تازہ ترین

نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل(درس نمبر 19)/ اثر: محمد سجاد شاکری

ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۹
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: مَنْ جَرَى فِي عِنَان أَمَلِهِ عَثَرَ بِأَجَلِهِ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جو شخص آرزو کے پچھے دوڑ پڑے وہ موت سے ہی ٹھوکر کھاتا ہے‘‘
حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ جَرَى: تیز دوڑا (عربی زبان میں یہ کلمہ اور اس کے مشتقات اصل میں گھوڑے کے تیز دوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اپنے آپ کو حد سے زیادہ آرزوؤں کے پیچھے لگانے کے معنی میں استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔)
۲۔ عِنَان: لگام۔
۳۔ أَمَلِ: آرزو۔
لفظ ’’امل‘‘ کے معنی سے قریب دو اور کلمات زبان عربی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جسے عموما لوگ ایک دوسرے کے ہم معنی سمجھتے ہیں وہ ہیں: ’’رجاء‘‘ اور ’’تمنّی‘‘ لیکن عربی لغات کی طرف بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ خاص قسم کے فرق پائے جاتے ہیں۔ خصوصا امل اور رجاء کے درمیان کہ جسے اکثر لوگ مترادف سمجھتے ہیں۔ ذیل میں اہل لغت کی تشریح ذکر کرتے ہیں۔

شئیر
53 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5088

الامل: یعنی آسانی، بلاؤں کی دوری اور مشکلات کے رفع ہونے کا انتظار کرنا۔ اور بہترین حالت کے حصول کی توقع رکھنا۔ اور عموما یہ کلمہ اس چیز کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جس کا حصول بعید ہو۔ اردو زبان میں اس معنی کے قریب ترین لفظ ’’آرزو‘‘ ہے۔
الرجاء: یعنی مصیبت اور مشکل کے ختم کرنے کے لئے کسی چیز سے متوسل ہونا اور خیر و نیکی کے بارے میں سوچتے رہنے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے حصول کے لئے کوشش کرنا اور خدا پر بھروسہ رکھنے کو رجاء کہتے ہیں۔ اردو زبان میں ’’امید‘‘ کا لفظ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
التمني: یعنی کسی چیز کے حصول کی خواہش رکھنا لیکن بغیر کسی سعی و کوشش کے۔ اردو زبان میں اس لفظ کا متبادل ’’تمنا‘‘ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ (معجم المعانی)
پس ’’الامل‘‘ اور ’’التمنی‘‘ دونوں میں غالبا منفی معنی پایا جاتا ہے اگرچہ ممکن ہے بعض جگہوں پر مثبت معنی میں استعمال ہوئے ہوں۔ جیسا کہ اس کی مثال آگے آئے گی۔
اور ’’الرجاء‘‘ غالبا مثبت معنی میں استعمال ہوتا ہے اگرچہ ممکن ہے بعض اوقات منفی معنی میں استعمال ہوا ہو۔
۴۔ عَثَرَ: گرا، گھوڑے سے گرا، پھسل کے گرا۔
۵۔ أَجَلِ: موت، ہلاکت۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جو شخص آرزو کے پچھے دوڑ پڑے وہ موت سے ہی ٹھوکر کھاتا ہے‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
جیسا کہ الفاظ کی شرح میں یہ بات واضح کر لیا کہ عربی زبان کے ظاہراً مترادف اور ہم معنی نظر آنے والے تین کلمات (امل، رجاء اور تمنی) در واقع معنی اور محل استعمال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں۔ لیکن عوام الناس ان تین کلمات کو ایک ہی معنی کے حامل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اردو میں بھی آرزو، امید، توقع، آس، تمنا، ارمان اور اشتیاق جیسے الفاظ کو ملے جلے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن در واقع ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان کے درمیان کچھ خاص قسم کے فرق پائے جاتے ہیں جسے لغت کی بنیادی کتابوں میں پا سکتے ہیں۔ اس مختصر مقدمے کے بعد ہم اپنے اصل مطلب کی طرف جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ
مولا امیر المومنین علیہ السلام نے اس کلام میں یہ بیان فرمایا کہ جو شخص بھی آرزوؤں کے ہاتھ میں اپنا پورا اختیار دے دے تو یقینا یہ آرزوئیں اسے ہلاکت کے دہانے تک پہونچا دیں گی۔
سوال:
کیا آرزو کرنا، امید رکھنا مطلقا بری چیز ہے؟ اگر یہ مطلقا بری چیز ہے تو پھر انسان کوئی بھی کام نہیں کرسکتا کیونکہ انسان کا ہر کام کسی نہ کسی نتیجے کی امید اور آرزو سے وابستہ ہوتا ہے۔ پس آرزو اور امید کو حذف کر دیا جائے تو پھر انسان کے لئے کسی عمل اور کام کا شوق ہی برقرار نہیں رہتا۔ نتیجے میں دنیا میں حرج و مرج لازم آتا ہے۔
جواب:
یہاں مولا کے کلام میں ’’امل‘‘ سے مراد منفی آرزو اور منفی امید ہے یعنی فقط کسی چیز کی آس لگائے بیٹھے رہنا اور اس کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کی حرکت اور کوشش سے پرہیز کرنا ہے۔ پس ایسی آرزو ہمیشہ مذموم ہے۔ ورنہ خود مطلق آرزو کوئی مذموم شئی نہیں ہے۔ کیونکہ آرزو اور امید کے بغیر انسانی زندگی کا چلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسان کاشت کرتا ہے فصل کے حصول کی امید سے، مزدور مزدوری کرتا ہے حصول رزق کی امید سے اور حتی ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو بھی کسی امید سے ہی پلاتی ہے۔ اگر یہ امید ہی نہ ہو تو شاید کوئی انسان کوئی فعل انجام ہی نہ دے۔ لہذا رسول اکرم(ص) کی حدیث ہے کہ ’’الاْمَلُ رَحْمَةٌ لاِمَّتِي وَلَوْ لاَ الاْمَلُ مَا رَضَعَتْ وَالِدَةٌ وَلَدَهَا وَلاَ غَرَسَ غَارِسٌ شَجَراً‘‘، ’’آرزو میری امت کے لئے رحمت ہے۔ اگر آرزو نہ ہو تو نہ کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے اور نہ ہی کوئی کسان درخت لگائے۔‘‘
کیونکہ یہی آرزو اور امید ہے کہ انسان کو بلند اہداف اور مقاصد کی طرف حرکت کرنے اور اس کے لئے سعی و کوشش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
منفی آرزو
لیکن یہی آرزو اگر نا معقول اور منفی ہو تو انسان کو ایسے اہداف کے پیچھے مشغول کر دیتی ہے کہ جن کا حصول نا ممکن ہے اور اسے ہر چیز حتی اپنی موت سے بھی غافل بنا دیتی ہے۔ اور غفلت دنیا اور آخرت دونوں میں انسان کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ اسی لئے مولا نے آرزو کو سرکش گوڑے سے تشبیہ دیا ہے کہ جس کا لگام اگر سوار کے اپنے ہاتھ میں نہ ہو تو پھر وہ سواری اسے کبھی بھی کسی بھی جگہ پر منہ کے بل گرا سکتی ہے۔
لمبی آرزوؤں کے اثرات
لمبی آرزوں کے برے اثرات کے بارے میں روایات اور احادیث میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے جن کے اولین آثار میں سے ایک انسان کا سست ہوجانا ہے کہ انسان جب لمبی اور ناممکن آرزوؤں کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر وہ حرکت اور سعی و کوشش سے دور ہوجاتا ہے اور فقط خیالی پلاؤ میں مصروف رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ انسان اپنی دنیوی زندگی کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی آخرت کا بندوبست کر پاتا ہے۔ بلکہ وہ اصلا مرنے کو ہی بھلا دیتا ہے کہ مرنے کے بعد کی فکر دور کی بات۔ لہذا امیر المومنین ایک او جگہ فرماتے ہیں:
’’اَلأَمَلُ يُفْسِدُ الْعَمَلَ وَيَفْنِي الاْجَلَ‘‘ ، ’’آرزو عمل کو خراب اور موت کو بھلا دیتی ہے۔‘‘
وہ انسان کیوں موت کو بھول نہ جائے اور سستی و کاہلی کا شکار نہ ہوجائے جس پر شیطان نے غلبہ پایا ہے یعنی در واقع لمبی آرزو دل میں بسانے والا خود کو شیطان کی زیر سلطنت قرار دیتا ہے اور اس پر شیطان کی حکومت اور سلطنت قائم ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ مولا ہی نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے:
’’اَلأَمَلُ سُلْطانُ الشَّياطينِ عَلَى قُلُوبِ الْغافِلينَ‘‘ ، ’’لمبی آرزو غافلوں کے دلوں پر شیطانوں کی سلطنت کا باعث ہے‘‘
لمبی آرزو کے پیچھے دوڑنے والا اپنے خیال خام میں تو بہت ہی خوشحال زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور ایک کامیاب مستقبل کا انتظار کر رہا ہوتا ہے لیکن در واقع وہ اس کامیاب مستقبل کی امید دل میں بسائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو اس تک نہیں پہنچتا بلکہ یہ اس طرح اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ جو وہ اپنے خیال میں دیکھ رہا ہے تو وہ حقیقت میں ایک سراب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ فقط آنکھوں کا دھوکا ہے۔ جیسے کہ خود مولا نے ایک اور حدیث میں اس مطلب کو بیان فرمایا ہے:
’’اَلأَمَلُ کَالسَّرابِ يُغِرُّ مَنْ رَآهُ وَيَخْلِفُ مَنْ رَجاهُ‘‘ ، ’’لمبی آرزو سراب کے مانند ہے، دیکھنے والے کو دھوکہ دیتی ہے اور امید رکھنے والے کو ناامید بنا دیتی ہے‘‘

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *