مائے نی میں کنوں آکھاں۔ تحریر: سید اسد عباس
عن عبداللہ ابن عمر قال: “رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یطوف بالکعبۃ و یقول ما اطیبک اطیب ریحک ما اعظمک و اعظم حرمتک والذی نفس محمد بیدہ لحرمۃ المومن اعظم عند اللہ حرمۃ منک مالہ و دمہ وان نظن بہ الا خیرا” حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ انہوں […]
عن عبداللہ ابن عمر قال: “رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یطوف بالکعبۃ و یقول ما اطیبک اطیب ریحک ما اعظمک و اعظم حرمتک والذی نفس محمد بیدہ لحرمۃ المومن اعظم عند اللہ حرمۃ منک مالہ و دمہ وان نظن بہ الا خیرا” حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔1
اس حدیث کو سرنامہ کلام بنانے کا مقصد و ہدف بہت سے سے ذہنوں پر عیاں ہوگا۔ ہمارے لئے بہت سے مقامات مقدس ہیں۔ ہم ان پر کسی دشمن کا تسلط برداشت نہیں کرسکتے۔ روزہ، شدید گرمی، بھوک و پیاس اور دہشت گردی کے خطرات کے باوجود ان مقامات کے تحفظ اور ان کی آزادی کے لئے میدان عمل میں اترتے ہیں۔ جلسے، جلوس، سیمینار، ریلیاں منعقد کرتے ہیں، تاکہ امت مسلمہ کو ان مقامات کی اہمیت سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو یہ باور کروا سکیں کہ ہمارے لئے ان مقامات کی کس قدر اہمیت ہے۔ یقیناً یہ بہت احسن عمل ہے۔ یہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔ ان مقامات مقدسہ کی حرمت اور تقدس میں ذرہ برابر شک نہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ کوئی بھی مقدس مقام بیت اللہ سے افضل نہیں۔ رسول اکرم (ص) نے اسی کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہ ارشاد فرما کر آج سے چودہ سو برس قبل مسلمانوں کو بتایا کہ اللہ کے نزدیک بیت اللہ سے بھی افضل چیز مومن کا جان و مال ہے۔
پاکستان میں روز قدس یعنی قبلہ اول کی آزادی کا دن عظیم الشان طریقے سے منایا گیا۔ پاکستان بھر میں سینکڑوں مقامات پر ریلیاں نکالی گئیں، بڑے شہروں میں ایک ہی روز کئی کئی سیمینار منعقد کئے گئے۔ ان تقریبات کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا۔ روز قدس روز اسلام ہے، روز قدس مظلومین جہان کا دن ہے، روز قدس اسلام کی سربلندی کا دن ہے۔ سب باتیں درست ہیں، تاہم آج روز قدس کے اگلے روز ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا واقعاً اللہ کے نزدیک محترم ترین چیز یعنی خون و مال مسلم ہمارے نزدیک بھی قابل احترام ہے؟ کوئٹہ، کراچی اور پارہ چنار میں روز قدس پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور دسیوں بے گناہ انسانوں کا قتل ہمارے سامنے ایک امتحان کی صورت میں موجود ہے۔ ہم اسی کی دہائی سے خون مسلم کی بے حرمتی دیکھ رہے ہیں۔ آج سوال کرنے کا دن ہے کہ کیا واقعی دین اسلام اور اس کی تعلیمات ہی ہمارے لئے اہم ہیں؟ میں پھر باور کروانا چاہتا ہوں کہ مجھے روز قدس یا اس سے ملتا جلتا کوئی یوم منانے، اس سلسلے میں ریلیاں منعقد کرنے، سیمینارز کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں، یہ ایک درست عمل ہے۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم مظلوموں کے حامی بنیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بلا شک فلسطین، کشمیر، یمن، برما اور شام کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنا ہماری دینی و مذہبی ذمہ داری ہے، لیکن کیا اپنے گھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔؟
ہم جس شان و شوکت اور محنت سے یوم القدس مناتے ہیں، کیا ہم نے کبھی اسی شان و شوکت سے اپنے مظلوموں کے لئے بھی کوئی دن منایا؟ کیا کبھی اسی زور و شور اور دینی جذبے کے ساتھ ہماری جانب سے اس قتل و غارت پر بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی؟ کیا پاکستان میں بہنے والا ناحق خون حرمت مومن کے زمرے میں نہیں آتا؟ آج کے روز میں خود سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے لئے اسلام اور اس کی تعلیمات مقدس ہیں یا کچھ اور؟ ہمیں اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ کل روز محشر روز قدس اور قبلہ اول کی آزادی کا دن منانے والوں سے حرمت مومن کے بارے ضرور سوال کیا جائے گا۔ ہمیں اپنے ضمیر کو کھنگال کر اس سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ جس قدر وسائل، کاوشیں ہم نے قبلہ اول کے تقدس کو باور کروانے پر صرف کیں، کیا اس کا نصف نہیں فقط دس فیصد بھی حرمت مسلم کے لئے صرف کیا۔؟ تاویلیں، توجیہات بہت ہوں گی، تاہم فرمان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے ان سب تاویلوں اور توجیہاں کی ذرہ برابر وقعت نہیں ہے۔ میں اپنی اس مختصر تحریر کو انہی چند سوالات پر ختم کرتا ہوں۔ خداوند کریم ہمیں صحیح سوچ، سمجھ اور درست سمت کا تعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خداوند کریم پارہ چنار، کوئٹہ، کراچی میں شہید ہونے والے روزہ داروں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے خون کے طفیل ہمیں بیداری کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ اللہ کریم عید سے چند ایام قبل اس جانکاہ صدمے کو برداشت کرنے والے گھرانوں کو صبر عطا فرمائے اور ہمیں حقیقی معنوں میں مظلومین کا حامی بننے اور اسلامی مقدسات کے لئے آواز بلند کرنے والوں میں سے محشور فرمائے۔ آمین
1۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ، 2: 1297، رقم: 3932، طبرانی، مسند الشامیین، 2: 396، رقم: 1568، منذری، الترغیب والترہیب، 3: 201، رقم: 3679
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید