تازہ ترین

فکر مطہر اور معارفِ ماہِ محرم الحرام

ہم سب کو پتہ ہے کہ عزاداری کافلسفہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سفارشات کے مدنظر امام حسین علیہ السلام کی یاد کو ہر سال زندہ رکھنا،اس کی تربیتی پہلو کی وجہ سے ہے،اس لئے کہ اس عظیم واقعہ میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا تاریخی درس ہے۔
شئیر
12 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10218

فکر مطہر اور معارفِ ماہِ محرم الحرام
انتخاب: نصراللہ فخرالدین
محرم قیام حسینی کے اہداف ومقاصد کو سمجھنے، دنیا تک پہنچانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا مہینہ ہے۔ مبلغین، خطبا اور واعظین کی ذمہ داری ہے محرم الحرام میں معاشرے میں حسینی پیغام،مشن اور اہداف کو اپنی تقریر و خطابت کامحور قرار دیں اور امام حسین علیہ السلام کے فرامین اور سیرت کی روشنی میں اصلاح معاشرہ اور ابلاغ دین جیسے اہم ذمہ داری پر توجہ دیں۔ اپنے معاشرہ میں موجود خرابیوں، انحرافات اور مشکلات کو سیرت حسینی وسیرت زینبی کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی پاکیزہ سیرت سے الہام لیتے ہوئے ہم اپنے معاشرہ میں حق، اصلاح اور تبلیغ دین کے عمل کو انجام دے سکیں۔
شہید مطہریؒ کا شمار بھی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سیرت ائمہ اور امام حسین ؑکے قیام کو گہرائی سے سمجھا اوراسی تناظر میں اپنے معاشرہ میں اصلاحی انقلابی کردار ادا کیا۔شہید مطہریؒ نے قیام امام حسین ؑ کے حوالے سے انتہائی گراں بہا میراث ہمارے درمیان چھوڑا ہے جس سے آشنائی ہمارے معاشرے کے افراد کے لئے انتہائی مفید و موثر ہے۔ زیر نظر مجموعے میں فکر مطہر جلد نہم و دہم سے قیام امام حسین سے متعلق شہید مطہریؒ کے افکار کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ امید ہے اس مجموعہ کے مطالعہ کے بعد قارئین اپنے تعمیری وتنقیدی آراء سے مستفید کریں گے۔
افکار شہید مطہری
ہر سال عاشورا منانے کا مقصد کیا ہے؟ ہر سال کیوں منایا جائے؟؟
اگر ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ آخر یہ عاشورا کیا ہے؟
آپ لوگ ہر سال عاشورا مناتے ہو، اور حسین حسین کرتے ہو، اپنے سروں کو پیٹتے ہو، آخر کیا کہنا چاہتے ہو؟
جواب میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ہم مولا حسین علیہ السلام کا پیغام چاہتے ہیں، ہم ہر سال حیاتِ نو چاہتے ہیں۔ گویا عاشورا ہماری تجدید حیات کا دن ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس کوثر حسینی میں اپنے آپ کو نہلاکر نئی زندگی حاصل کریں، اپنی روح کو کوثر حسینی سے پاک کریں، اپنے آپ کو زندگی بخشیں۔
ہم چاہتے ہیں اس دن اسلام کے بنیادی تصورات اور بنیادوں کو سیکھیں، اسلام کی روح کو اپنے اندر اتارنا چاہتے ہیں۔
ہم نہیں چاہتے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا احساس اور جھاد و شہادت کا احساس فراموشی کے سپرد ہوجائے۔جذبہ ایثار اور فداکاری کو اپنے اندر زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی فلسفہ عاشورا ہے!
آئمہ معصومین ؑ کی جانب سے مجلس برپا کرنے کے مقاصد
نہ یہ کہ گناہ انجام دے کر مجلس حسین علیہ السلام میں آئیں اور بخشے جانے کی امید رکھیں، گناہ اس وقت بخشے جائیں گے جب ہم روحانی( عملی) طور پر حسین علیہ السلام سے متمسک ہوں۔ اگر ہماری روح حسین ابن علی علیہ السلام کی روح سے تعلق پکڑ لے تو یقیناً ہمارے گناہ بخش دیے جائیں گے اور بخشنے جانے کی نشانی یہ ہے کہ دوبارہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں، اور اس صورت میں ہم حسینی کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے۔ جب حسینی بن جائیں گے تو روح حسین بن علی علیہ السلام کی تجلی ہمارے وجود پر منعکس ہوگی اور ہم گناہوں کے قریب بھی نہیں بھٹکیں گے۔
لیکن اگر گناہ کے مرتکب ہوجائیں اور دوبارہ مجلس حسین علیہ السلام میں ( اسی آلودہ روح کے ساتھ) جائیں تو گویا ہم صحیح معنوں میں حسین علیہ السلام سے منسلک نہیں ہو سکے۔(حماسہ حسینی جلد 1 صفحہ 175)
امام حسین علیہ السلام پر رونے کامقصد
امام حسین علیہ السلام پر رونے کامقصد حق پرستی اور ظلم سے مقابلہ کے احساس اور جذبات کوصیقل کرنا ہے اور اسے تیار کرنا ہے۔
مقصد لوگوں کے جذبات کو حق وباطل کے لئے سخت،ہوشیار اور غیرت مند بنانا ہے کہ جب بھی وہ امام حسین علیہ السلام کی طرح گرفتار بلا ہوجائیں تو اپنے مولیٰ کے راستے پر چل پڑیں،یزید اور ابن زیاد۔۔۔ کے راستہ کو چھوڑ دیں،نور اور ظلمت دنیا میں ہمیشہ رہتے ہیں،اس میں ہمیشہ موسیٰ اور فرعون رہے ہیں،ہمیشہ ابراہیم اور نمرود پائے گئے ہیں،ہمیشہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اور ابووجہل ٹکرائے ہیں،امام علی علیہ السلام اور معاویہ مدمقابل ہوئے ہیں،ہمیشہ امام حسین علیہ السلام اور یزید کاسامنا ہو ہے،اب اگر کوئی حضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ،حضرت محمد مصطفیٰ،حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت امام حسین علیہم السلام کا ہم رتبہ نہ ہوتونہ رہے،اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
مقصد یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگ ہوں جو ان کے ہم رتبہ ہوں،بلکہ مراد یہ ہے کہ ہمیشہ دوراستے اور دو قسم کے طور طریقہ رہے ہیں۔لہذا لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کی خصوصیات کو دیکھ کر مختلف طریقوں کو جانیں اور راستوں کوپہچانیں،وہ جان جائیں کہ اس وقت امام حسین علیہ السلام نے کن حالات اور شرائط میں قیام کیاتھا۔۔۔۔اس کے بعد اپنے زمانے کو دیکھیں،اپنے اعمال،کردار اور روش کو مدنظر قرار دیں،کہ اگر اس وقت امام حسین علیہ السلام ہوتے توکیاکرتے؟(فکر مطہر جلد دہم تاریخ اسلام۔2/ص۔113۔114)
مجالس کی برپائی سے ائمہ معصومین علیہم السلام کامقصد
ہم سب کو پتہ ہے کہ عزاداری کافلسفہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سفارشات کے مدنظر امام حسین علیہ السلام کی یاد کو ہر سال زندہ رکھنا،اس کی تربیتی پہلو کی وجہ سے ہے،اس لئے کہ اس عظیم واقعہ میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا تاریخی درس ہے۔
ایک جوان نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ کام ضروری ہے یا اس میں کوئی فائدہ ہے یا ایسا کچھ بھی نہیں ہے؟ اگر فلسفہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک زندہ رہے تو کیا اس کے لئے امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے؟
میں نے جواب دیا : ہاں ایسا کرنے کے لیے ہمیں ائمہ معصومین نے حکم دیا ہے،اس حکم کااپنا فلسفہ اور اپنی حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر مذہب ومکتب جس میں عاطفہ اور احساس کا عنصر نہ ہو بلکہ وہ خالص فلسفہ وفکر اور آئیڈیالوجی پر استوار ہو،وہ لوگوں کے دلوں میں زیادہ اثر نہیں کرسکتا ہے اور اس کی عمر کم ہوتی ہے،لیکن جس مکتب میں احساس کی چاشنی ہوتی ہے،اس میں جان دوبالا ہوتی ہے،اسے حرکت میں لاتی ہے،ایک مکتب کامنطقی ہوناحکمت پر استوار ہونا،اسے زندہ رکھتا ہے،اسے منطقی بناتا ہے،اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی تحریک بھی منطقی ہے اور حکمت پر استوار ہے،جس کاجاننا ہمارے لئے ضروری ہے،اگر ہم مکتب حسینی علیہ السلام کو مکتب فکری کے عنوان سے پہچنوائیں تو اس کی چاشنی ختم ہوجائے گی بلکہ وہ بھی دیگر مکاتب فکر کی طرح کہنہ اور قدیمی ہوجائے گا۔
یہ ایک بہت بڑی اور گہری بات ہے،ایک دور اندیشی ہے جو فوق العادہ عجیب اور معصومانہ ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس چاشنی اور حلاوت سے دور مت ہونا؛ یعنی احساسات کی چاشنی،امام حسین علیہ السلام کی مصیبت یاامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی مصیبت یا امام حسین یا دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی مصیبت یاحضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مصیبت،چاشنی ہے جس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
کیوں ائمہ معصومین علیہم السلام نے امام حسین علیہ السلام کی مجلسوں اور عزاداری کو زندہ رکھنے کی تاکید کی ہے؟؟
ائمہ معصومین چاہتے تھے کہ دنیا میں مکتب حسینی باقی رہے،امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک مکتب(یعنی باطل کے خلاف حق کے قیام) کی صورت میں باقی رہے؛ ورنہ ہمارے رونے یانہ رونے سے سے امام حسین علیہ السلام کو کیافائدہ ہونے والا ہے؟یاہمیں کیافائدہ ہوگا کہ ہم جمع ہوکر گریہ وزاری کریں اور پھر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں؟
ائمہ معصومین چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک مکتب اور مشعل فروزاں کی مانند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید باقی رہے،یہ حق وحقیقت سے دوستی اور حقیقت پسندی کا ایک چراغ ہے،یہ حق طلبی، آزادی، اور حریت کی آواز ہے،یہ آزادی کامکتب ہے،ظلم وستم کے خلاف قیام کامکتب ہے،اسے ہمیشہ زندہ رہنا ہوگا،یہ سفارشات خود ائمہ معصومین علیہم السلام کے دوران حیات میں صادر ہوئی ہیں جس کے باعث اس وقت بھی قیام ہوئے،انقلاب آئے اور بیداری پیداہوئی،امام حسین علیہ السلام کانام ظلم وستم کے خلاف شعار میں بدل گیا،اس کی برکت سے انقلابی شعرا وجود میں آئے،کمیت اسدی پیدا ہوئے،دعبل خزاعی پیداہوئے۔(فکر مطہر جلد دہم تاریخ اسلام۔2/ص۔96۔98)
منبر اور امام حسین علیہ السلام کامرثیہ
منبر،منبر حسینی بن چکا ہے ،یہ منبر لوگوں کے دلوں میں سما چکا ہے،امام حسین علیہ السلام کی محبت اور جاذبیت لوگوں کو مجلسوں میں کھینچ کر لاتی ہے، جب بھی کالا پرچم یعنی علم نصب کردیا جاتا ہے تو کچھ لوگ ضرور اس علم کے تلے اکھٹا ہوجاتے ہیں
ضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے ماڈرن ثقافت کی اچھائیوں اور برائیوں کو نہایت دقت،عالمانہ اور روشن فکری کے ساتھ بیان کیاجائے اور انہیں سماج کی اہم ذمہ داریوں جیسے الیکشن وغیرہ میں ان کی کارکردگی کی طرف توجہ دلائی جائے۔امام علیہ السلام کاجملہ” وتوقیفہم علی مااراد من مصلحۃ دینھم ودنیاھم” ہزار جملوں کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔
بہرحال کہنے کامقصد یہ ہے کہ ان ایام میں لوگوں کے دینی اور دنیوی مسائل کو بیان کیاجائے،ایسی سفارشات کے ہوتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ ایک مقرر اور خطیب کس قدرخبیر،بصیر،دینی اور دنیوی مصلحتوں سے واقف ہونا چاہیے،نہ یہ کہ کوئی بھی شخص کافی فہم وشعور رکھے بنا اور یہ سمجھے بنا کہ ثقافت کیا ہے،اس کے اثرات کیا ہیں،اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں،بلکہ اس نے اپنی زندگی چونکہ دیکھا ہے کہ منبروں سے بعض لوگ ثقافت کی برائی کرتے ہیں،وہ بھی منبر پر پہنچنے کے بعد ثقافت اور اس کے طرف داروں کو اپنی لعنت وملامت کانشانہ بنائے اور ان کی برائی کرئے۔
پس اس مقام پر اس بات کو اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے کہ ہر انسان اپنی علمی تونائی کے مطابق لوگوں کو دینی اور دنیوی مصالح اور مفاسد سے آگاہ کرئے اور جن مسائل میں اسے آشنائی نہیں ہے،اس کے حدود سے واقف نہیں،اس میں دخالت نہ کرئے کہ ایسی دخالتیں جبران ناپذیر نقصانات کاپیش خیمہ ہوتی ہیں۔(فکر مطہر جلد دہم تاریخ اسلام۔2/ ص104۔106)
اسلام کی حیاتِ نو
امام حسین نے اپنی جاں بازی سے اسلام کو حیات نو عطا کی اور اپنا خون نثار کرکے اسلام کے درخت کی آبیاری کی۔
امام حسین علیہ السلام،اسلام کی اخلاقی وسماجی حیات نو کے لحاظ سے اسلام میں ایک بے مثال منبع وسرچشمہ ہیں اور اسی طرح انقلابی اور حماسی جذبات کو ابھارتے نیز شخصیت سازی اور شخصیت کو کمال عطا کرنے والی ہستی کی حیثیت سے عدیم المثال ہستی ہے۔
اگر کسی قوم کے درمیان کوئی چیز مفقود ومعدوم ہوجائے تو اس کی تلافی کاامکان پایا جاتا ہے لیکن اگر اس کی قومی شجاعت اور قومی روح کاخاتمہ ہوجائے تو قوم ہی ختم ہوجاتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اسلامی حماسہ وشجاعت کی تخلیق کرکے اسلام کو حیات نوبخشی ہے۔
کہتے ہیں امام حسین نے اسلام کو زندہ کیا،حیات نو عطا کی،اپنے خون سے طاقت وقوت بخشی اور اس آبیاری کی،یہ سچ ہے لیکن کیسے اور کس طرح سے؟اس طرح سے کہ انہوں اسلامی حماسہ وشجاعت کوزندہ کیا،روحوں کو شخصیت وغیرت،حریت پسندی ومثالی حیثیت عطا کی اور خون میں جوش بھرا ،جسموں سے سستی کاخاتمہ کیا اور روحوں میں حرکت وروانی عطا کی اور کفر وظلم سے نبرد آزمائی کاسلیقہ سکھایا۔ (فکر مطہر جلد نہم،تاریخ اسلام۔1 ص281/282)
امر بالمعروف کی منزلت بڑھانا
تحریک حسینی نے اپنی اصلی قدر ومنزلت کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے حاصل کیا ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے عنصر نے تحریک حسینی کی قدر ومنزلت کو بڑھایا ہے تاہم امام حسین علیہ السلام نے بھی امر بالمعروف کو منزلت بخشی ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نے تحریک حسینی کی قدروں کو دوچنداں کیا تو امام حسین علیہ السلام نے بھی اس کا اس طرح سے نفاذ کیا کہ اس کی شان میں اضافہ ہوگیا۔امام علیہ السلام نے اس امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے سرپر افتخار کا تاج رکھ دیا ہے یا کہنے کو توبہت سے لوگ کہا کرتے تھے ہیں کہ ہم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں،امام حسین علیہ السلام نے بھی دوسروں کی طرح پہلے صرف اتنا فرمایا کہ: “ارید ان آمر بالمعروف وانھی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی” میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اپنے جد اور بابا کی سیرت پر چلنا چاہتاہوں۔
خود اسلام کو بھی یہی حال ہے ہر مسلمان کے لئے اسلام باعث فخر ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے مسلمان بھی ہیں حقیقی معنی میں اسلام کے لئے باعث فخر یعنی “فخر الاسلام” ہیں،”دین کی عزت ہیں””دین کا شرف ہیں””اسلام کا شرف ہیں”،اس طرح کے اتفاقات یعنی فخر الاسلام،عز الدین،شرف الدین اور شرف الاسلام جیسے القابات سے ہم بہت سے لوگوں کو نوازا کرتے ہیں لیکن ہر کوئی اس کا حقدار نہیں ہوتا ہے۔
امام حسین کے متعلق برحق طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اصولوں کو عزت واقتدار بخشا اور مسلمانوں سے متعلق اس کے اصولوں کو قدر ومنزلت عطا کی، یہ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ اصل مسلمانوں کی عزت ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کو اہمیت ملتی ہے،یہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ قرآن مجید کی اس آیت کی عین تعبیر ہے: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر۔ (فکر مطہر جلد نہم،تاریخ اسلام۔ص294/296)
اسلام واخلاق کو مجسم کرنے والے عاشورا کے دوصفحات
عاشورا کا ایک صفحہ ایسا ہے کہ جس پر بشریت ناز کرتی ہے،ہم سانحہ کربلا کے صرف تاریک وسیاہ صفحہ کا ہی مطالعہ کیوں کرتے ہیں اور کربلا میں ہونے والے جرائم کا صرف چرچا کیوں کرتے ہیں؟ ہم صرف اس لحاظ سے کہ امام حسین پر ظالموں نے کیوں ظلم کیا؟ ہم جو نعرے لگاتے ہیں یالکھتے ہیں،ان کو عاشور کے صفحہ سیاہ ہی کیوں اخذ کریں؟ اس کے نورانی صفحہ کابہت کم مطالعہ کیاجاتا ہے حالانکہ اس حماسی داستان کے سینکروں روشن پہلو اس کے تاریک پہلو پر غالب وفائق آسکتے ہیں۔ ان کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے، لہذا ہمیں اعتراف کرنا پڑئے گا کہ امام حسین علیہ السلام پر ظلم کرنے والوں میں سے ایک ہم بھی ہیں کہ ہم ان کی تاریخ کے صرف ایک رخ اور پہلو کوپڑھتے ہیں اور دوسرے صفحہ اور پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے اصلی دشمن اور ظلم کرنے والے تو وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس عظیم تاریخ کو اس کے مقصد سے منحرف کردیا اور ان کے اقدام کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
تاریخ عاشورا کے دوصفحات ہیں:
1۔ایک صفحہ بالکل تاریک اور سیاہی پر مبنی ہے جس میں انسانیت کے بہت ہی عظیم بھیانک جرائم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جوکہ بے حساب ظلم اور بربریت سے بھرا ہوا ہے۔بنا برایں اس بھیانک داستان کے کردار ظلم،جرائم کے سرغنہ لوگ ہیں۔اس فہرست میں معاویہ کابیٹا،زیاد کابیٹا،سعد کابیٹا دیگر کچھ لوگوں سمیت،اس مجرمانہ داستان کے کردار میں شامل ہیں۔۔۔
2۔ دوسرا صفحہ۔۔۔ مثبت پہلو رکھتا ہے،سرگرم افعال ہیں کہ جس سے انسانیت کے ارتقاء وعظمت کی نشاندی ہوتی ہے،انسانی وقار وتکریم کی نشانی ہے،کہ جس میں حماسہ وشجاعت اور حق پسندی وحق پرستی کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، پھر اس لحاظ سے اس درخشاں صفحہ میں معاویہ وزیاد کے بیٹے کہانی کے سورما اور ہیرونہیں۔اس کہانی میں سورما اور ہیرو اولاد حضرت علی علیہ السلام ہیں،حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے حسین علیہ السلام ہیں،عباس ابن علی ہیں،حضرت علی کی بیٹی زینب ہیں اور صف اول کے کچھ فداکار لوگ ہیں کہ جن کے متعلق خود حسین ابن علی علیہ السلام کے ارشادات ہیں جو انہوں نے ان کی تعریف وقدر دانی میں بیان کئے ہیں۔ اور سب کو معلوم ہے کہ ان کے کلام میں کبھی مبالغہ یا غلط بیانی کاشائبہ تک نہیں پایا جاتا۔(فکر مطہر جلد نہم تاریخ اسلام۔2/ص۔283۔284)
عاشورا،مجسم اسلام
جب ہم اسلام کی جامعیت کی طرف نگاہ ڈالناچاہیں تو تحریک حسینی کی طرف بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہےے،ہمیں نظر آئے گا کہ امام حسین علیہ السلام نے پورے کے پورے اسلام کو کربلا میں عملی شکل میں پیش کردیا،اس کو اس طرح مجسم پیش کیا جوکہ زندہ وجاوید اور حقیقی تھا نہ کہ مردہ وبے جان مجسمہ،کہ یہ کوئی اتفاقی طور ہر وجود میں آیا ہوا واقعہ میں نہیں ہوسکتا،اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے اس واقعہ کو زندہ رکھنے کے لئے جو اتنی تاکید ونصیحت کی ہے اور واقعہ کربلا کو بھلانے نہیں دیا، اس کا راز یہ ہے کہ یہ واقعہ مکمل اسلام کی مجسم طور پر نشاندہی کرتا ہے،آپ لوگ بھی اس مکمل اسلام کے مرقع کو فراموش نہ ہونے دیں،واقعہ کربلا میں ہمیں عجیب مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں،اور یہ کہ اس واقعہ وسانحہ میں جو کردار مردوں،عورتوں،بچوں اور بوڑھوں نیز جوانوں نے ادا کیا ہے اس میں سیاسہ وسفید فام،عرب وغیر عرب اور مختلف طبقات کے سبھی لوگ شامل وحاضر اور موجود نظر آتے ہیں۔(فکر مطہر جلد نہم تاریخ اسلام۔1ص285)
سانحہ کربلا کے اسباق
واقعہ کربلا کاسب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دین طاقت ہے یاکمزوری؟قید وبند ہے یاآزادی؟نشہ ہے یاطقت فراہم کرنے والا؟
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو تیرہ سو برس سے زیادہ کاعرصہ گزر رہاہے پھر بھی دن بہ دن اس کی عظمت اور جلووں میں اضافہ ہوتا جارہاہے حالانکہ ہر دن ان کامقدس نام گرامی سننے کو ملتا ہے،پھر بھی تشنگی کااحساس ہوتا ہے گویا کہ یہ تشنگی بجھتی ہی نہیں ہے؟ آیت اس کی کیاوجہ ہے؟ایسا اس لئے ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا اپنا کوئی مفاد نہیں تھا،انہوں نے دین اور حق کے لئے انقلاب کیا،فداکاری انجام دی اور ایثار ودرگزر کی مثال پیش کی۔۔۔۔یہ ہے امام حسین علیہ السلام کی محبوبیت ومقبولیت کا راز: انسان اپنی طبع کی بنیاد پر کمال وفضیلت پسند ہے لہذا،فضیلت واخلاق وایثار اور فداکاری سے عشق کی حد تک لگاو اور دلچسپی رکھا کرتا ہے۔
حسین ابن علی نے ایثار وفدکاری،حق پرستی اور عزت نفس کی سب سے بڑی مثال پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ خدا کی خوشنودی اور دین کی عزت وناموس کے دفاع نیز ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کے لئے کس حد تک جنگ کیا جانا چاہیے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے حیرت انگیز ایثار وفداکاری کے ذریعہ اس وقت کے پورے عالم اسلام کو جو کہ خواب غفلت میں مبتلا تھا،جھنجوڑ کر بیدار کردیا اور بنی امہ کی بادشاہت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا، ان کا یہ عمل اور اقدام تدریجی طور پر ظلم وبے دینی کے خلاف تحریکوں اور کوششوں کے وجود میں میں آنے کا وسیلہ اور تمہید بن گیا۔(فکر مطہر جلد نہم،تاریخ اسلام۔1 ص304)

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *