پاکستان نے امریکی سفارتکاروں پر جوابی پابندیاں لگا دیں
بی بی سی کے مطابق پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکہ میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے امریکی اقدام کے جواب میں پاکستان میں امریکی سفارتکاروں پر بھی ویسی ہی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
بی بی سی کے پاس موجود وزارتِ خارجہ کے ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے امریکی سفارتکاروں کے پاکستان میں مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات سے نمٹنے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کیں جن میں ایسی شکایات سےنمٹنے کے لیے نیا نظام تشکیل دینا بھی شامل ہے۔
دس مئی کو تحریر کی گئی اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کر رہا ہے سو 11 مئی سے امریکی سفارتکاروں پر بھی ایسی ہی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
گذشتہ ماہ امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت ‘جوابی طور پر محدود’ کر دی جائے گی اور وہ اپنے تعینات کردہ مقام سے 40 کلو میٹر کی حدود میں رہیں گے۔ یہ پابندیاں جمعے سے نافذالعمل ہو گئی ہیں۔
اس حوالے سے امریکی نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سفارت کاری میں اس طرح کے اقدامات ‘معمول کی بات’ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو اپنے مقام سے دور سفر کرنے سے قبل پاکستان کی حکومت کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ایک ترجمان نے بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کو اس موقعے پر بتایا تھا کہ ‘پاکستان میں امریکی سفارتکاروں اور شہریوں کو طویل عرصے سے نقل و حرکت پر پابندیوں کا سامنا ہے’۔
سات اپریل کو امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی جوزف امانوئل نے اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی طالب علم کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی
پاکستانی محکمہ خارجہ نے امریکی سفارتی عملے کے لیے جن نئے پروٹوکولز کا اعلان کیا ہے ان میں امریکی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر ویسی ہی پابندیاں لگانا جیسی امریکہ میں پاکستانی سفارتکاروں پر لگائی گئی ہیں کے علاوہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 27 پر سختی سے عملدرآمد بھی شامل ہے جس میں سفارتی سامان کے حوالے سے قوانین وضع ہیں۔ ان قوانین میں سفارتی سامان کا معائنہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ غیرملکی سفارت کاروں کے پاکستانی حکام سے میل جول کے حوالے سے بھی ان قوانین پر بھی سختی سے عملدرآمد کرے گا جن کے بارے میں امریکی حکام کو 27 اپریل کو آگاہ کیا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکام نے امریکی سفارتکاروں کو دی جانے والی کچھ سہولتیں بھی واپس لینے کا اعلان کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹNOT SPECIFIED
امریکی سفارتکاروں سے واپس لی جانے والی سہولتیں
ویزے کی مدت سے زیادہ قیام یا ایک سے زیادہ پاسپورٹس رکھنے کی اجازت۔
امریکی سفارتکار سفارتی کاروں پر عام نمبر پلیٹس یا کرائے کی گاڑیوں پر سفارتی نمبر پلیٹیں نہیں لگا سکیں گے۔
سفارتی گاڑیوں یا کرائے کی گاڑیوں کے شیشے دھندلے کروانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
سفارتکار مکانات پر ریڈیو مواصلاتی نظام نصب نہیں کر سکیں گے۔
غیر تصدیق شدہ سم کارڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی
بغیر اجازت نامے کے مکانات تبدیل کرنے یا کرائے پر لینے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔
خیال رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں موجود امریکی سفارتکاروں کو پہلے ہی قبائلی علاقوں، بلوچستان یا کراچی میں جانے کی اجازت نہیں ہے، تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ سب پابندیاں نہیں ہیں بلکہ امریکی سفارتکاروں کو تحفظ دینے کے لیے سکیورٹی اقدامات ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات افغان جنگ اور پاکستان پر عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دینے کے الزام کے بعد کشیدہ ہیں۔
اس سے پہلے سات اپریل کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی جوزف امانوئل نے اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی طالب علم کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ طالب علم ہلاک اور اس کا ساتھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔
پاکستانی حکام نے واقعے پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔
ادھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چودھری نے امریکہ میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان مل کر کام کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر سطح پر تعاون میں تسلسل کی ضرورت ہے۔’
بشکریہ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44081793
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید