تازہ ترین

عالمی سیاست پر قیام امام خمینی )رح (اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اثرات/ تحریر : اکبر حسین مخلصی

 تمہید
عالمی معاشرے کی سیاسی جدلیات کا اگر قرآن کریم کی رو سےجائزہ لیا جائے تو ایک ھی حقیقت سامنے آتی ھے جسے بجا طور پر حق وباطل کی ازلی پیکار کا نام دیا جا سکتا ھے جس کی طرف متعدد آیات میں اشارہ ملتا ھے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر دو سو اکیاون میں، طالوت اور جالوت کے درمیان ھونے والے معرکہ کے ذیل میں ارشاد ھو رھا ھے )و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض و لکن اللہ ذو فضل علی العالمین((بقرہ، آیت251)۔ ترجمہ۔ (اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین پر فساد برپا ھوجاتا لیکن خدا کا اہل عالم پر بڑا فضل ھے)۔

شئیر
79 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4981

مذکورہ آیت، طالوت کو حق کا نمایندہ اور جالوت کو باطل کا نمایندہ بتا کر انسانی معاشرے میں حق و باطل کی آویزش کو زمین کو فساد سے بچانے کی خدا ئی حکمت عملی قرار دیتے ھوئے عالمین پر خدا کے فضل کی طرف اشارہ کر رھی ھے اور تاریخ کی رو سے عالمی انقلابات کے نصب العین کو انقلابی خطوط پر چینلائز کرنے میں استقلال اور آزادی جیسی عالمی سچائی کی حامل اقدار کے مقصدیت بھرے کردار کو حق وباطل کی باھمی آویزش کا بنیادی محرک جانا جاتا ھے، جس کا مشاھدہ عالمی حریت پسند تحریکوں کے نعروں میں کیا جاسکتا ھے۔
انسان فطری طور پر ھر تسلط پسندانہ رجحان کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتا آیا ھے، جسکی واضح مثال حریت پسند تحریکوں کا عالمی افق پر پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ھونا ھے، لیکن ان تحریکوں میں بنیادی اقدار کا اشتراک بھی ان کے نظریاتی اھداف کو یگانگت فراھم نہیں کرسکا،جس کی اصولی وجہ دینی جہان بینی پر مبنی وہ آئیڈیالوجیکل اختلاف ھے جو آزادی کی اسلامی تحریکوں کو امتیازی خصوصیت فراھم کرتا ھے جبکہ نشات ثانیہ
( Renaissance)سے لیکر انقلاب روس تک کی آزادی طلب تحریکیں، مادی جہاں بینی کے زیر اثر استبدادی رجحان کا شکار ھو کر عالمی معاشرے کو تہذیبوں کے ناگزیر تصادم جیسے خوفناک تمدنی سیاسی تناو سے دوچار کر چکی ھیں، جس کی واضح مثال مغربی بلاک کا وہ جارحانہ استحصالی رویہ ھے جو اقوام عالم کو ان کے تہذیبی تشخص سے محروم کرکے نیو ورلڈ آرڈر جیسے یک قطبی نظام کے استکباری شکنجے میں جکڑنے پر مصر ھے۔
اس جدلیاتی پس منظر میں مستضعف قوموں کا اپنے تمدنی تشخص کے ہمہ جانبہ احیا کے لیے سرگرم ھوجانا فطری طور پر ناگزیر ھوچکا ھے اور یہی احساس، محروم قوموں کو استعمار ستیزی پر ابھارتا ھے جو بلآخر آزادی اور استقلال جیسی حیات بخش نعمتوں کے حصول کے لیے عالمی سامراج کے خلاف نبرد آزما ھونے کی خو پیدا کر لیتی ھیں۔
قیام امام خمینی رح اسی شعور اور احساس سے بھرپور تحریک کا نام ھے جو افق عالم پر جرات و پائداری کا لافانی استعارہ بن کر مستضعف قوموں کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر امید اور عزم صمیم کی دولت سے روشناس کرانے میں کامیاب ھوئی ھے۔
ذیل میں قیام امام خمینی کے عالمی سیاست پر اثرات کے تفصیلی جائزے سے قبل اس بنیادی نظریاتی عامل یا محرک کا اجمالی تذکرہ ضروری ھے جو نہضت امام کے انقلابی خطوط اور اور اٹھان کو بنیادی جہت فراھم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر انقلابات پر واضح برتری اور امتیاز کا باعث بھی بنا اور وه ھے قیام امام خمینی کا *دینی اور الاھی نصب العین کا حامل ھونا* :
یوں تو تمام عالمی سیاسی تحریکیں آزادی کے حصول کے لیے خودمختاری اور استقلال کو اپنے قیام کا بنیادی ایجنڈا اور نصب العین قرار دیتی ھیں جو کہ ایک طرح سے تمام انقلابی تحریکوں کا نقطہ اشتراک رھا ھے لیکن امام راحل کی تحریک کا نصب العین، الاھی جہاں بینی کے سائے میں آزادی اور استقلال کی حامل دینی ریاست کا قیام تھا جو معاصر تحریکوں کے آئیڈیالوجیکل تصورات سے یکسر مختلف تھا اور اس تصور انقلاب نے امام کی تحریک کو دوسرے انقلابات پر جوھری برتری دی جس کا تصور بھی معاصر سیاسی مبصرین کے لیے ایک خواب تھا کیونکہ اسوقت تک برپا ھونے والے بیشتر عالمی انقلابات کا سیاسی رجحان دین ستیزی پر مبنی سیکولر خیالات کا نمایندہ تھا، جس میں مذھب کو معاشرتی ناھمواری اور سیاسی پسماندگی کا بنیادی عامل خیال کیا گیا تھا، جیسے یورپ میں علمی اور ثقافتی نشات ثانیہ کی موومنٹ اور سوویت یونین کی اشتراکیت پسند تحریک کہ جس میں مادی جہاں بینی پر مبنی سیکولر خیالات، انقلاب کے راھنما خطوط کے طور پر قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرچکے تھے ۔
اور عالمی سطح پر فرسودہ خیالات کو چیلینج کرتے ھوئے زندگی کے تمام شعبوں میں جدید سائنسی بنیادوں پر استوار لادینی نظریات اور نظام ھای زیست کو انسانی معاشرے کی ترقیاتی ضرورت قرار دے کر دین کے پیش کردہ ضابطہ حیات کو انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دیس نکالا دینے کے لیے انسانی حقوق، آزادی نسواں اور مساوات جیسے دلفریب نعروں کی شکل میں دینی آئیڈیالوجی کے خلاف جارحانہ تشکیکی مھم چلائی گئی۔
ایسے حالات میں امام خمینی کا دینی نظام سیاست کے احیاء اور نفاذ کا نعرہ جہاں استکبار کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک ملاتا ھے وھیں ان کی سیاسی دوراندیشی کا بھی پتہ دیتا ھے،گویا امام اپنی تحریک کا واحد ھدف خدا کی زمین پر خدا کے نظام کی حاکمیت سمجھتے تھے اور یہی وہ بنیادی محرک ھے جس نے قیام امام خمینی کو کامیابی سے ھمکنار ھونے میں انقلابی رول پلے کیا اور نتیجتاً وہ انقلاب برپا ھوا جو اپنے جلو میں لا شرقیہ ولا غربیہ الا الاسلامیہ کا نعرہ مستانہ لیے مشرق ومغرب کے استعماری ایوانوں میں بھونچال بپا کرتا ھوا سامراجی قوتوں کو دفاعی پوزیشن اپنانے پر مجبور کرتا دکھائی دیتا ھے اور یوں انقلاب اسلامی نے اقوام عالم کو عزت سے جینے کا سلیقہ اور حوصلہ عطا کیا۔
قیام امام اور اسلامی انقلاب کے عالمی سیاست پر اثرات
یوں تو دنیا کا ھر انقلاب متنوع اثرات کا حامل رھا ھے لیکن انقلاب اسلامی ایران نے عالمی سیاست پر جو اثرات چھوڑے ھیں وہ جوھری نوعیت کے حامل ھمہ گیر اور دائمی ھیں، جس کو دیگر عالمی انقلابی تحریکیں پیش کرنے سے قاصر رھی ھیں کیونکہ متذکرہ سیاسی تحریکیں اپنے نظریاتی ڈھانچے اور محدود سیاسی ویژن کے سبب عالمی انسانی معاشرے کو درکار اجتماعی سعادت کے حصول کے لیے جامع حل نہیں دے سکیں جبکہ انقلاب اسلامی، تعلیمات انبیاء سے الہام لیتے ھوئے اپنی آفاقی ھمہ گیریت کی بدولت، اجتماعی سعادت کے لیے مطلوب نظام دے سکا جس کے وسعت پذیر اثرات کا عالمی منظرنامے میں آسانی سے مشاھدہ کیا جاسکتا ھے۔ ذیل میں ان اثرات کا متناسب جائزہ مفید رھے گا۔
1۔ امید اور خوداعتمادی
قیام امام خمینی نے پسماندہ اقوام کو مایوسی اور بے یقینی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور عزم بالجزم کے حیات آفرین اجالے سے روشناس کرایا جبکہ اس سے پہلے ایشیا اور افریقہ کی مستضعف قومیں اپنی آزادی کے لیے یورپی استعمار کے خلاف صف آراء ھونے سے کتراتی تھیں کیونکہ نوآبادیاتی قوتیں اور ان کے مقامی مہرے، پورپی اقوام کی عسکری برتری کے افسانے سنا کر محروم قوموں کو احساس کمتری سے دوچار کر چکے تھے، اگر کہیں برطانوی استعمار کے خلاف کوئی ایجٹیشن چلتی بھی تو قومی خوداعتمادی کا فقدان اس تحریک کو ناکامی سے دورچار کر دیتا اور نتیجتاً مایوسی اوری محرومی هی ان اقوام کا مقدر ٹھہرتی جس کی ایک واضح مثال متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف 1758 اور 1857 میں اٹھنے والی جنگ آزادی کی تحریکیں ھیں، جنہیں انگریز نے غدر کا نام دے کر پوری طاقت سے کچل دیا۔
قیام امام خمینی نے محروم قوموں کو آزادی کی نئی امنگ اور خواعتمادی کا چٹان آسا جذبہ دیا جس کی بدولت مشرق وسطی میں آزادی کی طاغوت شکن تحریکیں پنپنے لگیں اور جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا اور والٹر سیسولو کی قیادت میں چلنے والی تحریک کو نیا ولولہ ملا اور یوں انقلاب اسلامی ایران، دنیا بھر میں عالمی استکبار کے خلاف عزم و امید کی زندہ مثال بن گیا۔
2 ۔انسان محور نظام سیاست کے مقابلے میں خدا محوری پر مبنی جامع متبادل نظام کا احیاء
سولہویں صدی عیسوی میں یورپ کا معاشرتی ڈھانچہ، مسلم سائنسی ورثے سے آشنائی کی بدولت تدریجاً علمی و ثقافتی شکست و ریخت سے دوچار ھوا، جسکا منطقی اثر جدت پسند علمی تحریک کی شکل میں سامنے آنے لگا جو آگے چل کر مقتدر کلیسائی قوتوں کے جامد خیالات کو چیلینج کرتے ھوئے مذھب مخالف افکار کی تشکیل پر منتج ھوئی، جسے نشاَت ثانیہ کا نام دیا گیا جو کہ بنیادی طور پر ترقی پسند علمی تحریک تھی جو مذھبی اسٹیٹس کو، کے فکری جمود کا عقلی ردعمل بن کر ابھری جسے بھرپور عوامی مقبولیت حاصل ھوئی اور یوں مغربی دنیا ایک ایسے علمی ونظریاتی تحول سے آشنا ھوئی جو اپنے مخصوص فکری پس منظر کے سبب نئے سیاسی ڈھانچے میں دین کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کر بیٹھا، اور یوں مادی جہاں بینی پر مبنی خیالات کو رسمیت دے کر خدا محوری کا عملاً انکار کر تے ھوئے انسان محوری کو عالمی سچائی کا درجہ دیا گیا، جسے صنعتی انقلاب کی نوآبادیاتی قوتوں نے اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کے حصول کے لیے دینی نظام حکومت کا متبادل انسانی نظام سیاست بتاکر اقوام عالم کو یہ باور کرانے کی کوشس کی، کہ ترقی و پیشرفت صرف انسان محوری کے سائے میں ھی ممکن ھے، جس کے لیے پسماندہ اقوام کو اپنے دینی سیاسی تفکرات کو خیرباد کہہ کر انسان محوری پر مبنی سیکولر طرز سیاست اپنانا ھوگا۔
اس طرز تفکر نے ایک طرف اقوام عالم کو ان کے ثقافتی تشخص سے محروم کر کے فکری غلامی میں مبتلا کر دیا تو دوسری طرف، اسلام کو سامراج مخالف، معرکہ ساز قوت پا کر اپنا اصل سیاسی حریف قرار دیتے ھوئے مستشرقین اور مغرب زدہ نام نہاد مسلم مفکرین کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے ریڈیکل پہلووں کی مسالمت آمیز تشریحات کرا کر مسلم دنیا کو مغرب پسند اسلام کا برگ حشیش دیا، تا کہ ملت اسلامیہ بھی خطے کی دیگر اقوام کی طرح، سیکولر نظام سیاست کو انسانیت کی نجات کا ضامن تصور کر کے عالمی سامراج سے مفاھمت کر لے، لیکن خدا کو کچھہ اور ھی منظور تھا، سو ایران کی سر زمین سے احیاء دین کی ایک ایسی تحریک پنپ اٹھی، جس نے خدا محوری پر مبنی دینی نظام سیاست کے نفاذ کا اعلان کر کے عالمی استکبار اور ان کے لوکل گماشتوں کی نیندیں حرام کر دی۔
قیام امام خمینی نے جہاں پسماندہ اقوام کو دینی تعلیمات کے سیاسی پوٹینشل سے آگاہ کیا وھاں مادی جہاں بینی کے حامل انسان محور فلسفہ حیات کے تاریک پہلووں سے پردہ اٹھا کر لادینی نظام سیاست کی ناکامی کا بهی اعلان کیا اور عالمی سطح پر رائج سیکولر نظام جمہوریت کے مقابلے میں جامع دینی نظام جمہوریت پیش کر کے عالمی نظام سیاست کو نظام ولایت فقیہ جیسی نئی ادبیات عطا کیں۔ اور یوں خدا محوری پر مبنی فلسفہ حیات نے ایک بار پھر سنجیدہ عالمی حلقوں کو سیکولر طرز حیات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت کا احساس دلا کر خدا محوری کی فطری آفاقیت کو اجاگر کیا، جس کا واضح ثبوت، سیکولر معاشرے میں دینی تعلیمات کی جانب بڑھتا ھوا وہ رجحان ھے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رھا ھے اور انقلاب اسلامی، اس رجحان کو عالمی پیمانے پر فروغ دینے میں کامیاب ھوتا جا رھا ھے، جس کے عالمگیر اثرات کا آسانی سے مشاھدہ کیا جا سکتا ھے۔
3 ۔دو قطبی بلاک کا عالمی اسلامی توڑ
دوسری عالمی جنگ کے تباہ کن مضمرات، برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی گرفت کو اشتراکیت پسند حریف طاقتوں کے زریعے کمزور کر کے نئے عالمی بلاک کی تشکیل کا باعث بنے،جہاں ایک طرف نظامِ سرمایہ داری،کمزور اقوام کا استحصال کر رھا تھا تو دوسری طرف کمیونزم، محنت کشوں کی پرولتاریہ کا نعرہ لیے تسلط پسندانہ بالشویک خیالات کو پروموٹ کر رھا تھا، جس سے عالمی منظرنامے میں دو قطبی نظام ابھرا، جس کے سبب مستضعف قوموں کی فکری و معاشی غلامی کا دور طول پکڑنے لگا، کیونکہ دونوں بلاک، لانگ ٹرم جنگوں کا بزنس کر کے کمزور اقوام کے معاشی استحصال کا پلان کر چکے تھے۔
سرمایہ دارانہ بلاک کو امریکہ جبکہ کمیونسٹ بلاک کو روس (سوویٹ یونین) لیڈ کر رھا تھا اور یوں کمزور قومیں، اپنے تحفظ کے لیے کسی ایک بلاک کا حصہ بننے پر مجبور تھیں، ایسے حالات میں خمینی بت شکن نے لا شرقیہ ولاغربیہ الا الاسلامیہ کا طاغوت شکن نعرہ لگاتے ھوئے سر زمین ایران میں اسلامی انقلاب برپا کر کے دو قطبی نظام کے مقتدرانہ عزائم کو خاک میں ملا دیا اور خطے میں رضا شاه جیسے استعماری مہرے کو دیس نکالا دے کر جہاں امریکی و روسی بلاک کے خلاف ملت اسلامیہ کو دینی بنیاد پر کاونٹر بلاک تشکیل دینے کی جراَت عطا کی وهاں عالمی سطح پر غیر وابستہ ممالک کی تحریک (Non Aligned Movement) کو جراَت انکار بھی دی، اور کمیونسٹ بلاک کی شکست کے بعد جب امریکہ، یک قطبی نظام کا درّہ لیے دنیا پر نیو ورلڈ آرڈر جیسا من پسند شکنجہ کسنے کے لیے پر تول رھا تھا تب، ٹھیک اسی وقت انقلاب اسلامی نے دینی نظام حیات کے آفاقی تصور کو عالمگیر نہج دے کر اسلام کو انسان کی سعادت کا واحد سرمدی نظام بتایا اور آج انقلاب اس پوزیشن پر ھے کہ امریکہ اسے اپنا اصل حریف تو سمجھتا ھے لیکن براہ راست پنجہ آزمائی سے گریز کر رھا ھے، جو کہ عالمی دجال کی تزویراتی شکست کا منہ بولتا ثبوت ھے، جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران، ایک طاقتور مقاومتی بلاک کی شکل میں اقوام عالم کو مزاحمت کا عزم دے رھا ھے، جس کی بدولت عالمی ابرھہ اور اس کے اسرائیل جیسے سفید ہاتھی کی اسٹریٹیجک شکست یقینی بنتی دکھائی دے رھی ھے۔
4 ۔عالم اسلام کو دین کی سیاسی حاکمیت کا شعور ، ولولہ اور جھت دینا
انقلاب اسلامی نے مسلم معاشرے کے تنِ مردہ میں زندگی کی نئی روح پھونک ڈالی اور عوام کو خالص دینی حاکمیت کا شعور دے کر خطے پر قابض استعمار اور اس کے مقامی گماشتوں کے خلاف دینی بنیادوں پر تحریک چلانے کا عزم اور ولولہ عطا کیا، جبکہ اس سے قبل مسلم معاشرے میں، دین کی سیاسی حاکمیت کا تصور تین طرح کے باھم متضاد تفکرات میں گھرا ھوا تھا۔
ایک طرز تفکر، دین اور سیاست کی جدائی کا قائل ھو کر نادانستہ طور پر اسلام کے جامع نظام حیات ھونے کا عملاً انکار کرچکا تھا جبکہ دوسرا حلقہ فکر، مغربی نظام سیاست اور التقاطی خیالات سے متاثر ھو کر اسلام کی طاغوت شکن تعلیمات کا دانستہ طور پر انکار کر کے مغرب اور اسلام کے درمیان سیاسی مفاہمت کے لیے تگ و دو کر رھا تھا، تا کہ خطے میں امپورٹڈ مغربی خیالات کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے ریڈیکل عنصر کو کاونٹر کیا جا سکے، جبکہ تیسرا حلقہ فکر، اسلام کو جامع نظام حیات تو سمجھتا تھا لیکن عالمی استعمار کے تسلط پسندانہ قبضے کے خلاف کوئی ٹھوس عوامی تحریک وجود میں نہیں لا سکا تھا۔
ایسے بحرانی حالات میں انقلاب اسلامی نے جہاں خطے کی اسلامی مزاحمت کو نظریاتی جہت دی وھاں عوامی قوتوں کو استعمار کے خلاف متحد ھونے کا جذبہ عطا کیا، گویا ایک طرح کا ولولہ تازہ تھا، جس نے تنِ مسلم میں آزادی کی لہر دوڑا کر عالمی سامراج کے خلاف صف آرا ھونے کا حوصلہ پیدا کیا، جس کی بدولت آج خطے میں اسلامی مقاومت ایک شکست ناپذیر طاقت بن کر اقدامی پوزیشن کی طرف بہت تیزی سے بڑھہ رھی ھے، جس کی زندہ مثال حزب اللہ اور حماس ھیں، جو مشرق وسطی میں، مغربی سامراج اور خطے کے عرب خیانت کاروں کی پروردہ، مخصوص مسلکی رجحان کی حامل غدار تکفیری قوتوں کو تگنی کا ناچ نچا کر اسرائیل کے وجود کو چیلینچ کر چکی ھیں اور اسرائیل کے خلاف بتدریج، عالمی مسلم انتفاضہ کی شکل اختیار کر رھی ھیں۔
اگرچہ خطے کی امریکہ نواز عرب آمریتیں اپنی ناجائز وراثتی امارت کے تحفظ اور دوام کے لیے مسلکی اختلافات کو ھوا دے کر مقاومتی بلاک کی تزویراتی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے اسرائیل کو خفیہ طور پر تسلیم کر چکی ھیں، لیکن ان کی یہ خیانت، عالم اسلام پر واضح ھوچکی ھے اور اس کے ردعمل میں فلسطینی مقاومتی قوتیں،اسرائیل کے خلاف انتفاضہ کو ایک نئے انداز میں شروع کرنے کا عندیہ دے چکی ھیں جو کہ در اصل اسلامی جمہوریہ ایران کی مقاومتی حکمت عملی کا فلسطینی اظہار ھے۔ اسلامی جمہوری ایران ایک طرف اسلامی بیداری کو عالمی سطح پر فروغ دے رھا ھے جس کی واضح مثال، نائجیریہ کی اسلامی تحریک اور الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ ھے، تو دوسری طرف خطے کی مزاحمتی قوتوں کو استبدادی طاقتوں کی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کے لیے مصافیاتی نظام العمل بھی فراھم کر رھا ھے، جسکا مشاھدہ یمن میں کیا جا سکتا ھے کہ جہاں، غربی،عبری اور عرب ٹرائیکا، پینتالیس ملکی تکفیری عسکری الائنس بنا کر انصاراللہ کے خلاف بدترین عسکری جارحیت کا ارتکاب کر کے سارے وسائل جھونکنے کے باوجود بھی یمنی مزاحمت کو روک نہیں پا رھی، بلکہ مقاومت روز بروز طاقت پکڑ رھی ھے، جو بالآخر سیاسی اسقلال حاصل کر کے عرب خطے میں آمریت کے خلاف مزاحمت کی زندہ مثال بن کر عوامی قوتوں کو پسماندہ سیاسی نظام کے خلاف قیام کرنے کا شعور اور عزم دینے میں کامیاب ھوتی ھوئی دکھائی دے رھی ھے، اور اس طرح خطے کی بیشتر اسلامی تحریکوں پر انقلاب اسلامی کے اثرات ایک ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھار چکے ھیں۔
5 ۔خطے کی سیاسی حرکیات اور اسلامی جمہوریہ ایران
مشرق وسطی، یوں تو ھاٹ لینڈ ھونے کے باعث، ھمیشہ بین البراعظمی طاقتوں کی پیچیدہ سیاسی و تجارتی رقابت کی جولان گاہ بنا رھا ھے، کہ جہاں کے قدرتی وسائل پر بلا شرکتِ غیرے، قبضہ جمانے کے لیے ایک طرف ملٹی نیشنل کارٹیلز سرگرم ھیں تو دوسری طرف استحصالی طاقتیں اپنے معاشی تسلط کے لیے پراکسیز کے ذریعے جنگوں کا بزنس پلان، تزویراتی بنیادوں پر سینٹرل ایشیا تک پھیلا رھی ھیں، جس سے خطے میں سیاسی تناو خوفناک حد تک بڑھہ چکا ھے. اور اس پس منظر میں دو بڑے بلاک کا متحارب وجود ناگزیر ھوچکا ھے، کہ جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اسٹرٹیجک اتحادی ھیں جبکہ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران،روس اور چین، اسٹریٹیجک بلاک تشکیل دے چکے ھیں، جس کی بدولت خطے میں طاقت کا توازن، ایشیائی قوتوں کے پلڑے میں جا چکا ھے جو کہ اسلامی ایران کی کامیاب خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ھے.
یہی وجہ ھے کہ امریکہ میں موجود صہیونی لابی،اسرائیل کے ناجائز وجود کو لاحق خطرات کو کم کرنے لیے، ایک طرف ایران کو خطے کی عرب آمریتوں اور اسرائیل کے لیے مشترکہ تھریڈ بتا کر، عرب خیانت کاروں کو اسرائیل کے ساتھہ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ تشکیل دینے پر قائل کر چکی ھے تو دوسری طرف اسلامی مزاحمتی قوتوں کی جہادی روح کو مسخ کرنے کے لیے لارنس آف عربیہ کے پروردہ مخصوص مسلک کی تکفیری رجحانات کی حامل نام نہاد اسلامی جہادی قوتوں کو گراونڈ دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رھی ھے۔
لیکن عالمی برادری خطے می ثبات امن کے لیے اسلامی ایران کے کلیدی کردار کا اعتراف کر تے ھوئے اسرائیل اور اس کے عرب مہروں کے جارحانہ عزائم کو خطے کے امن کے لیے اصل خطرہ قرار دے چکی ھے، جس کی واضح مثال، عالمی برادری کا وہ ردعمل ھے جو فلسطین اور یمن میں مزاحمت کی اخلاقی حمایت کی شکل میں سامنے آچکا ھے۔
اور وائٹ ھاوس کی مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی خارجہ پالیسی کا حالیہ اعلان، خطے میں امریکہ مخالف بلاک کی وسعت کا باعث بن چکا ھے جس کی مثال ، اسلامی جمہوریہ پاکستان ھے جو اس بلاک میں شمولیت کا عندیہ دے کر مغربی اتحاد کے خلاف نئے مشرقی اتحاد کو خطے کی سلامتی کے لیے تزویراتی ضرورت قرار دے چکا ھے، اور یوں خطے کی سیاسی حرکیات ایک نئے عالمی منظرنامہ کا نقشہ کھینچ چکی ھیں، کہ جہاں عالمی بالا دستی، دھیرے دھیرے مغرب سے ایشیا کی طرف شفٹ ھوتی دکھائی دے رھی ھے اور اس سطح کے عالمگیر بدلاو میں، انقلاب اسلامی ایران کا کردار ، مرکزی نہیں تو کلیدی ضرور ھے، جس کا اعتراف، روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں،مقاومتی بلاک کے ساتھہ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی شکل میں کر چکی ھیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران ، بنیادی طور پر عالمی طاغوت اور خطے کے لادینی عناصر کے خلاف اقدامی تحریک کا نام ھے، جو سیکولر طرز حیات کو انسانی معاشرے کے لیے عالمی المیہ قرار دے کر اسلام کو عالمی انسانی معاشرے کے لیے سعادت بخش نظام حیات کے طور پر پیش کرنے میں عملی طور پر کامیاب ھو چکی ھے۔ اور عالمی ضمیر، لادینی دجالیت کو خیرباد کہتے ھوئے توحیدی جہاں بینی پر مبنی نظام حیات کو اپنانے کے لیے بےقرار دکھائی دے رھا، جس سے نظام مہدویت کے عالمی نفاذ کی راھیں ھموار ھوتی دکھائی دے رھی ھیں اور یوں نظام کفر و شرک کے سیاہ بادل، افق عالم سے ھمیشہ کے لیے اوجھل ھو جائینگے اور عالمی نجات دھندہ کا ظہور،کرّہ ارض پر نظام عدل قائم کر کے مستضعفین اور کچلی ھوئی انسانیت کو نجات فراھم کرے گا۔ بقول اقبال (رح )
شب گریزاں ھوگی آخر جلوہ خورشید سے یہ چمن معمور ھوگا نغمہ توحید سے.
تلخیص
قیام امام خمینی رح اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عالمی سیاست پر اثرات کو، درج ذیل عناوین کے تحت بیان کیا جاسکتا ھے ۔
(1) : مستضعف اقوام عالم کو عزم و امید کی طاقت بخشنا۔
(2) : انسان محور نظام سیاست کے مقابلے میں خدا محوری پر مبنی نظام حکومت کا قیام۔
(3): دوقطبی نظام کے مقابل، اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل۔
(4): مسلم دنیا کو دینی حاکمیت کا شعور اور مزاحمتی قوتوں کو ولولہ اور صحیح نہج کی فراھمی۔
(5): خطے میں مغربی سامراجی اتحاد کے مقابل،ایشیائی بلاک کی تشکیل میں کلیدی کردار۔

فہرستِ منابع
(۱): قرآن کریم ،ترجمہ شیخ محسن علی نجفی ( بلاغ القرآن)۔
(۲): کلیات اقبال (اردو)
(۳): KHAMENEI.IR(Urdu)
(۴): A long walk TO freedom (by Nelson Rolihlah Mandela

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *