تازہ ترین

معاف کرنے کا مزا لیجئے

 دنیا کیسے بھول سکتی ہے اس منظر کو جب وہ لوگ فرزند آمنہ کے سامنے کھڑے تھے، جنکی وجہ سے آپؐ نے بے شمار مصائب اٹھائے تھے، جنکی وجہ سے آپؐ کو خانہ خدا کو چھوڑنا پڑا تھا، جنکی وجہ سے آپؐ پر جنگیں مسلط کی گئیں تھیں، جنہوں آپؐ کے چچا کا کلیجہ چبایا تھا، سب منتظر حبیب خدا تھے،

شئیر
51 بازدید
مطالب کا کوڈ: 768

ایسے میں آپ گویا ہوئے تو یہی فرمایا، جاو تم سب آزاد ہو، میں نے تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دیا۔ تاریخ دان جب سیرت کے اس پہلو پر پہنچتے ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے حجۃ الوداع کا خطبہ جو منشور انسانیت ہے، اس میں بھی فرمایا کہ میں اپنے چچا کے قاتلوں کو معاف کرتا ہوں، میں اپنے خاندان کے سود کو معاف کرتا ہوں۔ ہم تو معاف کرنے والا خدا، معاف کرنے والا نبیِؐ اور معاف کرنے والے امام رکھتے ہیں، یقین جانیئے اللہ نے معاف کرنے میں اتنا مزا رکھا ہے، اتنا سکون رکھا ہے کہ معاف کرنے والا انسان ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔ خدا ہمیں معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
معاف کرنے کا مزا لیجئے
تحریر: ندیم عباس

آج کل ہم نفرتیں پالتے ہیں، دشمنیاں پروان چڑھاتے ہیں، عدم برداشت کو ہوا دیتے ہیں، جس سے تھوڑی بہت مخالفت ہوتی ہے اسے دشمنی میں تبدیل کر لیتے اور دشمنی کو لڑائی اور لڑائی کا کوئی دائرہ کار معین نہیں ہے، جو بڑے کے احترام کو ختم کر دیتی ہے، جو مذہب کی حدود کو پامال کر دیتی ہے، جو انسان کے عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، یہ انسان کے چھوٹا ہونے کی علامت ہے، یہ انسان کی بے حسی کی دلیل ہے، یہ انسان کے جہالت کی گھاٹی میں ڈوبنے کا اعلان ہے، انسان اپنی نسلیں برباد کرتا دیتا ہے، دن رات نفرت کی آگ میں کڑتا رہتا ہے، یہ ایک سزا ہے جو اللہ تعالٰی نے نفرت کرنے والے انسان کے مقدر میں لکھ دی ہے، وہ اس سے رات کی نیند اور دن کا سکون چھین لیتی ہے۔

میں حیران ہوتا ہوں ہم کن کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کن کی محبت کو عزیز جان رکھتے ہیں، وہ لوگ معاف کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے بلکہ گستاخی نہ ہو جائے، وہ کبھی دل میں نفرت یا دشمنی کو پالتے ہی نہیں تھے۔ آپ سیرت کا مطالعہ کر لیجئے، ہزار بار آپ نے پڑھا اور سنا ہوگا کہ بڑھیا آپؐ پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی، مگر جب ایک دن اس نے یہ عمل انجام نہ دیا تو وجہ تخلیق کائنات ایک لمحہ کے لئے بھی دشمنی، بغض، عدم تعلق کو ذہن میں نہ لائے اور اس کی عیادت کو پہنچ گئے۔ کیا ہمارے ساتھ کبھی کسی ہمارے دشمن نے بھی ایسا عمل کیا۔ نہیں یقیناً نہیں، مگر اس کے باوجود ہم نے عداوتیں نفرتیں پال لی ہیں، ہم تو زمانہ جاہلیت سے بھی گئے گزرے لوگ ہیں، وہ چلیں گھوڑا بڑھنے بڑھانے اور پانی پینے پلانے پر جھگڑتے تھے، ہم تو اس سے بھی چھوٹی باتوں پر باہم دست گریبان ہیں۔

حضرت امام حسنؑ نے گالیاں دینے والے سے کیا سلوک کیا، اس کو اپنا مہمان بنایا اس ضروریات کو پورا کیا، امام حسینؑ نے قتل کرنے کے لئے آنے والوں کو پانی پلایا، دس محرم کو بھی ان ظالموں کی وجہ سے مغموم تھے کہ میرے قتل میں شریک ہونے کہ وجہ سے یہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے، امام زین العابدین ؑکے واقعات دیکھ لیں، ایک شخص بھری محفل میں آپ کی شان میں گساخی کرتا ہے مگر آپ اسے اس کے گھر جا کر معاف کرکے آتے، تاریخ بھری پڑی ہے معافی مانگنے سے پہلے معاف کر دیا۔ امام موسٰی کاظم ؑکی کنیز نے جب سے جب بہت بڑی غلطی ہوگئی، اب اس نے امام کو دیکھا کہ آپ غصہ میں ہیں تو اس نے قرآن کی آیت پڑھی و َالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ، امام نے فرمایا میں  نے غصہ کو قابو کرلیا، اس نے  کہا وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاس امام نے فرمایا میں نے تجھے معاف کر دیا، اس نے پھر کہا وَاللَّهُ يُحِبُّ المحسنین، امام نے فرمایا کہ میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں ہم جن سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں، جن کے نام پر جان قربان کرنے کا عزم کرتے ہیں، مگر افسوس ان کی اطاعت نہیں کرتے، کسی نے کہا تھا کہ مذہب کے لئے جان دینا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔

شاید کچھ لوگ کہیں کہ وہ تو امام تھے، ہم ایسا کیسے کرسکتے ہیں، تو لیجئے امام علیؑ کے سپہ سالار لشکر صحابی رسول حضرت مالک اشتر کا واقعہ بتا دیتے ہیں، کوفہ کی ایک گلی سے تشریف لے جا رہے تھے، ایک دکاندار باہر کھڑا تھا، اس نے دیکھا ایک دراز قد عرب آرہا ہے، اس نے کوڑا اٹھایا اور آپ پر پھینک دیا، مالک اشتر آگے بڑھ گئے، سامنے کھڑے ایک آدمی نے بتایا کہ پتہ ہے یہ کون تھے۔؟ کہا نہیں، اس نے بتایا یہ لشکر اسلامی کے سپہ سالار مالک اشتر تھے۔ یہ سننا تھا کہ اس کے پاوں سے زمین نکل گئی، وہ آپ کے پیچھے بھاگا، آپ مسجد میں داخل ہوچکے تھے اور نماز ادا کر رہے تھے، جیسے ہی آپ نے نماز کو تمام کیا، یہ آپ کے قدموں پر گر پڑا کہ مجھے معاف کر دیں، اس کا خیال تھا کہ آپ فوجی بھیج کر گرفتار کرائیں گے، مگر حضرت مالک اشتر گویا ہوئے اور فرمایا میں نے دو رکعت نماز تمہارے لئے ادا کی ہے کہ خدا تجھے ایسے گناہوں سے بچائے، میں نے تجھے اسی وقت معاف کر دیا۔ آیۃ اللہ آصف محسنی فرما رہے تھے، علیؑ کے لشکر کے سپہ سالار صرف میدان جنگ کے سپاہ سالار نہ تھے بلکہ وہ میدان اخلاق کے بھی سپاہ سالار تھے۔

معاف کرنے کا اثر کیا ہوا وہ مکہ جو آپؐ کے دشمنوں کا مرکز تھا، آپؐ کے جانثاروں میں تبدیل ہوگیا، جو شامی امام حسنؑ کی شان میں گستاخی کر رہا تھا، وہ اس جذبہ کے نتیجے سچا پیرو کار اہلبیتؑ بن گیا۔ حضرت مالک اشتر پر کوڑا پھیکنے والا آپ کا محب اور اطاعت گزار خدا بن گیا، معاف کرنے کے جذبے سے افراد، خاندان اور قومیں دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرسکتی ہیں۔ اور دنیا کیسے بھول سکتی ہے اس منظر کو جب وہ لوگ فرزند آمنہ کے سامنے کھڑے تھے، جن کی وجہ سے آپؐ نے بے شمار مصائب اٹھائے تھے، جن کی وجہ سے آپؐ کو خانہ خدا کو چھوڑنا پڑا تھا، جن کی وجہ سے آپؐ پر جنگیں مسلط کی گئیں تھیں، جنہوں آپؐ کے چچا کا کلیجہ چبایا تھا، سب منتظر حبیب خدا تھے، ایسے میں آپ گویا ہوئے تو یہی فرمایا، جاو تم سب آزاد ہو، میں نے تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دیا۔ تاریخ دان جب سیرت کے اس پہلو پر پہنچتے ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے حجۃ الوداع کا خطبہ جو منشور انسانیت ہے، اس میں بھی فرمایا کہ میں اپنے چچا کے قاتلوں کو معاف کرتا ہوں، میں اپنے خاندان کے سود کو معاف کرتا ہوں۔ ہم تو معاف کرنے والا خدا، معاف کرنے والا نبیِؐ اور معاف کرنے والے امام رکھتے ہیں، یقین جانیئے اللہ نے معاف کرنے میں اتنا مزا رکھا ہے، اتنا سکون رکھا ہے کہ معاف کرنے والا انسان ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔ خدا ہمیں معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *