تازہ ترین

قم المقدسہ میں بین الاقوامی سِمِینار “شہدائے پاراچنار و غزہ” کا انعقاد

قم المقدس ایران میں شہدائے پاراچنار و فلسطین کی مناسبت سے ہونے والے سِمِینار میں مقررین نے حاضرین کو جہاد تبیین کی طرف دعوت دی۔ سِمِینار کا اہتمام پاکستانی علمائے کرام اور طلباء کی طرف سے کیا گیا تھا، سِمِینار میں حاضرین کا موقف تھا کہ پارہ چنار اور غزہ کا مسئلہ زمینی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی اقدار، دینی غیرت، اصول پرستی اور انسانی شرافت و غیرت کا مسئلہ ہے۔
شئیر
94 بازدید
مطالب کا کوڈ: 9571

قم المقدس ایران میں شہدائے پاراچنار و فلسطین کی مناسبت سے ہونے والے سِمِینار میں مقررین نے حاضرین کو جہاد تبیین کی طرف دعوت دی۔ سِمِینار کا اہتمام پاکستانی علمائے کرام اور طلباء کی طرف سے کیا گیا تھا۔ سِمِینار میں حاضرین کا موقف تھا کہ پارہ چنار اور غزہ کا مسئلہ زمینی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی اقدار، دینی غیرت، اصول پرستی اور انسانی شرافت و غیرت کا مسئلہ ہے۔

ایران کے شہر قم المقدسہ میں اس عظیم الشان بین الاقوامی سِمِینار کا عنوان ” شہدائے پاراچنار و غزہ ” تھا ۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام الھی سے ہوا ۔ اس کے بعد ” میں ان کے نام سے کرتا ہوں آغاز کلام وہ جن کے نام فرشتوں نے بھی سنبھل کر لئے ۔ اس شعر کے ساتھ سٹیج سیکرٹری نے اپنے مہمانوں کو مخاطب کیا۔ہر مہمان کا چہرہ اداس اور دل سوگوار تھا۔ پارہ چنار اور غزہ کے حالات کا غم ہر باشعور انسان کو ہونا بھی چاہیے۔ مہمانوں میں بیت رہبری ، مختلف مراجع عظام کے نمائندے ، دیگر ممالک کے علماء و طلبا خصوصا پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان ، ایران ، ازبکستان ، بحرین اور افریقہ کے نمائندے موجود تھے ۔

اس موقع پر بحرین کے نمائندے شیخ عبد اللہ دقاق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاراچنار اور فلسطین دونوں دشمن کے محاصرے میں ہیں ۔ پاراچنار افغانستان کے قریب ایک حساس علاقہ ہے ۔ پاراچنار سے باہر جانے کیلئے صرف ایک راستہ ہے ۔ سازشی عناصر ہمیشہ تھوڑے عرصے کے بعد راستہ فورا بند کر دیتے ہیں جس کے باعث وہاں کے لوگ محصور ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ حقائق دنیا تک پہنچانا یوگا ۔ ہمیں جہاد تبیین کی ذمہ داری انجام دینی ہے اور لوگوں کو بتانا ہے کہ اس وقت مظلومین پاراچنار و فلسطین پر کیا گزر رہی ہے ۔ ایسے میں ہم لاتعلق نہ رہیں بلکہ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم دعا تو کر سکتے ہیں ۔ شیخ عبداللہ دقاق کا مزید کہنا تھا کہ مقاومت کیلئے تین چیزیں اہم ہیں ایک ہدف ، دوسرے ایمان ، اور تیسرے جرت و اقدام ۔ آج اگر آپ حماس کو دیکھیں تو اس وقت وہ ان تین اصولوں پر عمل پیرا ہے ۔ ایران کو دیکھئے ، امام خمینی نے ظلم کے خلاف قیام کیا ۔ امام کے سامنے دو راستے تھے آزادی یا موت ۔ ایران کے غیور و بابصیرت عوام کا نعرہ تھا کہ شہادت ہمارے لیئے باعث افتحار ہے مر سکتے ہیں لیکن اپنے ہدف اور راستے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ جس قوم کا رہبر شجاع ہو وہ قوم بھی بہادری میں بے مثال ہوتی ہے ۔ امام نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ شاہ کو ہر صورت جانا ہے کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔ یہی جذبہ ہمیں کربلا سے ملا ہے ۔ دنیا بھر کے مومنین سیرت ابا عبداللہ پر چل کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ ہمارے رگوں میں محبت اہلبیت کا خون جاری ہے ۔ جو دشمن سے برداشت نہیں ہورہا ، پاراچنار کے حالات کو الگ رنگ دے کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ زمینی تنازعات کا نام دے کر اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پاراچنار کا جرم فقط محبت اہلبیت ہے ۔

پاراچنار سے تعلق رکھنے والے عالم دین علامہ ثواب علی نے حاضرین کو بتایا کہ ہمارے نزدیک دین اسلام کے دو پَر شیعہ و سنی ہیں ۔ اگر ایک پَر کو نقصان پہنچا تو پرواز میں خلل پیدا ہوگا ۔ ہم نے ہمیشہ اہل سنت کو اپنا بھائی قرار دیا ہے ۔ اہلسنت میں بھی امن پسند لوگ موجود ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر پارا چنار میں حالات کیوں خراب ہوتے ہیں ؟ کون سے عناصر اس کے پیچھے ہیں ؟ کون سے لوگ اس علاقے میں امن کے دشمن ہیں؟ ہمارے جوانوں کو کون ہے جو قتل کروا رہا ہے؟ کس کے توسط سے ایک تکفیری ٹولہ پورے پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو تنگ اور قتل کر رہا ہے؟ یہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی سرپرستی اور سہولتکاری کون کر رہا ہے؟ کھلے عام سوشل میڈیا پر اہل تشیع کے مقدسات کی توہین کرائی جا رہی ہے ان کے کلپ موجود ہیں ۔ ہمارے کئی جوانوں نے اپنی جان اہلسنت جوانوں کو بچاتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے میں اہلسنت کا کوئی قصور نہیں۔ جبکہ حکومتی پالتو درندوں ہمارے ان اساتذہ کو بھی شہید کر دیا جو اہل سنت کے بچوں کو پڑھانے ان کے علاقے میں جایا کرتے تھے ۔ سرکار کی طرف سے تکفیریوں کی پشت پناہی کا یہ عالم ہے کہ آج تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔ 1983 ، 86 ، 96 ، 2007 سے لیکر آج تک حکومتوں کی طرف سے تکفیریوں کی سرپرستی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہماری مساجد اور امام بارگاہوں کی بے حرمتی کی گئی ان کو جلایا تک گیا ، صدہ شہر سے اھل تشیع کو شہر بدر کیا گیا ان کے زمینوں کو قبضہ میں لیا گیا۔ ایک سوچے سمجھے سرکاری منصوبے کے تحت اس وقت بھی ہمارا محاصرہ اور ہم پر لشکر کشی جاری ہے۔ امن جرگوں کے نام پر ہمارے جوانوں کے قاتل عید نظر اور اس کے ٹولے کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے کے بجائے امن کا ٹھیکیدار کہا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سیمینار میں ویڈیو کلپ کے ذریعے تکفیریوں کی تقاریر کو باقاعدہ بطور ثبوت پیش کیا گیا ۔

دیگر مقررین میں جامعہ المصطفی کے نائب رئیس آقای خالق پور بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نظام استکبار کو پہچانئے۔ مسلمان ممالک استکبار کے نشانے پر ہیں ۔ پاراچنار و فلسطین کے لوگ در اصل استکبار سے برسرپیکار ہیں۔ ہماری پہلی ذمہ داری مظلوموں کی حمایت کرنا ہے ۔ ان شہداء کی مظلومیت کا پیغام پوری دنیا تک ہم نے پہنچانا ہے، انقلاب اسلامی کے بعد استکبار جہانی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ استکبار کو شکست دینے کے لئے تین ہتھیار چاہیے: پہلا صبر و توکل ہے، مظلوموں کو وعدہ خدا پر اعتماد کرنا چاہیئے ۔ دوسرا اتحاد و بھائی چارہ ہے۔ تیسرا حکمت و تدبیر ہے ۔ دشمن شناسی اور ان کی تدابیر کا توڑ ضروری ہے ۔ حماس کو دیکھئے طوفان الاقصی آپریشن کیلئے تقریبا دوسال تمرین کی گئی، اس کے بعد اسرائیل جو خود کو دنیا کی چوتھی بڑی طاقت سمجھتا تھا جدید ترین حفاظتی آلات بھی اس کے کام نہ آسکے۔ پاکستان میں بھی ہر فتنے کا حل حکمت و تدبیر ہے ۔ آپ علماء کی ذمہ داری ہے کہ عالمی استکبار کا دباو کم کرنے کیلئے اقدامات کریں ۔

شیخ فدا علی حلیمی نے بھی اس موقع پر علماء کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ظلم یعنی لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ، لوگوں کے حقوق غصب کرنا ۔ پاراچنار کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔ ظالموں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ مظلوموں کا ان کے مقابل ڈٹ جانا ہے ۔ یہ خصوصیت پاراچنار اور فلسطین میں موجود ہے کہ وہاں کے لوگ ظالموں کے سامنے جھکتے نہیں، پاکستان میں پاراچنار غیرت ، حمیت اور مقاومت کا اسوہ ہے ۔ در اصل پاراچنار کو فلسطین کی حمایت کی سزا دی گئی کیونکہ جب طوفان الاقصی آپریشن ہوا تو سب سے پہلے پارا چنار میں جشن منایا گیا ۔ اسرائیل نے جب حملہ کیا تو سب سے پہلے پارا چنار میں احتجاج ریکارڈ کیا گیا ۔ اسرائیل کے مظالم جب بڑھے تو پاکستان میں وہ واحد علاقہ پارہ چنار تھا جہاں غزہ جانے کیلئے رجسٹریشن ہوئی ۔ سب جانتے ہیں کہ پارہ چنار کا محاصرہ کوئی زمینی تنازعہ نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف احتجاج کا نتیجہ ہے ۔ پارہ چنار کے حوالے سے پاکستان کے دیگر علاقوں میں سناٹا یعنی ردعمل نہ دینا پریشان کن ہے ۔ اگر ہمارے پاس جامع حکمت عملی ہوتی تو ہمارے خلاف اسمبلیوں میں قوانین پاس نہ ہوتے ۔ باہمی اختلاف کا نتیجہ طاقت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ آپس کی طاقت کا بڑھانا واجبات میں سے ہے ۔ بس ہمیں چاہیئے مختلف میدانوں میں سیاسی ، علمی و اقتصادی طور پر خود کو مضبوط بنائیں۔ جب ھم طاقتور نہیں ہونگے تو دشمن ظلم کرتا رہے گا ۔ اتحاد اور اپنی طاقت کو بڑھانا ہمارا پہلا ہدف ہونا چاہیئے، اس کے ساتھ ٹھوس حکمت عملی ، جامعہ پالیسی کا ہونا ضروری ہے ۔ فردی کاموں سے معاشرے کے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ دشمن شناسی ، اپنی طاقت بڑھانا ، ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرنا یہ سب قرآن کا واضح حکم ہے۔

پروگرام کے آخر میں جامعہ روحانیت پاکستان کے صدر نے پاراچنار و غزہ کی حمایت میں قرارداد پیش کی گئی۔

قراداد کا متن اس طرح ہے؛

1۔ آج کا یہ عظیم الشان محب وطن علماء کا اجتماع مظلوم فلسطینی اور پارہ چنار کے باشندوں پر ہونے والے ظلم کی بھر پور مذمت کرتا ہے۔

2۔ آج کا یہ اجتماع اسرائیل سے ہر قسم کے تعلق کو حب الوطنی اور ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے اقدام کی بھر پور مذمت کرتا ہے۔

3۔ آج کا یہ اجتماع پاکستان کی حکومت ، فورسز اور عدالت کے خلاف قانون کسی بھی اقدام کی مخالفت کرتا ہے۔

4۔ آج کا یہ اجتماع پاراچنار میں موجود سیکیورٹی اداروں جو تاحال امن قائم کرنے میں ناکام پیں کی بھر پور مذمت کرتا ہے اور ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے ۔

5۔ آج کا یہ اجتماع پاراچنار میں فول پروف سیکیورٹی کیلئے مقامی شیعہ سکیورٹی اہل کاروں کی تعیناتی کا مطالبہ کرتا ہے ۔

6۔ آج کا یہ اجتماع ملک میں تکفیریت کے خاتمے اور ہر قسم کی تفرقہ بازی کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے ۔

7۔ آج کا یہ اجتماع افغان و پاکستان کشیدہ حالات کے پیش نظر ، پاراچنار باڈر پر مقامی باشندوں اور محب وطن آرمی کی مشترکہ پلاننگ سے باڈر کی حفاظت کا مطالبہ کرتا ہے ۔

8۔ آج کا یہ اجتماع متعدد واقعات کی روشنی میں پاراچنار میں متعصب سول یا آرمی کے عملے کی تعیناتی پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے۔

9۔ آج کا یہ اجتماع محب وطن اور غیر متعصب مقامی سول اور آرمی عملے کی تعیناتی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ آئے دن ہونے والے واقعات کی روک تھام یقینی ہوسکے ۔

10۔ آج کا یہ اجتماع تری مینگل ہائی سکول میں بے گناہ اساتذہ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور سزا نہ ملنے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہے اور ابھی تک ہونے والے واقعات میں مجرموں کی گرفتاریاں نہ ہونے کو متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت سمجھتا ہے۔

11۔ آج کا یہ اجتماع پارہ چنار میں اساتذہ کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری اور قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

12۔ آج کا یہ اجتماع ہر آئے دن ، ضلع کرم کے امن کو سبوتاژ کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کی گرفتاری اور کڑی سزا کا مطالبہ کرتا ہے ۔

13۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں کی قانونی ذمہ داری ہے کہ ملک کے ہر باشندے کی پورے ملک میں آزاد آمد و رفت کو یقینی بنائے ۔ پاراچنار سے پشاور جانے والی شاہراہ پر اہل تشیع کا قتل عام ہونا اداروں کی واضح ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آج کا یہ اجتماع سیکیورٹی فرائض میں کوتاہی پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ایسے اہل کاروں کی سخت مذمت کرتا ہے۔

14۔ آج کا یہ اجتماع پاراچنار ٹو پشاور روڈ پر سخت سیکیورٹی اور مظلوم اہل تشیع کی جان و مال کے تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔

15 ۔ آج کا یہ اجتماع پاراچنار کے مقامی اور جغرافیائی تناظر میں تمام متنازع اراضی مسائل کے حل کا مطالبہ کرتا ہے اور کسی بھی مقصد سے مقامی زمینوں پر دہشت گردوں کی آباد کاری کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
16۔ آج کا یہ اجتماع مذہب اہلبیت علیہ السلام کے عقائد اور مقدسات کی توہین پر مذمت کرتا ہے اور ایسی فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے والے عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے۔

17۔ آج کا یہ اجتماع حکومتی ایوانوں تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہے کہ پارا چنار کے غیور شیعہ ملک خداداد پاکستان کے محافظ تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ آخر میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور سلامتی کی دعا کے ساتھ اس سیمینار کا اختتام ہوا۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *