تازہ ترین

قریشی صاحب” ایران اور پاکستان کی دوستی پرانی ہے/ تحریر: محمد حسن جمالی

سچائی کے ثبوت کے لئے بیان اور عمل کی مطابقت ضروری ہے ـ سیاسی اور اجتماعی زندگی میں لوگوں کے دعوے کو مبنی بر صداقت تب قرار دے سکتے ہیں جب ان کا عمل بیان کا مخالف نہ ہو ـ اسی طرح سرکاری سطح پر کسی ملک کے حکمران اور ذمہ دار افراد کے بیانات کی صداقت ثابت کرنے کے لئے جانچنے کا معیاران کا عمل ہے ،اگر وہ بولیں کچھ عملا کچھ اور کر دکھائیں، ان کا عمل ان کے قول کی تصدیق نہ کرے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے نہیں، بلکہ وہ اپنی قوم کو دھوکا دے رہے ہیں، وہ عوام کو جھوٹ کا سہارا لیکر بے وقوف بنارہے ہیں، وہ خاص وعام کو فریب دے کر اپنے مفادات حاصل کررہے ہیں ـ

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5280

جب ہم اسی تناظر میں دو ہمسایہ ملک ایران اور پاکستان کے تعلقات کو دیکھتے ہیں تو نظر آتے ہیں کہ ان کے درمیان دیرینہ دوستی کے تعلقات کا رشتہ قائم ہے، ان کی شخصیات کی ہمیشہ کوشش یہ رہی ہے کہ آپس میں کوئی کدورت اور دشمنی پیدا ہی نہ ہو، ہر دور میں ان دو ملکوں کی خواہش یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے تحفظ کا مکمل خیال رکھیں، ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہوجائیں ،ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کریں، البتہ اس حوالے سے حکمرانوں سے کمی کسری اور کوتاہیاں بھی ہوتی رہی ہیں ، جیسے اسلامی خطوط پر تربیت کے فقدان کے سبب پاکستانی حکمرانوں کی اکثریت استعماری قوتوں کے اشارے پر ناچنے میں اپنی عافیت تلاش کرتی رہی جس سے ہمسایہ ملک ایران کی دوستی پر منفی اثر پڑا ـ امریکہ اور اسرائیل نے سعودی عرب کو اپنے مفادات کا محافظ بنایا اور اس کے ذریعے پاکستان اور ایران کے تعلقاب خراب کروانے کی بھرپور کوششیں کرتے رہے، سعودی عرب ہی کا کندھا استعمال کرتے ہوئے شام ،عراق اور یمن میں امریکہ نے مسلمانوں پر جنگ مسلط کی ،ان کی جان مال اور ناموس کی عزت سے کھیلا، انہیں قتل عام کروایا، ہدف فقط یہ تھا کہ ایران کے اطرافی ممالک میں خوف ودہشت پھیلا کر ایران کو ڈرایا جائے ، امریکہ نے سوریہ میں داعشی درندوں کو چھوڑ کر انسانیت کے خلاف ہر ممکنہ کام کروایا، سعودی عرب کے مولویوں اور مفتیوں کی زبان سے جہاد النکاح کے فتوے نکلوائے ، جس کے نتیجے میں بے شمار بنت حوا کی عزتیں خاک میں ملوائیں،
تاریخ گواہ ہے کہ آل سعود نے ریال کے ذریعے پاکستانی حکمرانوں کو ایران کا مخالف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کی سرزمین پر سعود آل یہود نے تکفیری مدارس کا جال بچھایا، جن میں وسیع پیمانے پر دہشتگردوں کی تربیت ہوتی رہی ، انہی مدارس سے فارغ ہونے والوں نے کھبی طالبان کے نام سے تو کھبی القاعدہ اور داعش کے نام سے کلمہ گو مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہے، دہشتگردی کی آگ میں بے گناہ پاکستانی شہریوں کو جلاتے رہے، لاتعداد مسلمان مرد، عورت، بچوں اور بوڑھوں کو بغیر جرم وخطا کے قتل عام کرتے رہے ـ
پاکستان میں شدت پسند طالبان اور داعش کے ہاتھوں 50ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی مارے گئے ۔ تکفیری اور سلفی گروہ کی تبلیغات سے متاثر ہوکر مقدس مقامات مساجد اور امام بارگاہوں میں خودکش حملہ کرکے بہت سارے جوان اور نوجوانوں نے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کے ساتھ بے شمار مسلمانوں کو نماز اور عزاداری جیسی عظیم عبادات کی حالت میں ابدی نیند سلادیا گیا ، پاکستان کی سرزمین پر اس ناسور ٹولے کی دہشتگردی میں سب سے ذیادہ پاراچنار، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے ہزارہ مؤمنین شھید ہوئے ہیں ـ تکفیری گروہ نے بلوچستان میں ایران جانے والے زائرین کی بسوں کو راستے میں روک کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا گیا، مختلف ذرائع کی اطلاعات کے مطابق تکفیری ٹولے کی جانب سے کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی پر اب تک 180 حملے ہو ئے ہیں جن میں ہزاروں افراد شہید اور ہزاروں معذور ہو گئے۔۔ بلوچستان راستے میں زائرین کے ساتھ ہونے والا دردناک واقعہ گلگت بلتستان کے بے گناہ مومن مسافرین کے ساتھ بھی پیش آیا ـ تین اپریل 2012ء کو چلاس کے مقام پر اسکردو جانے والی بسوں کو اسلحہ بردار دہشتگردوں نے دن دیہاڑے روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر ایک درجن کے قریب شیعہ مسافروں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس دوران دہشتگردوں کے سہولتکاروں کا جم غفیر بھی پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ آور ہوا، اس کے علاوہ انہی درندوں نے بہت سوں کو شہروں سے اٹھاکر لاپتہ کیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ـ کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں سے آج بھی تکفیری ٹولے غریب لوگوں کو اغوا کرکے لاپتہ کررہے ہیں ـ یہ ایسے شرمناک المیے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان اور دین اسلام بدنام ہونے کے علاوہ یہ پاکستان کی ساکھ گرانے کا باعث بھی بن رہے ہیں ـ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کے جان سوز واقعات اور سانحات آل سعود کی ایماء سے رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ہمارے نااہل ذمہ دار افراد میں بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے اصل دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں تک رسائی حاصل کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنے آقا سعود آل یھود کے اشارے سے دہشتگردی کے واقعات کا الزام ایران پر لگا کر دنیا والوں کی نظروں میں اسے حقیر اور بدنام کرنا چاہتے ہیں ـ جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اپنے برادر ملک ایران کی دعوت پر ایران کے دورے پر نکلنے کی تیاری کرتے ہیں ، یہ خبر سن کر آل سعود کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھتا ہے اور وہ فوری طور پر امام کعبہ کو پاکستان روانہ کرتے ہیں ـ امام کعبہ تشریف لاتے ہیں اور سلفی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں سے ملاقات کرتے ہیں ـ جس کے بعد کوئٹہ کے در ودیوار ایک بار ہزارہ برادری کے خون ناحق سے رنگین ہوتے ہیں اور اوڑماڑہ کا دلخراش واقعہ پیش آتا ہے ، پھر 19 اپریل کو شاہ محمود قریشی پریس کانفرس کرتے ہیں جس میں کھل کر وہ یہ بتاتے ہیں کہ اورماڑہ حملے کا ذمہ دار ایران ہے ، کیونکہ حملہ کرنے والے دہشتگرد ایران سے آئے تھے ـ انہوں نے اپنا یہ بیان اورماڑہ حملے کے چند گھنٹوں کے بعد جاری کیا ۔ قلمکار سید احسن شاہ نے اپنی ایک تحریر میں اس حوالے سے کیا پیارا دلنشین حقیقت پر مبنی جملہ لکھا ہے : آپ کو قریشی صاحب وہ “چھوٹا طوطا ”نظر آئیں گے جو بغیر سوچے سمجھے نیتن یاہو اور عادل الجبیر کے بیانات دہرا رہا ہے۔ فرق محض چند ہفتوں کے وقت کا ـ معروف دہشتگرد لدھیانوی کے چہیتے قریشی کا فوری پریس کانفرس کرکے غلط بیانی کرنے کا مقصد ایران اور پاکستان کو آپس میں متنفر کرواکر وزیر اعظم عمران خان کو ایران کے دورے سے روکنا تھا، مگر قریشی سمیت ایران دشمنوں کے عزائم خاک میں مل گئے ، عمران خان اپنے وفد کے ساتھ ایران کے دورے پر آئے ـ تہران میں ان کا پرتپاک استقبال ہوا ـ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ سمیت اعلی حکام سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی ـ رہبر معظم انقلاب اور صدر حسن روحانی سے دل کھول کر تبادلہ خیالات کئے ـ اس ملاقات کے دوران ایران اور پاکستان کے اعلی حکام نے زیلی اہم اور بنیادی نکات پر اتفاق کیا گیا ـ
۱ـ ہم اپنی دیرینہ دوستی کو کھبی بھی ختم ہونے نہیں دیں گے بلکہ ہم اہم اور حساس امور میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے
کیونکہ ہمارے درمیان تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہیں،
۲ـ دونوں ممالک کے سربراہان نے علاقائی سالمیت اور قومی خود مختاری کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا
۲ـ انسانی اسمگلینگ کی روک تھام اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مل کر اقدامات کریں گے ـ
۳ـ دونوں ممالک کا مشترکہ قونصلر کمیشن اجلاس بلانے کا اوربلوچستان میں نیا پاک ایران بارڈر کراسنگ سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا،
۴ـ دونوں ممالک نے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے اورسیاسی، فوجی اور سکیورٹی حکام کے وفود کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا گیا،
۵ـ دونوں ممالک نے تعلیم، سیاحت اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا، دانشور، فنکار اور آرٹسٹ پاک ایران دورے کریں گے۔
۶ـ دونوں ممالک میں صحت کے شعبے میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ـ
۷ـ پاکستان اور ایران میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ پر بھی اتفاق کیا گیا، معاشی، تجارتی اور کہا گیا اقتصادی فروغ کیلئے ہم مشترکہ اقدامات کئے جائیں گے، اس حوالے سے دونوں ممالک کا مشترکہ اکنامک کمیشن کا اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا، ۔
۸ـ ریاستی خود مختاری، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر بھی گفتگو کی گئی، بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
۹ـ پاک ایران قیادت نے ہر قسم کی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کی گئی، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششیں قابل تعریف قرار دیا گیا، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے علاقائی اور عالمی تعاون ضروری ہے، خطے میں ہر طرح کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔
۱۰ ـ وزیراعظم عمران خان اور ایرانی صدر نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کا آزاد اور خود مختار ریاست کا مطالبہ تسلیم کیا جانا چاہیئے، مسلم برادری کے الگ فلسطینی ریاست کے مطالبے کا احترام کیا جائے، دونوں ملکوں نے فلسطین کو آزاد ریاست قائم کرنے میں مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔
۱۱ـ وزیراعظم نے ایرانی صدر حسن روحانی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، جو انہوں نے قبول کر لی، دورے کی تاریخوں کا تعین سفارتی رابطوں کے بعد کیا جائے گا۔
اس بات میں شک نہیں ایران اور پاکستان کی دوستی پرانی ہے وہ ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں جو بھی ان کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی باتیں کرے وہ ایران اور پاکستان دونوں کا دشمن ہے آل سعود امریکہ واسرائیل کی ایما پر ایران کے خلاف جتنا بھی پریپیگنڈہ کریں اسے اپنی ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ اور نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں بقول شاعر:
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
مفکر پاکستان علامہ اقبال نے تو ایران کے بارے میں واضح الفاظ میں یوں پیشنگوئی کی تھی :
تہران ہوگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *