ماں كى حيثيت سے زندگى كا آغاز،حجۃ الاسلام ابراہیم امینی
ايك دانشور لكھتا ہے :
جس وقت انسان اس دنيا ميں آتاہے تو نو مہينے اس كى عمر كے گزرچكے ہوتے ہيں _ اور ان اولين نو مہينوں ميں وہ ايسے مراحل سے گزرتا ہے كہ جس ميں ايك ايسے وجود كا تعين ہوجاتا ہے جو بالكل مختلف اور بے نظير ہوتا ہے اور يہ زمانہ اس كى سارى عمر كے ليے مؤثر ہوتا ہے_ ( بيوگرافى پيش از تولد ص 16 )
عورت جب حاملہ ہوجاتى ہے تو اسى وقت وہ ماں بن جاتى ہے اور جو بچہ اس كے پيٹ رحم ميں پرورش پارہا ہوتا ہے اس كے بارے ميں وہ ذمہ دار ہوتيہے _ يہ درست ہے كہ باپ كا نطفہ قانون وراثت كے اعتبار سے بچے كى جسمانى اور نفسياتى شخصيت پر اثر ركھتا ہے
ليكن اس موجود زندہ كا مستقبل بہت زيادہ ماں كے اختيار ميں ہوتا ہے ، باپ كا نطفہ بيج كى حيثيت ركھتا ہے اور ماحول كسى فرد كى شخصيت كى پرورش پر بہت زيادہ اثر پذير ہوتا ہے _ ايك دانشور لكھتا ہے :
بچے كے والدين كيايك ايسے ماحول ميں نشو و نما كرسكتے ہيں كہ جو اس كى طبيعت اور مزاج كے ليے صحيح و سلامت ہو اور وہ اسے ايك خراب اور گندے ماحول ميں بھى پروان چڑھاسكتے ہيں _ اور امر مسلّم ہے كہ ايسا ماحول ايك انسان كى روح جاوداں كے رہنے كى جگہ نہيں ہے _ يہى وجہ ہے كہ ماں باپ انسانيت كى طرف سے سب سے بھارى ذمہ دارى كے حامل ہوتے ہيں _ (راز آفرينش انسان _ ص _ 108)
ہر شخص كى سلامتى يا بيمارى ، طاقت يا كمزورى ، خوبصورتى يا بدصورتى ، خوش استعدادى يا بد استعدادى اور خوش اخلاقى يا بد اخلاقى كى بنياد ماں كے رحم ميں پڑتى ہے _
بچے كى خوش بختى يا بد بختى كى اساس ماں كے بطن ميں ہى ركھى جاتى ہے_
رسول اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:
ہر شخص كى سعادت اور بدبختى اس وقت سے شروع ہوتى ہے جب وہ ماں كے رحم ميں ہوتا ہے _ (بحار الانوار _ ج 77_ص 133نيز ج 77_ ص 115)
دوران حمل ايك نہايت حساس اور ذمہ دارى كا زمانہ ہے _ ايك خاتون كہ جو اپنى اہم ذمہ دارى سے واقف ہو وہ دوران حمل كو ايك معمولى زمانہ تصور نہيں كر سكتى اور اس سے بے پرواہ نہيں رہ سكتى كيونكہ اگر وہ تھوڑى سى بھى غفلت يا سہل انگارى سے كام لے تو ممكن ہے اس كى اپنى صحت خراب ہوجائے يا اس كا بچہ ناقص ہوجائے ، يا بيمار پڑجائے اور ہميشہ كے لئے بد نصيب بن كر دنيا ميں آئے _ اور سارى عمر آہ و زارى كرتا رہے _
ايك دانشور لكھتے ہيں :
ماں كا بدن اور پر انداز ہونے والے واقعات بچے كے پروان چڑھنے پر اثر انداز ہوتے ہيں اور بچہ ماں كے بدن كى نسبت حساس تر ہو تا ہے چونكہ ماں كا بدن تو كممل ہو چكا ہوتا ہے اور اسے ابھى تكميل كے مراحل طے كرنا ہو تے ہيں _ لہذا ہر عورت كا يہ فريضہ ہے كہ اپنے بچے كے پہلے گھر كے ليے بہترين ماحول فراہم كرنے كى كوشش كرے اور ايسا وہ صرف اسى صورت ميں كرسكتى ہے كہ جب اسے معلوم ہو كہ كون سغ واقعات اور امور بچے كے رشد پر اثر انداز ہوتے ہيں صرف اس امر سے ڈرتے رہنا كہ بچے كا رشد معمول كے خلاف ہو بچے كى بھلائي كے ليے كافى نہيں ہے اور ان عوامل سے عفلت كہ جواس چيز كا باعث بنتے ہيں كيس درد كى دوا نہيں بن سكتى _ انسان كا رشد كس طريقے سے ہوتا ہے اور كس طريقے سے اس ميں تبديليان جنم ليتى ہيں اگر ماں اس سے واقف ہو تو وہ اپنى ذمہ دارى ادا كر سكتى ہے بچے كى نشوو نما كے ليے ولادت سے پہلے ياولادت ك بعد اسك كامل ماحول كى ضمانت كبھى بھى ممكن نہيں البتہ قدر مسلم يہ ہے كہ تمام والدين يہ چاہتے ہيں كہ ايك سالم اور صحت مند بچہ دنيا ميں آئے يہ والدين اور گھر كے بڑے افراد كى ذمہ دارى ہے كہ بچے كو صحيح و سالم دنيا لانے كى كوشش كريں _ البتہ جہالت طبعى حوادث كونہيں روك سكتى _ اگر انسان كو يہ خبرنہ ہو كہ بچہ كس طرح نشوو نما پاتا ہے تويہ بے خبرى آنے والوں كى بدبختى كا باعث بنتى ہے _ دنيا ميں بے نقص آنا ہر انسان كا حق ہے (بيو گرانى پيش از تولد ص 184)
جنين كى سلامتى ہيں ماں كى غذا كااثر
رحم مادر ميں بچہ ماں كے بدن كا كوئي با قائدہ حصہ نہيں ہو تا تا ہم وہ ماں كے خون اور غذا سے ہى پرورش پاتا ہے _ ايك حاملہ خاتون كى غذا كا مل ہونى چاہيے جو ايك طرف تو خود اس كے بدن كى ضروريات پورى كرسكے تا كہ اس كى جسمانى طاقت اور تندرستى مين كوئي كمى واقع نہ ہو اور صحيح و سالم طريقے سے اپنى زندگى جارى ركھ سكے اور دوسرى طرف اس كى غذا كو _ بچے كے جسم كى ضروريات كا بھى كفيل ہونا جا ہيے تا كہ وہع معصوم بچہ اچھے طريقے سے پرورش پا سكے اور اپنيب اندرونى طاقتوں كو ظاہر كر سكے
لہذا يك حاملہ عورت كا غذائي پرو گرام سو چا سمجھا ‘ كسى حساب كے تحت اور مرتب ہو نا چاہيے _ كيونكہ ممكن ہے بعض و ٹا من يا غذائي مواد كى كمى سے ماں كى سلامتى خطر ے ميں جاپڑے يا بچے كى صحت و سلامتى كو نا قابل تلافى نقصان پہنچ جائے _
اسلام كى نظر مين ماں كى غذا بہت اہميت ركھتى ہے _ يہاں تك كہ وہ حاملہ عورت كہ جس كے اپنے ليے يا اس كے بچے كے ليے روزہ ركھنا باعث ضرر ہوا سے اجازات دى گئي ہے كہ ماہ رمضان كا واجب روزہ نہ ركھے بعد ہيں فضا كرے _
ايك تحقيق كے مطابق دنيا كے اسى فيصد نا قص الخلقت نيز فكرى ‘ اعصابى يا جسمانى طور پر كمز ور بچوں كے نقص اور كمزورى كا سبب يہ ہے كہ رحم ماور ميں نہيں صحيح غذا نہيں طى (بہداشت جسمى رو روانى كودك ص 62)
ڈاكٹر جزائرى كہ جو ايك ماہر غذا ہيں لكھتے ہيں :
ماں اور جنين كى سلامتى اس غذا سے وابستہ ہے كہ جوماں حمل كے دوران ميں ك;ھاتى ہے (اعجاز خورا كيھا ص 220)
مدتوں سے انسان كو اس بات كا علم ہے كہ جنين اور بچے كے رشد ميں ولادت سے پہلے اور دودھ دينے كے دوران ميں ماں كى غذا اثر ركھتى ہے _ ماں كو چاہيے كہ تمام پروٹين ‘ وٹامن ‘ كا ربو ہاٹيڈ رٹيس ‘ روغنيات اور ديگر در كا غذا كو اس زندہ سيل يعنى بچے كى نشوو نما ك ليے فراہم كرے تجربات سے يہ بات ثابت ہو چكى ہے كہ ماں كے ليے ضرورى ہے كہ وٹامنز كى وہ مخصوص مقدار جنين كے ليے مہيا كر ے كہ جوزندہ خليوں كے ليے ضرورى ہے _ اس طرح سے كہ جنين كے رشد كو يقينى بنا يا جا سكے كيونكہ مختلف دٹا منز كى كمى بچے پ زياہ اثر انداز ہوتى ہے كيونكہ وہ تو حالت رشد ميں ہو تا ہے جب كہ ماں كى نشو ونما تو مكمل ہو چكى ہوتى ہے _ ممكن ہے كہ دوران حمل ماں با لكل تندرست رہے جب كہ بچہ مخصوص وٹا منز كى كمى كا شكار ہوجائے اور اس كے نتيجے ميں اس كے رشد كى حالت خلاف معمول ہو ( بيو گرافى پيش از تولد ص 182)
كرنر كہتا ہے:
بچے كے غير طبعى ہونے كى وجہ كبھى يہ ہوتى ہے كہ تخم تو اچھا ہوتا ہے ليكن اسے فضا اچھى ميّسر نہيں آتى اور كبھى يہ ہو تا ہے ‘ تخم اچھا نہيں ہو تا جبكہ فضا اچھى ميّسر آجاتى ہے بہت سار ے جسمانى نقائص مثلا ہو نٹوں كا پھٹا ہو اہونا ،آنكھيں چھوٹى اور رھنسى ہوئي ہو نا اور پاوں كے تلوے كاہموار ہونا كہ جنيں پہلے مورد ثى عواملى كا نتيجہ سمجھا جاتا تھا آجكل ماحول با لخصوص حمل آكسيجن كى كمى جيسے عوامل كا نتيجہ قرار و يا جاتا ہے _ ماحول اور فضا كو بہت س پيدائشےى نقائص اور بچوں كے اعضاء كے فالج ز وہ ہو نے كى علت شمار كيا جاتا ہے (روانشناسى كودك ص 190)
امام صادق عليہ السلام ايك حديث ميں فرماتے ہيں :
جو كچھ ماں كھاتى اور پيتى ہے بچے كى خوراك اسى سے بنتى ہے ( بحار الانوار _ جلد 60 _ ص342)
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید