پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ”ردالفساد” کے نام سے سکیورٹی آپریشن کا آغاز کر دیا
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ”ردالفساد” کے نام سے سکیورٹی آپریشن کا آغاز کر دیا ، آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے سکیورٹی اجلاس میں کیاگیا،اجلاس میں تمام کورکمانڈرز،پاکستان رینجرز پنجاب اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوںنے شرکت کی ، فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن ‘رد الفساد’ کا مقصد ملک میں بچے کچھے دہشت گردوں کا بلاتفریق خاتمہ کرنا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن” رد الفساد” کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہے اور یہ کہ اس آپریشن سے سرحد کی سکیورٹی بھی یقینی بنے گی۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے اس آپریشن میں پاکستانی فضائیہ، بحریہ، سول فورسز اور دیگر سکیورٹی ادارے بھی حصہ لیں گے۔ اسی بیان میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں نیم فوجی دستے یعنی رینجرز کی شمولیت کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔پاکستان کی وفاقی کابینہ نے فوجی آپریشن کے اعلان سے کچھ ہی دیر قبل پنجاب میں رینجرز کو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں پولیس کی معاونت کے اختیارات دینے کی منظوری دی تھی۔آئی ایس پی آر کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کوششوں کا مقصد ملک کو اسلحے سے پاک کرنا اور آتشیں مادے پر کنٹرول حاصل کرنا بھی ہے۔سنہ 2007 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں آپریشن راہ حق کا آغاز ہوا تھا جبکہ وادی کے بڑے علاقے پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد سنہ 2009 میں اسی علاقے میں آپریشن راہ راست کیا گیا تھا۔ قبائلی علاقہ جات کی بات کی جائے تو سنہ 2008 میں باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل کا آغاز کیا گیا تھا جبکہ 2009 کے آپریشن راہِ راست میں جنوبی وزیرستان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ خیبر ایجنسی میں بھی گذشتہ کافی عرصے سے شدت پسندوں کے خلاف فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان آپریشنز کو خیبر ون، ٹو اور تھری کا نام دیا گیا ہے۔2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے چند ماہ بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں پاکستانی حکام نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔اس 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا تاہم دو برس گزر جانے کے باوجود سیاسی جماعتوں اور فوجی قیادت کی جانب سے اس منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔پاکستانی فورسز کی جانب میں ملک میں گذشتہ برس سے کومبنگ آپریشنز بھی کیے جا رہے ہیں جن میں ملک کے مختلف شہروں میں کارروائیاں کی گئیں اور بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں ضربِ عضب کے نام سے پہلے ہی ایک آپریشن جاری ہے۔ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید