:

۱۔نحل، 36۔

۲۔توحید صدوق ،باب 3،حدیث 3۔ 

۳۔توحید صدوق، باب3،ص84۔شیعہ در اسلام ،علامہ طباطبائی،ص 112۔

۴۔بحار الانوار ،ج2،ص 186۔

۵۔نہج البلاغۃ،خطبہ1۔

۶۔بحار الانوار،ج2،ص129۔

۷۔زمر،42۔

۸۔سجدہ،11۔

۹۔انعام،61۔

۱۰۔بقرۃ،34۔

۱۱۔یوسف،100۔

۱۲۔  لقمان ،13 ۔

۱۳۔اعراف 28۔

۱۴۔المیزان ،ج1 ،ص 123۔محاضرات فی الالہیات، ص 71 ۔

۱۵۔شعراء، 97- 98۔۔بقرۃ،255۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *