ولایت ہی امتِ مسلمہ و ملتِ تشیع کے لئے نکتۂ اتحاد ہے
تحریک بیداری ویب سائٹ کے مطابق حوزہ علمیہ عروۃ الوثقیٰ کے چوتھے یومِ تأسیس اور ولادتِ باسعادتِ مولی الموحّدین، امام المتقین، حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے موقع پر حوزہ علمیہ جامعۃ العروۃ الوثقیٰ میں ایک عظیم الشان تقریب کے دوران حجۃ الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حبل اللہ و عروۃ الوثقیٰ جس کا قرآن مجید نے امت کو وعدہ دیا ہے اور رسول اللہ (ص) نے اس کا مصداق ذکر فرمایا ہے وہ ولایتِ امیرالمومنین (ع) ہے اور یہ ولایت ہی امتِ مسلمہ و ملتِ تشیع کے لئے نکتۂ اتحاد ہے ۔
انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کا فرمانا ہے کہ میں امت کی بقاء و حفاظت کے لئے دو مضبوط سہارے چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتابِ خدا قرآن کریم ہے اور دوسرا اہلبیت علیہم السلام ہیں اور اہلبیت علیہم السلام میں بھی ابوالائمہ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جن کو رسول اللہ (ص) نے امت کی نجات کی کشتی قرار دیا اور ولایت علیؑ سے تمسک کا حکم دیا ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے مزید فرمایا کہ آج ملتِ باایمان کا اجتماع بنامِ ولایت و روزِ جشنِ ولایت یہ اس بات کی علامت و پیغام ہے کہ نظامِ ولایت کشتیِ نجات امت ہے۔ انہی دنوں میں پاکستان کے اندر بڑے بڑے اجتماعات مختلف مقاصد کیلئے مختلف گروہوں کی جانب سے برپا ہیں ۔جیسے سیاسی اجتماعات ہیں، اقتدار کے نام پر ، مخالفت کے نام پر، انتخابات کے خلاف اجتماعات ہیں لیکن ان سارے اجتماعات سے ہٹ کر آج یہ اجتماع جس مناسبت و جس محور میں برپا ہوا ہے اس محور نے اِس اجتماع کو ایک خاص عنوان عطا کیا ہے جو اِسے اُن تمام دیگر اجتماعات سے ممتاز و منفرد کر دیتا ہے۔ اس وقت پاکستان سرزمینِ آشوب و سرزمینِ فتنہ بنا ہوا ہے جو بنامِ دین و بنامِ لا الٰہ الا اللہ حاصل کیا گیا تھا ۔
فرزندِ انقلاب نے مزید کہا کہ قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پہ ایمان لایا اُس کے ہاتھ میں عروۃ الوثقیٰ یعنی مضبوط سہارا آگیا ، وہ قوم کبھی نہیں پھسلے گی ، اُس میں کبھی لغزش نہیں آئیگی اور وہ کبھی ہلاک و نابود نہیں ہوگی جس کے ہاتھ میں عروۃ الوثقیٰ آگیا۔ رسول اللہ (ص) بھی فرماتے ہیں کہ میری امت کو بعد میں آنے والے فتنوں سے عروۃ الوثقیٰ بچائے گا ، اصحابؓ نے سوال کیا :یا رسول اللہ!عروۃ الوثقیٰ کیا ہے جو فتنوں سے لوگوں کو نجات دیگا ؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایاکہ’’ولایتُ سیّد الوصیّین‘‘ سیدالوصین، سردارِ اوصیاء اور سالارِ اوصیاء کی ولایت عروۃ الوثقیٰ ہے ۔ سننے والوں نے پوچھا : یا رسول اللہ (ص)!سرور و سردارِ و سالارِ اوصیاء کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ امیر المومنین ‘‘ سالارِ اوصیاء و سرورِ اوصیاء و سید و سردارِ اوصیاء امیر ہیں ۔ پھر انھوں پوچھا یا رسول اللہ (ص) آپؐ کے بعد امیرالمومنین کون ہیں جو سردار و سرورِ اوصیاء بھی ہیں؟ ’’قال مولی المسلمین و امامھم بعدی ‘‘ جو مسلمانوں کا مولا ہے اور جو مسلمانوں کا صاحبِ اختیار ہے اور میرے بعد میری امت کا امام ہیں، وہ امیرالمومنینؑ اور وہ سیدالوصیین ؑ ہیں‘‘ پھر لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ (ص) وہ کون ہیں جو آپؐ کے بعد آپؐ کی امت کا امام و مسلمانوں کا مولاؑ ہے؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا’’ اخی علی ابن ابی طالبؑ ‘‘ وہ سید الاوصیاء، وہ سید و سردارِ اوصیاء ، و امامِ مسلمین ، وہ مولی المومنین ، وہ امیرالمومنین اور وہ عروۃ الوثقیٰ وہ فتنوں کے زمانے میں نجات کا ذریعہ میرا بھائی علی ابن ابی طالب ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین تلوار، خنجر، بم، دھماکہ، گولی اور بندوق کا محتاج نہیں ہے بلکہ دین کا سہارا حق اور حقانیت ہے، دین کی بنیاد حق و حقانیت ہے۔ ’’قدتبیّن الرّشد من الغیّ‘‘ حق اور باطل الگ ہوگئے ہیں ، دین میں جبر و اکراہ نہیں ہے ۔ دین میں حق و باطل روشن ہوجانے کے بعد جس نے طاغوت کا انکار کیا، جس نے طاغوت کو ’’لا‘‘ کہہ دیا اور اللہ پر ایمان لایا ، اُس نے عروۃ الوثقیٰ تھام لیا۔
جواد نقوی صاحب نے مزید کہا کہ جب مومن کا ایمان آلودہ ہوجائے تو ایمان کی کمی ہوجاتی ہے اور مومن کے ایمان میں اُس وقت شرک آ جاتا ہے جب وہ ولایت سے دور ہوجاتا ہے، جس طرح قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ ’’ اللہُ ولی الّذین آمنو یخرجھم من الظّلماتِ الی النّور‘‘ اللہ مومنوں کا ولی ہے اور جب لوگ اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتے ہیں تو ظلمت سے نکل کر نور میں آجاتے ہیں ۔ ’’ والّذین کفرو اولیاءھم الطّاغوت ‘‘ لیکن کافروں کا ولی طاغوت ہے ، جو بھی طاغوت کو اپنا ولی بنائے گا وہ زبان پر جو کچھ بھی کہتا رہے لیکن قرآن اُس کو کافر کہتا ہے ۔ جو کافر ہیں اُن کا ولی طاغوت ہے اور جن کا ولی طاغوت ہے اُن کو قرآن کافر کہہ رہا ہے کہ یہ ہرگز ایمان کی لذات نہیں چکھ سکیں گے، اگرچہ بظاہر اپنے آپ کو مومن سمجھتے رہیں چونکہ دنیا ولایت کے بغیر عملِ صالح سے خالی ہے ۔
عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ دنیا ولایت کے بغیر اقدار سے خالی ہوجاتی ہے، دنیا ولایت کے بغیر اعتماد سے بھی خالی ہوجاتی ہے ،ولایت کے بغیر مومن کو مومن پہ اعتماد نہیں رہے گا، عوام کو علماء پہ اعتماد نہیں رہے گا، علماء کا علماء پر اعتماد نہیں رہے گا، بیوی کا شوہر پر اعتماد نہیں رہے گا، شوہر کا زوجہ پر اعتماد نہیں رہے گا، بھائی کو بھائی پر اور مسلمان کو مسلمان پر اعتماد نہیں رہے گا ۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ ایمان کا ستون و سہارا یقین ہے اور اگر دنیا میں ولایت نہیں ہوگی تو لوگوں کے دلوں سے یقین کو چھین لیا جائے گا جس کی جگہ پر شک و شبہے اور وسوسے آجائیں گے۔ ولایت کے بغیر امت کے ذہنوں کے اندر تردید، تردد اور تذبذب حکم فرما ہوجائے گا۔ آج بھی آپ غور کریں تو ولایت نہ ہونے کی وجہ سے ہر کسی کے دل یقین سے خالی ہیں اور شبہات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ولایت سے اگر تمسک نہ ہو اور نظامِ ولایت برپا نہ ہوا تو تمہیں امن کے بغیر جینا پڑیگا۔ پس اگر ظلم کی چکی سے باہر آنا چاہتے ہو تو اُس کا طریقہ یہ نہیں کہ انصاف کے نام پر پارٹیاں بنانا شروع کردو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کا جو میزان مقرر کیا ہے ، جس کا نام ولایت ہے اور جس کے علمدار کا نام علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے، اس ولایت کے محور کو تھام لوخدا تمہیں نظامِ عدالت و انصاف عطا فرمائے گا۔
علامہ جواد نقوی نے مزید کہا کہ علامہ اقبالؒ بھی اپنی قوم سے یہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں خدا سے نا امیدی ہے اور بتوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہو۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
کافری اسی کا نام ہے کہ اللہ سے امید ختم کر کے طاغوت سے امیدیں باندھنا۔ یعنی جب مسلمان عدالت و ولایت کے نظام کو چھوڑ کر عدالت کی امید برطانوی قانون سے رکھیں گے تو ساری عمر یہ مسلمان اسی طرح سے ہی پستے رہیں گے۔ پس ولایت ہی مسلمانوں کی نجات کا آخری راستہ ہے۔ چونکہ اگر ولایت نہ ہو تو عزت و وقار اٹھ جائے گا، مومن کا شرف اٹھ جائے گا اور کرامت لٹ جائے گی۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید