نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل، درس نمبر 14/ اثر: محمد سجاد شاکری
ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۴
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام : مَنْ ضَیَّعَهُ الاَقْرَبُ أُتِیحَ لَهُ الاَبْعَدُ
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے۔‘‘
حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ ضَیَّعَ: ضائع کرے، کھو دے۔
۲۔ الاَقْرَبُ: قریبی، اپنا۔
۳۔ أُتِیحَ: تیار کیا گیا، آمادہ کیا گیا۔
۴۔ الاَبْعَدُ: دور والا، بیگانہ۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے۔‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
نظام خلقت الہی کی ہر چیز اثر گزار ہوتی ہے۔ اور انسان اسی نظام تکوینی کا ایک عضو کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کا ایک موثر جز ہے۔ چاہے وہ مزدور، کسان، تاجر، سیاستدان، عالم، امام یا کوئی نبی ہو۔ اور نظام خلقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر اثر رکھنے والا مخلوق اپنے دائرہ حیات میں اثر گزار ہو۔ ہر انسان کا موثر ہونے کا دائرہ اس کا گھرانہ، خاندان، شہر اور ملک ہے۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اسے اثر گزاری کا ماحول فراہم ہو، اس کے اطراف کے لوگ اس سے استفادہ اور اثر پذیری کے لئے آمادہ ہوں۔ اگر وہ لوگ اسے تنہا چھوڑ دیں، اسے اثر انداز ہونے کی فرصت نہ دیں تو پھر وہ قوم اس شخص کی اثر گزاری کو مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ ایسے میں صحیح ہے کہ وہ شخص تنہا ہو کر رہ جاتا ہے لیکن اس کا رب اسے تنہا رہنے نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے ایسے لوگ، ایسی قوم اور ایسا ماحول فراہم کرتا ہے کہ جس پر وہ اثر انداز ہوجاتا ہے اور وہ قوم اس سے کماحقہ استفادہ کرتی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام بھی اس کلام میں اسی مطلب کو بیان فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو اس کے قریب والے یعنی گھر، خاندان، محلہ، شہر، ملک اور قوم والے تنہا چھوڑ دے تو اسے نا امید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کا خدا اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ اور اسی طرح ان لوگوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے جنہوں نے اسے تنہا چھوڑا ہے، کہ اس طرح انہوں نے اس شخص کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنا ہی نقصان کیا ہے۔
امام کے مذکورہ کلام کی دو قسم کی تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔
الف) اجتماعی تفسیر
اجتماعی حوالے سے امام کے اس کلام کی دو الگ الگ تفسیریں دو پہلوؤں سے بیان کی گئی ہیں۔
۱۔ دلداری
یعنی مولا علی علیہ السلام اپنے اس کلام کے ذریعے ان لوگوں کو تسلی اور دلداری دینا چاہتے ہیں جنہیں خدا کی راہ میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی اسے کبھی اپنے گھر والے، کبھی خاندان والے، کبھی محلہ والے، کبھی شہر والے، کبھی قوم تو کبھی ملک والے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر انسان واقعاً خدا کے لئے میدان میں نکلا ہے تو اسے نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کرنی چاہئے اور نہ ہی کسی تنہا چھوڑنے والے کی تنہائی سے گھبرانا چاہئے۔ کیونکہ ایسے بندوں کے لئے خدا خود ہی بندوبست کر لیتا ہے اور ایسی اقوام اور لوگ اسے فراہم کرتا ہے جو اس کی اپنی قوم و قبیلہ سے کہیں زیادہ اس پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
مکہ کی پر آشوب فضا میں اللہ کا رسول(ص) اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں تو خاندان میں چچا ہوتے ہوئے ابو لہب جانی دشمن بن جاتا ہے، قوم والے ہوتے ہوئے قریش مخالفت پر اتر آتے ہیں، ہمشہری ہوتے ہوئے مکہ والے جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔ اور بالاخر اللہ کے رسول(ص) کو اپنی جان ہتھیلی پر لئے مکہ سے فرار اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جب سب قریبی اس طرح بے رخی دکھاتے ہیں تو ایسے میں اللہ خود اپنے رسول(ص) کی تنہائی کو دور کرنے کا بندوبست کرتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو ان کا حامی و مددگار بناتا ہے جو نہ آپ کے خاندان کے تھے، نہ مذہب والے، نہ قوم والے، نہ شہر والے اور نہ ہی آئین والے، بلکہ ہر لحاظ سے آپ سے بہت دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے تھے۔ اور جب یہ لوگ آپ کی حمایت کے لئے ایک ہو گئے تو اس طرح سے ایک ہوگئے کہ آپ کی حمایت کے خاطر انہوں (اوس و خزرج) نے اپنی دیرینہ دشمنی کو بھی بھلا کر آپ کی حمایت میں یکجان ہوگئے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام اسی کلام سے ملتا جلتا کلام میں فرماتے ہیں:
’’جس چیز کی امید رکھتے ہو، اس سے زیادہ اس چیز سے امیدوار ہوجاؤ جس کی تمہیں کوئی امید ہی نہیں ہے۔‘‘
حضرت موسی علیہ السلام دور سے روشنی دیکھ کر آگ ملنے کی امید سے گئے تھے کہ واپسی پر ید بیضا، لقب کلیم اللہ اور منصب نبی اللہ کے ساتھ لوٹے۔
۲۔ غیر معمولی صلاحیتوں کا ضیاع
جب بھی کسی معاشرے میں لوگ اپنے باصلاحیت اور کامیاب شخصیات کی قدر نہیں کرتے، ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی بجائے ان شخصیات کی صلاحیتوں کو بھی دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو در واقع اس طرح کی قومیں ایسی شخصیات کے مالک ہونے کی اہلیت کھوچکی ہوتی ہیں۔ اور مکافات عمل کے طور پر ایسی شخصیات بھی اٹھ اٹھ کر وہاں سے چلی جاتی ہیں۔ پچھلے چند دہائیوں کی طرف ایک نگاہ دوڑائیں تو اسلامی ممالک خصوصاً ہمارے اپنے ملک سے باصلاحیت اور استعداد رکھنے والے (talented) افراد کی مغربی سرزمینوں کی طرف ہجرت کی وجہ ضرور واضح ہوجائے گی۔ جب ہم نے ان افراد سے استفادہ نہیں کیا تو دوسری قوموں نے انہیں ہتھیا لیا۔ اور آج وہ ہمارے ہی لوگوں کی صلاحیتوں سے ہم پر حکمرانی کرتی ہیں۔
نکتہ:
در واقع یہ دونوں تفسیریں دو الگ الگ تفسریں نہیں ہیں۔ کیونکہ
پہلی تفسیر: ایسے لوگوں کے لئے دلداری اور تسلی کی طرف اشارہ کرتی ہے جنہیں ان کے قریب اور نزدیک والے ضائع کرتے ہیں۔
دوسری تفسیر: ان لوگوں اور اقوام کی مذمت اور سرزنش ہے جو اپنے باصلاحیت افراد کو ضائع کرتی ہیں اور انہیں ہاتھ سے کھو دیتی ہیں۔
ب) تربیتی تفسیر
بعض حضرات مذکورہ کلام کی تفسیر میں کچھ تربیتی نکات بیان کرتے ہیں۔ وہ کچھ یوں ہیں۔
جب کسی گھر میں ماں باپ اپنے مہر و محبت سے اولاد کو محروم کرتے ہیں اور ان کی احساساتی ضروریات پورے نہیں کرتے تو وہ بچے پھر گھر سے باہر کوچہ و بازار میں ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت ڈھونڈتے ڈھونڈتے نہ جانے کس آنگن میں جا اترتے ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی خود کو شیاطین جن و انس کے جال میں گرفتار پاتے ہیں۔
جو میاں اپنی بیوی کا دل نہ جیت پائے تو وہ عورت پھر گھر سے باہر کسی دوسرے مرد کے دل کا ملکہ بن جاتی ہے۔ اور اسی طرح سے جو بیوی اپنے شوہر کو ہاتھ سے دے بیٹھے تو پھر وہ مرد اپنا دل کسی اجنبی عورت کو دے بیٹھتا ہے۔ پس جب بھی کسی شخص کو اس کے قریب والے چھوڑ دے تو اسے دور والے خود بخود مل جاتے ہیں۔
نکتہ:
اگرچہ ابتدائی نظر میں یہ تفسیر اچھی لگتی ہے لیکن تھوڑی سی دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولا کے کلام سے یہ مراد نہیں ہے۔ کیونکہ مولا اپنے کلام میں ان افراد کو تسلی دے رہے ہیں جو اپنے معاشرے میں تنہا رہ جاتے ہیں لوگ اسے ضائع کر دیتے ہیں۔ تو اسے بہتری کا دلاسہ دے رہے ہیں۔
اب اس تفسیر میں اس بچے کے لئے جسے اس کے ماں باپ نے چھوڑ دیا ہے، شیطان کے جال میں گرفتار ہونے میں کیا بہتری ہے؟
اس بیوی کے لئے کیا بہتری ہے جس نے اپنے شوہر کو چھوڑ کر کسی اجنبی کا دامن تھام لیا ہے؟
اور اسی طرح اس مرد کے لئے اس میں کیا بہتری ہے کہ اپنی شریک زندگی کو چھوڑ کر غیروں کو دل دے بیٹھے؟
البتہ اس تنقید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود یہ مطلب اچھا نہیں، بلکہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن مولا کے کلام کا مقصود اسی کو سمجھ لینا ذرا مشکل ہے۔
دیدگاهتان را بنویسید