تازہ ترین

مالک اشتر کے بارے میں مختصر معلومات

مالک حارث کا بیٹا ہے جو کہ مشہور ہے مالک اشتر کے نام سے (۱)
مالک کو اشتر کا لقب اس لیے ملا کہ آپ نے جنگ یرموک میں شرکت کی ،جو مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ہویی اس جنگ میں آپکی پیشانی پر رومیوں کی جو ضربت لگی تھی اس کی وجہ سے آپ کی پلکیں پھٹ گئیں اور دوبارہ ٹھیک ہوگئیں ، اور عرب کسی کی آنکھ اس طرح ہو اس کو اشتر کہتے ہیں.(۲)

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5615

عرب والے مالک اشتر کو ان اشخاص میں شمار کرتے ہیں کہ جو مشہور ہو قصیر النسب کے نام سے کیونکہ عرب والے کسی کا نام اتنا مشہور ہو اس کے وجود پر دلالت کرنے والا ہو اس کی نسبت کی طرف جانے کی ضرورت نہ ہو اس کو بھی اشتر کے نام سے یاد کرتے ہیں ،
یعنی جب مالک اشتر کہا جائے تو سب کو سمجھ آے گا کہ اس سے مراد مالک اشتر نخعی ہے جو امیر المومنین ع کے صحابی کہ عظیم شخصیت کے مالک ہے اور میدان جنگ کے شہسوار ہے کہ جس نے کبھی ذلت قبول نہیں کی (۳)آپکی کنیت ابو ابراہیم ہے (۴)آپ کا تعلق یمن سے ہے کہ پیغمبر اکرم کے زمانے میں اسلام قبول کیا اورآپ پیغمبر کے دیدار کو آیے تھے آپ کو رسول کی زیارت بھی نصیب ہوئی اس لیے رسول کے تابعین میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے . (۵)
مالک یمن سے کوفہ آیے اور وہیں پر آپ نے زندگی گزاری اور آپ عظیم پہلوان اور نڈر آدمی تھے آپ نے کئی جنگوں میں اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا جیسے ابو بکر کے زمانے میں جنگ تاوک ہوئی اور اسی طرح دمشق کی فتح ابو عبیدہ کی لیڈری میں ہوئی

اور آپ جس طرح دشمنان اسلام کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے بلکل اسی طرح آپ کمزور اور ناتوان لوگوں کے لیے بڑے رحم دل اور مہربان تھے
خلافت عثمان کے دوران کوفہ کی حکومت پر اعتراض کرنے کی وجہ سے آپ کو ملک بدر کرکے شام بھیج دیاگیا پھر واپس آئے پھر دوبارہ حمص بھیج دیا آخر خلافت عثمان کے اختتام پر آپ اصحاب رسول کے مدد گار بنے
مالک اشتر عثمان کے قتل کے بعد ، امیر المومنین علیه السلام کی خلافت کے دوران امام کا بہت ساتھ دیا اور سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے
اس بارے میں ابن ابی الحدید کا کہنا ہے :
جیسے ہی عثمان قتل ہوا ، مالک اشتر امام کی خدمت میں آیا اور کہا : یا على، لوگ آپ کی بیعت کرنے اور آپ کی خلافت اور حکومت کے خواہاں ہیں ، خدا کی قسم اے علی آپ پھر انکار کرینگے تو ، چوتھی بار آپ کو رولاینگے. امیرالمؤمنین علیه السلام باہر آئے اور ایک جگہ بیٹھ گئے . [شرح ابن ابى الحدید کی عبارت یوں ہے : فى بئر سکن لیکن کتاب الجمل کی عبارت اس طرح ہے : فى بیت سکن فیه. ] اور لوگ سب جمع ہوے بیعت کرنے کے لیے ، عین اسی وقت طلحہ اور زبیر آئے دونوں چاہتے تھے کہ حکومت کو شوری کے ذریعہ تعیین کیا جاے .لیکن جب مالک اشتر نے آکر کہا کہ آیا تم لوگ کسی کے انتظار میں ہو؟اے طلحه اٹھو اور بیعت کرو ! طلحه اٹھا اور بیعت کی ،اسی اثنا میں کوئی اٹھا اور اس نے فال نکالا اور کہا کہ سب سے پہلے جس نے علی کی بیعت کی وہ بیمار تھا اس کےاس کام سے یہ نتیجہ نکلا کہ بیعت کا سلسلہ رک گیا شریف انسان ہمیشہ اپنے اچھے کاموں کو فال نکلواتا ہے اور غلط کاموں سے رہ جاتاہے
پھر مالک اشتر نے زبیر سے کہا : صفیه کا بیٹا اٹھو اور بیعت کرو وہ اٹھا اور بیعت کی پھر لوگ سب اٹھے سب نے ہجوم کی صورت میں بیعت کی
اور مالک اشتر امام کی فوج کے سالار قرار پائے
ما لک اشتر امام کے بہت ہی مخلص اور متدین اصحاب میں سے قرارتھے اور اس قدر امام کے شیدائی تھے کہ جب وہ شہیدگئے تو امام نے فرمایا : رحم اللَّه مالکاً، فلقد کان لى کما کنت لرسول اللَّه صلى الله علیه و آله؛ خداوند مالک کو رحمت کرے مالک میرے لئے ایسا تھا جیسے میں رسول اللہ کے لئے تھا . (۶)
یہاں تک کہ معاویہ کو اس معنوی رابطہ کا پتہ چلا تو اس نے یہ دستور دیا کہ علی وحسنین کے ساتھ مالک اشتر وعبد اللہ ابن عباس کو بھی منبروں سے دشنام دیں .

اس پہلوان کی شجاعت ودلاوری کے بارے میں یہی کافی ہے ابن ابی الحدید کہتا ہے: کہ جس ماں نے مالک جیسے کی تربیت کی اس کا اجر صرف خدا ہی دے سکتا ہے کہ اس کی شجاعت کے بارے میں عرب کہتے ہیں کہ عرب وعجم کے درمیان مالک جیسا شجاع شخص پیدا ہی نہی ہوا اپنے ، [ شرح ابن ابى الحدید، ج ۲، ص ۲۱۳.]
مالک اشتر پیغمبر اکرم کی نگاہ میں (۷)
ابن ابى الحدید لکھتے ہیں : محدثین ایک روایت پیغمبر اکرم صلى الله علیه و آله سے نقل کرتے ہیں یہ انکی فضیلت اور منزلت اور دلاوری پر دلالت کرتی ہے پیغمبر کی گواہی مالک کے مومن ہونے پر دلالت کرتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :
ابو ذر کہتا ہے :: میں نے پیغمبر سے سنا ہے آنحضرت فرماتے ہیں : تم سے ایک شخص فلات میں جاے گا جو دور افتادہ ہے اور ایک آے گا اور مومنین میں سے ایک گروہ اس کے جنازہ پر نماز پڑھنگے وہ شخص میں ہوں کہ اس جگہ دنیا سے چلا جاونگا اور ایک گروہ کہیں جو مجھے کفن دفن کرے گا زیادہ دیر نہ ہوئی تھی مسلمانوں کا ایک گروہ وہاں پہنچا اور انکی تجہیز وتکفین کی انہی افراد میں سے ایک مالک اشتر ہے کہ آپ نے جناب ابو ذر کے نماز جنازہ کے پیش امام بنے . [ ر. ک: شرح ابن ابى الحدید، ج ۱۵، ص ۹۹؛ رجال کشى، ص ۶۵، ح ۱۱۷. ] پس اس بنا پر جناب مالک اشتر ان افراد میں تھے جن کے بارے میں رسول اکرم نے انکے نیک افراد میں سے ہونے کی گواہی دی ہیں .
مدینہ کے لوگوں نے عثمان کے قتل کے بعد یک صدا ہوکر امیرالمؤمنین علیه السلام کی بیعت کی . [ ر. ک: شرح ابن ابى الحدید، ج ۴، ص ۷. ] حتی ناکثین کے بڑے بڑوں نے بھی اپنے ارادہ واختیار سے آپ ع کی بیعت کی .
مالک اشتر بیعت کرنے والوں میں سر فھرست ہیں بلکہ آپ نے ہی لوگوں کو بھی بیعت کرنے کی تشویق کی
دوسری روایت میں ہے : جس نے سب سے پہلے علی ع کی بیعت کی وہ مالک اشتر ہی تھے . اور دوسروں کو بھی کہا کہ علی ع کی بیعت کریں جن میں سے طلحہ اور زبیر اور عبد الرحمن بن عریس وغیرہ بھی شامل ہیں ا.]
امیرالمؤمنین کےایمان ، اخلاص ، تدبیر ، سیاست کے حوالے سے مالک اشتر کا عقیدہ (۸)
۱ – جب لوگ امام علی ع کے گھر بیعت کرنے کے لیے جمع ہوئے مالک کھڑےہوئے اور امامت شناسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے کہا اے لوگو یہ علی ع تمام انبیا‎ء کے علوم کے وارث ہیں انکی مدد کریں
یہ وہی شخص ہے کہ جس کے ایمان کےبارے میں قرآن نے گواہی دی ہے ، اور پیغمبر اکرم نے بہشت کی خوشخبری دی ہے ، اور یہ وہی شخص ہے کہ جو تمام فضائل کے بیکراں سمندر ہے اور جس کے علم کے بارے میں گزشتہ و آئندہ آنے والوں میں سے کسی کو شک نہیں ہے .
۲ – امیر مؤمنان علیه السلام شام کی طرف جنگ میں جانے سے پہلے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو شام والوں سے جنگ کے بارے میں بتایا ، لیکن اس مجمع میں سے کسی فرد نے قبیلہ بنی فزارہ کو جنگ کرنے پر متہم کیا لیکن مالک اشتر اس بندہ کو جواب دیتے ہوئے امیر المومنین سے فرمایا اے علی ع :
، آپ نے جس طرح دیکھا ہے اس سے آپ نا امید نہ ہوں اس آدمی کی باتوں کی وجہ سے کہ اس کی ہٹ دھڑمی آپ کو مایوس نہ کرے ، یہ سب آپ کے شیعہ ہیں انکی جانیں آپ پر فدا کرنے کے لئے تیار ہیں ، اگر آپ انہیں دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لئے لیکر جانا چاہتے ہیں تو خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگ موت سے ہراساں ہوں ، آپ ہمارا امتحان کرسکتے ہیں ایسا نہیں ہے ہم لوگ اپنی اس مختصر زندگی سے خوش ہوں ،
امیرالمؤمنین علیه السلام نے مالک کی اس امید کنندہ باتوں پرفرمایا کہ : راہ مشترک ہے اور لوگ حق کے برابر میں ہیں اور جس نے بھی سب کی خیرخواہی کے لئے کوشش کی اس نے اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے .. ]
۳- جب حکمیت میں امیرالمؤمنین علیه السلام ایک طرف ، اور دوسری طرف معاویہ کی طرف سے لکھا گیا، اس وقت مالک اشتر کو بلایا دوسرے گواہوں کے ساتھ اس قرارداد کی گواہی کے لئے ؛ لیکن مالک نے کہا :
اگر میرا دائیں بازو نہ ہو تو بائیں بازو کا کویئ فائدہ نہیں ہے اگر اس صحیفہ میں میرا نام صلح و جنگ کے خاتمہ کے لئے لکھا جاے تو، آیا میرے پاس اللہ تعالی کی طرف سے کوئی واضح دلیل نہیں؟! آیا مجھے اپنے دشمن کی گمراہی کا یقین نہیں؟! آیا تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ کسی پست آدمی کی بیعت نہ کرتے تو کامیاب ہوتے ؟
ایک روایت کے مطابق اشعث بن قیس کھڑا ہو اور مالک سے کہا کہ نہ آپ نے کامیابی دیکھی ہے نہ پستی ابھی اٹھو اور گواہی دو جس طرح اس صحیفہ میں لکھا گیا ہے .
مالک نے کہا : جی خدا کی قسم، مجھے تمہاری دنیا طلبی اور آخرت کے ثواب میں سے کچھ نہیں چاہئیے ، اور یہ بھی یاد رکھو اس کے ذریعہ سے کچھ لوگوں کا خون بہایا ہے میرے خیال میں تم ان لوگوں میں سے بہتر نہیں ہے اور تمہارا خون بھی ان کے خون سے بہتر نہيں ہے . پھر آپ نے کہا کہ جس طرح امیرالمؤمنین اس میں داخل ہوئے ہیں میں بھی شامل ہوجاونگا، جب امیر المومنین نکل جاے میں بھی نکل جاونگا کیونکہ امیرالمومنین کہیں جاتے نہیں مگر حق وہدایت کے ساتھ یعنی جہاں حق ہو وہاں جاتے ہیں .
۴- جب ناکثین کے قبضہ کی خبر امیر المومنین کو ہوئی اس وقت آپ ع ذی قار میں تھے ،: بہت اہم خطاب کیا آ پ نے اس میں طلحہ اور زبیر کے ظالمانہ اعمال کی خدا سے شکایت کی :
(اللهم انّ طلحة و الزبیر قطعانى و ظلمانی و ألبّا علىّ، و نکثا بیعتى، فاحلل ما عقداه، و انکث ما أبرما، و لا تغفر لهما أبداً، و أرهما المساءة فیما عملا و أمَّلا؛)
پروردگارا جس طرح طلحہ اور زبیر نے مجھ سے قطع رحم کیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے اور میری بیعت شکنی کی ہیں اے اللہ جس طرح انہوں نے مشکل کھڑی کی ہیں اور انہوں نے جسکو محکم کیا ہیں اس کو توڑ دے اور انکی مغفرت نہ کر اور جس طرح انہوں نے کیا ہے اور جس چیز پر راضی ہوئے اس پر ان کے انجام کو خیر نہ فرما .
جیسے ہی امیر المومنین کا خطبہ ختم ہوا مالک اشتر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالی کی حمدو ثناء کرنے کے بعد کہا :
اے امیرالمؤمنین آپ کے فرمامین کو ہم نے سنا آپ کا کلام حق ہے خدا آپ کو کامیاب کرے ، یا على، آپ تو پیغمبر اکرم کے چچا زاد اور وصی پیغمبر اور سب سے پہلے رسول پر ایمان لانے و تصدیق کرنے والے ہیں اور ان سب سے پہلے جس نے نماز پڑھی آپ ہی ہیں ، اوروہی شخص ہو جس نےرسول کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی اور آپ ہی ہیں جو رسول کے جانشین ہے اور امت کے تمام افراد سے افضل ہیں ، یا على، جس نے بھی آپ کی پیروی کی وہی دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوگا اور جس نے بھی آپ کے فرمان سے سرکشی کی اس کا ٹھکا نہ جہنم ہے.
مالک یہی باتیں کرنے کے بعد بیٹھ گئے .

مالک کی شهادت (۹)
جب امام نے مالک کو دستورات دیے اور مالک دستورات دریافت کرنے کے بعد مصر کی طرف نکلے لیکن معاویہ کے جاسوسوں نے معاویہ کو یہ خبر دی کہ مالک مصر کی طرف نکلے ہیں ، معاویه سخت نگران اورپریشان ہوا کیونکہ وہ مصر کی لالچ میں مبتلا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مالک جب مصر پہنچے تو ہرگز کسی کا مجال نہیں کہ مصر پر قبضہ کرسکے، اس لیے اس نے سوچا کہ مالک مصر میں مستقر ہونے سے پہلے شہید کیا جاے .
اس نے کسی منافق آدمی کو روانہ کیا وہ راستہ میں ہی مالک کے قافلہ کے ساتھ ملحق ہوا اوروہ اپنےآپ کو مالک کا خدمت گزار ظاہر کرنے لگا اور امام علی ع کے دوستداروں میں خود کو ظاہر کرنے لگا کیونکہ مالک امام کے شیدائی ہیں تو مالک نے اس منافق پر اعتماد کیا اور دریا نیل کے قریب پہنچے تو مالک نے پانی طلب کیا تو اس منافق نے کہا کہ آگر مائل ہیں تو شربت لا‍وں ؟ اس منافق نے ستو کو پانی کے ساتھ زہر آلود شربت تیار کیا اور مالک کے لئے وہی شربت پیش کیا اور مالک نے شربت پیا طبری کی روایت کے مطابق اسی شربت کے پینے کے کچھ گھنٹوں بعد شہید ہوئے ، تو اس طرح سے اسلام کی تلوار غلاف میں چلی گئی ، اس کے بعدمالک کے ساتھیوں نے اس منافق کو بہت تلاش کیا لیکن اس کو نہیں پایا . [ ر. ک: شرح ابن ابى الحدید، ج ۶، ص ۷۶؛ تاریخ یعقوبى، ج ۵، ص ۹۵ و ج ۲، ص ۱۹۴.
امام ع مالک کے سوگ میں (۱۰)
جیسے ہی مالک کی شہادت کی خبر پھیل گئی شامیوں نے خوشی منائی : لیکن عراق کے عوام اور امام ع کو بہت ہی غمگین کیا اور سب سے زیادہ امام ع ہی اس پر پریشان ہوئے اسی لیے آپ نےبلند آواز سے گریہ کیا اور فرمایا :
انّا للَّه و انّا الیه راجعون و الحمد للَّه ربّ العالمین، اللّهم انى أحتسبُهُ عندک، فإنّ موته من مصائب الدَّهر، فرَحمَ اللَّه مالکاً فقد وفى بعهده و قضى نحبه و لقى ربَّه…؛
ہم خدا کی طرف سے آئیے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہیں اور تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں .. خدایا، میں مالک کی شہادت کو آپ کی راہ میں رکھتا ہوں کیونکہ انکی شہادت زمانہ کی شہادت ہے مالک پر خدا کی رحمت ہو کہ اس نے اپنے عہد پر وفا کیا ہے اور اپنے خدا کے ساتھ ملاقات کی ہے اور چونکہ ہم نے رسول اکرم کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ ہر مصیبت پر صبر کرینگے پھر بھی ہمیں اس مصیبت نے غمگین اور پریشان کیا ہے
راوی پھر کہتا ہے کہ امام ع مالک کی شہادت کے بعد کئی عرصہ مغموم رہے اور گریہ کرتے رہے یہ کہتے ہوئے کہ مالک کا نظیر نہیں اور میرے لیے مالک جیسا کوئی نہیں ہوگا .
مالک کی شہادت پر امام ع پر اس طرح سے اثر انداز ہونا اور امام کا مغموم ہونا حکایت کرتا ہے مالک کی اسلام اور امامت کے حوالے سےکیاخدمات تھیں . لیکن شام میں مالک کی شہادت کی خبر سنکر معاویہ اور انکے چاہنے والے خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے اور معاویہ نے سب کو جمع کرکے کہا کہ
علی کے دو بازوہ تھے
ایک جنگ صفین میں قطع ہوا (عمار یاسر) دوسرا آج شام میں (مالک اشتر)
خلاصہ
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ مالک پہلوانوں کے پہلوان اور امام ع کے بازو تھے امام ع سے پہلے شہید ہوئے مالک سے امام کی نسبت وہی تھی جو نسبت رسول اکرم ص اور امام ع کی تھی ، حتی معاویہ بھی مالک کو علی ع کا بازو ہونے کا لقب دیتا تھا مالک کی شہادت کے بعد عراق کا لشکر کبھی بھی کوئی مستقل راہ اختیار نہ کرسکاحتی خود لوگوں کی طرفسے یہ کئی دفعہ اعلان ہوا کہ اور کہا : اگر ہم لوگ امیر المومنین کی بیعت کرنے میں اتنے کمزور ہوئے ہیں تو اسے لئے ہے کہ ہمارے پاس مالک جیسا کوئی فرد نہیں ہے کہ اس پراکندہ لوگوں کوامیر المومنین کی بیعت کے لیے جمع کیا جاے اسی لئےامام ان لوگوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : افسوس ہو تم پر کیا میرا حق تم لوگوں پر مالک سے کم ہے اس کا حق مجھ سے زیادہ تھا کیا حالانکہ میں تو تم لوگوں کا ولی تھا اس کے باوجود میری باتیں نہیں سنتے ہو ؟ خدا مالک کو رحمت کرے ۔۔
ہم بھی یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مالک کو اپنے مولا کے ساتھ محشور فرما، آمین یا رب العالمین.
حوالہ جات
1- زندگی پر افتخار مالک اشتر قهرمان قهرمانان، محمد مهدی اشتهاردی
2- اصحاب امام علی ج۲ ، سید اصغر ناظم زاده قمی
3- آثار ادبی اصحاب امیر المومنین ترجمه دیوان مالک اشتر، ترجمه: سید مرتضی موسوی گرمارودی
4- محمد مهدی اشتهاردی، زندگی پر افتخار مالک اشتر قهرمان قهرمانان،چاپ سوم:۱۳۷۵ ، انتشارات پیام آزادی، ص ۱۶ .
5 – مولف: قیس عطار، آثار ادبی اصحاب امیر المومنین ترجمه دیوان مالک اشتر، ترجمه: سید مرتضی موسوی گرمارودی، پہلی ایڈیشن : ۱۳۷۹، انتشارات دلیل، ص ۱۱.
6- محمد مهدی اشتهاردی، زندگی پر افتخار مالک اشتر قهرمان قهرمانان،ص۲۱.
7- سید اصغر ناظم زاده قمی، اصحاب امام علی ج۲،چاپ اول:۱۳۸۵، ناشر موسسه بوستان کتاب، صص ۱۰۲۱-۱۰۲۳
8- محمد مهدی اشتهاردی، زندگی پر افتخار مالک اشتر قهرمان قهرمانان،ص۱۵۱.
9- سید اصغر ناظم زاده قمی، اصحاب امام علی ج۲،صص۱۰۲۳-۱۰۲۴
10 ر. ک: شرح ابن ابى الحدید، ج ۴، ص ۷.
11- وہی ، ص۱۰۵۹
12- وہی ، صص۱۰۵۹-۱۰۶۲

تحریر:اشرف حسین صالحی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *