عمار یاسر کی زندگی کا مختصر تعارف
عمار یاسر کی زندگی کا مختصر تعارف
محمد باقر اخوند زاده
آپ کے والد بزرگوار کا نام یاسر بن عامر ہے جن کا کنیہ “ابویقضان ” ہے اور طيب, مطيب, مذحجى ،عنسى و مولا بنى مخزوم ،القابات میں سے ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا تعلق قبیلہ بنی ثعلبہ عنسی سے ہے اور یمن میں زندگی کرتے تھے آپ کا والد گرامی اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں مکہ آیا اور ابوحذیفہ کے ساتھ دوستی ہوئی پھر انہوں نے مکہ میں ہی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ابو حذیفہ نے اپنی ایک کنیز کہ جس کا نام سمیہ تھا کے ساتھ آپ کے والد گرامی کا عقد کیا جس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی ولادت ہوئی ۔
اگرچہ عمار یاسر کی تاریخ ولادت دقیقاً معلام نہیں ہے مگر آنے والی شواہد کہ جن کو بعد میں بیان کیا جاے گا کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمار یاسر کی ولادت 43 سال قبل از بعثت پیغمبر ہوئی ہے ۔
عمار یاسر کی ظاہری خصوصیات
عمار یاسر بلند قد و قامت ، بڑی اور خوبصورت آنکھیں اور گندمی چھرہ کے مالک تھے۔آخری عمر میں ان کے جسم پر لرزہ عارض ہوا۔ باتیں کم کرتے تھے ، خاموش پسند اور سمجھدار تھے۔ عمار یاسر کی زبان پر اکثر اوقات یہ ذکر ھوا کرتا تھا فتنے سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں. (1)
عمار یاسر کے خاندان کا اسلام لانا
جب تک ابوحذیفہ زندہ تھے عمار یاسر اپنے ماں پاب کے ساتھ زندگی کرتے تھے اور جونہی پیغمر اسلام (ص) نے اعلان نبوت فرمایا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، عمار یاسر اور ان کے خاندان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دین اسلام کو قبول کیا۔ (2)
عمار یاسر کا مضبوط ایمان
چونکہ مکہ مکرمہ میں عمار یاسر کے خاندان کا کوئی دوسرا فرد اور قوم و قبیلہ موجود نہیں تھا لھذا دوسرے مستضعف مسلان، جیسے بلال حبشی ، صهيب رومى اور خباب بن ارت کی طرح قریش اور عرب کے اقرباء پرست ظالموں کی شکنجوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ بنی مخزوم کہ جن کے بزرگ ابوحذیفہ مخزومی کے ساتھ عمار یاسر اور ان کے والد محترم نے دوستی کا ہاتھ ملایا تھا نے بھی منہ موڑا۔
مشرکان قریش اِن کو عرب کی جلادینے ولی گرمی میں گھر سے باہر لے جاتے تھے اور ان کے سینون پر بڑے بڑے پتھر رکھتے تھے اور کبھی کبار تو ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے ان کو لوہے کا زرہ پہناتے اور زنجیر سے صحراء کی گرم ریت پر گسینٹے تھے اور کہتے تھے کہ اگر محمد (ص) کی محبت دل سے نکالیں تو ان عذابوں سے چھٹکارا حاصل کروگے۔ مگر ان صاحبان ایمان حقیقی کے پختہ ایمان کا یہ عالَم تھا کہ وہ ان ازیتوں کو برداشت کرتے تھے مگر ان کے ایمان میں زرہ برابر کمی نہیں آئی۔
یہ دلخراش اور روح کانپنے والی مناظر کو دیکھ کر رسول اکرم (ص) ان کو صبر اور بردباری کی تلقین کرتے تھے اور بہشتِ جاوداں کی خوشخبری سناتے تھے. (3)
عمار یاسرنے بھی مشرکان قریش کے ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شھادت نوش کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ کے شکم پر ابو جھل نے ایک لات مارا جس کے نتیجہ میں آپ کی ولدہ محترمہ سمیہ کی شہادت ہوئی۔ یوں آپ اور آپ کی والدہ کو اسلام کے اولین شہداء میں سے ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
تاریخ اسلام کی پہلی مسجد کہ جسے عمار یاسر نے بنائی
جب پیغمر اکرم (ص) مکہ سے مدرنے کی طرف ھجرت فرمائی اور جب قباء کے مقام پر پہنچے تو عمار یاسر پیغمر اکرم (ص) کی خدمت حاضر ہوا اور پیغمر اکرم (ص) کے لیے سایہ بنایا اور ارد گرد سے پتھر اٹھاکر لایا تاکہ پیغمبر اکرم (ص) کے اطراف دیوار کھڑی کی جا سکے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے جمع شدہ پتھروں سے مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور عمار یاسر نے اس مسجد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اس طرح عمار یاسر نے روی زمیں پر پہلی مرتبہ مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے کا اعزاز اپنے نام کردیا۔ (4)
جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ پہنچے تو پیغمبر اکرم (ص) نے عمار یاسر اور حذیفہ بن یمان ایک روایت کے مطابق عمار یاسر اور مقداد کے در میان صیغہ اخوت جاری فرامایا اور کچھ زمین عمار کو عنایت فرمائی تاکہ عمار اس زمیں پر اپنے لیے گھر بنا سکے۔
ایک اور جگہ پر پیغمبر اکرم (ص) نے دس دینار میں کچھ زمین خریدی اور عمار یاسر سے فرمایا کہ وہ اس جگہ پر مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کے لیے مسجد بناے۔ (5)
عمار یاسر اپنی پوری قدرت کے ساتھ مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے ایک مرتبہ عمار اپنی پشت پر مٹی کا بار اٹھاکر لے آ رہا تھا پیغمبر کے ساتھ رو برو ہوا تو عمار نے کہ یا رسول اللہ یہ لوگ اپنے سے دو برابر مجھ پر سوار کرتے ہیں اور مجھے اذیت دیتے ہیں۔ رسول اکرم (ص) نے اپنے دست مبارک سے عمار کے جسم سے گرد و غبار صاف کرتے ہوے فرمایا کہ افسوس اے سمیہ کے بیٹے یہ لوگ تجھے نہیں مارینگے بلکہ ایک گمراہ قوم تجھے قتل کریگی۔ (6)
عمار یاسر اور اھل بیت (علیھم السلام)
عمار یاسر ایسی شخصیت ہے کہ جس کی اھل بیت (علیھم السلام) بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) سے محبت کسی سے مخفی نہیں ہے
عمار یاسر کو پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی زندگی میں ہی عمار کے والدین کی شفاعت اور بھشت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنائی۔اور عمار کو “الطیب المطیب” کہکر پکارا۔ (7)
اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ جو عمار سے دشمنی رکھتا ہے خدا اس سے دشمنی رکھتا ہے اور جو عمار کی بے حرمتی کرے خدا اس کو ذلیل و خوار کریگا۔ (8)
پیغمبر اکرم (ص) نے عمار کی فضیلت بیان کرتے ہوے فرمایا کہ بہشت علی، سلمان اور عمار کی مشتاق ہے۔ (9)
پیغمبر اکرم (ص) نے مزید فرمایا کہ لوگوں کو عمار سے کیا نسبت؟ عمار تو دشمنوں کو بھی بہشت لے جانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دشمن عمار کو آگ میں پھینکنا چاہتا ہے، یہی اچھے اور برے لوگوں میں واضح فرق ہے۔ (10)
عمار یاسر امیر المؤمنین امام علی (ع) کے دور خلافت میں رات کی تاریکی میں روشن چراغ کی طرح، کم ایمان اور عام فکر رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں نور ھدایت اور نور ایمان روشن کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور پیغبر اکرم (ص) کے فرمان کی پیروی کرتے ہوے “کہ پیغمبر اکرم (ص) نے عمار سے فرمایا تھا کہ اے عمار اگر سارے لوگ ایک طرف اور علی ابن ابی طالب دوسری طرف ہو تو تم علی ابن ابی طالب کا راستہ اپنالینا”ہمیشہ علی ابن ابی طالب کے شانہ بشانہ رہتے تھے. (11)
عمار یاسر خلیفہ دوم کے دور میں کسی قسم کے خطرے کی پروا کئے بغیر کھا کرتے تھے کہ اگر خلیفہ دوم کی وفات ہوئی تو میں علی ابن ابی طالب کی بیعت کرونگا۔ اپنے اس نظریہ پر عمل کرتے ہوے سب سے پہلے امام علی (ع) کی بیعت کی اور دوسروں کو بھی امام کی بیعت کی تبلیغ کرتے رہے۔ (12)
عمار یاسر کی فداکاری جنگ جمل اور صفین میں ان دونوں جنگوں میں عمار سپاہ امام کے سردار تھے سب پر واضح اور آشکار ہوئی۔
عمار یاسر معیار شناخت حق
عمار یاسر کہ جس نے پیغمبر اکرم (ص) سے “بیعت رضوان” کے زریعے اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (ص) خدمت اور ان کے حکم پر لبیک کہنے کے لیے ہمیشہ آمادہ رکھا اور حضرت علی ابن ابی طالب کی ھم رکابی میں جنگ صفین میں آٹھ سو صحابی پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ شرکت کر کے اسی زمانے کو ان افراد کے لیے کہ جن کو حضرت علی (ع) کی حقانیت پر شک تھااور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے یہ واضح کردیا کہ حضرت علی (ع) حق پر ہے اور جو ان کے مقابلے آیا ہےوہ باطل پر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خزیمہ بن ثابت صحابی رسول کہ جو حق کی شناخت نہ ہونےکی وجہ سے جنگ جمل میں بلکل بے طرف رہے اور جنگ صفین میں بھی شک و تردد کا شکار تھے جیسے ہی صفین میں دشمن کے ہاتھوں عمار یاسر شہید ہوے تو پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کے مطابق “کہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ عمار کسی باطل اور گمراہ گروہ کے ہاتھوں شہید ہوگا” خزیمہ بن ثابت کو معاویہ اور ان کے حواریوں کا باطل پر ہونا ثابت ہوا اور فورا ہاتھ میں شمشیر اٹھایا اور دشمن سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں علی ابن ابی طالب کی ھم رکابی میں شھادت کا شرف حاصل ہوا۔ (13)
اسما بن خارجہ فزاری کہتا ہے کہ جنگ صفین میں زوال ظھر کے وقت میں عمار یاسر کے قریب بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور عمار سے کہا کہ ایک سوال ہے اکیلے میں پوچھوں یا یہیں سب کے سامنے پوچھوں؟ تو عمار نے کہا کہ جیسے مناسب سمجھو، تو اس شخص نے کہا کہ کل تک مجھے علی کی حقاینت اور معاویہ اور ان کے ساتھیوں کے باطل پہ ہونے پر کوئی شک نہیں تھا مگر جب سے طرف مقابل میں سے اذان اور نماز کی آواز آئی ہے میں شک میں مبتلا ہواہوں۔ یہی سوال حضرت علی سے پوچھا تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ عمار کو تلاش کرو اور ان سے اس سوال کا جواب طلب کرو۔
عمار یاسر نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی سربراہی میں جنگ بدر، احد اور حنین میں اسی سیاہ پرچم اٹھانے والوں کے ساتھ جنگ کی ہے کہ جو پرچم آج عمرو ابن عاص کے ہاتھ میں ہے۔ اور چوتھی مرتبہ آج اسی سیاہ پرچم کے مقابلے میں جنگ کررہا ہوں، میری نظر میں طرف مقابل کی حالت پہلے جنگوں کے طرف مقابل کی نسبت خراب نہ ہوئی ہے تو بہتر نہیں ہوئی ہے۔ اور آج ہمارا مقام بلکل وہی ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے پرچم کے سائے میں آنے والوں کا ہے اور اُن کا مقام اس زمانے کے مشرکین اور احزاب کے مقام کی طرح ہے اور معاویہ اور ان کے حواریوں کا خون، چڑیا کے خون کی طرح اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور کسی قسم کے شک و تردد کا شکار نہیں ہوں۔ (14)
جنگ صفین میں عمار یاسر کی شھادت نے دشمنوں کی صفوں میں طلاطم بر پا کیا۔ ابو عبد الرحمٰن سلمی کہ جو امیر المؤمنین کے ساتھیوں میں سے ہے کہتا ہے کہ جب عمار یاسر کی شہادت ہوئی تومیں رات کی تاریکی میں دشمن کی صفوں میں چلا گیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ عمار کی شہادت نے وہاں کیا اثر چھوڑا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ معاویہ عمرو ابن عاص، ابو اعور سلمی اور عبد اللہ ابن عمرو کے ساتھ ٹھل رہے تھے۔ میں نے سنا کہ عبداللہ ابن عمروابن عاص نے اپنے باپ سے کہا کہ آج ایک ایسے مرد کو مارا ہے کہ جس کی شان رسول اکرم(ص) نے بیان فرمایی ہے، عمروابن عاص نے پوچھا پیغمبر نے کیا فرمایا ہے؟ تو ان کے بیٹے نے کہا کہ کیا آپ اس وقت نہیں تھے کہ جب تمام مسلمان رسول اکرم کے حکم پر مسجد بنا رہےتھے اور سب ایک ایک پتھر اٹھا رہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو پتھر اٹھارہےتھے جس کے نتیجہ میں عمار بے ہوش ہوا تھا، اس وقت رسول اکرم(ص) عمار کے سرہانے آے اور عمار کے چھرہ سے مٹی کو صاف کیا اور فرمایا کہ افسوس ہے سمیہ کا بیٹا خدا کی خوشنودی اور قیامت کے ذخیرہ کے لیے دو دو پتھر اٹھاتا ہے مگر عمار ایک گمراہ قوم کے ہاتھوں مارا جایگا۔
عمرو ابن عاص یہ سنتے ہی معاویہ سے کہا”سن رہے ہو عبداللہ کیا کہرہا ہے”معاویہ نے لا علمی کا اشارہ کرتے ہوے سر ہلایا تو عمرو عاص نے دوبارہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث دہرائی تو معاویہ کو بہت غصہ آیا اور تحقیرانہ انداز میں کہا کہ اے بوڑے تم ابھی اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہو، تم کیا حدیث بیان کروگے؟ اس کے بعد کہا کہ کیا عمار کو ہم نے مارا ہے؟ نہیں ہم نے نہیں مارا ہے، بلکہ عمار کو اس نے مارا ہے کہ جس نے عمار کو جنگ میں لایا ہے یعنی اگر علی شام میں ہماری خلافت کی مخالفت نہ کرتے تو جنگ نہیں ہوتی اور اگر جنگ نہ ہوتی تو عمار مارا نہیں جاتا، پس عمار علی کی وجہ سے مارا گیا ہے. (15)
نادان لوگوں نے جب اس تجزیہ کو سنا تو اپنے خمیموں سے باہر آیا اور کہا کہ عمار کو اس نے مارا ہے کہ جس کی وجہ سے جنگ لڑی جارہی ہے۔
عمار یاسر کی زندگی کے آخری لمحات
عمار یاسر کو شہادت سے پہلے رسول اکرم (ص) کی بات یاد آئی کہ پیغمبر نے فرمایا تھا کہ اے عمار اس دینا میں تمہارا آخری غذا لسی ہوگی، عمار نے فورا لسی طلب کیا اور لسی پینے کے بعد وصیت کی کہ مجھے اسی خون آلود لباس میں ہی دفن کیا جاے پھر دشمن پر حملہ کیا اور شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوا۔
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) نے عمار یاسرپر نماز پڑھائی اوراس کے اپنے خون آلود لباس میں غسل کے بغیر صفین کے میدان میں دفن کیا۔ یہ افسوناک واقعہ سینتیسویں ھجری کے ماہ صفر کے آخر میں پیش آیا اور پیغمبر اکرم (ص) کے اس عظیم صحابی نے ایک صدی عمرِ با برکت گزارنے کے بعد دعوتِ حق کو لبیک کہتے ہوے جام شہادت سے سیراب ہوا۔ حضرت علی (ع) عمار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “رحم الله عمارا يوم اسلم, و رحم الله عمارا يوم قتل, و رحم الله عمارا يوم يبعث حيا”.
—————
حوالہ جات:
1-سير اعلام النبلإ, ج 1, ص 347 و 408.
2 ـ همان, ص 424.
3-مجمع الزوايد, ج 9, ص ;223
4. سيره ابن هشام, ج 2, ص 143.
5. البدء و التاريخ, ج 2, ص ;178
6. سيره ابن هشام, ج 2, ص 142
7. سنن ترمذى, ص 3798
8. ـ مستدرك حاكم, ج 3, ص 399.
9. رجال كشى, ش 58
10. تاريخ بغداد, ج 1, ص ;150
11. كشف الغمه, ج 1, ص 143, به نقل از مناقب خوارزمى
12. ـ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد, ج 2, ص 25 و ج 4, ص 8.
13. تهذيب الكمال, ج 21, ص ;225
14. واقعه صفين, ص 321.
. اعيان الشيعه, ج 8, ص 375
. تاريخ طبرى, ج 50, ص 41 و 40.
—————–
منابع
1. ابن هشام الحمیری، السیرة النبویة، ج۱، تحقیق: محمد محیی الدین عبدالحمید، مصر، مکتبة محمد علی صبیح وأولاده، ۱۳۸۳ق-۱۹۶۳م.
2. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج۹، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷-۱۹۷۷م.
3. ابن اثیر، علی بن احمد، أسد الغابة فی معرفه الصحابه، ج۴، بیروت، دارالمعرفه، ۲۰۰۱م.
4. ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ترجمه محمد حسین روحانی، تهران، اساطیر، چاپ اول، ۱۳۷۰ش.
5. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، بیروت، دار صادر، بیتا.
6. ابن قتیبه دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعه جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
7. ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق و تعلیق: علی محمد معوض، عادل احمد عبدالموجود، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق./۱۹۹۵م.
8. امین، السیدمحسن، اعیان الشیعة، ج۱۳، حققه واخرجه وعلق علیه حسن الامین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۲۰ق ـ۲۰۰۰م.
9. بلاذری، احمد بن یحی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق: محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۴ق-۱۹۷۴م.
10. حرزالدین، محمد، مراقد المعارف، قم، منشورات سعید بن جبیر، ۱۹۹۲م.
11. خامهیار، احمد، «زیارتگاههای اهل بیت و اصحاب در سوریه»، وقف میراث جاویدان، شماره ۷۶، سال ۱۳۹۰
12. شهابی، محمود، ادوار فقه، تهران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۶ش.
13. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
14. طوسی، محمد بن حسن بن علی بن حسن، الأمالی، تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیة – مؤسسة البعثة، قم، دار الثقافة للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۱۴ق.
15. قائدان، اصغر، اماکن زیارتی سیاحتی سوریه، تهران، نشر مشعر، ۱۳۸۰ش.
دیدگاهتان را بنویسید