وقتِ بیداری
اب وہ وقت آ گیا ہے کہ یا تو مسلمانانِ پاکستان بھی عرب اسلامی انقلابی تحریکوں کی طرح کی تحریک چلا کر خود کو ان خودغرض اور بےحس حکمرانوں سے نجات دلائیں
اور اسکے ساتھ ساتھ ان تمام مسائل کے حقیقی حل کے لئے ایک ایسے حلاّلِ مشکلات اور منجی کے آنے کی خلوصِ دل سے دعا کی جائے کہ جسکے آنے پر دنیا کے تقریبا تمام مذاہب اپنے اپنے انداز اور تعلیمات کے مطابق یقین رکھتے ہیں، لیکن دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی ضرورری ہے اور وہ دوا مسلمانوں میں اسلامی بیداری کا پیدا ہونا ہے۔ اگر اس سوہنی دھرتی کو بچانا ہے تو قدم آگے بڑھاو۔
23 مارچ کا دن پاکستانی قوم کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن کو تاریخ میں سنہرے حروف سے رقم کیا گیا، یہی وہ دن ہے جب قائد اعظم رہ کی صدارت میں منٹو پارک لاہور میں مسلم لیگ کے عظیم الشان اجتماع میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی اور دو قومی نظریئے پر قیام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اور اسکے بعد سات سال کی جہدِ مسلسل کے ذریعے پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا گیا، لیکن آج جب ہم سوہنی دھرتی کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسکا خواب شاعر مشرق علامہ اقبال رہ نے دیکھا تھا اور جسکو قائد ملّت محمد علی جناح رہ نے تعبیر دی، اور جسکے لئے عوام نے لازوال قربانیاں دیں، جن کے سروں پر اسوقت صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح ایک مسلمان ملک بن جائے جس میں وہ آزادی سے اسلامی اصولوں کے تحت زندگی گزار سکیں۔ اس ملک کی علیحدہ بنیاد بھی اس لئے رکھی گئی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، انکا دین جدا ہے، انکا رہن سہن، رسم و رواج، زندگی گزارنے کے طور طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لہذا ان کے لئے ایک الگ ملک ہو جہاں یہ آزادانہ زندگی بسر کر سکیں، ان کے لئے ایسی سرزمین ہو جو ان کی اقدار کی آئینہ دار ہو، جسپر ہندو ازم کی تعصباتی مہر نہ ہو، جہاں کوئی طاقت ان کے حقوق پائمال نہ کر سکے، جہاں انہیں تشخص مل سکے اور یہ سر بلند کر کے چل سکیں۔ یہ خواب شرمندہ تعبیر تو ہوا لیکن اسکی روح مر گئی، جن مقاصد کو مّدنظر رکھ کر اس کو حاصل کیا گیا تھا وہ فوت ہو گئے۔
اسلامی اقدار کی سربلندی کی بجائے سرنگونی ہوتی گئی اور مسلمانوں کی مشکلات حل ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئیں، ایک طرف سیاسی مسائل ہیں تو دوسری طرف فرقہ واریت کے فروغ کی وجہ سے آج وہ وقت آ گیا ہے کہ جو بھی صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے وہ اس طرح سے خداحافظی کر کے جاتا ہے گویا یہ کہہ رہا ہو “دوبارہ ملیں گے گر زندگی رہی تو” شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ یہ کونسی بڑی بات ہے یہ تو ویسے بھی ہر انسان کو کہنا چاہیئے کیونکہ سانس کی اس ڈور کا کچھ پتہ نہیں کب ٹوٹ جائے، یہ ٹھیک کہ موت برحق ہے، “کلُ نفس ذائقۃ الموت” لیکن خدا نے انسان کو جو زندگی عطا کی ہے وہ بہت قیمتی ہے اور جو مقام اسکو دیا وہ اس سے بھی زیادہ باارزش ہے۔
خدا نے انسان کو خلق کرنے کے بعد خود کو اس عظیم خلقت کی مبارکباد دی اور اس کو علم عطا کرنے کے بعد اسے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا” انّی جاعل فی الارض خلیفتہ” اور یہاں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ فرشتوں کو اسکو سجدے کا حکم دے دیا” واِذ قُلنا لِلملائکتِہ اسجدوا لآدم فَسجَدوا” اور جب پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا”۔ کیا مقامِ والا خدا نے اس انسان کو دیا کہ اگر یہ انسان اس کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو معراج کو پا لے اور اسکے برخلاف چلے تو اسکی مثال” اولٰئک کَالانعام بَل ھُم اًضَل” کی ہو جاتی ہے کہ چارپایان جیسا بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔
آج کے انسانوں میں سے بھی کچھ اسی مقام پر آ پہنچے ہیں کہ بَل ھُم اَضل کی مثال ہیں۔ بظاہر اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، لیکن اسلام کے لبادے میں دینِ اسلام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، وہ اسلام جس نے انسانی زندگی کو مقدم قرار دیا، حتیٰ خود انسان کو حق نہیں دیا کہ وہ اپنی زندگی کو کوئی نقصان پہنچائے کہاں یہ کہ دوسرے صرف اور صرف اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے اس کی زندگی کے چراغ کو گل کر دیں، کیا اسلام کی تعلیمات یہی ہیں؟ اسلام نے تو غیر مسلم کی جان کو بھی اتنا ہی محترم جانا ہے جتنا ایک مسلم کی جان کو۔ پس یہ کونسا اسلام ہے جو ان کو یہ حکم دے رہا ہے کہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دو۔
گوکہ اسلام دشمنی ہر دور کا خاصہ رہی ہے لیکن خود کو مسلمان برحق سمجھتے ہوئے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر قرار دینا اور کفر کے فتوے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اس کی جان تک لینا، صرف اس لئے کہ اس کے نظریات میں فرق ہے، یہ کونسا اسلام ہے؟ اسلام میں تو اکراہ ہے ہی نہیں۔ اسلام سراسر دینِ لطف و رحمت ہے۔ اگر کسی کو اپنے نظریات کی طرف مائل کرنا ہو تو اسلحے کے زور کی بجائے مدلل اور شایستہ طریقے سے کرنا چاہیے۔، لیکن انکی روش کو دیکھ کر انسان یہ سوچتا ہے کہ پہلے زمانے میں زیادہ لوگ شاید جاہلیت کی بنا پر ایسا کرتے تھے، لیکن آج جب دنیا نے اتنی ترقی کر لی اور انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا اسکے باوجود ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا آج بھی کچھ انسان وہیں کھڑے ہیں۔ اگر اس سارے معاملے کی بررسی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات صرف جاہلیت کی نہیں، اسکے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات کی ہے، جس فرقے کے نظریات کے وہ معتقد ہیں اسکے مفادات کی ہے، سیاسی، مذہبی اھداف بھی ان کے مدنظر ہیں، جب مفادات کی اتنی ساری پٹیاں جمع ہو جائیں اور انسان ان کو اوپر تلے اپنی آنکھوں پر باندھ لے تو پھر اسکو کچھ نظر نہیں آتا سوائے اپنے مفاد و اھداف کے۔ جو سب ہم نے یہاں بیان کیا، آج کے “طالبان” اسکی تفسیر ہیں۔
انسان کی جو کٹیگریز خدا نے قرآن میں بیان کی ہیں ان کے اعمال کو دیکھ کر ہر ذی شعور اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ کس کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں، یہ نام نہاد مجاہدین کہ جن میں سے اکثر کو شاید جہاد کا صحیح معنا بھی معلوم نہ ہو، وہ بھلا جہاد کی روح کو کیا سمجھیں گے۔ بےگناہ مسلمانوں کی کشت و کشتار کا نام انہوں نے جہاد رکھ لیا ہے، شلوار ٹخنوں سے اوپر باندھ لینے، لمبی داڑھی رکھ لینے سے نہتے اور بےگناہ مسلماوں پر اندھا دھند فائرنگ کر لینے سے انسان مجاہد نہیں بن جاتا، پہلے انسان بننا ضروری ہے پھر مجاہد کہ جسکا درجہ خدا کے نزدیک بہت ارفع ہے البتہ اگر مجاہدِ واقعی ہے تو۔
ایک طرف ان نام نہاد مجاہدین نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف امریکہ کی تلوار ہر وقت پاکستان کے سر پر لٹکی رہتی ہے، کبھی ڈرون حملے شروع ہو جاتے ہیں اور کبھی نیٹو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، جسکے ردعمل میں بظاہر پاکستان نے زمینی راستے سے نیٹو سپلائی کو روک دیا اور امریکی امداد لینے سے انکار کر دیا، بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا، امریکہ سے شمسی ائیر بیس بھی خالی کروا لیا اور امریکہ کو کسی بھی جارحیت کی صورت میں منہ توڑ جواب دینے کا پیغام دیا گیا، جس کے نتیجے میں عوام میں ایک احساسِ غرور نے جنم لیا اور وہ سوچنے لگے کہ ابھی ہمارے لیڈروں میں کچھ غیرت و حمیت باقی ہے لیکن کچھ دن کے بعد وزیرِ دفاع کے اس اعتراف نے کہ فضائی راستے سے نیٹو سپلائی جاری و ساری ہے، سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اسوقت پاکستانی عوام جن مشکلات میں گھری ہوئی ہے، اس سے نجات کے لئے انھیں خود اپنی مدد آپ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے میدانِ عمل میں اترنا ہو گا۔ کیا اسکا حل اپنے لئے ایک ایسی قیادت کا انتخاب کرنا ہے جو ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہو لیکن یہاں بھی ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پھر وہی پرانے چہرے سامنے آ رہے ہیں ماسوائے عمران خان کے، کہ جن کی پالیسی ہی واضح نہیں۔ انکے متضاد قسم کے بیانات سے کچھ پتا نہیں چلتا کہ انکی گنگا کس سمت میں بہے گی الٹی بہے گی یا سیدھی۔ بظاہر پاکستان کو “اسلامی جمہوری” مملکت بنانے کے نعرے لگانے والے عمران خان کے ہر جلسے کا آغاز میوزک کنسرٹ سے ہو رہا ہے۔
اب وہ وقت آ گیا ہے کہ یا تو مسلمانانِ پاکستان بھی عرب اسلامی انقلابی تحریکوں کی طرح کی تحریک چلا کر خود کو ان خودغرض اور بےحس حکمرانوں سے نجات دلائیں اور اسکے ساتھ ساتھ ان تمام مسائل کے حقیقی حل کے لئے ایک ایسے حلاّلِ مشکلات اور منجی کے آنے کی خلوصِ دل سے دعا کی جائے کہ جسکے آنے پر دنیا کے تقریبا تمام مذاہب اپنے اپنے انداز اور تعلیمات کے مطابق یقین رکھتے ہیں، لیکن دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی ضرورری ہے اور وہ دوا مسلمانوں میں اسلامی بیداری کا پیدا ہونا ہے۔ اگر اس سوہنی دھرتی کو بچانا ہے تو قدم آگے بڑھاو۔
تحریر:ایم صادقی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید