نماز تراویح کی حقیقت
نماز تراویح کی حقیقت
تراویح باعتبارلغت : تراویح، ترویحۃ کی جمع ہے اور آرام و استراحت کے واسطے ایک مرتبہ بیٹھنے کیلیے استعمال ہوتاہے ۔
علامہ ابن منظور علم لغت کی عظیم کتاب لسان العرب میں تحریر فرماتے ہیں : (التراویح، جمع ترویحۃ و ھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ تفعیلۃ منھا مثل تسلیمۃ من السلام، والترویحۃ فی شھر رمضان سمیت بذالک لاستراحۃالقوم بعد کل اربع رکعات) تراویح ، ترویحۃ کی جمع ہے اور ایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے مادہ راحت سے بر وزن تفعیلہ جیسےمادہ سلام سے وزن تسلیمہ، اور ماہ رمضان کی نماز تراویح کو بھی اسیلئے تراویح کہتے ہیں کہ لوگ ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتے ہیں ۔[1]
صاحب مجمع البحرین لفظ تراوح کے ذیل میں رقمطراز ہیں : (التراوح تفاعل من الراحۃ لان کلا من المتراوحین یریح صاحبہ و صلاۃ التراویح المخترعۃ من ھذا الباب لان المصلی یستریح بعد کل اربع) تراوح مادہ راحت سےباب تفاعل کا مصدر ہے یعنی دو آدمیوں کا یکے بعد دیگرے صبح سےشام تک کنوے سے پانی کھینچنا، اسلئےکہ اسمیں بھی ایک شخص دوسرے کے لئے استراحت و آرام کا باعث ہوتا ہے اور گھڑی ہوئی و ایجاد شدہ نماز تراویح بھی اسی باب سے ہے چونکہ نمازگذار ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتا ہے ۔[2]
تراویح باعتباراصطلاح : علم لغت کے دو ماہر اور خریت فن کے بیانات سے معنئ لغوی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی بھی واضح و روشن ہو جاتے ہیں اگر چہ نماز تراویح کیا ہے؟ اور نماز تراویح کسکو کہتے ہیں؟ اسکی تلاش میں زیادہ سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ ماہ مبارک رمضان میں اھلسنت کی مساجد میں یہ فعل عملا دیکھا جاسکتا ہے یعنی مذھب اھلسنت کے نزدیک ماہ مبارک رمضان میں نماز مغرب و عشاء کے بعد نافلہ نمازوں کو باجماعت انجام دینا تراویح کہلاتا ہے اور اب نماز تراویح پر اسقدر اصرار وتاکید ہے کہ نماز تراویح مذہب اہلسنت کے لئے شعار اور پہچان بن گئی ہے ۔
ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
ماہ مبارک رمضان ، عظیم اور خیر و برکت کا مہینہ ہے کہ جسمیں خداوندعالم اپنے بندوں پر درھائے رحمت کو کھول دیتا ہے اور شیطان کو محبوس کرلیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک ، عبادت، ریاضت، قناعت، تقوی، پرہیزگاری، تزکیہء نفس، نجات، بخشش، توبہ، مغفرت، رحمت، شب قدر اور آرام و سکون کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص واجبات و مستحبات کے ہمراہ آنے والا با برکت مہینہ ہے۔ اشرف کائنات افضل مخلوقات حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مہینہ کے سلسلے میں ماہ شعبان کے آخر میں ایک عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ جسکا خلاصہ یہ ہے : اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ خدا کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت لیکر تمہارے پاس آیا ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل اسکے دن تمام دنوں سے بہتر اور اسکی راتیں تمام راتوں سے بالاتر ہیں اس مہینے میں تمہارا ہر سانس تسبیح کی مانند ہے ، تمہارا سونا بمنزلہ عبادت ہے، تمہارے عمل مقبول ہیں اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں پس تم صدق نیت سے خداوندعالم سے سوال کرو کہ وہ اس مبارک مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اے لوگو ! جو تم میں سےکسی مؤمن کو اس مہینے میں افطار دیگا اسکو خدائےکریم ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائےگا اور اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے یہ سن کر بعض اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ ہم افطار کرانے پر قادر نہیں ہیں تب آپ نے فرمایا افطار دینے کے ذریعہ خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ چاہے یہ افطار خرمے کے آدھے دانے کے برابر ہو یا ایک گھونٹ پانی کے برابر، پھر بھی خدا یقینا وہی ثواب دیگا ۔ پھر فرمایا : اے لوگو جو اس مہینے میں صلہء رحم کریگا خدا قیامت میں اسکے ساتھ صلہء رحمت کریگا اور جو اس ماہ میں قطع رحم کریگا خداوند قیامت میں اسکے ساتھ قطع رحمت کریگا جو اس مہینے میں مستحبی نمازیں انجام دیگا خدا اسکے لئے جہنم سے امان کا پروانہ لکھ دیگا ، جو مجھ پر اور میری آل پر کثرت سے درود بھیجےگا خدا اس دن اسکے اعمال کی ترازو کو بھاری کردیگا جس دن اعمال کی ترازو ہلکی ہوجائیں گی اور جو اس مہینے میں ایک آیت کی تلاوت کریگا خداوند اسکو اس قدر ثواب مرحمت فرمائےگا جتنا کہ اور مہینوں میں ختم قرآن کا ہوتا ہے ۔ اے لوگو تمہارے لئے اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوے ہیں لھذا خدا سے دعا کرو کہ انہیں تمہارے لئے بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے بند ہیں لھذا خدا سے سوال کرو کہ انکو تم پر نہ کھولے اس مہینے میں شیاطین مقید اور باندھ دئے گئے ہیں تم خدا سے چاہو کہ انکو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔[3]
بہر حال اس عظیم اور بابرکت مہینے کے اعمال میں سے نافلہ نمازیں بھی ہیں اگر چہ سال میں ہر روز نافلہ نمازوں کا وجود ہے لیکن یہ نمازیں اپنی خصوصیات و فضائل میں یکتا ہیں.
مذہب شیعہ اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
مذہب امامیہ شیعہ اثناعشری کے نزدیک ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مسلم ہے اور انکی تعداد ایک ہزار رکعت ہے کہ جو اول ماہ رمضان سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ رمضان تک ہر شب تیس رکعت و شبھائے قدر میں ہر شب سو رکعت جداگانہ انجام دی جاتی ہے کہ جو مجموعا ایک ہزار رکعت ہوجاتی ہے۔ البتہ یہ عام دنوں میں ہر روز کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے ۔اس مطلب کی تائید میں مذہب حقہ شیعہ اثناعشری کی معتبر کتب سےکچھ احادیث اور چند جید علماء کے نظریے و فتوے قارئین کے حضور پیش کرتے ہیں ۔
پہلی روایت : قال ابوعبداللہ علیہ السلام مماکان رسول اللہ یصنع فی شھر رمضان کان یتنفل فی کل لیلۃ و یزید علی صلاتہ التی کان یصلیھا قبل ذالک منذ اول لیلۃ الی تمام عشرین لیلۃ فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ثمانی رکعات منھا بعد المغرب واثنتی عشرۃ بعد العشاء الآخرۃ ویصلی فی العشر الاواخر فی کل لیلۃ ثلاثین رکعۃ اثنتی عشرۃ منھا بعد المغرب و ثمانی عشرۃ بعد العشاء الآخرۃ و یدعو ویجتھد اجتھادا شدیدا وکان یصلی فی لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ ویصلی فی لیلۃ ثلاث و عشرین مائۃ رکعۃ و یجتھد فیھما۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کارناموں میں سے کہ جو رسول اسلام ماہ مبارک رمضان میں انجام دیتے تھے نافلۂ ماہ رمضان ہے کہ جو سالانہ ایام کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے وہ ہر شب بیسویں ماہ رمضان تک بیس رکعت نماز انجام دیتے آٹھ رکعت مغرب کے بعد بارہ رکعت عشاء کے بعد اور اکیسویں ماہ سے آخرماہ تک ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیتے بارہ رکعت مغرب کے بعد اور اٹھارہ رکعت عشاء کے بعد بہت دعا فرماتے اور بہت زحمت و مشقت اٹھاتے نیز اکیس و تیئیس کی شبوں میں سو سو رکعت نماز انجام دیتے اور بہت ہی جہد و کوشش کرتے۔[4]
دوسری روایت : عن ابی حمزہ قال دخلنا علی ابی عبداللہ علیہ السلام فقال لہ ابوبصیر ما تقول فی الصلاۃ فی رمضان ؟ فقال لہ ان لرمضان لحرمۃ حقا لا یشبہہ شیء من الشھور صل ما استطعت فی رمضان تطوعا باللیل و النھار و ان استطعت فی کل یوم و لیلۃ الف رکعۃ فصل، ان علیا علیہ السلام کان فی آخر عمرہ یصلی فی کل یوم و لیلۃ الف رکعۃ فصل یا ابامحمد زیادۃ فی رمضان، فقال کم جعلت فداک ؟ فقال فی عشرین لیلۃ تمضی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ، ثمانی رکعات قبل العتمہ و اثنتی عشرۃ بعدھا سوی ما کنت تصلی قبل ذالک، فاذا دخل العشر الاواخر فصل ثلاثین رکعۃ کل رکعۃ ، ثمان قبل العتمۃ و اثنتین و عشرین بعد العتمۃ سوی ما کنت تفعل قبل ذالک۔ جناب ابوحمزہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ابوبصیر نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ ماہ رمضان کی نمازوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں تب آب نے فرمایا بیشک ماہ رمضان کا خاص احترام ہے، حق یہ ہے کہ اس ماہ کو کسی مہینے سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی رمضان کی شب و روز میں مستحب نمازیں جتنی بھی ہوسکتی ہیں انجام دیں اور اگر ہوسکے تو ہرشبانہ روز ایک ایک ہزار رکعت پڑھیں، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی عمر کے آخری ایام میں ہر شب و روز ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے، اے ابومحمد آپ زیادہ سے زیادہ سے نمازیں انجام دیں عرض کی آپ پر ہماری جانیں قربان کتنی نماز ؟ تب آپ نے فرمایا پہلی بیس شبوں میں ہر شب بیس بیس رکعت نماز کہ آٹھ رکعت عشاء سے پہلے اور بارہ رکعت عشاء کے بعد ان نمازوں کے علاوہ جو غیر ماہ رمضان میں انجام دی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں ہر تیس رکعت نماز انجام دیں یہ بھی عام نمازوں کے علاوہ ہے۔[5]
تیسری روایت : حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے حضور احمد ابن مطہر نے عریضہ لکھا اور نماز نافلۂ رمضان کے متعلق دریافت کیا تب آپ نے جواب ارسال فرمایا صل فی کل لیلۃ من شھر رمضان عشرین رکعۃ الی عشرین من الشھر و صل لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ وصل لیلۃ ثلاثۃ و عشرین مائۃ رکعۃ، وصل فی کل لیلۃ من العشر الاواخر ثلاثین رکعۃ۔ بیسویں ماہ رمضان تک ہر شب بیس رکعت نماز انجام دیں اور اکیس و تیئیسویں شب کو سو سو وکعت نیز آخری عشرے میں ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیں .[6]
ان روایتوں کے علاوہ کتب احادیثی شیعہ میں اسطرح کی روایات بھر پور ہیں کہ جنمیں کہیں پر اول ماہ سے آخرماہ تک کی نماز مذکور ہے اور بعض روایات میں صرف شبھای قدر کی نمازوں کا ذکر ہے بلکہ وسائل الشیعہ میں مستقل ایک باب ہے کہ جسمیں شبھای قدر کی سو سو رکعت نماز سے متعلق متعدد احادیث درج ہیں[7] جبکہ بعض روایات میں 19، 21، 32، رکعت کو مشخص کرکے نماز کا حکم ہے اور بعض روایات میں صرف اتنا آیا ہے (فصل فی رمضان زیادۃ الف رکعۃ)[8] یعنی ماہ رمضان میں کل ملاکر ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جانی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء شیعہ نے بھی انہی روایات سے استنباط کر کے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کی تعداد ایک ہزار رکعت بتائی ہے اور اسکا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے ، لھذا چند ممتاز و جید علماء و مراجع کے نظریے پیش خدمت ہیں۔
نظریہ سید مرتضی : ومما انفردت بہ الامامیہ ترتیب نوافل شھر رمضان علی ان یصلی فی کل لیلۃ منہ عشرین رکعۃ منھا ثمان بعد صلاۃ المغرب و اثنتاعشرۃ رکعۃ بعدالعشاءالآخرۃ ، فاذا کان فی لیلۃ تسع عشرۃ صلی مائۃ رکعۃ ، و یعود فی لیلۃ العشرین الی الترتیب الذی تقدم ، ویصلی فی لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ ، و فی لیلۃ اثنتین و عشرین ، ثلاثین رکعۃ منھا ثمان بعد المغرب والباقی بعد صلاۃ العشاء الآخرۃ … علم الھدی سید مرتضی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ مذہب شیعہ کی انفرادیت میں سے ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کو اسطرح انجام دیاجائے کہ ہر شب بیس رکعت جسمیں آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد، انیسوی شب میں سو رکعت اور پھر بیسوی شب میں پہلے کی ترتیب ، پھر اکیسوی شب میں سو رکعت اور بائسویں شب میں تیس رکعت نماز پڑھی جائےگی کہ آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بائیس رکعت نماز عشاء کے بعد انجام دی جائےگی گویا اول شب سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ تک ہر شب تیس رکعت نیز قدر کی راتوں میں ہر شب 100 رکعت نماز انجام دی جاتی ہے.[9]
شیخ الطائفہ مرحوم شیح طوسی رقمطراز ہیں کہ (یصلی طول شھر رمضان الف رکعۃ زائدا علی النوافل المرتبۃ فی سائر الشھور ، عشرین لیلۃ فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ، ثمان بین العشائین و اثنتا عشرۃ بعد العشاءالآخرۃ وفی العشر الاواخر کل لیلۃ ثلاثین رکعۃ ، فی ثلاث لیال و ھی لیلۃ تسع عشرۃ و لیلۃ احدی و عشرین و لیلۃ ثلاث وعشرین ، کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) اول ماہ رمضان سے آخر تک ہمیشہ و روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جائے اسطرح کہ بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت کہ آٹھ رکعت نماز کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر رات تیس رکعت ، نیز تین شبون میں کہ جو انیس اکیس اور تئیس کی شبیں ہیں ہر شب سو رکعت نماز انجام دی جائے.[10]
جناب علامہ حلی تحریر فرماتے ہیں کہ (المشھور استحباب الف رکعۃ فیہ زیادۃ علی النوافل الشھورۃ) مشھور یہ ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جنکی انجام دھی کی ترتیب اسطرح ہے کہ (ان یصلی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ الی آخر الشھر و فی العشر الاواخر فی کل لیلۃ زیادۃ عشر رکعات و فی اللیالی الافراد زیادۃ فی کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت اور آخری عشرہ میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ ہوگا اور تین شبھای قدر میں ان نمازوں کے علاوہ سو سو رکعت نماز اور انجام دی جائےگی ۔[11]
جناب محقق حلی بیان فرماتے ہیں کہ (نافلۃ شھر رمضان ، والاشھر فی الروایات استحباب الف رکعۃ فی شھر رمضان زیادۃ علی النوافل المرتبۃ ، یصلی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ثمان بعد المغرب اثنتی عشرۃ رکعۃ بعد العشاء علی الاظھر، و فی کل لیلۃ من العشر الاواخر ثلاثین علی الترتیب المذکور و فی لیالی الافراد الثلاث فی کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ بطبق روایات اشھر یہ کہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جنکو اسطرح انجام دیا جاتا ہے کہ اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت ، آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری عشرے میں ہر شب دس رکعت اور زیادہ انجام دی جائےگی نیز تین شبہای قدر میں ہر شب سو رکعت کا اور اضافہ ہوگا۔[12]
جناب فاضل نراقی : (الف رکعۃ نافلۃ شھررمضان زیادۃ علی النوافل المترتبہ فانھامستحبۃ علی الاشھر روایۃ و فتوی، بل علیہ الاجماع ۔ ثم فی کیفیۃ توزیع الالف علی الشھر، ان یصلی فی کل لیلۃ من الشھر عشرین رکعۃ ثمان بعد المغرب و اثنتی عشرۃ بعد العشاء و یزید فی العشر الآخر فی کل لیلۃ عشر رکعات بعد العشاء و فی لیالی الثلاثۃ القدریۃ مائۃ زائدۃ علی وظیفتھا) صاحب مستندالشیعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزمرہ کی نوافل کے علاوہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں ایک ہزار رکعت ہیں یہ بر بناء قول اشھر باعتبار روایت و فتوی مستحب ہیں بلکہ اسپر علماء شیعہ کا اجماع ہے پھر یہ ہزار رکعت پورے مہینہ پر اسطرح تقسیم ہوتی ہیں کہ ہر شب بیس رکعت آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ کیا جائیگا نیز تینوں شبھای قدر میں اس مذکورہ وظیفہ کے ساتھ ساتھ ہر شب 100 رکعت نماز کا اور اضافہ ہوگا۔[13]
مذہب اہلسنت اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
اھل تسنن کے نزدیک نوافل ماہ رمضان میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن مشہور بیس رکعت ہیں انہیں کو نمازتراویح کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور یہ جماعت سے انجام دی جاتی ہیں اس مطلب کی تائید میں ھم اھل تسنن کے جید علماء کے نظریات پیش کرتے ہیں ۔
مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری کی معتبر ترین شرح عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری میں تحریر ہے (وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرۃ) نافلہ ماہ رمضان کی تعداد رکعات میں علماء کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے بعض افراد اکتالیس رکعت کے قائل ہیں تو بعض اڑتیس رکعت کے ، کچھ نے چھتیس کو ترجیح دی ہے تو کسی نے چونتیس رکعت کو اپنایا ہے ، کوئی چوبیس رکعت کا قائل ہوا توکسی نے اکیس رکعت کواخذ کیا ، لیکن مشہور و معروف بیس رکعت ہے اور اسکے علاوہ نماز وتر ہے اگرچہ بعض افراد سولہ رکعت اور کچھ تیرہ رکعت ہی کے معتقد ہیں بلکہ بعض نے رمضان کی نافلہ اور غیر رمضان کی نافلہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ کہا ہے کہ ہر شب صرف گیارہ رکعت نماز نافلہ مستحب ہے۔[14]
علامہ قسطلانی نے بخاری شریف کی شرح ارشاد الساری میں تحریر کیاہیکہ (المعروف و ھو الذی علیہ الجمھور انہ عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات و ذالک خمس ترویحات ، کل ترویحۃ اربع رکعات بتسلیمتین) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کے بارے میں معروف یہ ہے کہ بیس رکعت ہیں یہی علماء جمہور کا نظریہ ہے کہ جو دس سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اسمیں پانچ ترویحہ (آرام و استراحت)ہیں اور ہر ترویحہ چار رکعت کے بعد ہے۔[15]
بہرحال گزشتہ گفتگو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشری اور مذہب اہلسنت دونوں کے نزدیک ثابت ہے لیکن اختلاف رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں ہے ۔ لھذا اصل موضوع یہ ہے کہ نمازتراویح کہ جو ماہ مبارک رمضان میں ہر شب بیس رکعت جماعت کے ساتھ دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اور ہر چار رکعت کے بعد آرام و استراحت کیا جاتا ہے اسی کی وجہ سے اسکو نمازتراویح کہتے ہیں یہ نماز اس و کیفیت اور جماعت کے ساتھ کب ؟ اور کہاں سےشروع ہوئی ؟ کس نے شروع کی ؟!!!
نماز تراویح کی ایجاد ! مؤجد کون ؟
کسی بھی چیز کی حقیقت تک پہونچنے کیلیئے بھترین طریقہ یہی ہے کہ اسکی ایجاد وآغاز کی تفتیش کی جائے کہ یہ اسلام محمدی میں کب سے وارد ہوئی ؟ کیوں وارد ہوئی ؟ اور کسنے ایجاد کی ؟ اگرچہ نماز تراویح کا شمار ان بدعتوں میں سے ہے کہ جسکے بارے میں زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری میں نمازتراویح کی حقیقت مفصل درج ہے (عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عبد الرحمن بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمربن الخطاب لیلۃ فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم فجمعھم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلۃ اخری والناس یصلون بصلاۃ قارئھم قال عمر نعمت البدعۃ ھذہ والتی ینامون عنھا افضل من التی نقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون اولہ)
ترجمہ : ابن شھاب نے عروۃ بن زبیر سے اسنے عبدالرحمن بن قاری سے روایت کی ہے کہ عبدالرحمن کا بیان ہےکہ میں ایک شب ماہ رمضان میں عمربن الخطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو دیکھا کہ لوگ جداجدا نماز نافلہء ماہ رمضان انجام دے رہے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نمازوں میں مشغول ہے عمر نے کہا میری رای یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور کچھ عور و فکر کرنے کے بعد ابی بن کعب کی اقتداء میں سب کو جماعت کا حکم دیا۔ پھر اگلی شب عمر کے ساتھ مسجد کی روانہ ہوا تو دیکھا کہ لوگ جماعت کے ساتھ نافلہ نماز میں مشغول ہیں تب عمر نے کہا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور وہ لوگ جو آرام سے سورہے ہیں وہ ان نمازگذاروں سے افضل ہیں (چونکہ وہ آخر شب میں نافلہ انجام دینگے جب کہ یہ اول شب میں تراویح پڑھ رہے ہیں)۔[16]
شرح : انی اری میری رائ یہ ہے اس جملے کا لغوی ترجمہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں لیکن اصطلاحی ترجمہ اسطرح ہوگا کہ میری نظر یہ ہے، میری رائی یہ ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ عمر ظاہر بظاہر اپنے نظریے اور اپنی رائی سے دین میں کمی و زیادتی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی حملہ کی تفسیر صاحب عمدۃ القاری نے صحیح بخاری کی شرح میں تحریر کی ہے کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ جناب عمر نے اپنے اجتھاد و رائی سے یہ فعل انجام دیا اور انکے استنباط کیلیے تین دلیلیں ہوسکتی ہیں۔(ہم قارئین کے حضور تینوں دلیلیں مع جوابات پیش کررہے ہیں)
دلیل اول : پیغمبر اسلام کی رضایت کہ چند روز لوگوں نے آپکی اقتداء میں نماز تراویح انجام دی!
جواب : یہ روایت اور اسکی حقیقت انشاءاللہ آئندہ آئےگی جبکہ واضح رہے کہ اگر پیغمبراکرم اس کام کو انجام دیتے تو عمر کبھی بھی اسکو بدعت نہ کہتے ، بدعت کہنا بتارہا ہےکہ یہ کام اس سے پہلے اسلام میں انجام ہی نہیں دیا گیا۔
دلیل دوم : استحسان ، کہ یہ کام عمر کو اچھا لگا لھذا انجام دینے کا حکم دے دیا!
جواب : شریعت اسلام میں استحسان حجت نہیں ہے اور استحسان بھی ہرکس وناکس کا کہ جو بھی اچھا لگے دین میں داخل کرلیا جائے اور جو برا لگے اسکو دین سے نکال دیا جائے تو پھر دین کی کیا حالت ہوگی یہ لمحۂ فکریہ ہے! جبکہ قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہے کہ ہر چیز جو تمہیں اچھی لگے اسکے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں بھی اچھی ہو بلکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو آپکو اچھی لگتی ہیں لیکن آپ کے لیے اچھی نہیں ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ آپ کو بری لگتی ہیں جبکہ آپ کے لیے اچھی ہیں عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم
دلیل سوم : قیاس ، چونکہ واجب نمازوں میں جماعت جائز ہے بلکہ مستحب ہے لھذا نافلہ نماز میں بھی جماعت ہونی چاہیے!
جواب : قیاس دین مقدس اسلام میں باطل ہے ، اول من قاس فھو ابلیس۔ نیز یہ قیاس مع الفارق ہے اس لیے کہ واجب نمازوں میں جماعت کی تشریع موجود ہے نافلہ نمازوں میں جماعت کی تشریع تو کجا بلکہ انکار و تحریم ہے سوائے بعض موارد کے کہ جو روایات کی رو سے استثناء ہیں ۔
ثم خرجت معہ لیلۃ اخری جب دوسری رات عمر کے ساتھ مسجد کی طرف کو نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے ساتھ نمازتراویح میں مشغول ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز تراویح عمر نے نہ پڑھی ہے اور نہ پڑھائی ہے جبکہ خلیفہ وقت ہونے کی صورت میں اور انکے حضور و صحت و سلامتی کے دوران کسی دوسرے کا امامت کرنا یہ خود ذہن مسلمین میں بہت سے خطور پیدا کرتاہے ۔
نعمت البدعۃ ھذہ یعنی یہ کام بدعت ہے سنت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پہلے کسی نے انجام دیا۔
والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون جناب عمر کی نظر میں نمازتراویح کو انجام دینے والوں سے انجام نہ دینے والے بہتر و افضل ہیں، جبکہ اس فعل خود ہی موجد بھی ہیں۔
اور اسکے علاوہ تمام ہی محدثین و مؤرخین و فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نمازتراویح کی ایجاد عمر کے ذریعہ سے ہوئی مثلا علامہ ابن سعد الطبقات الکبری میں عمر کا زندگینامہ تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو تراویح میں تبدیل کیا لوگوں کو تراویح کے لیے جمع کیا اور دوسرے شہروں میں تراویح کے سلسلے میں نامے ارسال کیے یہ چودہ ہجری کے ماہ رمضان کی بات ہے۔[17]
علامہ ابن عبدالبر عمر کی تاریخ زندگی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ نمازتراویح کے لیے لوگوں کو جمع کیا۔[18]
علامہ قلقشندی ان چیزوں کو تحریر کرتے ہوئے کہ جنکی ابتداء عمر نے کی اور اس سے پہلے اسلام میں موجود نہ تھیں لکھتے ہیں کہ اولیات عمر میں سےایک ماہ رمضان کی تراویح ہے کہ عمر نے لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں نمازتراویح کیلیے جمع کیااس وقت چودہ ہجری تھی۔[19]
صاحب محاضرات الاوائل تحریر کرتے ہیں نافلۂ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا عمر کی ایجادات میں سے ہے ۔[20]
علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں کہ عمر ہی وہ پہلے ہیں کہ جنہوں نے نمازتراویح کی ایجاد ڈالی اور اسکو بدعت کا نام دیا چونکہ لفظ بدعت اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کام اس سے پہلے انجام نہیں دیا گیا۔[21]
علامہ کحلانی تحریر کرتے ہیں عمر نے نمازتراویح کی بنیاد ڈالی اور اسکو بدعت کہا۔[22]
بہر حال خود علماء اھل تسنن کے اعتراف کے مطابق نمازتراویح بدعت ہے اور یہ بعد میں جناب عمر کے ذریعہ اسلام میں وارد ہوئی ہے لھذا اب دیکھنا یہ ہے کہ خود بدعت کسکو کہتے ہیں اور بدعت کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟
بدعت کی تعریف
باعتبار لغت : علامہ زبیدی نے تاج العروس میں علامہ فراھیدی نے کتاب العین میں علامہ راغب اصفہانی نے معجم مفردات میں علامہ ازھری نے تھذیب اللغہ میں علامہ ابن منظور نے لسان العرب میں علامہ جوھری نے صحاح اللغہ میں اور علامہ طریحی نے مجمع البحرین میں بلکہ تمام ہی لغویین نے بدعت کے ایک ہی معنی بیان کیے ہیں کہ(البدعۃ ھو الشیء الذی یبتکر و یخترع من دون مثال سابق ویبتداء بہ بعد ان لم یکن موجود من قبل) یعنی بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اسطرح ایجاد کرنا کہ وہ خود یا اسکی مثال و نظیر قبلا موجود نہ ہو۔[23]
اصطلاح شریعت میں بدعت کا مفھوم : علماء و بزرگان کی تصانیف و تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوے بدعت کا مفھوم شرع و شریعت کی اصطلاح میں اسطرح سامنے آتا ہے (ادخال ما لیس من الدین فی الدین) کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو دین میں سے نہ ہو اسکو اور واضح کرنے کیلیے مغنی لغوی کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی ایسی چیزکو دین میں داخل کرنا کہ جو نہ خود قبلا دین میں موجود ہو اور نہ اسکی مثال و نظیر موجود ہو اسکے ساتھ ساتھ بعض علماءنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ تطلق شرعا علی مقابل السنہ یعنی بدعت سنت کے مقابل کی ایک شی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شی مد مقابل ہوتی ہے اسکو خود اس شی میں داخل نہیں کیا جاسکتا لھذا بدعت کبھی بھی کسی بھی حال میں سنت واقع نہیں ہوسکتی ۔ اس صاف و شفاف بدعت کی تعریف کو دیکھتے ہوئے تراویح کی حقیقت خود سامنے آجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اہلسنت نے اسطرح کی بدعتوں کو شریعت کا لباس پنہانے کیلیے بدعت کی تقسیم حسنہ و قبیحہ سے کی ہے ایکن کیا واقعا بدعت قابل تقسیم ہے ؟
کیا بدعت قابل تقسیم ہے ؟
بدعت باعتبار لغت ممکن ہے کہ تقسیم ہوجائے بلکہ انصافا عقلا بھی بدعت کی تقسیم ممکن ہے لیکن شرعا ؟ جبکہ اصطلاح شریعت میں بدعت سنت کے مقابل ایک شی ہے اور یہ جملہ البدعۃ تطلق علی مقابل السنۃ نشانگر ہے کہ بدعت کو تقسیم کرکے بدعت حسنہ کو شریعت میں داخل کرنا غیر معقول ہے چونکہ بدعت ولو حسنہ ہی کیوں نہ ہو لیکن سنت نہیں ہوسکتی اس مدعی پر محکم دلیل خود رسول اکرم کی وہ حدیث شریف ہے کہ جسکو اسلام کے تمام مکاتب فکر نے نقل کیا ہے کہ حضور کا ارشاد گرامی ہے (کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار) ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی راہی جہنم کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ بدعت کی کسی بھی قسم کا سنت میں داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس حقیقت کے بہت سے علماء اہلسنت بھی معتقد ہیں جیسے علامہ کحلانی اپنی کتاب سبل السلام میں رقمطراز ہیں کہ (قول عمر: نعم البدعۃ فلیس فی البدعۃ ما یمدح بل کل بدعۃ ضلالۃ) عمر کا قول کہ یہ اچھی بدعت ہے! جبکہ بدعت میں کوئی اچھائی نھیں پائی جاتی بلکہ ہر بدعت گمراھی ہے۔[24]
علامہ شاطبی کتاب الاعتصام میں لکھتے ہیں کہ بدعت کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث پیغبراکرم(ص) سے منقول ہیں سب کی سب عام و مطلق ہیں اور لفظ کل کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جیسے کل بدعۃ ضلالۃ تو اگر بدعت کو تفسیم بھی کیا جائے توبھی اسکی ہر قسم ضلالت و گمراھی ہے لھذا بدعت کی کسی بھی قسم کو شریعت میں داخل نہیں کرسکتے اور پھر لکھتے ہیں کہ (انہ من باب مضادۃ الشارع و اطراح الشرع وکل ما کان بھذہ المثابۃ فمحال ان ینقسم الی حسن و قبح وان یکون منہ مایمدح و یذم) بدعت، شارع مقدس اسلام کی ضد ہے بدعت کو اپنانا گویا شریعت کو ترک کرنا ہے اور جو اس مقام پر ہو اسکی حسن و قبح اور اچھی و بری سے تقسیم محال و ناممکن ہے۔[25]
ابن رجب حنبلی تحریر کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) کا ارشادگرامی کل بدعۃ ضلالۃ ، بدعت کی تمام اقسام کو شامل ہے چونکہ اسمیں کسی چیز کو استثنا اور جدا نہیں کیاگیاہے بلکہ یہ قول جوامع حکم میں سے ہے کہ جس سے کوئی چیز خارج و علیحدہ نہیں ہوتی اور یہ ایک اصل عظیم ہے کہ جسمیں احکام و افعال دین کو تولا جاسکتاہے کہ ہر وہ چیز یہ جو بدعت ہے دین نہیں ہے بلکہ گمراھی و ضلالت ہے۔[26]
انکے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اھل حل و عقد ہیں کہ جو یا تو اصلا تقسیم بدعت کے قائل نہیں ہیں یا تقسیم کے ساتھ بدعت کی ہر قسم کو گمراھی و ضلالت مانتے ہیں۔یہی بات معقول و قرین قیاس بھی نظر آتی ہے اسلئے کہ :
اولا : یہ قاعدہ کلی و اصلی عملی ہے کہ جو چیز شریعت میں بار بار بیان کی جائے مختلف حالات و زمان میں تکرار ہوتی رہے اور ہمیشہ عام و مطلق بیان ہو، کسی چیز کو کسی بھی وقت جدا و علیحدہ نہ کیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ شی اپنے اجزاء و اقسام کے ساتھ منظور ہے یہی حال بدعت کا ہے کہ مختلف اوقات و حالات میں متعدد مرتبہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کل بدعۃ ضلالۃ اور کسی مرتبہ بھی تخصیص و تقیید نہ کی تو مقصد یہ ہوا کہ ہر بدعت گمراھی و ضلالت ہے۔
ثانیا: بدعت کو اگر حسنہ اور اچھا تسلیم کرکے دین میں داخل کرلیا جائے تو دین کو ناقص ماننا لازم آئےگا اسلئے کہ آیۃ اکمال(الیوم اکملت لکم دینکم) کی مخالفت ہوگی کہ جو کفر ہے۔
ثالثا: بدعت کو اگر حسنہ مان کر دین میں داخل کرلیں تو دین بازیچہ بن کر رہ جائےگا اور کوئی بھی اپنی خواہش نفس کے مطابق کسی بھی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کرسکتا ہے۔
رابعا: اگر کسی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کیا جاسکتا ہے تو کسی بھی چیز کو اسی نام سے خارج بھی کیا جاسکتاہے اسلئے کہ جب بڑھانے میں کوئی حرج نہیں تو کم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا اور پھر دین کا کیا حشر ہوگا یہ خدا بہتر جانتاہے۔
خامسا: اگر بدعت کی تقسیم کو قبول بھی کرلیا جائے تو بھی کس میزان پر پرکھا جائے کہ یہ حسنہ ہے اور یہ قبیحہ ہے کس پیمانے سے ناپا جائے اور کس ترازو میں تولا جائے، بدعت حسنہ کو بدعت قبیحہ سے کیسے مشخص کیا جائے؟؟؟
اسمیں بدعت کون سی چیز ہے؟
البتہ ایک سادہ لوح انسان کے لیے یہ سوال پیش آسکتا ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں مذھب شیعہ میں بھی موجود ہیں اور مذھب اھلسنت میں بھی، نافلہ نمازوں کو اسلام کے تمام فرقوں میں شرعی حیثیت حاصل ہے یہ پہلے بھی مستحب تھیں اور آج بھی مستحب ہیں تو پھر بدعت کون سی چیز ہے؟
جواب،گزشتہ مطالب کو بغور مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائےگا کہ نماز نافلہ پڑھنے والوں کو ایک خاص کیفیت کے ساتھ ایک شخص کے پیچھے جماعت کا حکم دینا اور انکا اس نماز کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، ورنہ واقعا اس حادثہ سے پہلے بھی یہ لوگ نافلہ پڑھتے تھے جس شب عمر نے جماعت کا حکم دیا اس شب بھی نافلہ ہی پڑھ رہے تھے لیکن اگلی شب جب سب کو نمازنافلۂ ماہ رمضان جماعت سے پڑھتے دیکھا تو کہا نعمت البدعۃ ھذہ ، یعنی نافلہ نمازوں کا جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔ اسی کا علماء اہلسنت نے بھی اعتراف کیا ہے لھذا علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں(سماھا ای عمر بدعۃ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یبین لھم الاجتماع لھا ولا کانت فی زمن الصدیق) اسکا نام عمر نے بدعت اس لیے رکھا چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس نماز کو جماعت سے انجام دینے کیلیے بیان نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی یہ جماعت ابوبکر کے زمانے میں تھی۔[27]
ابن قدامہ کا بیان ہے کہ(نسبۃ التراویح الی عمر بن الخطاب لانہ جمع الناس علی ابی بن کعب)نماز تراویح عمر ابن خطاب سے اسلیے منسوب ہے کہ عمر نے لوگوں کو ابی بن کعب کے ساتھ سے پڑھنے کا حکم دیا۔[28]
علامہ عینی رقمطراز ہیں (انما دعاھا بدعۃ لان رسول اللہ لم یسنھا لھم و لاکانت فی زمن ابی بکر) عمر نے اسکو بدعت اسلیے کہا کہ چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس جماعت کو سنت قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی یہ ابوبکر کے زمانے میں تھی۔[29]
کحلانی لکھتے ہیں (ان عمر ھو الذی جعلھا جماعۃ علی معین و سماھا بدعۃ) یہ عمر ہی ہیں جنہوں نے نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے قرار دیا اور اسکا نام بدعت رکھا۔[30]
نمازتراویح اور پیغمبراکرم(ص)
خداوندکریم تمام مسلمانوں سے ببانگ دھل ارشاد فرمارہاہے کہ میرا رسول تم لوگوں کیلیے اسوہء حسنہ ہے اور تمہاری زندگی کیلیے بھترین نمونہ ہے لھذا یہ اپنا شیوا بنالو کہ جو میرا حبیب دے اسے بے جھجک لے لو اور جس سے روکے اس سے بے چون و چرا رک جاؤ ( مااتاکم الرسول فخذواہ ومانھاکم عنہ فانتھوا) اسی عقیدے کو سامنے رکھتے ہوے مسلمانوں کو قدم بڑھانا ہے اور ہر مسئلے کی شرعی حیثیت دیکھنے کیلیے یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ یہ فعل حضورانور نے انجام دیا یا نہیں ؟ اگر چہ اس مطلب کے صاف و شفاف ہونے کے بعد کہ نمازتراویح کی ایجاد عمر کے زمانے سے ہوئی یہ بحث کرنا ہی عبث و بے فائدہ ہے کہ رسول اکرم(ص) نے نمازتراویح پڑھی یا نہیں ؟ جبکہ قول عمر کہ تراویح بدعت ہے اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ فعل اس سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا چونکہ معنی بدعت ہی یہ ہیں کہ جو پہلے سے وجود نہ رکھتاہو لھذا خود علماء اھل تسنن نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے کبھی نمازتراویح کو انجام نہیں دیا ہاں بلکہ وہ نافلہء ماہ رمضان بجالاتے تھے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ (من قام رمضانا ایمانا و احتسابا غفراللہ لہ ما تقدم من ذنبہ، قال ابن شھاب: فتوفی رسول اللہ والامر علی ذالک ثم کان الامر علی ذالک فی خلافۃ ابی بکر و صدرا من خلافۃ عمر) نافلہ ماہ رمضان کی فضیلت میں حدیث ہے کہ جو شخص خلوص و ایمان کے ساتھ نافلہ ماہ رمضان انجام دےگا خداوند اسکے تمام گزشتہ گناہوں کو بخش دےگا اسکے بعد ابن شھاب کا بیان ہے نافلہ ماہ رمضان عصر پیغمبراکرم(ص) میں انجام دی جاتی تھیں خلافت ابوبکر میں بھی باقی رہیں اور خلافت عمر کے ابتدائی زمانے تک انجام دی گئیں لیکن پھر عمر نے تراویح کی بدعت ڈالی لھذا نافلہ ختم تراویح شروع ہوگئی۔[31]
چونکہ ہمارا مبنی بھی عدل و انصاف پر ہے اور تعصب سے کام لینا ہمارا ھدف نہیں ہے یھی ہم قارئین سے بھی چاہتے ہیں لھذا وہ روایات بھی نقل کیے دے رہے ہیں کہ جن سے اھل تسنن اپنے مدعی پر استدلال کرتے ہیں اگرچہ قارئین کو عدل و انصاف کا بھر پور حق حاصل ہے۔
شیعہ کتب کی روایت (عن زرارہ محمد بن مسلم والفضیل: انھم سالوا اباجعفر الباقر و اباعبداللہ الصادق علیھماالسلام عن الصلوۃ فی شھر رمضان نافلۃ باللیل فی جماعۃ ؟ فقالا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا صلی العشاہ الآخرۃ انصرف الی منزلہ ثم یخرج من آخر اللیل الی المسجد فیقوم و یصلی فاصف الناس خلفہ فھرب منھم الی بیتہ و ترکھم ففعلوا ذالک ثلاث لیال فقام فی الیوم الثالث علی منبرہ فحمد اللہ و اثنی علیہ ثم قال ایھاالناس ان الصلوۃ بااللیل فی شھر رمضان من النافلۃ فی جماعۃ بدعۃ و صلوۃ الضحی بدعۃ الا فلا تجمعوا لیلا فی شھر رمضان لصلوۃ اللیل ولاتصلوا صلوۃ الضحی فان تلک معصیۃ الا و ان کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ سبیلھا الی النار ثم نزل وھو یقول قلیل فی سنۃ خیر من کثیر فی بدعۃ) زرارہ محمد بن مسلم اور فضیل نے امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھماالسلام سے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا بیشک پیغمبر اسلام(ص) ماہ رمضان نمازعشاء انجام دینے کے بعد اپنے بیت الشرف تشریف لے آتے تھے اور پھر آخر شب مسجد میں تشریف لےجاکر قیام فرماتے اور نماز نافلہ انجام دیتے کہ ایک مرتبہ لوگ انکے پیچھے جمع ہوگئے آپ لوگوں کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلے گئے یہ سلسلہ تین شبوں تک جاری رھا پھر آپ تیسرے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حمد و ثناء الھی کے بعد ارشاد فرمایا اے لوگوں نافلہ ماہ مبارک رمضان جماعت کے ساتھ بدعت ہے اور نمازضحی بدعت ہے ، آگاہ ہوجاؤ نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہ دینا اور نہ ہی نمازضحی پڑھنا اسلیے کہ یہ گناہ و معصیت ہے، آگاہ ہوجاؤ کہ ہر بدعت گمراھی ہے اور ہر گمراہی کی راہ جھنم ہے، پھر منبر سے نزول فرماتے ہوئے یہ کلمے زبان زد تھے تھوڑی سی سنت بہت زیادہ بدعت سے بہتر ہے۔[32]
یہ روایت چند اعتبار سے دیگر روایات سے مقدم ہے اول یہ کہ اسکو اکثر علماء شیعہ نے بیان کیا ہے مثلا شیخ صدوق نے الفقیہ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ طوسی نے تھذیب الاحکام و الاستبصار میں اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں، دوم یہ کہ دیگر روایات میں ایک شب کا ذکر ہے یا دو شبوں کا لیکن اسمیں تین شب مذکور ہیں البتہ تین شب سے زیادہ کسی بھی روایت میں یہ فعل نظر نہیں آتا خواہ روایت اہل تسنن ہو یا روایت شیعہ، بہر حال اس روایت میں رسول اکرم کی اقتداء میں نماز نافلہ پڑھنا پایاجاتاہے لیکن رضایت رسول اکرم(ص) نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آپ انکو چھوڑ کر گھر تشریف لےگئے اور آخر کار تیسرے روز منبر پر تشریف فرماہوئے اور انکو اس کام سے زجر و منع فرمایا ، نتیجۃ اس طرح کی روایت سے کسی بھی عقل سلیم میں تراویح کا جماعت سے جائز ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔
روایت اہل تسنن ( حدثنا یحی بن بکیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شھاب اخبرنی عروۃ ان عاشۃ اخبرتہ ان رسول اللہ(ص) خرج لیلۃ فی جوف اللیل فصلی فی المسجد و صلی رجال بصلاتہ فاصبح الناس فتحدثوا فاجتمع اکثر منھم فصلوا معہ فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ فخرج رسول اللہ(ص) فصلی فصلوا بصلاتہ فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشھد ثم قال اما بعد فانہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت ان تفترض علیکم فتعجزوا عنھا فتوفی رسول اللہ(ص) والامر علی ذالک)۔[33]
ترجمہ : یحی بن بکیر کا بیان ہے کہ ہم سے لیث نے عقیل سے اور عقیل نے شھاب سے روایت کی ہے کہ مجھکو عروۃ نے خبر دی اور اسکو عائشہ نے بتایا کہ رسول اکرم نصف شب بیت الشرف سے باہر آئے اور مسجد میں تشریف لے جاکر نماز پڑھی لوگوں نے آپ کی اقتداء کی، صبح نمودار ہوئی لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا اگلے روز اور زیادہ افراد ہوگئے، صبح ہوئی پھر ایک دوسرے کو اطلاع دی گئی اور اس شب گزشتہ شبوں سے بھی زیادہ اژدھام ہوا تب رسول اکرم نے صبح کو نماز فجر کے بعد فرمایا آپ کے ذوق و شوق سے مجھے خوف نہیں ہے بلکہ مجھکو خوف اس بات کا ہے کہ کہیں آپ پر یہ واجب نہ ہوجائے اور پھر تم اسکو انجام نہ دے سکو، رسول اکرم کی وفات واقع ہوگئی اور نماز نافلہ فردی ہی انجام دی جاتی رہی۔
اس روایت میں چند چیز قابل تامل ہیں۔
اول : کیا کسی مستحب فعل کا مسلسل انجام دینا اسکے واجب ہونے کا سبب ہوسکتاہے جبکہ واضح ہے کہ احکام الھی (وجوب و حرمت استحباب و کراہت و اباحہ) سب کےسب مشیت الھی و مصالحہ ومفاسدہ کے تابع ہیں نہ کہ مسلسل و مرتب انجام دینے کے نیز اگر کوئی شی مسلسل ومرتب انجام دینے کی وجہ سے واجب ہو تو خداوندعلیم کا جاھل ہو نا لازم آئیگا چونکہ مطلب یہ ہوگا کہ خداوند پہلے سے اس کام کی مصلحت سے واقف نہ تھا بلکہ لوگوں کے ذوق وشوق کو دیکھکر اس فعل کو واجب قرار دیا۔ نعوذ باللہ من ذالک
دوم : اگر کسی نماز کو مرتب و مسلسل جماعت سے انجام دینا اس جماعت کے واجب ہونے کا سبب ہے تو پھر یہ جماعت یومیہ نمازوں میں کیوں واجب نہ ہوئی جبکہ یومیہ نمازیں پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے ہی سے جماعت سے مسلسل و مرتب انجام دی جاتی ہیں یا پھر اس وجوب کے خوف میں رسول مکرم(ص) کو یومیہ نمازوں کی جماعت سے بھی منع کرنا چاہیے تھا تاکہ کہیں جماعت واجب نہ ہوجائے۔
سوم : رسول مکرم اسلام(ص) کو کس چیز کا خوف تھا آیا نمازنافلہ کے واجب ہونے کا یا جماعت کے واجب ہونے کا جبکہ متعدد نافلہ و مستحبی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہیں جیسے نماز عید نماز استسقاء وغیرہ اور متعدد واجب نمازوں میں جماعت مستحب ہے جیسے نماز یومیہ آپ نے کسی کیلیے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی واجب ہونے کا خوف کیا۔
چھارم : اس روایت میں اجازت حضور اکرم تو کھاں رضایت آنحضرت بھی نظر نہیں آتی۔ لھذا واضح ہے کہ اگر یہ روایت سندا و متنا صحیح ہو تو اس خوف و نہی سے مراد وہی ہے کہ جو ہمارا مقصود ہے یعنی تراویح بدعت ہے رسول مکرم اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسطرح کی بدعتوں کو اختیار کرنا اتباع رسول نہیں ہے جبکہ خداوندعالم قرآن کریم میں صاف صاف الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے وما اتآکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا لھذا اب رسول اکرم کے نہی و منع کرنے کے باوجود بھی مسلمانوں کا نمازتراویح کے سلسلے میں کیوں مصر ہیں ہر صاحب عقل کے سامنے علامت سوال بنا ہوا ہے۔
نمازتراویح اور اھلبیت علیھم السلام
اھل بیت علیھم السلام ملجئ مسلمین ہیں اور انکا ہر عمل مسلمین کیلیے قابل اتباع و پیروی ہے چونکہ پیغبراکرم اپنے بعد انہیں کو نمونہ عمل اور جائے تمسک قرار دیکر گیے ہیں لھذا حدیث ثقلین میں ارشاد فرماتے ہیں (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی حتی یردا علی الحوض)[34] گویا اھلبیت علیھم السلام کے دامن سے متمسک ھونے میں نجات یقینی ھے لھذا انکا ہر عمل حجت ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اھل بیت علیھم السلام نے نمازتراویح انجام دی یا نہیں ؟
اھلبیت کی اولین فرد حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے کہ جنکی طرف سے نمازتراویح کے متعلق انکار ہی انکار ملتاہے خواہ زمانہء خلافت ہو یا اسکے علاوہ کہیں بھی کسی بھی عالم میں آپ نے نمازتراویح انجام نہیں دی اور کیسے انجام دیتے جبکہ رسول اکرم اسکو بدعت و گمراھی بتاگئے ہیں۔ لھذا جب آپ دوران خلافت کوفہ تشریف لائے اور کوفہ میں ماہ رمضان آیا لوگ آپ کے پاس تشریف لائے اور نمازتراویح کیلیے کسی امام کی تعین کیلیے عرض کی آپ نے انکار کیا اور انکو جماعت سے منع فرمایا لیکن جب لوگوں نے اصرار کے باوجود امیرالمؤمنین کو نمازتراویح سے راضی نہ پایا تو وا رمضانا وا رمضانا کہکر گڑگڑانے اور چلانے لگے حارث الاعور آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا مولا لوگوں کو آپکا فرمان ناگوار گزراہے تب آپ نے فرمایا انکو چھوڑدو جسکے ساتھ نماز پڑھناچاہیں پڑھیں اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی (ومن یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی نصلہ جھنم وساءت مصیرا) جو لوگ مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو ہم بھی انکو انہی کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جائیں جھنم میں کہ جو بہت برا راستہ ہے۔[35]
یہ روایت امیرالمؤمنین کے مقصد کی عکاسی کررہی ہے کہ نمازتراویح بدعت ہے بدعتوں پر عمل کرنا جھنم کے راستے پر گامزن ہونا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کو حکم دیا کہ اھل کوفہ کو نماز تراویح کے سلسلے میں منع کریں کہ یہ بدعت ہے اسکو انجام نہ دیا جائے امام حسن نے منبر کوفہ پر جاکر اعلان فرمایا لوگوں کو ناگوار گزرا یہاں تک کہ چیخنے گڑگڑانے لگے واعمراہ واعمراہ غیرت بدعۃ عمر کہتے ہوئے مسجد سے نکل گئے امام حسن نے واپس آکر ماجراہ والد ماجد کی خدمت میں بیان کیا آپ نے فرمایا انسے کہدو جسکے ساتھ پڑھنا چاہیں پڑھیں۔[36]
اگر چہ کچھ کج فھم افراد نے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات سے نمازتراویح کے جواز میں سوء استفادہ کیا ہے جبکہ ہر عقل سلیم کیلیے نمازتراویح سے انکار واضح ہے۔ ہاں ان روایات میں کجھ نرمی ضرور نظر آتی ہے جسکے بارے آپ نے ایک خطبہ میں نمازتراویح کے متعلق مکمل و مفصل نرمی کی وجہ بیان فرمائی ہے لھذا آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کو امر کیا کہ ماہ مبارک رمضان میں واجب نمازوں کے علاوہ جماعت نہ کریں اور انکو سمجھایا کہ نافلہ نمازوں میں جماعت بدعت ہے تو میرے لشکر کے بعض سپاہیوں نے شور مچایا کہ اے اھل اسلام سنت عمر تبدیل ہوگئی اور ہمکو رمضان کی نافلہ نمازوں سے روکا جارہا ہے (یہاں پر امیرالمؤمنین نے مسلمانوں کی بے باکی، جرئت ، بے حیائی وجھالت پر گریہ کیا اور اپنی نرمی کی وجہ بیان فرمائی ) کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں یہ لوگ میرے لشکر سے کنارہ کشی اختیار نہ کرلیں۔[37]
حضرت علی علیہ السلام کی طرح تمام آئمہء اھلبیت علیھم السلام نمازتراویح کو بدعت جانتے ہیں لھذا نمازتراویح کی نفی میں حدیثی و فقہی شیعہ کتب روایات اھلبیت علیھم السلام سے مملوء ہیں اور اسی کا خود علماء اھل تسنن کو بھی اعتراف ہے لھذا علامہ
شوکانی رقمطراز ہیں کہ عترت اطہار علیھم السلام کے نزدیک نمازتراویح یعنی نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا بدعت ہے ۔[38]
نمازتراویح اور صحابہ کرام
اگرچہ دین مقدس اسلام میں صحابہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی کے کسی فعل کو دلیل بنایا جاسکتا ہے مگر یہ کہ تقریر یا تائید معصوم موجود ہو اور پھر صحابی بھی ایک عام لفظ ہے کہ جو لاتعد ولا تحصی افراد پر صادق آتا ہے لیکن وہ صحابی کہ جو معروف و مشہور ہیں اور انکے کارنامے تاریخ اسلام میں درج ہیں وہ بھی دو حصوں میں منقسم ہیں اسطرح کہ کچھ اصحاب تابع اھلبیت علیہم السلام ہیں اور نص کی موجودگی میں اظہار اجتھاد نہیں کرتے لھذ ا وہ مسئلہ تراویح میں بھی تابع ہیں اور جو راستہ اھلبیت علیہم السلام کا ہے وہی انکا ہے جیسے سلمان فارسی، ابوذرغفاری، عماریاسر، مقداد وغیرہ اور کچھ وہ اصحاب ہیں کہ جو اپنے اجتھاد و رائ پر عمل کرتے ہیں انمیں سے بھی بزرگ اصحاب نمازتراویح کو بدعت و خلاف سنت مانتے ہوئے انجام نہیں دیتے جیسے عبداللہ ابن عمر وغیرہ لھذا علامہ عبدالرزاق نے اپنی عظیم کتاب المصنف میں تحریر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کبھی نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہیں دیں .[39]
نمازتراویح اور شیخین
حضرات محمد وآل محمد علیہم السلام کے موقف کی وضاحت کے بعد اور اس مسئلہ کی مکمل تحقیق و بررسی کے بعد کہ نمازتراویح بدعت و خلاف سنت ہے اور اس فعل کو نہ رسول اکرم نے انجام دیا نہ اھلبیت نے اور نہ ہی بزرگ صحابہ کرام نے اب مسئلہ یہ رھ جاتا ہے کہ آیا خود جناب ابوبکر و جناب عمر نے نمازتراویح انجام دی ہے یا نہیں ؟ چونکہ اھل تسنن مدعی ہیں کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین [40] یا دوسری روایت اقتدوا باللذین بعدی[41] جواب یہ ہے کہ یہ دونوں روایتیں خود علماء اھل تسنن کے نزدیک جعلی و گھڑی ہوئی ہیں اور ضعف سند کو غض نظرکرتے ہوئے بھی اگر غور کیا جائے تو بھی رسول اکرم نے سنۃ الخلفاء الراشدین فرمایا ہے نہ کہ بدعۃ الخلفاء الراشدین جبکہ نمازتراویح کے بدعت ہونے کا خود جناب عمر کو بھی اعتراف ہے اور پھر صاحب سبل السلام اس روایت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ خلفاء راشدین کی سنت اس صورت میں قابل اقتداء ہے کہ چاروں خلفاء کسی ایک مسئلے پر متفق ہوں وگرنہ اگر اختلاف ہو تو قابل اقتداء نہیں ہیں جبکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ خلفاء راشدین میں سے حضرت علی علیہ السلام نے ہییشہ نمازتراویح کی مخالفت کی ہے اور اسکو خلاف سنت قرار دیا ہے ۔
جناب بوبکر کے سلسلے میں خود اھل تسنن کے مایہء ناز علماء کتاب صحیح بخاری کے اس جملہ( فتوفی رسول اللہ والامر علی ذالک وفی خلافۃ ابی بکر و صدرا من خلافتۃ عمر)[42] کے ذیل میں علامہ قسطلانی، علامہ عسقلانی، علامہ عینی و تمام شارحین بخاری و تمام ہی مؤرخین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عصر پیغمبراکرم اور خلافت ابی بکر کے دوران
نمازتراویح کا وجود نہ تھا بلکہ اسکو جناب عمر نے اپنی خلافت کے دوران سن 14 ہجری میں ایجاد کیا تو واضح ہے کہ جناب ابوبکر نے بھی نمازتراویح انجام نہیں دی ۔
جناب عمر کا تراویح پڑھنا شاید مسلمین کے لیے محکم دلیل قرار پائے لیکن افسوس کہ جناب عمر بھی کہیں پر نمازتراویح پڑھتے نظر نہیں آئے لھذا اھل تسنن کے عظیم محدث و فقیہ علامہ ابوطاھر بیان فرماتے ہیں کہ روایت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے جو بات مسلم و ثابت ہے وہ یہ کہ نمازتراویح کی امامت ابی بن کعب انجام دیتے تھے ارو عمر اپنے گھر میں نمازنافلہ پڑھتے تھے اسلیے کہ اگر جناب عمر نمازتراویح پڑھا کرتے تو حتما و یقینا خود ہی امام ہوتے[43] نیز شارح بخاری صاحب عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جناب علامہ عینی اس جملہ کی شرح کرتے ہوئے خرجت معہ لیلۃ اخری ای عمر تحریر کرتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت و اشعار ہے کہ عمر نماز تراویح انجام نہیں دیتے تھے اور وہ نافلہ نمازوں کو گھر میں خصوصا آخر شب میں انجام دینا بہتر جانتے تھے[44]۔
بہر حال ہم اسلام کی بزرگ و عظیم ہستیوں کا ذکر چکے ہیں کہ کسی نے بھی نمازتراویح کو انجام نہیں دیا تو اب مسلمانوں پر کیا دلیل ہے ؟ مذکورہ بالا دو روایتوں کا حال بھی مشخص ہے کہ ضعف سند و دلالت کے بعد بھی اھل تسنن کے عظیم علماء اسطرح کی اقتداءکے منکر ہیں اور انکو حجت نہیں مانتے لھذا امام ابوحامد غزالی کہ عارف فقیہ محدث مؤرخ بلکہ تمام علوم و فنون میں متبحر ہیں اپنی کتاب المستصفی میں تحریر کرتے ہیں کہ اصول موھومہ میں سے دوسری اصل قول صحابی ہے کہ کچھ لوگ قائل ہیں کہ مذھب صحابی مطلقا حجت ہے اور بعض کا نظریہ ہے کہ قول صحابی اگر مخالف قیاس ہو تو حجت ہے، ایک قوم معتقد ہے کہ قول ابوبکر و عمر حجت ہے چونکہ حدیث رسول ہے اقتدوا بالذین بعدی ابابکر و عمر اور کچھ افراد قائل ہیں کہ قول خلفاء راشدین حجت ہے اگر کسی قول پر یہ خلفاء متفق ہوں ، والکل عندنا باطل جبکہ یہ تمام نظریے ہمارے نزدیک باطل ہیں اس لیے کہ جو شخص غلط و سھو کا مرتکب ہوسکتا ہو اور اسکی عصمت ثابت نہ ہو اسکا کوئی فعل و عمل حجت نہیں ہے اور ایسے افراد کے قول کو کیسے دلیل بنایا جاسکتا ہے کہ جو خود جائزالخطاء ہیں[45]
نتیجۂ گفتگو
گزشتہ تلاش و جستجو اور تحقیق و بررسی کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ نمازتراویح ایک ایسی بدعت ہے کہ جسکو خود بانئ بدعت نے بدعت قرار دیا اور آج تک تمام ہی مسلمان اس کو بدعت تسیلیم کرتے ہیں نیز یہ وہ فعل ہے کہ جسکو نہ رسول مکرم اسلام نے انجام دیا اور نہ اھلبیت اطھار نے نہ ہی معزز صحابہ نے اور نہ ہی محترم خلفاء نے تو اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ مسلمان کس کی اقتداء کر رہے ہیں ؟ اور کس کے نقش قدم پر زندگی گزار رہے ہیں ؟
بہر حال ہمیں امید ہے کہ اس کتابچہ کا مطالعہ کرنے کے بعد منصف مزاج، تشنگان راہ ہدایت،اور حقیقت جو مسلمان راہ حق پر آجائیں گے اور پھر وہی عبادت انجام دیں گےکہ جو محل نزول وحی الھی، معدن رسالت، مخزن نبوت، اھلبیت علیہم السلام کے توسط سے ہم تک پہونچي ہیں اور یہ اتحاد بین المسلیمن کا بھی بہترین ذریعہ قرار پائیگا۔
خداوندکریم کے حضور ملتمس ہوں کہ تمام ہی مسلمانان عالم کی عبادتوں کو جامۂ قبولیت سے نوازے اور حقیر کو بھی خدمت گزاران مؤمنین و شیعیان میں سے قرار دے۔ آمین یا رب العالمین .
سید سبط حیدر زیدی
حوزہ علمیہ مشہدمقدس
——————————————————————————–
[1] لسان العرب، ج5 مادہ روح، ص360
[2] مجمع البحرین، ج1-2 مادہ روح، ص244
[3] مفاتیح الجنان
-[4]تھذیب الاحکام، ج3،ص62،حدیث16، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص462، حدیث9، باب الزیادات فی شھر رمضان ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص29، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث2
-[5] کافی، ج4، ص154، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث1 ۔ وسائل، ج8، ص29، ، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث6 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص63، حدیث18، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص463، حدیث11، باب الزیادات فی شھر رمضان
-[6] کافی، ج4، ص155، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث6 ۔ وسائل، ج8، ص33، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث7 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص65، حدیث 23، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص464، حدیث13، باب الزیادات فی شھر رمضان
[7]- ۔ وسائل، ج8، ص17، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب صلاۃ ماۃ رکعۃ لیلۃ تسع عشر و ماۃ رکعۃ لیلۃ احدی و عشرین منہ و ماۃ رکعۃ لیلۃ ثلاث و عشرین والاکثار فیھا من العبادۃ ۔ الاستبصار، ج1، ص466، حدیث15، باب الزیادات فی شھر رمضان
[8] – وسائل، ج8، ص35، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث12 ۔ کافی، ج4، ص154، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث1 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص66، حدیث 21، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص466، حدیث15، باب الزیادات فی شھر رمضان
[9] – الانتصار، مسئلہ67، کیفیۃ نوافل رمضان
[10] – الخلاف، ج1، ص530، کتاب الصلاۃ مسئلہ 269، کیفیت صلاۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان
[11] – مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، ج2، ص345، کتاب الصلاۃ الباب الثالث فی باقی الصلوات الفصل الخامس فی صلاۃ المندوبۃ المطلب الثالث فی نافلۃ شھر رمضان، مسئلہ241،
[12] – شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، ج1 ص312، کتاب الصلاۃ الرکن الثالث فی بقیۃ الصلوات الفصل الخامس فی الصلوات المرغبات
[13] – مستند الشیعہ، ج6، ص377، کتاب الصلاۃ الباب الرابع فی الصلوات النوافل الغیر الیومیۃ، الثالثۃ الف رکعۃ نافلۃ شھر رمضان زیادۃ علی النوافل المرتبۃ
[14] – عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
[15] – ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج4، ص578، ، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان، حدیث2010
[16] – صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265
[17] – الطبقات الکبری، ج3، ص213
[18] – الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص236، حرف العین باب عمر
-[19] مآثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، ج3، ص337، الباب السابع فی ذکر الاوائل المنسوبۃ الی الخلفاء
[20] – محاضرات الاوائل، ص149
[21] – شرح الزرقانی علی المؤطا الامام مالک، ج1، ص358، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب1(الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان)
[22] – سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401
[23] – البدعۃ، ص133
[24] – سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401
[25] – الاعتصام، ج1، ص98، الباب الثالث فی ان ذم البدع والمحدثات عام
[26]- جامع العلوم والحکم، ص325، حدیث الثامن و العشرون
[27]- ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج4، ص577، ، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان، حدیث2010
[28] – المغنی، ج1، ص798 کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التراویح
[29] – عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
[30] – شرح الزرقانی علی المؤطا، ج1، ص359، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب2(ماجاء فی الصلاۃ فی رمضان)
[31] – صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265
[32] – تھذیب الاحکام، ج3، ص69، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ حدیث29 ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص45، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث1
[33] – صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث267
[34] – عبقات الانوار فی اثبات امامۃ آئمۃ الاطھار (حدیث الثقلین)
[35] – وسائل الشیعہ، ج8، ص47، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث5
[36]- تھذیب الاحکام، ج3، ص69، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ حدیث30 ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص46، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث2
[37] – وسائل الشیعہ، ج8، ص46، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث6
[38] – نیل الاوطار ج3 ص 50
[39] – المصنف ج5 ص 264
[40] ۔ لاتضیعوا السنۃ الفصل الثالث {مصطفی خمیس} و دعوۃ الی سبیل المؤمنین ص 53 {طارق بن زین العابدین} ۔
[41] ۔ دعوۃ الی سبیل المؤمنین ص 73 {طارق بن زین العابدین} ۔
[42] ۔ صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب صلوۃالتراویح باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265
[43]
[44] – عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
[45] ۔ کتاب المستصفی فی علم الاصول ج1 ص260
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید