پاکستان کی معروف مذہبی اسکالر خانم سیدہ طیبہ کا تعارف
پاکستان کی معروف مذہبی اسکالر خانم سیدہ طیبہ بخاری 15 اگست 1974 کو وطن عزیز کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد (پیپلز کالونی) میں سید فقیر حسین بخاری مرحوم کے گھر پیدا ہوئیں۔
اپنے والد اور والدہ فاطمہ سبز واری کی اس لاڈلی بیٹی کی ابتدائی تعلیم کا آغاز تو پیپلز کالونی کے ایک سرکاری مدرسے سے ہوا مگرجب وہ صرف دس سال سے بھی کم عمر تھیں تو والدین نے 1984 میں اسے بہتر تعلیم کے لیے ایران کے شہر قم روانہ کر دیا۔ وہاں جا کر اس ہونہار بچی نے مکتب زینب سے میٹرک اور ایف اے کا امتحان اور دینی نصاب کے تحت ’’سلطان الا احفاضل‘‘ کے درجہ تک تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد جامعہ الزہرہ قم سے سال 2001 تک عربی، فارسی، اسلامیات، اصول، فقہ، تفسیر، فلسفہ اور تاریخ کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اردو، عربی، فارسی، انگریزی، پنجابی اور سرائیکی زبانوں پر عبور رکھنے والی اس ’’ماڈریٹ ریلجیئس اسکالر‘‘ کے شب و روز اپنے حاضرین، سامعین اور ناظرین کے لیے وقف رہتے ہیں اور اس امر کے لیے وہ اکثر اندرون اور بیرون ملک سفر میں رہتی ہیں۔
خطیب کی حیثیت سے وہ اب تک 14 مختلف ممالک کے 49 سے زیادہ شہروں میں لیکچر دے چکی ہیں۔ مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ وہ آئندہ ایک سال تک فارغ نہیں۔ اس صورت حال سے شاکی بھی ہیں کہ انہیں اپنے لیے وقت نہیں ملتا۔ خانم کے بہ قول ’’شہرت کی قیمت بہ ہرحال چکانا ہی پڑتی ہے‘‘ مگر اس کے باوجود خانم اپنی بے پناہ مصروفیت میں سے حاجت مندوں کے لیے وقت بھی نکال ہی لیتی ہیں اور ایسے لوگوں کو خوراک اور چھت کی فراہمی کے علاوہ ان کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ان کا ادارہ ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اس ادارے کا سلوگن ہے ’’مخلوقِ خدا کی خدمت میں ہی ابدی سکون ہے‘‘۔
خانم سیدہ طیبہ بخاری کو قرآن مجید فرقان حمید، نہج البلاغہ، صحیفۂ کاملہ، اسلامی قوانین، احادیث اور اسلامی تاریخ کے موضوعات پر عبور حاصل ہے علاوہ ازیں وہ جن خصوصی موضوعات پر دس دس لیکچرز کی ساٹھ سے نوے منٹ دورانیے پر مبنی سیریز ریکارڈ کروا چکی ہیں، ان میں دعا، سجدہ، استقامت، صبر، فلسفہ نماز، ا خلاقیات، خواتین کے حقوق، عفو و درگزر، تربیت اولاد، فلسفۂ حج، فلسفۂ صوم، سفینۂ نجات، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، تقویٰ، تزکیہ نفس، علم و ایمان، جمال ختمیت درکربلا، جمال صحابیت در کربلا، جمال کربلا درآئینۂ فطرت، شعائر الٰہی کی تعظیم، تقویٰ کی علامت، بنائے لا الٰہ الاللہ، شجرۂ طیبہ، محبت حق، تسلیم و رضا اور فلسفۂ قیام کربلا شامل ہیں۔ خانم کے بہ قول یہ سب کچھ، مجھے قم یونی ورسٹی میں اپنے اساتذہ آیت اللہ قاضی زاہدی، آیت اللہ تہرانی، آیت اللہ فضل، آیت اللہ عباسی، آغا امین، غلام رضا موسوی اور آغا محمود دیتو کے طفیل ملا۔ قم یونی ورسٹی کی ذہین اور لائق طالبہ ہونے کے ناتے خانم کو عن قریب ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی جا رہی ہے۔
خانم طیبہ بخاری کا نام ان کے بڑے بھائی علامہ سید اسد رضا بخاری نے تجویز کیا تھا۔ سید فقیر حسین بخاری کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور خانم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ہرچند خانم زمیں دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں مگر یہ گھرانہ روایتی جاگیرداروں کی طرح ان پڑھ نہیں تھا، سب پڑھے لکھے تھے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے خانم کو ان کے والد نے پڑھنے کے لیے کم عمری میں ہی ایران روانہ کر دیا تھا۔ خانم جب ایران پہنچیں تو پاکستان اور ایران کی معاشرت کے فرق نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایران میں پاکستان کی نسبت عورت کو زیادہ بہتر مقام حاصل ہے، وہاں کی عورت اپنے ملک کی ترقی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہے، وہاں عورت کو اپنے کام کے اظہار کے زیادہ مواقع ملتے ہیں، وہاں کی معاشرت میں پاکستان کی نسبت زیادہ نرم خوئی ہے۔ عورتوں میں شرح خواندگی پاکستان کی نسبت زیادہ ہے، وہاں ان پڑھ شہری کو شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جاتا۔ ایران میں صحت اور تعلیم کے شعبوں پر حد سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے، یہ وہ باتیں ہیں، جنہوں نے اِس کم سن طالبہ کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔
فیصل آباد میں اپنی پرائمری تعلیم کے مدارج کو یاد کرتے ہوئے طیبہ بخاری نے بتایا ’’میرا پہلی سے پانچویں جماعت تک ذہین بچیوں میں شمار ہوتا رہا اور میں کلاس میں دوسری بچیوں کا اردو زبان کا تلفظ درست کرایا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی اُس زمانے کی اپنی ہم جماعت یاد آتی ہیں، وہ بہت اچھے دن ہوا کرتے تھے۔ ایران میں جب مدرسے میں داخل ہوئی تو ہاسٹل والوں نے میری کم عمری کی وجہ سے مجھے ہاسٹل میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس پر ایران کے ایک صاحب علم استاد نے میری سفارش کی تو مجھے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت ملی۔ میں ہاسٹل میں دوسری لڑکیوں سے عمر میں بہت چھوٹی تھی اِس لیے تمام بڑی لڑکیاں مجھ پر شفقت کیا کرتی تھیں۔
خانم طیبہ بخاری نے بتایا کہ دوران تعلیم مجھے ڈاکٹر یا انجنیئر بننے کا ہرگز شوق نہیں تھا بل کہ میں وکیل بننا چاہتی تھی، خیر وکیل تو نہ بن سکی،خطیب بن گئی۔ اب میں جو بھی ہوں وہی میرے لیے بہتر ہے اور اس پر میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔ اپنی بچپن کی شرارتوں کے بارے میں کہنے لگیں کہ میں بہت زیادہ شرارتی ہوا کرتی تھی، درختوں پر چڑھنا، گھر کے نوکروں کو خوامخوا چھٹی دے دینا، میری پسندیدہ شرارتیں تھیں البتہ ایسی شرارت کبھی نہیں کی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں شروع ہی سے ’’دیالو‘‘ قسم کی لڑکی تھی، ضرورت مندوں اور نوکروں کو اکثر و بیش تر چیزیں اٹھا کر دے دیتی اور پھر بھول جاتی، اِس پر مجھے ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ میری اس عادت کو میری والدہ میری لاپروائی سے تعبیر کرتی ہیں اور والد صاحب اس کو فیاضی قرار دیا کرتے تھے، میری یہ عادت اب تک نہیں گئی۔ میں اپنی اِس عادت کو کوئی نام نہیں دے سکی جب کہ میرے ملنے جلنے والے اِس کو فضول خرچی اور بے وقوفی کا نام بھی دیتے ہیں لیکن مجھے میرے والد صاحب کی آبزرویشن زیادہ اچھی لگتی تھی۔
خانم طیبہ بخاری کو بچپن ہی سے کھانے پکانے کا جنون ہے، بتاتی ہیں کہ تمام ہندُستانی پاکستانی کھانے پکا لیتی ہیں، اِس میں مقدار کی کوئی قید نہیں، کہتی ہیں کہ ’’دیگ تک پکا لیتی ہوں، ایرانی اور چینی کھانے بھی اسی مہارت سے تیار کر لیتی ہوں، ایسا نہیں کہ مجھے صرف پکانے ہی کا شوق ہے، ہاں بھئی کھانے کا بھی شوق رکھتی ہوں، اس امر کے استثنیٰ کہ ساتھ کہ میں اور میرا پورا خاندان، بیف اور برائلر مرغی سے مکمل گریز کرتے ہیں، ماش کی دال اِس لیے نہیں کھاتی کہ اس سے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے؛ ایک وقت میں بہت زیادہ نہیں کھاتی‘‘۔
گڑیاں کھیلنے اور سینے پرونے کی تربیت کے حوالے سے بتایا ’’میرا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ میں اپنی عمر سے ذہنی طور پر بڑی تھی، اِس لیے میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کے بہ جائے بڑی عمر کی لڑکیوں میں بیٹھنے اٹھنے کو زیادہ ترجیح دیا کرتی تھی، اب اس عمر میں بھی میں بڑی بوڑھی عورتوں میں رہ کر زیادہ خوش رہتی ہوں۔ اس حوالے سے جب میں اپنا تجزیہ کرتی ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی عمر کے لوگوں سے ذہنی بلوغت کے حوالے سے آگے تھی اور آج بھی ہوں سو بچپن میں گڑیاں کھیلنے کے بہ جائے میں کتابیں اور رسالے پڑھا کرتی تھی، میں آپ کو یہ بھی بتاتی چلوں کہ میں نے جاسوسی اور سسپنس سے بھرپور کہانیاں زیادہ پڑھی ہیں جب کہ اُس وقت میری عمر کی لڑکیاں طبع زاد افسانے پڑھا کرتی تھیں‘‘۔
زبانوں پر عبور کے حوالے سے خانم نے بتایا ’’میں ایران سے جب تعلیم مکمل کرکے لوٹی تو مجھے انگریزی بالکل نہیں آتی تھی، پھر جب انٹرنیشنل سطح پر آمد و رفت شروع ہوئی تو میں نے اِس زبان کو شروع سے سیکھنا شروع کیا اور اب مجھے اِس پر بھی ہر لحاظ سے عبور حاصل ہے‘‘۔
خانم طیبہ بخاری اِس وقت جس حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں وہ اُس پر بہت خوش اور مطمئن ہیں، کہتی ہیں ’’میں ایک خطیب کی حیثیت سے لوگوں کو برائی سے روکنے اور نیکی کی طرف بلانے کی ذمہ داری ادا کرتی ہوں، اِس لیے اِس ذمہ داری سے میرا دل بہت مطمئن رہتا ہے۔ میری ذات معاشرے میں جب پیغام محبت بن کر ظاہر ہوتی ہے تو اُس پر میں اپنے خدا کا شکر بجا لاتی ہوں، معاشرے میں میرا احترام اور لوگوں کی طرف سے ملنے والی عزت نے مجھے پہلے سے بہت زیادہ مضبوط خاتون بنا دیا ہے، اِس مضبوطی نے مجھے نڈر اور خوف سے آزاد کر دیا، بعض اوقات میں اس وجہ سے خود ہی ڈرنے لگتی ہوں کہ مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی؟ پھر میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ایک دن اللہ کی بارگاہ میں،جب میں جواب دہ ہوں گی کہ لوگوں نے مجھے عزت و احترام دیا تو اُس کے مقابلے میں، میں نے انہیں کیا لوٹایا، اس خیال اور ہونے والے حساب کتاب سے ہی ڈر جاتی ہوں‘‘۔
طیبہ بخاری چار بیٹوں کی ماں ہے، وہ ماں کیسی ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا ’’میں اِس بارے میں کچھ نہیں کہ سکتی کہ میں ماں کیسی ہوں البتہ مجھے یہ علم ہے کہ میرے بیٹے مجھ سے بہت خوش ہیں تاہم کبھی کبھی یہ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ میں مذہب کے معاملے میں بہت زیادہ سخت ہوں۔ بیٹی کی کمی اِس لیے محسوس نہیں ہوئی کہ پاکستان کی ساری بیٹیاں میری بیٹیاں ہیں۔ میرے چاروں بیٹوں کی میری والدہ سے بہت زیادہ دوستی ہے اور وہ بھی ان پر جان چھڑکتی ہیں‘‘۔
خانم کو رنگوں میں کِھلتے ہوئے رنگ پسند ہیں، پہناوے میں نفیس لباس پسند کرتی ہیں اور موسم میں سردیوں کی شامیں ۔ ’’ پاکستان سے باہر مجھے گرمیاں اچھی لگتی ہیں اور پاکستان میں سردیاں پسند ہیں، موسیقی کو میں پسند تو کرتی ہوں لیکن اس کی مجھے لت نہیں پڑی، شاید اس لیے کہ بچپن سے ہی ہمارے گھر میں موسیقی سننا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ موسیقی میں قوالی پسند ہے لیکن مجھے آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ گانے والے کا نام کیا ہے، اس حوالے سے میں بہت مرتبہ شرمندہ بھی ہوئی ہوں کہ مجھے دوران سفر بہت نام ور لوگوں نے، جن میں گائک بھی شامل ہیں، اپنا تعارف کرایا لیکن مجھے ان کے نام یاد نہیں تھے اور بہت سے لوگوں کو تو میں جانتی ہی نہیں تھی جب کہ وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے تھے‘‘۔
پاکستان میں ان کا شہروں میں شہر اسلام آباد پسند ہے مگر فیصل آباد سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہیں۔ خانم طیبہ نے اپنے جذباتی حوالے سے یہ بھی بتایا ’’میری شخصیت میں والدہ کی نسبت والد کی شخصیت کا رنگ زیادہ غالب ہے، شاید اسی لیے مجھے قریب سے جاننے والے مجھے مردانہ اوصاف کی مالک قرار دیتے ہیں، اسی طرح مجھ میں ایک خاص طرح کا وصف بھی ہے جس کو آپ روحانی یا الہامی کیفیت کہ سکتے ہیں کہ میرے تحفظات اور خدشات کبھی غلط ثابت نہیں ہوتے یا اس کو یوں کہ لیں کہ میں جس طرح سوچنے لگتی ہوں، اُسی طرح ہو جایا کرتا ہے، اس وصف کی وجہ سے میں اکثر و بیش تر تکلیف سے بھی گزرتی ہوں لیکن یہ میرے بس میں نہیں‘‘۔
شہرت سے پہلے اور شہرت کے بعد کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے خانم نے کہا ’’اب زندگی کا دائرہ بہت محدود ہو گیا ہے، یہ زندگی اب میری نہیں دوسروں کے لیے ہے، کبھی کبھی دل بہت چاہتا ہے کہ مجھے کوئی نہ پہچانے اور میں آرام اور سکون کے ساتھ ہر جگہ آ جا سکوں، مثلاً بازار میں گھومنے کو دل چاہتا ہے، اپنی مرضی کی چیزیں خریدنے کو دل چاہتا ہے، اپنی پرانی سہیلیوں سے ملنے اور اپنے حلقۂ احباب میں بیٹھ کر خوش گپیاں کرنا چاہتی ہوں، مجھے اُس وقت تکلیف ہوتی ہے جب میرے ہر طرف سیکیوریٹی کا حصار ہوتا ہے، کیمرے لگے ہوتے ہیں، فون مانیٹر ہو رہے ہوتے ہیں اور میری نقل و حرکت نوٹ کی جارہی ہوتی ہے، اس حوالے سے جب میں دوسری طرح سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم میری نگرانی کرنے والوں کو یہ تو علم ہو رہا ہے کہ میں کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں‘‘۔
اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے خود ہی گویا ہوئیں ’’میری شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی تھی، والدین نے جہاں کہا میں نے ہاں کردی مگر چار بچوں کے باوجود یہ شادی ناکام ہو گئی اور ہم میں علیحدگی ہو گئی۔ میری زندگی میں یہ ایک بہت بڑی محرومی ہے، اللہ نے مجھے ہر طرح سے نوازا ہوا ہے مگر اب میں اس ناکامی پر بھی یہ سمجھتی ہوں کہ اس میں بھی اللہ نے کوئی بہتری ہی رکھی ہوگی۔ پہلی شادی کی ناکامی کے بعد میں نے خود ہی تنہا زندگی گزارنے اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پھر اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا حال آں کہ میرے گھر والوں نے مجھے نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی مگر میں نے ہمیشہ ماں بن کر سوچا اور اب تک اس فیصلے پر قائم ہوں، گو یہ میری زندگی کا ایک درد ناک پہلو ہے اور اس پہلو کے پیچھے بہت کچھ ہے، سوائے اس کے میں کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتی کہ احساس کم تری گھروں کو اجاڑ دیتا ہے، میں پاکستانی خاتون ہوں اور مجھے علم ہے کہ اِس دھرتی کی بیٹی اپنے گھر کو بچانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتی ہے لیکن جب گھر کا مالک ہی گھر گرانے پر تل جائے تو اس گھر کو کوئی کب بچا سکتا ہے، اس حوالے سے میں یہ ضرور کہوں گی ’’کام یاب لوگ اندر سے چکنا چور ہوتے ہیں، یہ قیمت ہی کام یابی کی شرط ہے‘‘۔
بشکریہ ایکسپریس
شفقنا اردو
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید