مثبت تبدیلی شعار سے نہیں شعور سے آتی ہے/تحریر : محمد حسن جمالی
شعور سے خالی شعار انسان کے لئے نہ صرف مفید نہیں بلکہ مضر ہے، یہ لوگوں کے جزبات کو بهڑکاتا ہے، انسان میں غصہ بے جا پیدا کرتا ہے، عوام کو آپے سے باہر کرتا ہے اور آدم کی اولاد کو غیر منطقی اقدامات کی طرف مائل کرتا ہے، جیسے حکومتی املاک کو جلانا یا خراب کرنا وغیرہ خالی شعار سے وقتی طور پر منفی تبدیلیاں تو آسکتی ہیں مگر مثبت تبدیلی نہیں آتی –

پاکستانی قوم کو پسماندہ رکهنے میں ذمہ دار افراد کے خشک شعار کا بڑا کردار رہا ہے- اب تک اقتدار کے حصول کے لئے جس نے بهی سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے اس نے ملک اور قوم کو ترقی سے ہمکنار کرانے کا نعرہ ضرور لگایا لیکن عملی میدان میں ملک اور قوم کو ترقی کے بجائے تنزلی اور پستی کی طرف دهکیلنے میں ایک سے بڑهہ کر ایک نے کردار ادا کیا ہے، یوں مثبت تبدیلی کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ،اس لئے کہ مثبت تبدیلی یا انقلاب صرف شعار سے نہیں بلکہ شعور سے آتا ہے-
جب قوم بیدار ہوگی، معاشرے میں لوگوں کو اپنے نفع ونقصان کا ادراک ہوگا ،ملک کے ذمہ دار افراد باشعور ہوں گے، تب تمام شعبہ ہائے زندگی میں مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے-
پاکستان کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے -شعور سے تہی افراد برسر اقتدار ہیں، جنہوں نے ریاست کی مالی طاقت اور افرادی قوت استعمال کرکے عوام کو دهوکا اور فریب کے گهٹاٹوپ اندهیرے میں رکها ہوا ہے، قوم سے سوچنے اور سمجهنے کی صلاحیت سلب کررکهی ہے، انہوں نے پاکستان کے باسیوں کو ترقی اور پیشرفت کے شعار و نعروں کے زیر سایہ خوش ہوکر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنے کے عادی بنا رکها ہے ،عوام کو مختلف گروہ میں تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش کرکے اجتماعی طاقت کو بے جان بنا رکهی ہے ،کهبی مذہب کے نام پر تو کهبی علاقائی تعصب پهیلاکر قومی وحدت جیسی عظیم طاقت پر کاری ضرب لگاکر وہ اپنے عزائم پورا کررہے ہیں-
ہماری قوم میں شعور کی کمی کو سمجهنے کے لئے ان واضح مثالوں پر غور کرنا کافی ہے کہ ملک کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی خزانہ لوٹ کر پاکستانی قوم کا مجرم ٹهرا اور ملک و قوم کے ساتهہ خیانت کرنے کے اس سنگین جرم کے سبب وہ نااہل قرار پایا، مگر شعور سے تہی افراد کی ایک بڑی تعداد آج تک اس کی نااہلی سے ناراض ہے اور وہ اسے دوبارہ سیاسی میدان میں لانے کے لئے تگ ودو کر رہی ہے- ظاہر ہے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جس کے قانون کے مطابق چور خائن اور ملک وقوم کے ساتهہ غداری کرنے والوں کو اس ملک کے اقتدار پر رہنے کا کوئی جواز نہیں، لیکن نواز شریف کو اقتدار میں جواز فراہم کرنے کے لئے کچهہ مفاد پرست لوگ آئین پاکستان کی شقیں تک بدلنے کے لئے بهاگ ڈور کررہے ہیں، وہ اس ہدف کی خاطر عدلیہ کی بے احترامی کرنے میں مگن ہیں –
اگر یہ ٹولہ شعور کا شد بد بهی رکهتا تو وہ نواز شریف کے جرم کو چهپانے کے لئے غیر قانونی طریقے سے ہاتهہ پیر مارنے کے بجائے نااہل وزیراعظم کو نمونے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اقتدار پر براجمان کرپشن میں ملوث دوسرے لٹیروں کو بهی بهی نااہل قرار دینے کا مطالبہ کرتا- جس سے عدالت عظمی کا احترام باقی رہتا، عدلیہ کے قانون پر لوگوں کے دل ودماغ میں اعتماد قوی ہوتا، قانون اور انصاف کے مطابق مسائل پر غور کرنے کے لئے ارکان عدلیہ کی ہمت وجرات میں اضافہ ہوتا، ملک کے اندر چوری کی شرح میں کمی واقع ہوتی، قوم کے سرمائے کی حفاظت ہوتی اور ملک وقوم کے مفاد میں ایک سنت حسنہ چل پڑتی ،یوں آہستہ آہستہ ملک میں انصاف کا قانون مستحکم ہوتا اور نواز شریف موجودہ و آئندہ آنے والے حکمران اور سیاستدانوں کے لئے مایہ عبرت بنتا –
نواز شریف کی ذات سے کسی کو سروکار نہیں، لیکن اس کا جرم قابل معاف ہرگز نہیں- بہر حال قانون کو داو پر رکهہ کر اس کی بے جا حمایت کرنے والوں کو اب بهی ہوش کا ناخن لیتے ہوئے اپنے عمل پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے –
اسی طرح گلگت بلتستان کے موجودہ وزیر اعلی مولوی حفیظ نے خطہ بے آئین سے انسانی حقوق کے لئے عوام نے بلند کی ہوئی آواز کو کمزور کرنے کے لئے کهلے الفاظ میں لسانی اور مذہبی تعصب کا سہارا لیا- انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کردکهایا کہ وہ اپنے عوام کے ساتهہ مخلص نہیں ،وہ اپنے خطے کو پسماندہ رکهنا ہی پسند کرتے ہیں، وہ اپنے آقاووں کو ناراض کرکے گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑنے کو روا نہیں سمجهتے ہیں- تو کیا جو لسانی اور مذہبی تعصب کا کهلا مظاہرہ کرے اور اپنے عوام کے مفاد کے لئے کام کرنے کے بجائے دوسروں کے اشارے پر ناچتے رہے اسے وزیر اعلی کے منصب پر رہنے کا کوئی حق ہے ؟
انصاف کا تقاضا تو یہ تها کہ اسی وقت ہی اسے منصب سے نااہل کرواکر گهر بهیج دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام میں نفع اور نقصان اور دوست و دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت کی کمی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلیان گلگت بلتستان صاحبان اقتدار کے کرتوت اقدامات اور حرکتوں پر کڑی نظر رکهی جائے انہیں شتر بے مہار کی طرح چهوڑ کر نہ رکهیں- گلگت بلتستان کا خطہ پر امن ہے جو بهی تعصبات کی آگ پهیلانے کی باتیں کرے خواہ کوئی بهی ہو اس کی زبان کو بروقت لگام دے کر خطے کی امنیت کو تحفظ فراہم کریں –
جس دن پاکستانی قوم شعار اور نعروں کے بجائے شعوری طور پر تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی اخلاق جرات اپنے اندر پیدا کرے، نظم، قانون اور اتحاد کو اپنے مسائل کے حل کی بنیاد جانے یقین کیجئے مثبت تبدیلیاں دیکهنے کو ملیں گی، اس لئے کہ مثبت تبدیلی شعار سے نہیں شعور سے آتی ہے
دیدگاهتان را بنویسید