تازہ ترین

لیبیا میں فوجی بغاوت کرنے والے جنرل خلیفہ حفتر کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے، سیاسی ماہر

  افریقی امور کے ماہر جعفر قنادباشی نے فارس نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا آرمی کے ریٹائرڈ جنرل خلیفہ حفتر کی سرکردگی میں شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں گذشتہ دو سال سے ملک میں جاری بدامنی اور خانہ جنگی سے بالکل مختلف ہے۔

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 195

انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو برس سے لیبیا میں جاری خانہ جنگی اور مسلح جھڑپیں یا تو مختلف قبیلوں کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھیں اور یا پھر زیادہ سہولیات اور مراعات حاصل کرنے کی غرض سے انجام پا رہی تھیں لیکن حال ہی میں لیبیا کے شہر بن غازی سے شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں گذشتہ خانہ جنگی سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ درحقیقت ایک بڑا فوجی آپریشن ہے جس کا مقصد انصار الشریعہ نامی گروہ کو نابود کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو ملک بھر میں قومی فوج کے عنوان سے انجام پا رہا ہے۔

افریقی امور کے ماہر نے کہا کہ جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی کاروائی کا آغاز بن غازی سے کیا ہے اور وہ طرابلس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنرل خلیفہ حفتر خود کو ایک باغی نہیں کہتا اور اپنے آپریشن کو بھی فوجی بغاوت کا نام نہیں دے رہا بلکہ اس کا دعوا ہے کہ وہ ایک جمہوریت پسند شخص ہے لیکن اسے موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت قبول نہیں۔ جعفر قبادباشی نے کہا کہ سیاسی ماہرین کی نظر میں جنرل خلیفہ حفتر کی کاروائی ایک فوجی بغاوت ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ لیبیا آرمی کا بڑا حصہ جس میں ایئرفورس بھی شامل ہے جنرل خلیفہ حفتر سے آن ملا ہے لہذا تصور کیا جا رہا ہے کہ اس کی جانب سے شروع کیا گیا فوجی آپریشن ایک سنجیدہ اور موثر آپریشن ہو گا۔ اس بار شروع کی گئی فوجی کاروائی صرف قبائلی یا علاقائی حدود تک ہی محدود نہیں بلکہ اس ما مقصد پورے ملک کے سیاسی اور فوجی نظام کو تبدیل کرنا ہے۔

جعفر قبادباشی نے لیبیا میں جنرل خلیفہ حفتر کی جانب سے شروع کئے گئے فوجی آپریشن کے بیرونی پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق جنرل خلیفہ حفتر خفیہ طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے حکام سے ملاقات کر چکے ہیں۔ یہ تمام عرب ممالک لیبیا میں اخوان المسلمین اور مذہبی گروپس کی حمایت پر مبنی قطر کی خارجہ پالیسیوں کے شدید مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنرل خلیفہ حفتر کے امریکی حکام سے بھی انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور وہ گذشتہ 20 سال سے امریکی سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ جنرل خلیفہ حفتر کو ملک کے اندر اتنی حمایت حاصل نہیں جتنا بیرونی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بیرونی قوتوں میں جنرل حفتر کی حمایت کے محرکات موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے لیبیا میں سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کی سرنگونی کے بعد معرض وجود میں آنے والے مسلح گروہوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک عرصے سے لیبیا سے خام تیل کی سپلائی رکی ہوئی ہے جبکہ امریکہ سمیت دوسرے مغربی ممالک نے جب لیبیا میں جنم لینے والی انقلابی تحریک کی حمایت کی تھی تو ان کی نظریں اس ملک میں موجود تیل کے ذخائر پر جمی ہوئی تھیں لہذا وہ چاہتے ہیں کہ لیبیا سے خام تیل کی سپلائی جلد از جلد بحال ہو جائے۔

افریقی امور کے ماہر جعفر قنادباشی نے کہا کہ مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ لیبیا میں ایسی حکومت برسراقتدار آ جائے جو خام تیل کی پیداوار کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ جب تک ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہو جاتی مغربی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کا موقع بھی فراہم نہیں ہو سکے گا۔ اس ضمن میں بحیرہ قلزم کے ساحل پر واقع ملک کے شمالی حصے خاص اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے عرب ممالک کی جانب سے لیبیا میں فوجی بغاوت کرنے والے جنرل خلیفہ حفتر کی حمایت کے اصلی محرکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی وہی محرکات کارفرما ہیں جو مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے انجام پانے والی فوجی بغاوت کی حمایت میں کارفرما تھے۔ بعض عرب ممالک لیبیا میں اخوان المسلمین اور اس سے وابستہ گروہوں کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں فوجی بغاوت کے حامی عرب ممالک اس بابت شدید پریشانی کا شکار ہیں کہ کہیں لیبیا میں موجود قطر کے حمایت یافتہ مذہبی گروہ انصار الشریعہ کی جانب سے مصر کی موجودہ حکومت کے خلاف اقدامات انجام نہ پائیں اور مصر میں اخوان المسلمین کو دوبارہ طاقت پکڑنے کا موقع مل جائے۔

سیاسی امور کے ماہر جعفر قنادباشی نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات جیسے بعض عرب ممالک مصر اور لیبیا میں اخوان المسلمین کی موجودگی کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں لہذا ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ان ممالک سے اخوان المسلمین اور اس سے وابستہ گروہوں کا خاتمہ کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل خلیفہ حفتر نے اس صورتحال کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو اخوان المسلمین کا دشمن ظاہر کیا اور ان عرب ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسے میں جنرل خلیفہ حفتر نے قطر کے حمایت یافتہ مذہبی شدت پسند گروہوں اور تکفیری عناصر کے خلاف ایک بھرپور مسلح مہم کا آغاز کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ جعفر قنادباشی نے ایک انتہائی اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی طاقتیں اور عرب ممالک دنیا کے ہر ملک میں تکفیری عناصر اور شدت پسند مذہبی گروہوں کے خلاف صف آراء نظر آتے ہیں اور ان سے مقابلے کے دعوے کرتے ہیں لیکن شام کے معاملے میں ان کا موقف بالکل برعکس ہو جاتا ہے اور شام حکومت کے خلاف برسرپیکار تکفیری گروہوں کو نہ صرف دہشت گرد قرار نہیں دیتے بلکہ انہیں ہر قسم کی مالی اور فوجی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔

افریقہ کے سیاسی امور کے ماہر نے کہا کہ لیبیا میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران تین وزیراعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔ سب سے پہلے علی زیدان وزیراعظم بنے جن پر مسلح گروہوں پر کنٹرول پانے میں ناکامی پر شدید تنقید کی گئی اور وہ اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ اثنین لیبیا کے نئے وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے لیکن وہ بھی ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر استوار نہ رہ سکے۔ اس کے بعد احمد معیتیق لیبیا کے نئے وزیراعظم بنے۔ وہ ابھی اپنی کابینہ بھی مکمل طور پر انتخاب نہیں کر پائے تھے کہ جنرل خلیفہ حفتر نے طاقت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے انہیں اس عہدے سے سبکدوش کر دیا۔ اب ایک بار پھر عبداللہ اثنین کو یہ عہدہ دیا گیا ہے لیکن جنرل حفتر اور فوجی بغاوت کرنے والی مسلح افواج کو وہ بھی قبول نہیں۔ اس وقت لیبیا میں صرف آئین ساز کمیٹی ہی باقی رہ گئی ہے جسے ایک ملکی قانونی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کمیٹی گذشتہ سال تشکیل پائی گھی اور جنرل خلیفہ حفتر نے اس کمیٹی کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

جعفر قنادباشی نے کہا کہ لیبیا کے عوام ملک کے اندر گذشتہ دو سال سے جاری سیاسی بحران سے شدید تنگ آ چکے ہیں اور ایک ایسے طاقتور حکمران کی تلاش میں ہیں جو ملک میں جاری بدامنی کا خاتمہ کر سکے۔ لہذا جنرل خلیفہ حفتر نے امن و امان اور معاشی خوشحالی کی پیاسی عوام کی اس مجبوری سے سوء استفادہ کرتے ہوئے میدان میں کود پڑا۔ دوسری طرف جنرال حفتر کی کوشش ہے کہ وہ شدت پسند مذہبی گروہوں سے مقابلے کے بہانے مغربی ممالک کی توجہ اور حمایت بھی حاصل کر سکے اور اس طرح خود بھی طاقت کے حصول کو ممکن بنا سکے اور فوج کو بھی مزید مضبوط اور طاقتور بنا سکے۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *