تازہ ترین

قنبر امام علی علیه السلام کا غلام

قنبر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خاص خادم تهے اور انکا آن حضرت کےساتھ مستقل طور پر وابستہ تھا۔ وہ حضرت امام علی علیہ السلام کے محبوب تھے اور آنحضرت بھی ان سے بے حد محبت کرتے تھے۔
بدقسمتی سے ، ان کی زندگی اور اوقات کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں ، علی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کے بارے میں صرف مختصر تاریخی حوالہ جات اور کہانیاں ہی ان کی خوبی اور وجود کو ظاہر کرتی ہیں۔ قنبر نسب کے لحاظ سے بھی ایک نامعلوم شخص ہے ، اور اس کے باپ دادا کے بارے میں کوئی قابل اعتماد معلومات نہیں ہے۔ لیکن اس سے بالاتر حسب اور نسب کیا هو سکتا ہے کہ قنبر کو علی (ع) کی طرف نسبت دیتے ہیں؟

شئیر
50 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5566

وہ کوفہ میں رہتا تھا اور سالوں سے علی (ع) کو حقانیت کے ساتھ جانتا تھا۔ وہ پهلے سے ہی آنحضرت کی ولایت اور معرفت میں اور حکم میں ہمیشہ اپنے مالک کے وفادار اور تابع رہتا تھا۔ امام نے اسے مختلف کاموں میں بھی استعمال کیا اور مشکل وقت میں اسے پکارتے تھے اور اہم کام پر مامور کرتا تها۔ اوروه قبیلہ ہمدان سےتها اور اس کا لقب ابوهمدان” تھا۔
غلامی سے قبول اسلام تک
ایک دن جب مسلمانوں اور ساسانیوں کے مابین جنگ جاری تھی ، مسلمان فوجی غنیمت کے سامان کے ساتھ پہنچے اور ہمیشہ کی طرح ایرانی اسير کے ایک گروہ کو لے کر آگئے تھے۔ انہیں مدینہ کے لوگوں کو پیش کیا گیا تاکہ وہ اپنا وقت عربوں میں گزار سکیں۔
انکے درمیان ، ایک نوجوان تھا جس کے سر پر گھوبگھرالی بالوں والا تھا ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حمدان کا بیٹا اور حکومتی بات کہنے والے تھے۔ سر جھکائے اور جنگ جیتنے والوں کی نظروں سے خود کو بچارہے تھے۔ اچانک اس کے سر پر ایک پیار بھری نگاہ اس پر پڑی ، وہ خود کو چھپانا چاہتا تھا لیکن وہ غافلگیر ہوا تھا۔ آنکھوں میں عرب نظر آرہے تھے، وہ بھی مہربان آنکھوں والا اور پرکشش آنکھوں والا جوان تھا ۔ اس کے سر کے سامنے بال بہت کم تھے اور اس کے چہرے پر جنگ کے اثرات نمایاں تھے۔ اس نوجوان عرب نے اس نوجوان عجم کو اپنا غلام منتخب کیا۔ اس پیارے کو کل ذلیل اور آج ابوھمدان کی کنیت دیا گیا اور اسکا قنبر نام رکھ دیا گیا۔ (. شیخ مفید،الارشاد، ص۱۷۳؛مجلسی،محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۲ ، ص۱۲۶)
اسکے بعد سے ، وہ ہمیشہ اپنے مولا علی (ع) کا ہمسفر اور ساتھی رہا ہے۔ جلد ہی وہ ماحول سے عادی ہو گیا اور بہت کچھ سیکھا۔ اس نے حدود الہی اور ریاستی تعزیر کو عملی جامہ پہنایا ، اور اس اجرای عدالت کے ساتھ ، خود کو اس حد تک پونچایا کہ اپنے مولا نے بھی اس کی عدالت کی پر گواہی دی۔
ابو عمرو کشی نے اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ امیر المومنین علی (ع) اس شعر کو پڑھتے تھے اور اس شعر میں قنبر کو یاد کرتے تھے ۔
اِنّی اِذا اَبْصَرْتُ شَیئا مُنْکرا اَوْقَدْتُ نارا وَ دَعَوْتُ قَنْبَرا
یعنی: جب بھی کوئی مشکل یا ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے ، میں آگ کو بھڑکاتا ہوں اور قنبر کو پکارتا ہوں۔
وہ سفر اور حضر میں مولای متقیان کی خدمت میں تھا اور کسی بھی حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار تھا۔ اس حقیقت سے کہ وہ علی (ع) کا غلام سمجھا جاتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باقی صحابی سے امام علی (ع) کے قریب تر تھا۔
قنبر امیر المؤمینین (ع) کی شہادت کے بعد
قنبر امیر المومنین (ع) کی شہادت کے بعد قنبر امام حسن مجتبی (ع) کے رکاب میں ملازم ہوا جو تقریبا دس سال تک خدمت کرتے رہے۔ وہ امام حسن (ع) کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے کہ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہاں پر حاضر تھا اور امام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کیلئے وصیت کی تھی وہ ناظر اور شاہد تھا۔
قنبر امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد سید الشہداء (ع) کی امامت کو درک کرنے میں کامیاب ہوئے ، لیکن عاشورا میں امام حسین (ع) کی مدد کرنے میں ناکام رہے۔ بدقسمتی سے ، اس کے بارے میں کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ اتنے ریکارڈ کے ساتھ قنبر کیوں کربلا میں موجود نہیں تھا۔چونکہ تاریخ میں بہت سی چیزوں کا تذکرہ نہیں ہوا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ہم تک نہ پہنچا ہو ، لہذا تاریخ میں بہت سارے مبہم اور تاریک نکات موجود ہیں کہ عاشورہ اور امام حسین(ع) کی تحریک کے دوران قنبر اور دوسرے جیسے لوگوں کی موجودگی ان میں سے ایک ہے۔ تاہم ، بعض نے قیاس آرائی کی ہے کہ کربلا کی تحریک میں قنبر کی عدم موجودگی کے بارے میں ، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ابن زیاد کے ظہور کے ساتھ ہی ، شیعوں نے رازداری سے زندگی بسر کی اور منتشر ہوگئے ، اور قنبر اس زمانے میں بنو امیہ کے جیل میں قید کردیا گیا تھااور امام حسین(ع) اور انکے باوفا اصحاب کی شہادت کے بعد قنبر جیل سے رہا کیا گیا۔
قنبر کی شہادت
ایک دن حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: “میری خواہش ہے کہ میں علی کے اصحاب میں سے ایک کو پکڑوں اور اس کا خون بہا کر خدا کے قریب ہوجاؤ!” درباریوں نے قنبر کا نام لیا اور حجاج کے حکم پر اسے طلب کیاگیا۔ جب قنبر پہنچے تو حجاج نے اس سے کہا تم کون ہو؟
قنبر نے بہترین انداز اور بغیر کسی خوف کے خود کو اس طرح معرفی کیا: “أنا مولی من ضرب بسیفین و طعن برمحین، و صلی قبلتین و بایع البیعتین و هاجر الهجرتین و لم یکفر بالله طرفه عین، أنا مولی صالح المؤمنین و وارث النبیین و خیرالوصیین.”
یعنی: میں اس کا غلام ہوں جس نے دو تلواریں اور دو نیزوں سے جنگ کی اور دو قبلہ کی طرف نماز پڑھی ، اور دو موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ، اور دو بار ہجرت کیا، اور آنکھ کے پلک جھپکنے کے برابر بھی کافر نہیں ہوا اور میں مومنوں کے صالح کا خادم اور نبیوں کے وارث اور بہترین وصی کا غلام ہوں۔
جب حجاج نے قنبر سے یہ الفاظ سنے تو اس نے حکم دیا کہ اس کا سر قلم کردیا جائے اور وہ خدا کے بندے اور امیر مومنان علیہ السلام کے وفادار ساتھی کو شہید کردیا گیا۔ ( مجلسی،محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۲ ، ص۱۲۶، خویی،ابوالقاسم،معجم رجال الحدیث، ج ۱۴، ص ۸۶ )
اور یہ بھی روایت ہے کہ جب قنبر کو حجاج کے پاس لایا گیا تو حجاج نے پوچھا کہ آپ علی (ع) کی خدمت میں کیا کرتے تهے؟ اس نے کہا: میں اس کے وضو کا پانی حاضر کرتا تھا ، اس نے پوچھا کہ علی کیا کہتے تھے جب وہ اس کے وضو سے فارغ ہوتے تھے؟ انہوں نے کہا: یہ آیت مبارکہ پڑھتے تھے۔
“فلَمّا نسوا ما ذُکرِوُا بهِ فَتَحْنا عَلَیهِمْ اَبْوابَ کلِّ شيْئٍ حَتّى اِذا فَرِحوُا بِما اءُوتوُ اَخذْناهمْ بغتةً فاِذاهُمْ مُبْلِسُونَ * فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُلِلّهِ رَبَّ الْعالَمینَ.” ( سوره انعام، آیه ۴۴ـ۴۵)
ترجمہ: پھر جب وہ اس نصیحت کو بھول گئے جو ان کو کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تب وہ نا امید ہو کر رہ گئے۔
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی، اور اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
حجاج نے کہا: گمان کرتاہوں کہ یہ آیت ہم پر تاویل کرتے تهے، قنبر نے کہا:جی۔ حجاج نے کہا: اگر آپکا سر قلم کردوں تو وہ کیا کرینگے؟ کہا: اس صورت میں میں سعادتمند ہونگا اور تم شقی اور بد بخت، پس حجاج نے حکم کیا تاکہ قنبر کا سر قلم کیا جائے۔ (شوشتری،سید نورالله حسینی،مجالس المؤمنین، ۱/۳۱۴)

منابع
1. قرآن کریم
2. خویی،سید ابوالقاسم،معجم رجال الحدیث،مرکز نشر الثقافه الاسلامیه فی العالم، بیروت،1390ق.
3. شوشتری،سید نورالله حسینی،مجالس المؤمنین،انتشارات اسلامیه،تهران،1377ش.
4. شیخ مفید،محمد بن محمد بن نعمان،الارشاد،دارالمفید،قم،1414ق.
5. مجلسی،محمد باقر، بحارالانوار،انتشارات اسلامیه،تهران،1376ق.
6. حاج شیخ عباس قمی، منتهی الامال، قسمت اول، باب سوم، در تاريخ حضرت علی عليه السلام.

اشرف حسین امینی
شماره تماس:09031066167

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *