تازہ ترین

علاقے میں امن و استحکام کی برقراری کے لیے تمام ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت: صدر روحانی

  اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر نے شنگھائي ميں پريس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ماضي ميں ايران اور دنيا کے ملکوں کے تعلقات ميں جو بہت سے مسائل حاوي رہے وہ ايران کے سلسلے ميں مغرب کےغلط پروپيگنڈوں کا نتيجہ تھا۔

شئیر
42 بازدید
مطالب کا کوڈ: 170

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحاني نے کہا کہ دنيا کے ملکوں کے ساتھ تعاون اور دوستي ہي ايران کي خارجہ پاليسي کي ترجيح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ايران کي حکومت نے بيروني دنيا کے لئے اپنے دروازے کھول ديئےہيں اور ايٹمي مذاکرات بھي آگے کي سمت بڑھ رہے ہيں۔ صدر ڈاکٹر روحاني نے کہاکہ ايشيا اور مشرق وسطي کے حالات کا تقاضا يہ ہے کہ سبھي ممالک کوچاہئے کہ وہ علاقےميں امن و استحکام کي تقويت کے لئے پہلے سے زيادہ باہمي تعاون کا مظاہرہ کريں۔ انہوں نے کہا کہ باہمي تعاون کي ہي صورت ميں خطے کے عوام کے لئے بہتر زندگي اور ترقي و پيشرفت کو يقيني بنايا جاسکتا ہے – اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر نے کہاکہ آج کي دنيا ميں امن و سلامتي کے معاملے ميں بے شمار مشکلات پائي جاتي ہيں۔ انہوں نے کہاکہ انتہا پسندي اور تشدد کو ختم کرنے کے لئے علاقائي اور عالمي سطح پر ملکوں کے درميان ہم آہنگي اور تعاون ضروري ہے۔  اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر نے کہا کہ يقيني طور پر دہشت گردي، تشدد اور انتہا پسندي کسي خاص خطے يا علاقے تک محدود نہيں ہے اور يہ لعنت ايک خطے سے دوسرے خطے تک پہنچتي رہتي ہے – انہوں نے کہا کہ بہت سے مواقع پر تو کچھ ممالک اور بڑي طاقتو ں کو بھي دہشت گرد گروہوں کي حمايت و پشت پناہي کرتے ہوئے ديکھا گیا ہے۔ صدر ڈاکٹر حسن روحاني نے اپنے دورہ چين کے نتائج اور بيجنگ سے تہران کي توقعات کے بارے ميں کہا کہ چين ايشيا اور دنيا کا ايک بڑا ملک ہے اور خوش قسمتي سے پوري تاريخ ميں ايران اور چين کے تعلقات خوشگوار اور دوستانہ رہے ہيں- انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ميں کبھي بھي تلخي پيدا نہيں ہوئي ہے۔ اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر نے ايران کے خلاف مغربي ملکوں کي پابنديوں کے بارےميں بھي کہا کہ بين الاقوامي قوانين اور انساني حقوق کے اصولوں کے اعتبار سے ان پابنديوں کي بنياد ہي غلط تھي جس کا مغرب نے انتخاب کيا ہے۔ صدر ڈاکٹر روحاني نے کہاکہ ايک سادے مسئلے کے لئےاگر اعتماد سازي کي ضرورت ہے تو اس کے لئے بہترين راستہ منطق اور بات چيت کا ہے انہوں نے کہا کہ کسي بھي سادے سے مسئلے کو حل کرنے کے لئے دھونس ودھمکي کي روش بدترين روش ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب نے اسي بدترين روش کا انتخاب کيا اور يہ راستہ کبھي بھي منزل تک نہيں پہنچتا۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *