تازہ ترین

قرآن اور روایات کی روشنی میں اچھےاور برے دوست کے انتخاب کے مثبت اور منفی اثرات

ایک حدیث میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اچھی ہم نشینی کی یوں فوائد بیان فرماتے ہیں :« جالِسِ الأَبْرارَ فَإنّکَ إنْ فَعَلْتَ خَیْراً حَمَدوکَ وَ إنْ أَخْطَأْتَ لَمْ یُعَنِّفوک ». نیک لوگوں کے ساتھ روابط رکھیں چونکہ اگر اچھا کام کرو گے تو یہ تعریف و تمجید کریں گے اور اگر برا کام کرو گے تو تمہاری سرزنش نہیں کریں گے۔
شئیر
71 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10214

قرآن اور روایات کی روشنی میں اچھےاور برے دوست کے انتخاب کے مثبت اور منفی اثرات
محمدیعقوب بشوی

انسانی سماج میں دوستی کی ضرورت اور اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے جس شخص کے زیادہ دوست ہونگے وہ زیادہ بااثر شخص ہے اور اجتماعی امور میں زیادہ فعالیت دکها سکتا ہے۔دوستی کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہی حدیث کافی ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : التَّودُّدُ اِلَی الَّناسِ نصِفُ العَقلِ لوگوں سے محبت نصف عقل ہے۔
کبھی معاشرے میں کسی انسان کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسا ہے؟ تو اس حوالے سے ایک انتہائی اہم معرفتی اصول حضرت علی( علیه السلام)کے فرامین میں ملتا ہے:
«مَنْ إِشْتَبَهَ عَلَیْکُمْ أَمرُهُ وَ لَمْ تَعْرِفُوا دینَهُ فَانْظُرُوا إلی‏ خُلَطائِهِ فَإِنْ کانُوا أَهْلَ دینِ اللَّهِ فَهُوَ عَلی‏ دینِ اللَّهِ وَ إِنْ کانُوا عَلی‏ غَیْرِ دینِ اللَّهِ فَلا حَظَّ لَهُ مِنْ دینِ اللَّه» جب بھی کسی شخص کا حال تم پر پوشیدہ ہو اور اس کا دین معلوم نہ ہو تو اس کے دوستوں کی طرف دیکھو۔ اگر وہ لوگ دین خدا پر ہوں تو یہ بھی دین خدا پر ہوگا اور اگر اس کے دوست خدا کے دین پر نہ ہونگے تو اسے بھی دین سے کچھ نہیں ملا ہوگا۔ دوست کی شناخت کے حوالے سے یہ حدیث بہت اہم ہے ۔اسی طرح اچھے اور برے انسان کی ہم نشینی، انسان کی سعادت اور شقاوت میں گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔اس کی شخصیت پر اہم اثر چھوڑتی ہے اس کی زندگی کے ہر شعبہ اور مرحلہ پر دوستی کا ضرور اثر ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہم نشین کا انتخاب،انتہائی احتیاط سے کرے تاکہ عمر بھر کی پشیمانی سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )نے فرمایا:« اَلْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ وَ قَرِينِهِ»؛ ہر انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے. ۔اگر دوست و ہم نشین گمراہ ہو تو وہ خود بھی گمراہ بن جائے گا اور اگر دوست ہدایت پر ہو تو وہ خود بھی ہدایت پر ہوگا۔اسی حقیقت کی طرف امیرالمومنین حضرت علی( علیہ السلام)اشارہ کرتے ہوئےحارث ہمدانی کو جو خط لکھا، اس میں یوں ارشاد فرمایا : « وَاحْذَرْ صَحابَةَ مَنْ یَضِلُّ رَأْیُهُ و یُنْکَرُ عَمَلُهُ فَانَّ الصّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصاحِبِه » اے حارث جن لوگوں کی فکر سالم نہ ہو اور جن کا عمل برا ہو ان سے دوستی نہ رکھو کیونکہ انسان کی شناخت اور پہچان اس کے دوست سے ہوتی ہے ۔
دین برے لوگوں کے ساتھ روابط نہ رکھنے کی بہت تاکید کرتا ہے. کیونکہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی برے انسانوں سے روابط کی وجہ سے گمراہ ہوکر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے بد بخت اور جہنمی بن جاتا ہے اسی لئے قرآن مجید اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتا ہے تاکہ کل کی پریشانی سے پہلے ہی گمراہ لوگوں کی ہم نشینی سے دامن بچالے ورنہ ابدی رسوائی ملے گی: «یا وَیْلَتی لَیْتَنی لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلیلا» اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا. برے دوست کی دوستی کا اثر،تدریجی اور غیر محسوس ہے اس لئے اسے بچنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن بن جاتا ہے ۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
«لا تَصحَبِ الشَّریرَ فَانَّ طَبعَک یسرِقُ مِن طَبعِهِ شَرّاً وَ انتَ لا تَعلَم»
شرور لوگوں سے دوستی مت کرو، کیونکہ تیرا مزاج شرارت کو اس کے مزاج سے چوری کرےگا۔اور تو جانئے گا بھی نہیں کہ یہ مزاج میں تبدیلی کیسے اور کہاں سے آگئی!
انتہائی مخفیانہ طور پر برے اثرات کا ظہور انسان کے جسم و جان پر ہوگا اور انسان غیر ارادی طور پر برائی اور مجرمانہ کاموں کا مرتکب ہوگا:«الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ» برے دوست کی دوستی کا ضرر ،دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی اپنے آپ کو ظاہر کرےگا اسی حقیقت کو قرآن نے اس آیت میں بیان کیا ہے۔قیامت کے دن ساری دوستی،دشمنی میں بدل جائےگی دوست، دوست کا نہ کوئی کام آئے گا بلکہ ایک دوسرے کا دشمن بن جائے گا ۔اگر کسی کی دوستی اس دن کام آئے گی تو وہ صرف متقین اور نیک لوگوں کی دوستی ہے۔
برے انسان سے دوستی اور اس کی صحبت، انسان کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تشخیص کو کمزور کر دیتی ہے. اور برے کاموں کو شیطان زینت دے کر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے۔برے انسان کی قربت اور اس کی ہم نشینی
ننگی تلوار کی طرح ہے جو کسی بھی لمحے، مالک کا ہی گلہ کاٹ سکتی ہے۔اس بارے میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں «ایّاکَ وَ مُصاحَبَةَ الشَّرِیرِ فَانَّهُ کالسیَّفْ الْمَسْلُولِ یَحْسُنُ مَنْظَرُهُ و یَقْبُحُ أَثَرُه» شریر دوست سے بچو کیونکہ یہ ایسی ننگی تلوار کی طرح ہوتا ہے جس کا ظاہر بہت خوب صورت ہوتا ہے اور زخم بہت برا ہوتا ہے۔اس روایت میں لفظ «ایاک» آیا ہے جو کسی اہم اور مقدر ساز، موضوع کی طرف انسان کو متوجہ کرنے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔لفظ ایاک کے بعد والے جملے زیادہ توجہ طلب ہوتے ہیں۔دوستی اور انتخاب کا تعلق انسان کے مقدر اور اس کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے مولا امیرالمومنین حضرت علی(علیہ السلام )کلمہ ایاک کے ساتھ شریر اور برے افراد کے ساتھ دوستی کے خطرات سے معاشرے کو آگاہ فرما رہے ہیں کہ ہرگز ایسے لوگوں کو دوست نہیں بنانا چاہیے ورنہ ان کے شر سے محفوظ رہنا مشکل ہوجائے گی ۔برے دوست سب سے پہلے انسان کے ایمان اور عمل پر حملہ کرتے ہیں اور اس کی روح کو آلودہ اور فکر کو فاسد بنا دیتے ہیں ۔اسی لئے ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
تا توانی بگریز از یار بد یار بد بدتر بود از مار بد
مار بد تنها تو را بر جان زند یار بد بر جان و بر ایمان زند
یعنی جہاں تک ہوسکے برے دوست سے بچو کیونکہ برا دوست، برے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، برا سانپ، صرف تجهے جان سے مار دے گا لیکن برا دوست تیری جان کو بهی مارے گا اور تیرے ایمان کو بهی مارےگا ۔
ایک اور جگے پر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام برے انسان کی دوستی کے منفی ااثرات کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: «مُجالَسَةُ اهْلِ الْهَوی مَنْسَأَةٌ لِلإیمانِ وَ مَحْضَرَةٌ للِشَّیطانِ » دنیا پرستوں کے ساتھ دوستی انسان کو ایمان سے دور کرتی ہے اور شیطان کے قریب کرتی ہے۔
دین نے انسان کو اچھے دوست انتخاب کرنے اور برے دوستوں سے اجتناب کی تلقین کی ہے. اچھے انسان، برائی سے روکنے والے اور نیکی کی طرف ہدایت کرنے والے ہوتے ہیں۔
ایک حدیث میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اچھی ہم نشینی کی یوں فوائد بیان فرماتے ہیں :« جالِسِ الأَبْرارَ فَإنّکَ إنْ فَعَلْتَ خَیْراً حَمَدوکَ وَ إنْ أَخْطَأْتَ لَمْ یُعَنِّفوک ». نیک لوگوں کے ساتھ روابط رکھیں چونکہ اگر اچھا کام کرو گے تو یہ تعریف و تمجید کریں گے اور اگر برا کام کرو گے تو تمہاری سرزنش نہیں کریں گے۔
اللہ تعالی سے دعا !
ہے کہ ہم سب کو اشرار اور برے افراد کے شر اور صحبت سے محفوظ رکھے اور دنیا و آخرت دونوں میں نیک لوگوں کی صحبت نصیب فرمائے هماری عاقبت ختم بخیر ہو(آمین)
حوالہ جات
1 تحف العقول، ص 443
2 بحارالانوار، ج74، ص 197.
3 وسائل الشیعۃ، ج 11، ص 506.
4 نہج البلاغہ، خط 69.
5 سورہ فرقان، آیت 28.
6 شرح ابن ابی الحديد، ج 20، ص 272
7 سورہ زخرف، آیت 67.
8 بحارالانوار، ج 74، ص 198.
9 میزان الحکمہ، ج 2، ص 63.
10 تنبیہ الخواطر، ج 2، ص 122.

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *