تازہ ترین

کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا ۔۔۔ اسلامی انقلاب

فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب اسلامی ظہور پذیر ہوا تو اسے “اِنفجارِ نور” اور “طلوعِ فجر” سے تعبیر کیا گیا

شئیر
42 بازدید
مطالب کا کوڈ: 325

اور انقلاب کی کامیابی کے انتہائی ایام کو “دہ فجر” قرار دیا گیا۔ اسی حوالے سے سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات زبان زدعام تھیں:

والفجر ! ولیال عشر
“قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔۔۔”
حضرت امام خمینی ؒ نے جب پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے بعد اعجاز آمیز انداز سے تہران کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس وقت 11 فروری 1979ء (22 بہمن 1358ھ ش) تک دس دنوں اور راتوں میں انقلاب کا آخری معرکہ لڑا گیا۔ 11 فروری کو شاہی طاغوت کے سراسیمہ سپاہیوں نے آخرکار ہتھیار ڈال دیئے اور تاریخ عالم میں ایک خوبصورت تازہ نورانی صبح طلوع ہوئی، واقعی نور پھوٹ پڑا۔ ایک ایسا نور جس نے سیاہ اور سفید چہروں میں تمیز پیدا کر دی۔ جس نے حق و باطل کی پہچان کیلئے فرقان کا کام کیا۔ جس نے چودہ سو سال پہلے کی فتح مکہ کی یادیں تازہ کردیں اور فلک پیر نے ایک مرتبہ پھر مسجود ملائکہ کے ہاتھوں
“انی اعلم ما لا تعلمون” کی صداقتوں کا ظہور ہوتے دیکھا۔
 فضائیں ایک مرتبہ پھر ان نعروں سے گونج اٹھیں:
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔(بنی اسرائیل۔۸۱)
“حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا”

ایک دور ایسا آیا کہ جب انسانوں نے روحانی اقدار کو فراموش کر دیا تھا۔ معنوی پیمانوں سے رفتار زماں کی پیمائش قصۂ پارینہ ہوچکی تھی۔ جب مادی اقدار کا غلغلہ تھا۔ شرق و غرب مادی افکار کے اقدار میں یوں جکڑے ہوئے تھے کہ فکر و عمل سب گویا اسی کی تمناؤں کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ دین و سیاست کی جدائی گویا ہمیشہ کیلئے مسلّم ہوچکی تھی۔ اہل دین کے ہاتھوں کی گرفت بھی امید کی رسی پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا زور تھا تو دوسری طرف اشتراکیت کا شور۔ چھوٹی حکومتوں کے زمام دار، مشرقی اشتراکیت کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے تھے یا مغربی سرمایہ داری سے توقع باندھے ہوئے تھے۔ کلیسا کے اہل منصب تو کب سے اپنے پر سمیٹے مذہبی آشیانوں میں اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے “صبر و شکر” کے دھیمے ترانے گنگنا رہے تھے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر تکبیر کے ترانے گونج اٹھے۔ ان نعروں کی گونج میں طاغوت شرق و غرب کی بے ہنگم صدائیں ماند پڑ گئیں۔ امام خمینی ؒ عظیم آیت الٰہی کی حیثیت سے سیاست عالم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس پیر سال رہبر کی آواز نے ابلیسی طاقتوں کے ایوان لرزا دیئے اور ایک مرتبہ سب اہرمنی قوتوں کے ہوش گم ہوگئے۔

آہستہ آہستہ سب شیطانوں نے اپنی چندھیا جانے والی آنکھوں کو ملنا شروع کیا اور جو سنگ ان کے پاس بچے تھے انھیں پھر سے سمیٹنا شروع کیا۔ انھوں نے اس انوکھے شگوفے کو پوری قوت سے مسل دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی فریب کار نعروں کی حقیقت تو پہلے ہی طشت از بام ہوچکی تھی۔ وہ ایرانی قوم کی اس جرأت اظہار اور طلب حریت پر چیں بہ جبیں تھے۔ ایرانی قوم کے انسانی و جمہوری حقوق کی ان کی نظر میں کیا وقعت ہوسکتی تھی۔ انھوں نے شاہوں، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور ابھی انقلاب تازہ تازہ ہی تھا اور ایرانی افواج کو منّظم کرنے کیلئے ابھی منصوبے ہی بن رہے تھے کہ اس پر جنگ ٹھونس دی گئی۔ اس جنگ میں وحشت و بربریت کے سب ہتھیار آزمائے گئے۔ ویرانیوں، تباہیوں اور بربادیوں کی بارش کر دی گئی۔ سامراجیوں نے ایران کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی حرکت دی۔ انقلاب کی اعلٰی درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور فوجی قیادت غرض کسے دہشت گردی کا نشانہ نہ بنایا گیا۔
 
آخر کار حضرت امام خمینیؒ کی رہائش گاہ پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا گیا، جو طبس کے صحراؤں میں ناکام و نامراد ہوگیا۔ لیکن اللہ کا ارادہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس انقلاب کو غالب کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دشمن رسوا ہوئے اور انقلاب اپنی عظیم قیادت کی رہنمائی میں ان تمام امتحانات سے سرخرو نکلا۔ اقتصادی پابندیاں بھی بڑھتے ہوئے انقلاب کے قدم نہ روک سکیں۔ “لاشرقیہ ولا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ” کے ایمان افروز نعرے اسی طرح گونجتے رہے۔ ہر مشکل سے یہ انقلابی قوم اور بھی مضبوط ہوکر نکلی۔ ہر پابندی نے اس انقلاب کو اور بھی استحکام بخشا۔ اس قوم نے گویا اس پیغام پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

امام خمینیؒ نے امت اسلامیہ کو اتحاد و وحدت کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ جو شیعہ و سنی میں تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ ان کی قیادت میں انقلاب کی بڑھتی ہوئی آواز کو طرح طرح کے فتنوں اور انتشار و تفریق کے عنوانوں سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس اس مقصد کے لیے مسلمانوں میں موجود تکفیری ذہنیت اور ڈانواں ڈول ہوتی ہوئی خاندانی بادشاہتوں نے اتحاد کی ان کوششوں کے راستے میں مسلسل دیواریں کھڑی کیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم بیدار اور متحد ہوتی ہوئی امت اسلامیہ انشاءاللہ اسلامی اور انسانی اقدار کے غلبے کے لیے اپنی ذمے داریاں ضرور ادا کرے گی اور وہ دن دور نہیں کہ جب سارے عالم میں عدل اسلامی کی حکمرانی ہوگی۔

انقلاب کی قیادت نے ایرانی عوام کو یہ بھی شعور بخشا کہ اگر حریت و آزادی عزیز ہے تو خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ہوگا۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ پوری قوم تعمیر و ترقی کے جہاد کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر اپنے وطن کی تعمیر کے حوالے سے بھی اس قوم سے عجیب معجزات نے ظہور کیا۔ آج انقلاب کی کامیابی کو پینتیس برس گزر چکے ہیں۔ ایرانی قوم آج مصیبتوں اور آزمائشوں کے ایک کٹھن دور سے نکل چکی ہے۔ دنیا کے سامنے آج یہ قوم سرخرو کھڑی ہے اور دنیا کی پسماندہ قوموں کو آزادی و کامرانی کا پیغام دے رہی ہے۔ آج بھی ایرن لا شرقیہ لا غربیہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آج بھی ایران کے فیصلے ایران میں ہوتے ہیں بلکہ صدور انقلاب کا عمل بھی ایک خوبصورت انداز سے جاری ہے۔ یہ انقلاب فوج کے ذریعے نہیں آیا تھا اور اس کا صدور بھی فوج کے ذریعے، کبھی انقلابی قیادت کا مطمح نظر نہ تھا۔ انقلاب کی عظیم قیادت نے اپنے فکرو عمل سے اس انقلاب کا پیغام ساری نوع انسانی تک پہنچایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہی نے عالمی تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی جو تجویز پیش کی تھی، وہ بھی ایرانی قیادت کے صدور انقلاب کی حکمت عملی ہی کا اک اظہار تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب درحقیقت عالمی انسانی انقلاب ہی کی تمہید ہے، ایک ایسا انقلاب جو انسانوں کی نہ فقط عرب و عجم میں تفریق کا قائل نہیں بلکہ مشرق و مغرب کی تہذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی کی فضا استوار کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *