تازہ ترین

مقام حضرت عباس , امام صادق کے کلام میں. تحریر :سید نثار حسین

 تاریخ بشریت   میں بہت سے ایسی شخصیات آئی  ہیں کہ   جنہوں  نے معصو مانہ  زندگی    گزاری ہیں اگر چہ  بہت سارے لوگ پیغمبر یا امام نہیں تھے لہذا معصومین بھی  ان کے  زندگی   پر فخر اور مباہات کرتے ہوئے  نظر آتے ہیں   ان ذوات میں سے  ایک  حضرت ابولفضل عباس ہے کہ آپ نے ایک معصومانہ زندگی گزاری ہے لہذا  ائمہ علیہم سلام نے  آپ کی بہت ہی مدح و ثنا بیان کی ہیں   چنانچہ حضرت امام جعفر  صادق  آپ کے اوصاف حمیدہ کو ایک حدیث میں سمیٹ کرارشاد فر ماتے ہیں 

شئیر
20 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2136

 

“کان عمنا العباس نافذ البصیره ،وصلب الایمان ، جاهد مع الحسین، وابلی بلاءً حسنا ومضی شهیدا فلقد اثر وابلی وفدی اخاه بنفسه حتی قطعت یداه”۱

امام صادق  ؑحضرت  ابو الفضل عباس ؑکے بارے میں فر ماتے ہیں : ہمارے چچا عباس ؑبصیرت کے اعلی مقام پر فا  ئز تھے اور ایمان کے مستحکم ستون کے مالک تھے اپنے بھا ئی امام حسین  ؑ کےساتھ جہاد  میں شریک ہوئے ا ور اچھا امتحان دے کر شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے بے شک  آپ نے اللہ کے راہ میں ایثار و قربانی کا ایسا امتحان دیا یہاں تک کہ اپنے بازوں کے ساتھ ساتھ اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔

1: ہمارے چچا 

عام طور پر  چچا انسان کے باپ کے سببی یا نسبی بھائی کو کہا جاتا ہے  جو کہ انسان کے لئے باپ کی طرح ہوتا ہے جس طرح انسان کے لئے  باپ عزیز ہو تا ہے اسی طرح انسان کے لئے  چچا بھی عزیز ہوتاہے  اور بعض اوقات  چچا کو باپ کی جگہ پر قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کے چچا کو  ان کے باپ کے طور پر متعارف کیا ہے  جیسا کہ فر ماتاہے”إِذْ قالَ لِأَبيهِ وَ قَوْمِهِ ما ذا تَعْبُدُونَ‏ “۲

(جب اپنے مر بّی باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کررہے ہو؟)

 آذر  حضرت  ابراہیم ؑ  کا چچا تھا،حضرت  ابراہیم ؑ توحید کے علمبردار اور منادی تھے لیکن  انکے چچا مشرک اور بت پرست تھا  الہذا حضرت ابراہیم ؑ نے اس سے سے بیزاری اختیار کی ہے  جیسا کہ قرآن مجید میں فر ماتا ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں – ہم نے تمہارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یہاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ۔۳

ابولہب پیغمبر ﷺ  کے   چچا هونے  کے باوجود   آپ  پر ایما ن نہیں لایا  بلکہ آپ کا سخت ترین  دشمن  بن گیا تھا    اللہ تعالی  فر ماتے ہیں تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَ تَبَ‌ ۴

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے

امام صادق   ؑکا  حضرت  عباس ؑ کو  چچا کہہ کر پکارنے کامقصد اپنے ذاتی رشتہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ  ایک الٰہی اور معنوی راز تھا لہذا آپ نے چچا کہہ کر پکا را ہے 

۲: نافذ البصیرۃ

بصیرت کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے۔

بصیرت لغت میں دل کی بینائی کوکہتے ہیں ۔

چنانچہ فراهیدی بصیرت کا معنی کرتے ہوئے کہتا ہے”بصِيرة : اسم لما اعتقد في القلب من الدين و حقيق الأمر”۵ ،بصیرت  دل میں دین پر    ایمان رکھنے  اورکسی چیز کی حقیقت کے جاننے کا نام ہے۔ 

بصر دیکھنے والی اعضا کو کہا جاتا ہے جیسا  کہ اللہ کا فر مان  ہے :

“قدجَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ”۶۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت افروز دلائل آ گئے ہیں، اب جس نے آنکھ کھول کر دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔

حضرت علی ؑ کا ارشاد  گرامی ہے  “فانما البصیر من سمع فتفکر ، ونظر فابصر وانتفع بالعبر ثم سلک جددا واضحا یجتنب فیہ الصرعہ فی المھاوی”۷

  بابصیرت وہ شخص ہے جو سنے اور فکر کریں نظر کر کے دیکھیں اور عبرتوں سے سبق حاصل کریں جب راستے کو روشن پالے اس پر چلے اور گو دال میں گھرنے سے بچ نکلے۔

کر بلا کے ہر شہیدنے بصیرت کے اعلی شہکار دکھا ئےہیں چنانچہ حضرت بریر ؓ دشمنوں سے  مخاطب ہو کر فر ماتے ہیں”الحمد لله الذی زادنی بصیره  “۸۔ساری تعریفیں اس خدا کے لئے لائق ہیں کہ ہماری بصیرت کو تمہاری نسبت میں زیادہ کیا ہے ۔

لیکن حضرت عباس ؑ  کی بصیرت  سب  سے  زیادہ  تھی   اس کی کئی  مثال   ملتی ہیں :

۱۔ خطبہ  امام حسین ؑ  کے بعدآپ سے  وفاداری اور حمایت کا اعلان کرنا۔۹

۲: شمر کے  امان نامہ کو ٹھکرانا 

لہذا ہم کہتے ہیں ” واشهد انک مضیت علی بصیرۃ”10

میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ آپ اپنے دین میں بصیرت پر رہتے ہوئے دنیا سے چل بسے صالح لو گوں کی اقتد ا کرتے ہوئے پیغمبروں کی پیرو ی کی 

3: مستحکم ایمان  کے مالک 

خداوند قرآن مجید میں ایمان کے بارے میں فر ماتا ہے  “قَالَتِ الأعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ”۱۱

بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجیے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

حضرت علی ؑفر ماتے ہیں “افضل الموءمنین افضلهم تقدمه من نفسه واهله وماله”12

مئومنین میں بہترین وہ ہے جو کہ خدا کی راہ میں اپنی نفس اولاد اور مال کی زیادہ قر بانی دیں

4: امام حسین ؑکے ساتھ جہاد میں شریک ہونا

خداوند جہاد کی اہمیت کے بارے میں قرآن میں فر ماتا ہے ” يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصیر”۱۳ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔

حضرت عباسٍ ؑ  ٍٍٍکے  بارے  میں آیا ہے ۔ٍ ٍ

یعنی ہمارا سلام ہو اس مجاہد  بھائی پر جو کہ اپنے بھائی  کےمددگار  اوران سے  دفاع کرنے والے تھے ۔۱۴

5:اچھا امتحان دیا 

بلا لغت میں پرانا کرنے کو کہتے ہیں کیونکہ دکھ انسان کو بوسیدہ اور پرانا کرتے ہیں۔اور یہ لفظ قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

جیسا کہ سورہ اعراف میں فرمایا”وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ”۱۵

ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

6: شہادت کے در جہ پر فائز 

     شہادت ایسی چیز یا امتیاز ہے جس سے کوئی انکا ر نہیں کر سکتا اور یہ ہر ایک کو نصیب بھی نہیں ہوتی لہذا قرآن  میں  اللہ تعالی ٰفرماتا ہے”وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ”۱۶۔اور جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے۔

رسول اکرم ﷺفر ماتے ہیں “اشرف الموت قتل الشهادۃ “17 .سب سے اچھی موت شہادت کی موت ہے.

حضرت امام سجادؑ  فر ماتے ہیں”ان العمی العباس عندالله تبارک وتعالی منزلة یغبطه بها جمیع الشهدائ یوم القیا مة”18

میرے چچا عباس کے لئے خدا نے ایسا مرتبہ اور منزلت دی ہے جیسے دیکھ کر قیامت کے دن تمام شھد ا اس کی آرزو کریں گے

اسی لئے ہم  پڑھتے ہیں”السلام علیک یا ناصر الحسین الشهید علیک منی السلام ما بقیت الیل ،النهار”19

آپ پر ہمار ا سلام ہو  اے حسین ؑکے مددگار اور شہید اور ہمار اسلام ہو آپ پر جب تک یہ دن اور رات باقی ہے۔

7:  ایثار و قربانی

ایثار يعني دوسروں کو اپنے پر مقدم کرنا ،یعنی انسان اپنے سے بالاترکسی چیز کے لئے اپنی جان ، مال ، اور زندگی سے ہاتھ اٹھانا۔

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب  ؑایثار کے بارے میں فر ماتے ہیں “الایثار الاعلی ا لمکارم”20۔ایثار انسان کی فضیلتوں میں سب سے اعلی درجہ پر ہیں۔

پیا س کی  حالت میں  پانی نه پینا  آپ  کا ایثار اور قربانی  بهترین  دلیل ہے  چنانچہ آپ نے فر مایا:

اے نفس، حسین ؑکے بعد تمهارا  زندہ رہنا ذلت اور خواری ہے تم اس کے بعد زندہ نہیں رہنا تاکہ یہ ذلت نه دیکھ پائے، حسین ؑمصیبت اورموت کا جام نوش کر رہے ہیں لیکن تم یہاں پر ٹھنڈا پانی پی رہے ہو۔21

 آپ کي زیارت میں یہ جملہ موجود ہے”نعم الاخ المواسی”22یعنی آپ اپنے بھائی کے لئے ایک بہترین بھائی چارگی دکھانے والی شخصیت تھی۔

8:وفدی اخاه بنفسه حتی قطعت یداه 

 اپنی جان کو بھائی پر فدا کیا یہاں تک کہ اپنے بازوں کوبھی اپنے بھائی پر فدا کردئے۔

اسی لئے حضرت عباس ع نے کربلا میں فر مایا :خدا کی قسم اگر تم لوگوں نےمیرا دایاں والا بازو کاٹ دیا ،تب بھی میں اپنے دین کی حمایت کرتا رہونگا اور میں اپنےسچے امام کی حمایت کرتا رہونگا جوکہ پاک اور امین پیغمبر کا فرزند ہے۔

اے نفس کفار سے نہ ڈر نا اور تم کو جبار کی رحمت کی خوشخبری ہو تم چنے ہوئے لو گوں کے سردار پیغمبر کے ساتھ ہو، اگر چہ تمہا را بائیں ہاتھ کاٹ دئے ہیں۔۲۳

حوالہ جات

عمدۃ المطالب فی انساب ال ابوطالب  جمال الدین احمد حسینی  ص ۳۵۶، ابن عنبه حسنى‏م: 828 ق‏ناشر: انصاريان‏قم

سورہ الصافات : 85

سورہ الممتحنة  4

سورہ المسد، 1

فراهيدى، خليل بن أحمد، كتاب العين ج‏7ص117، نشر هجرت – قم، چاپ: دوم، 1409ق.

انعام ١٠٤

نهج البلاغه خطبہ ۱۵۳،اردو ترجمہ علامہ ذیشان حیدری جوادی 

بحار الانوارج‏45 ص  5،علامہ باقر مجلسی ،دار احیا بیروت ۔

عاشورا ريشه‏ها انگيزه‏ها، رويدادها پيامدها، صفحہ: 396، آية اللّه العظمى مكارم شيرازى‏ناشر: مدرسه الامام على بن‏ابى الطالب‏قم

المزار (شهيد الاول) صفحه177، ناشر مدرسہ امام مہدی علیہ السلام قم 

الحجرات ١٤

شرح نہج البلاغہ ابن الحدید جلد ۱۸ صفحہ ۴۱،مکتبہ آیۃ اللہ مرعشی قم 

توبه 73

المزار (شهيد الاول) صفحه177

اعراف ١٦٨

بقرہ١٥٤

بحار الانوار جلد ۱۰۰ صفحہ ۸

خصال صدوق صفحہ ۶۸،جامعہ مدرسین قم 

المزار (شهيد الاول) صفحه177

غرر الحکم ۹۸۶

بحار الانوار جلد 45 صفحہ 41

المزار (شهيد الاول) صفحه177

بحار الانوارج‏45 صفحہ 41

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *