قیام امام حسینؑ اور وقت کے یزید پر لعنت
قیام امام حسینؑ اور وقت کے یزید پر لعنت
تحریر: محمد ابراہیم صابری
تحریک کربلا کو سنہ 61 ہجری میں حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے شروع کیا۔ معاویہ کی موت کے بعد اس کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا اور حاکم مدینہ کو خط لکھ کر حسین ابن علی علیہ السلام سے بیعت طلب کی۔ امام حسینؑ نے ولید بن عقبہ کے دربار میں اپنا اور یزید کا تعارف کرانے کے بعد فرمایا “مِثْلِی لَا یُبَایِعُ مِثْلَهُ” مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔
حضرت امام حسینؑ نے یزید کے خلاف قیام کرکے دنیا کے لئے ایک مثال قائم کی۔ امام عالی مقام نے ہمیں ظالم و جائر حکمرانوں کے خلاف قیام کا درس دیا۔ تاریخ میں ہمیشہ ظلم و ستم کے خلاف قیام کے لئے تحریک کربلا کو نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دنیا کے حریت پسند سالار شہیدان امام حسینؑ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔
قلیل گروہ کی کثیر فوج پر فتح
واقعہ کربلا نے میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے کا نظریہ بدل دیا۔ مختصر لشکر نے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دی۔ اگرچہ دشمن نے حضرت امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا لیکن زیادہ مدت گزرنے سے پہلے یزید اور اس کے سپہ سالاروں کو اپنی شکست کا شدت سے احساس ہوا۔ امام حسینؑ نے انسانوں کو ستمگروں اور ظالموں سے مقابلہ کرنے کا ہنر سکھایا۔
کربلا میں امام حسینؑ نے اپنے زمانے کے سب سے بڑے طاغوت کے خلاف تحریک شروع کی۔ آپ کا یہ کارنامہ ہر زمانے کے ظالم اور ستمگروں کے خلاف قیام کے لئے نمونہ ہے۔ آج واقعہ کربلا کے کرداروں کے بارے میں شبہات پیدا کئے جارہے ہیں۔ واقعہ کربلا اور یزید پر لعنت کو پسر معاویہ تک محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ زمانے کے ستمگروں اور طاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد اور قیام کا راستہ روکا جائے۔
زیارت عاشور اور یزید پر لعنت
زیارت عاشورا سے استدلال کیا جارہا ہے کہ لعنت معاویہ ابن ابوسفیان کے بیٹے یزید سے ہی مخصوص ہے اور اس کو اسی فرد تک محدود رکھنا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ جس امام معصوم سے زیارت عاشورا نقل ہوئی ہے اس نے اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں پر لعنت نہیں کی ہے۔
اگر زیارت عاشورا کے جملوں پر غور کیا جائے تو اس شبہے کا جواب موجود ہے۔ “اَللّـٰهُمَّ الْعَنْ اَوَّلَ ظٰالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَآخِرَ تٰابِعٍ لَهُ عَلىٰ ذٰلِکَ” کا معنی یہ ہے کہ خدایا! محمد و آل محمد کے حق پر ظلم کرنے والے اولین شخص سے لے کر آخری شخص تک سب پر لعنت بھیج دے۔ پس ہر اس شخص پر لعنت کی دعا کرنا چاہئے جس نے محمد و آل محمد پر ظلم کیا اور ان کا حق غصب کیا۔
زیارت عاشورا میں کئی مرتبہ یزید کے آباء و اجداد ابوسفیان اور معاویہ کا نام لے کر لعنت کی گئی ہے اسی طرح یزید کے پیروکاروں ابن زیاد، عمر ابن سعد اور شمر جیسوں پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ ابن زیاد وغیرہ یزید کے کارندے تھے۔ یزید کے آباء و اجداد نے واقعہ عاشورا کی راہ ہموار کی اور ابن زیاد اور عمر ابن سعد جیسوں نے یزید کے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یزید اس دردناک واقعے کا سرغنہ ہے لیکن زیارت عاشورا میں فقط یزید پر لعنت نہیں کی گئی بلکہ واقعہ کربلا کے تمام کرداروں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو بھی تاریخ میں یزیدی کردار کا مالک ہے، اس پر لعنت کرنا چاہئے اور امام حسینؑ کے کردار سے سبق لیتے ہوئے ایسے یزیدیوں کے خلاف قیام کرنا فرض ہے۔
سیرت ائمہ اور ہماری ذمہ داری
لعنت کو یزید تک محدود کرنے سے ائمہ کرام کی سیرت ان تک محدود ہوجاتی ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام کا ہر قول اور فعل ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ جس طرح ہم ان کو عبادت، سخاوت اور صبر وغیرہ میں نمونہ سمجھتے ہیں اسی طرح ان کا قیام اور جہاد بھی ہمارے لئے نمونہ ہے۔ چنانچہ امام حسینؑ نے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور والد گرامی حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے اسی طرح امام حسینؑ کا قیام ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔
خداوند متعال نے قرآن کریم میں انبیاء کرام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسوہ قرار دیا ہے۔ انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام نمونہ عمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کردار کو اپنانے کی کوشش کریں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا کے فرمان کو سند بناکر یزید کے خلاف قیام کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “مَن رَأى سُلطانا جائِرا ، مُستَحِلّاً لِحُرَم اللّهِ ، ناكِثا لِعَهدِ اللّهِ ، مُخالِفا لِسُنَّةِ رَسولِ اللّهِ ، يَعمَلُ في عِبادِ اللّهِ بِالإِثمِ وَالعُدوانِ، فَلَم يُغَيِّر عَلَيهِ بِفِعلٍ ولا قَولٍ ، كانَ حَقّا عَلَى اللّهِ أن يُدخِلَهُ مُدخَلَهُ” جو بھی کسی جائر حکمران کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال قرار دیتا ہے؛ عہد خداوندی کو توڑتا ہے؛ سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے؛ اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم کے ساتھ سلوک کرتا ہے پس اگر اس کے خلاف قول و فعل سے قیام نہ کرے تو خدا کا حق بنتا ہے کہ اس انسان کو اس (جائر حکمران) کے ساتھ ایک ہی جگہ بٹھادے (یعنی جہنم میں داخل کرے) کربلا کی طرف سفر کرتے ہوئے منزل بیضہ پر پہنچ کر آپ نے اپنے خطبے میں اپنے نانا کے اس قول کی طرف اشارہ کیا اور یزید اور اس کے پیروکاروں کو اس روایت کا مصداق قرار دیا جنہوں نے خدا کی اطاعت چھوڑ کر شیطان کی پیروی کی۔ انہوں نے حلال خدا کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا۔ اس کے بعد فرمایا “وأنا أحَقُّ مَن غَيَّرَ” یزید کے خلاف قیام اور حالات کو بدلنے کے لئے اقدام کرنے کا میں سب سے زیادہ حقدار ہوں۔ اس کے بعد فرمایا “فَلَكُم فِيَّ اُسوَةٌ” میں تمہارے لئے نمونہ عمل ہوں۔ یعنی میری طرح تم بھی یزید جیسوں کے خلاف قیام کرو۔
کربلا امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا واضح ترین مصداق
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب یہ ہے کہ اچھائی کی طرف دعوت دینا اور برائی سے روکنا۔ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر معاشرے کو نیکی کی راہ پر ڈالنے اور برائیوں سے پاک رکھنے کا اہم ترین طریقہ ہے۔ قرآن مجید میں امت مسلمہ کو بہترین امت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: “كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر” تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنے قیام کا ایک ہدف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیا ہے۔ “ارِيدُ أن آمُرَ بِالْمَعرُوفِ و أنهي عَنِ الْمُنكَرِ” میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔
تحریک کربلا کو محدود کرنے اور لعنت کو یزید ابن معاویہ سے مخصوص کرنے سے امام حسینؑ کا ہدف کربلا تک منحصر ہوجاتا ہے۔ امام حسینؑ نیکی اور معروف کا پیکر تھے جبکہ یزید برائی اور منکر کا مجسمہ بن کر کربلا میں امام عالی مقام کے سامنے آیا۔ امام حسینؑ نے یزید کے خلاف قیام کرکے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا تھا۔ امام عالی مقام کی سیرت آج بھی زندہ ہے۔ اپنے زمانے میں کوئی یزید بن کر معاشرے میں ظلم و ستم کرے اور برائی پھیلائے تو مومن پر فرض ہے کہ امام حسینؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے وقت کے یزید کے خلاف قیام کرے۔
حاصل کلام
اگرچہ عاشورا سنہ 61 ہجری میں رونما ہوا جس میں یزید ابن معاویہ نے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے نواسہ رسول کو صحرائے کربلا میں شہید کردیا۔ اللہ نے اس عظیم قربانی کے نتیجے میں حضرت امام حسینؑ کو کچھ خصوصیات عطا کیں جو آپ کی ذات میں منحصر ہیں۔ جس زمین پر آپ کا پاک خون گرا اس میں اللہ نے شفا رکھی ہے اسی لئے خاک کربلا کو شفا کی نیت سے کھانا جائز ہے۔ حائر حسینی میں دعا رد نہیں ہوتی ہے۔ امام حسینؑ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ البتہ آپ کی تحریک جاری ہے۔ آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنے معاشرے میں موجود ظالموں کے خلاف جنگ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دنیا کا ہر حریت پسند اور ستمگروں کے خلاف قیام کرنے والا آپ کے قیام سے درس لیتا ہے اور اپنے زمانے کے طاغوت اور ستمگروں پر لعنت کرتے ہوئے ان سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ آپ کے قیام کو کربلا اور یزید بن معاویہ تک محدود کرنا آپ کے اہداف اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ لعنت کو یزید بن معاویہ تک محدود سمجھنے والے دانستہ یا نادانستہ طور پر مقصد امام حسینؑ کو محدود کررہے ہیں۔ آج کی یزیدی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ کربلا کو سنہ 61 ہجری میں ہونے والے واقعے کے طور پر یاد کیا جائے اور تحریک کربلا کے اہداف میں شبہات اور تحریفات ایجاد کرکے لوگوں کو مقصد حسینی سے دور کیا جائے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید