تازہ ترین

کربلا اور اصلاح معاشرہ

جو امام جانی دشمنوں کی عاقبت کے تئیں اس قدر فکر مند تھے وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت کے کس قدر شیدا ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امامت کی پرتو سے یزیدی لشکر کے سالار یعنی حُرکی تقدیر ہی بدل گئی اور امامت کے عقیدے کو جزو ایمان […]

شئیر
63 بازدید
مطالب کا کوڈ: 299

جو امام جانی دشمنوں کی عاقبت کے تئیں اس قدر فکر مند تھے وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت کے کس قدر شیدا ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امامت کی پرتو سے یزیدی لشکر کے سالار یعنی حُرکی تقدیر ہی بدل گئی اور امامت کے عقیدے کو جزو ایمان سمجھنے والے کتاب کربلا کے سائے میں اپنی تقدیر سیدھی کیوں نہیں کرسکتے؟

 

 

کربلا اور اصلاح معاشرہ

 

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
اگر فرد بشر کو کتاب بشریت کے ایک پرت سے تشبیہ دی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس پرت کے دورُخ یعنی دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر اجتماعیت کا رنگ غالب ہے اور دوسرا صفحہ ذاتی و انفرادی نقش و نگار سے بھرا پڑا ہے۔ شیرازہ بندی نہ ہونے کی صورت میں بشریت کے یہ اوراق حادثات زمانہ اور قدرتی آفات کے طوفان سے خس و خاشاک کی مانند کائنات کی وسیع فضا میں گم ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے فطری طور ان اوراق کی شیرازہ بندی کا انتظام کررکھا ہے۔ اس قدرتی شیرازہ بندی پر عالم انسانیت کی حیات کا دارومدار ہےً

 

ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خالق ہستی نے انسان کی فطرت میں ہی باقی ہم جنس انسانوں کیساتھ جذب و میلان رکھا ہے۔ نافہم بچے کا اپنی ماں یا دیگر مانوس افراد کی وقتی جدائی پر بھی چیخنا چلانا بتاتا ہے کہ انسان فطرتاً انجمن پسند ہے اورالگ تھلگ اس دنیا میں زندگی گزارنا اس کیلئے محال ہے۔ انسانی معاشرے کی تشکیل کا یہی سب سے بڑا محرک ہے۔ المختصر معاشرے کی اہمیت اشرف المخلوقات انسان کیلئے ویسی ہی ہے جیسے مچھلی کیلئے پانی ۔ معاشرہ انسانی احتیاج کے مسائل کا حل ہے۔
کیسا سماج:-
یقیناً سماج کی تشکیل انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسامعاشرہ انسانیت کے موافق ہے؟ کیا محض چند افراد کا ایک خاص مقام پر بودوباش سے ہی انسان کی یہ اہم ضرورت خود بخود پوری ہوجاتی ہے؟ یا پھر سماج میں کچھ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے؟ ان سوالات کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی روحانی اور ایمانی رابطہ کے بغیر مختلف اشخاص کا ایک ہی جگہ مل جل کر زندگی گزارنا قطعاً اس اجتماعی ضرورت کی پیاس کو نہیں بجھا سکتا۔ ایک فردوحشت و تنہائی سے بھاگ کر اسی لئے انسانی سماج کی پناہ میں آجاتا ہے تاکہ اُس کو روحانی تسکین ملے۔ اب اگر سماج کے راہ و رسم ہی آزا رِجاں بن جائیں تو ایسی صورت میں یہ سماج اس کیلئےکیونکر موافق ہو سکتا ہے؟۔ اس کی مثال آج کے مادیت پرست معاشروں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں “النفسی النفسی” کا وظیفہ ہر شخص کےوردِ زبان ہے اور ہر فرد صرف اپنا الوسیدھا کرنے میں مگن ہے۔ بظاہر ہر طرف لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہے، سڑکوں پر چہل پہل ہے، بازاروں میں رونق ہے مگر ہر کوئی اپنے مطلب سے غرض رکھتا ہے حتیٰ کہ والدین کو اپنی اولاد سے کوئی مروت نہیں ہے اور اولاد اپنی خواہشات کے آگے ماں باپ کو ہیچ جانتے ہیں۔ غرض ہر فردجلوت میں خلوت سے دوچار ہے۔ معنوی فقدان سے دو چار ان معاشروں میں اگر کہیں پر چند افراد کے درمیان اشتراکِ عمل بھی دیکھنے کو ملے تو اس میں بھی ہر شخص کو ذاتی اور فردی منفعت پیش نظر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انسانیت سوز امور کی انجام دہی میں عالمی سطح پر مقتدر شخصیات کی ساجھے داری دیکھنے کو ملتی ہے۔
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند [علامہ اقبال]

ایسے بگڑے ہوئے معاشروں سے کنارہ کشی ہی بھلی ہے جن میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ ہو جیسا کہ مولائے متقیان کا ارشاد گرامی ہے کہ “برے ہمنشین سے تنہائی بہتر ہے” حتیٰ کہ اللہ کے عظیم بندوں کا جینا بھی اس طرح کے معاشروں میں دو بھر ہوجاتا ہے۔ پیغمبرِ رحمت کو بھی حد سے زیادہ سرکش سماج سے ہجرت کرنے کا حکم ملا اور شاہِ مردان جیسے مرد میدان کو بڑی مدت کج تنہائی میں گزارنا پڑی، اگر چہ یہ مہاجرت اور گوشہ نشینی وقتی ہی تھی۔ عالم انسانیت ایسی انجمن کا متمنی ہے جس میں انسان دوستی، رواداری، ہمدردی، الفت،خیر خواہی،ایثار و محبت کے جام پلائے جائیں-برعکس اس کے نفرت، تعصب، شرانگیزی، انسان دشمنی، خوانخواری، خود غرضی کے زہریلے گھونٹ ہی محفل کی غذا ہو تو ہر قلب سلیم رکھنے والا شخص خدا سے یوں دعا گو ہوتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو [علامہ اقبال]

انسان اپنے جیسے ان انسانوں سے بھی خائف و ہراساں ہو کرراہِ فرار اختیار کرجاتا ہے جن کی مونسی اور دم سازی اس کے وجود کی بقاء کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان سے ہی کچھ یوں اماں مانگتا ہے۔
رہے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئِی نہ ہو
[غالب]
صالح سماج اور مصلح:-
مندرجہ بالا بحث سے یہ پتا چلتا ہے کہ صرف اور صرف صالح معاشرہ ہی انسان کی منزل و مقصود ہے۔ یہی معاشرہ اس کی تمام روحانی و مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سماج کا نقشہ اسلامی نظام معاشرت نے پیش کیا ہے اور پیغمبر اکرم نے اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا۔ رسول اکرم کے عملی نمونہ کو سامنےرکھ کر پورے عالم میں اجتماعیت کی درستگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ عالم اسلام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلامی قوانین و اصول کی حدود میں ایسے معاشروں کو تشکیل دے جو تمام دنیا کیلئے نمونہ عمل ہوں۔لیکن ایک بات جو تمام مسلمانوں کے دل میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ صالح سماج کی تشکیل کارے دار والا معاملہ ہے اور تشکیل کے بعد بھی اس سماج میں ہر وقت خرابیوں کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ در اصل یہ ایک منفی سوچ ہے کہ مثالی سماج میں نقص و عیب پیدا نہیں ہونا چاہئے چنانچہ ماہر عمرانیات کا کہنا ہے کہ” انسانی سماج، جسم کی مانند ہے”۔[1]یہ ماننا پڑے گا کہ انسانی سماج جامد و ٹھوس شئے نہیں کہ اسے ایک بار درست کیا جائے تو پھر ہمیشہ کیلئے درست ہی رہے گا۔ سماج زندہ اشخاص کے مابین اشتراک عمل کا نام ہے، اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ انسانی سماج نہ صرف ذی روح ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے۔ فلسفہ حیات کے مطابق جہاں کہیں زندگی ہے وہاں لامحالا بیماری بھی ہو گی یہی وجہ ہے کہ ہر جاندار کو{جب تک وہ زندہ ہے} کسی نہ کسی چھوٹی بڑی بیماری کا خطرہ لگا رہتا ہے اور انسانی جسم میں جب مختلف بیماریوں کا اندیشہ رہتا ہے تو کیسے انسانی سماج کو مختلف مفاسد سے مستثنیٰ تصور کیا ج جائے ۔ البتہ سماجی بیماریوں کا علاج جسمانی بیماریوں کے علاج سے کافی مشکل ہے۔ انسانی جسم میں جراثیم بیماری کو جنم دیتےہیں اور سماجی بیماریوں کا ذمہ دار مفسد ہوتا ہے۔ مفسدین اپنے کردار کے لحاظ سے ان جراثیم سے مشابہ بلکہ اُن سے بدترہیں کیونکہ جب ڈاکٹر اپنی خاص صلاحیت سے ان جراثیم کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے تویہ جراثیم اپنی اصلی پہچان ظاہر کرنے سے کتراتےنہیں ہیں۔ یوں مریض بھی ان سے بچنے کیلئے آپریشن کی تکلیف اور دوا کی کڑواہٹ کو برداشت کرنے پر رضا مند ہوجاتا ہے مگر مصلحین کے سامنے مشکل یہ ہے کہ سماجی جراثیم یعنی مفسدین روبا ہی سے اپنی پہچان چھپانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے کردار سے بالکل متضاد شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ قرآن کریم انکی کارستانیوں کو یوں پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
“جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں لیکن ہوشیار رہنا مفسد یہی لوگ ہیں-[2] اسلامی تاریخ میں اس آیت کی عملی مثال بار بار دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد جب سرہائے شہداء کوفہ لائے گئے تو ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں اہل کوفہ سے کہا “شکر خدا کا جس نے حق اور اہل حق کو قوی کردا اور امیرالمومنین یزید بن معاویہ اور انکے گروہ والوں کی نصرت کی اور ۔۔۔۔ حسین بن علی کو اور انکے گروہ کے لوگوں کو قتل کیا”۔ [3]
مہاتما سے مصلح بڑا:-
سماجی ناانصافی اور خرافات سے متنفر افراد کا ردِ عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ صرف اپنے سفینہ حیات کو معاشرے کی “الٹی گنگا”سے نکال کر ساحل پر لے آتے ہیں اور اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ انہوں نے توہم پرستی کے بازار سے خود کو نقصان سے بچالیا۔ برعکس اس کے کچھ افراد نہ صرف اپنے آپ کو سماج کو کج روی سے بچاتے ہیں بلکہ باقی لوگوں کو بھی صحیح سمت لے جانا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ سماج کی “الٹی گنگا” سے کنارہ کشی کے بجائے اس کا رخ بدلنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کیلئے مذہبی تاریخ سے ایک مثال اخذ کرنا مناسب ہے۔ مہاتمابدھ ایک شاہی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ زندگی کے ابتدائی ایام انتہائی ناز و نعم میں گزرے۔ شاہی ٹھاٹ باٹھ میں پلنے والے اس شہزادے کو انتیس سال کی عمر میں معاشرے پر نظر پڑی تو غربت کی ستم ظریفی، بڑھاپے کی لاچاری اور ضعف و بیماری کی درد ناکی دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا۔ معاشرے کی ناہمواری اور رعایا کی حالت زار سے مشتعل و مغموم ہوکر سنیاس کی راہ لی اور پھر شاہی محل کی طرف مُڑکر نہیں دیکھا۔ اسی اقدام سے گوتم بدھ لوگوں کی نظر میں “مہمان اور مہاتما” بن گئے[4]—اس کے برعکس مصلحانہ کردار کی جھلک مذہبی تاریخ کے تابناک اوراق میں موجود ہے ۔ سرورکائنات نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس کی ابتری کو لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس دور کے وحشت ناک حالات اظہرمن الشمس ہیں۔ آنحضور کے پاس مہاتمام بدھ جیسی شہنشاہی طاقت نہ تھی جسے آپ معاشرے کے سرکشوں کو لگام دے دیتے، عسکری طاقت سے مستضعفین کی پشت پناہی کرتے اور سماج کے پچھڑے طبقے کو خزانہ عامرہ سے امداد کرتے۔ جب آپ نے عرب کی ابتر حالت دیکھی توشریف خاندان سے تعلق رکھنے والے اس یتیم کی رگ ہمدردی پھڑک اُٹھی، لیکن انہوں نے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے مصلحانہ کردار اپنایا۔ آپ نے کبھی بھی معاشرے کے سدھار کیلئے آس کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔نتیجتاً بہت ہی قلیل مدت میں ایک مثالی معاشرہ کو وجود بخشا۔ پس یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ انسانیت کی رشد و ہدایت “مفرور مہاتما” نہیں بلکہ “پیغمبر اصلاح” ہی کرسکتا ہے۔ اب اگر مسلمانوں کا طبقہ صرف “اصلاح نفس” کو بہانا بناکر سماج سے فرار اختیار کرے تو وہ سنت نبوی سے بالکل مخالف رہبانیت میں مبتلا ہے۔ اسلام اصلاح نفس کیساتھ اصلاح معاشرہ کی بھی تلقین کرتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح بغیر از مصلح ممکن ہی نہیں۔ بڑے بڑے گوشہ نشین زاہد ہرگز اس بلند مقام تک نہیں پہنچ سکے جن تک مصلحین کی رسائی باآسانی ہوسکتی ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ “زاہد کے مقابلے میں عالم کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ زاہد صرف اپنے آپ کو خدا کی عبادت کی جانب مائل کرتا ہے اور برعکس اس کے عالم ایک سوسائٹی کو خدا پرست بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے”۔
تاریخی المیہ:-
تاریخ انسانیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وفاتِ پیغمبر کے بعد حقیقی مرکز و محور کو چھوڑ کر مسلمانوں نے عارضی محور قائم کیا جس کا لابدی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کا “نظام عدل اجتماعی” درہم برہم ہو گیا۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے چہرے کا سنگھار “خلافت جہانگیری کے گردو غبار” سے کیا گیا۔ نکتہ چینوں کو یہ نکتہ فراہم ہوا کہ اسلام بزور تلوار پھیلا ہے، ملوکیت نے باب امامت پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ بظاہر سلطنت اسلامیہ تیزی سے پھیلتی گئی، مسلم ا فواج نے بہت سے غیر مسلم ریاستوں پر فتح مندی کے جھنڈے گاڑ دیئے مگر دوسری جانب دارالخلافہ پر کفر کی پروردہ ملوکیت قابض ہو گئی یہاں تک کہ یزید جیسا فاجر و فاسق خلافت کی کرسی پر براجمان ہوا۔ یزید جیسے بدکردار کو بے لگام جوانی کا خمار تو تھاہی، اس پر شراب اور محفل رقص جلتی آگ پر تیل کا کام کررہی تھی۔ معاشی بدعنوانی ، جنسی بے راہ روی، سماجی بے انصافی اور زوالِ اخلاقی کچھ ایسی آفتیں ہیں کہ جن میں تنہا ایک ہی آفت کسی تہذیب و تمدن کو نیست و نابود کرنے کیلئے کافی ہے۔ چہ جائیکہ یہ تمام آفتیں کسی تہذیب کے خلاف بیک وقت صف آرا ہوجائیں۔ یزید نے ان ہی جیسی آفتوں پر اپنے نظام حکومت کی بنیاد کھڑی کر دی۔ بیت المال سے عیش و عشرت کیلئے بے دریغ دولت لٹائی جارہی تھی، جانوروں کو حکومت شام و کوفہ کے دربار میں ایسا رتبہ دیا جاتا تھا کہ بڑے بڑے درباری مفتی ان جانوروں کے تئین رشک کرنے لگے۔ خوف و دہشت کے عالم میں بڑے بڑے صحابہ لب بستہ کھڑے تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ معمولی سی مزاحمت پر جان کے لالے پڑسکتے ہیں۔ جس وقت پوری مسلم امت کو سانپ سونگھ گیا تھا ایسے میں صرف ایک آواز گونجی، جب سب کے پایہ استقامت جواب دے چکے تھےبس ایک ہی ہستی کے قدموں کی آہٹ سے شام کی قصر امارت لرزہ براندام ہوگئی۔ جوانی کے خمار میں چور، شراب کے نشےمیں بدمست، رقص وسرور کی محفلوں میں مدہوش یزید کو اہل حق کی موجودگی خطرے کی گھنٹی لگنے لگی۔ کبھی کبار اس گھنٹی کے بجنے سے دونوں نشے یعنی نشہ قوت اور نشہ عیش و عشرت کافور ہوجاتے تھے اور یزید کو بخوبی اندازہ ہوجاتا تھا کہ جب تک حق پرست زندہ ہیں باطل کو حق ثابت کرنا ناممکن سی بات ہے۔ نیز اُسکی فاسد حرکتوں کو شرعی اور سماجی جواز نہیں مل سکتا۔ چونکہ غیر صالح معاشرے میں اللہ کے بندوں کی مثال خس و خاشاک میں موجود چنگاریوں کی مانند ہے، جب بھی مناسب ہوا مل جائے سماجی بدعات کو ایمان کی حرارت سے جلاکر خاکستر کردیتے ہیں۔
امام برحق نے جب دیکھا کہ یزید کی بدکاری اسکے دربار کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری امت کو اپنی لپیٹ میں لے گی تو مصلحانہ ذمہ داری کے پیش نظر اپنی تحریک کا منشور یوں جاری کیا۔
«اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب‏»
“میں سرکشی اور جنگ و جدال کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فسادپھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے، بلکہ میں تو اپنے نانا [ص] کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں۔ میری غرض فقط امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور والد و جد کی پیروی ہے”۔[5]
اس فرمان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام عالی مقام علیہ السلام اپنے جد کی امت کی اصلاح کیلئے قیام کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں کی اصلاح مقصود تھی وہ کس طرح کے لوگ تھے؟ ان میں کیا کیا خرابیاں تھیں کہ امام کو اتنا بڑا قدم اٹھانا پڑا امام علیہ السلام کے سامنے دو گروہ تھے جو دونوں کے دونوں اصلاح طلب تھے۔ ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو امام علیہ السلام کے نام لیوا اور ان کے پیروکار ہونے کا دعوی ا تو کرتے تھے لیکن حکومت ِکوفہ وشام کے ظلم و ستم سے اس قدر حراساں اور خوف زدہ تھے کہ یہ لوگ شاہی دبدبہ کے آگئے اپنی عقیدت کے مطابق جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ صبح و شام محمد و آل محمد [ص ]پر درود ورد زبان تھا مگر ہاتھ میں تلوار لیکر ان ذواتِ مقدسہ کی نصرت کرنا اُن کے بس کر روگ نہیں تھا۔ انکی نفسیات کا خاکہ مشہور شاعر اہلبت فرزدق نے یوں امام حسین کے حضور پیش کیا “عراق کے لوگوں کے دل آپ کی طرف مائل ہیں اور اُن کی تلواریں بنی امیہ کی اعانت کیلئے ہیں” [6] ۔ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اہلبیت علیہم السلام کی دشمنی کو علامت ایمان سمجھتا تھا۔ شامی حکومت کے پروپیگنڈہ مشینری سے یہ لوگ اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ آفتاب امامت کی ضیاء پاشی کے باوجود حق و باطل میں تمیز کرنا تو دور کی بات، اونٹ، اونٹنی میں فرق کرنے سے قاصر تھے۔ بدھ کو نماز جمعہ اداکرنے والے، عین خانہ خدا میں منبر رسول پر خطہ جمعہ کے دوران رسول خدا کے عزیز ترین اقرباء پر سب و شتم کو خوشنودی الہٰی کا وسیلہ سمجھتے تھے ۔[ [7
مختصرالفاظ میں امام علیہ السلام کو نادان دشمنوں اور بزدل دوستوں سے واسطہ تھا۔ نادان دشمنوں کے مرضِ تعصب و جہالت کا علاج امام کی “معرفت” تھی اور بزدل دوستوں کی کم حوصلگی کی دوا ہمت و جرات تھی۔ گویا کربلا کی اصلاحی تحریک کو ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ چنانچہ کوئی اور ہوتا تو دوستوں سے مایوس اور دشمنوں سے ناامید ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھتا مگر یہ رسالت کے پروردہ حسین علیہ السلام تھے جو بذات خود آس و امید کا سرچشمہ ہیں۔ انہوں نے اپنی شہادت سے دوستوں کے قلوب کو ابدی حرارت بخشی۔ یوں انہیں ظالم حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا حوصلہ ملا اور دوسری طرف دشمنوں کے پتھر دل بھی موم ہوکر پگھل گئے۔ کوفہ و شام کے بازاروں میں اور دمشق میں رونے کی آوازیں بتارہی تھیں کہ ایک خفیہ انقلاب برپا ہوا ہے اور امت مسلمہ میں غیرت اسلامی کا احیاء ہوا ہے۔ نتیجتاً مردہ ضمیروں میں نئی روح پڑگئی، گلے میں اٹکی ہوئی سسکیاں نالہ و شیون میں تبدیل ہوگئیں جس سے یزید کی راتوں کی نیند اور دن کا چین مفقود ہو گیا کیونکہ اسے اسلامی ریاست کے گوشہ و کنار سے بغاوت کی بو محسوس ہونے لگی۔یہ اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ ممکنہ بغاوت کو فرو کرنے کے لئے یزید نے اپنی افواج کو مدینہ پر چڑھائی کا حکم دے دیا اس طرح واقعہ حرہ کی قہر سامانیاں اہلیان مدینہ کو دیکھنا پڑیں اور اگلے سال مکہ پر حملہ کر کے خانہ کعبہ کو نذرِ آتش کیاگیا۔
بہر صورت عالم اسلام کی مذکورہ ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر امام علیہ السلام نے اپنی اصلاحی تحریک کا بر محل و بر وقت ایک منظم انداز میں آغاز کیا۔ جہاں مناسب سمجھا وہاں امت سے خطاب فرمایا اپنے سفر کے دوران امام علیہ السلام نے ہر مقام پر ہدایت کا سنگ میل نسب کیا اور ہر حق جو کیلئے کوشش و جستجو کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ دن رات اسی فکر میں گزرے کہ کس طرح جد امجد کی گمراہ امت کو راہِ راست پر لایا جائے۔ مفسدوں کے جمِ غفیر میں مصلح اعظم تن تنہا اس الہٰی فرمان پر گوش بر آواز ہوئے۔
“تم لوگوں میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو خیر کی جانب دعوت دے اور نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے روکے اور یقیناً یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”[8]
امام حسین علیہ السلام کی رہبری میں کربلا والوں کا اُٹھایا ہوا ہر قدم خداوند کریم کی جانب سے ایک حجت ہے۔ انکی حیات کا ہر نفس امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تحریک کو زندگی کی نئی رمق عطا کرتا ہے۔ جس کسی کو بھی کربلا والوں جیسی بصیرت نصیب ہوئی وہ بے جنت و جہنم کے مناظر اسی دنیا میں حجابانہ دیکھ لیتا ہے۔ اُنکی عظیم قربانی سے خیر و شر میں تمیز ہوئی۔ کربلا نے اس قرآنی آیت کا جیتا جاگتا مصداق اسلام کے دامن میں ڈال دیا کہ
“اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو” [۹]
اس گروہ میں معاشرے کا ہر کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ کربلائی معاشرے کے جوان پاکبازی، جوان مردی خداترسی کے مجسم ہیں۔ یہاں کے بچے صبر و استقامت کے پہاڑنظر آتے ہیں، بزرگ افراد ہدایت و رہبری کے زندہ جاوید پیکر ہیں، خواتین کربلا کی مجاہدانہ زندگی نہ صرف خواتین بلکہ مسلمان مردوں کیلئے بھی ہمت و جرات کا قابل تقلید نمونہ ہے۔ الغرض اس چھوٹے سے معاشرے کے ہر کردار نے تاریخ کے سینے پر انسانی اقدار و اخلاق کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک عالم انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ کربلا کی اصلاحی تحریک کا یہ بھی ایک امتیاز ہے کہ یہاں ایک بڑے معاشرے کو سدھارنے کیلئے ایک چھوٹا سا معاشرہ سرگرم عمل ہے۔ اسلامی معاشرہ کے جمود کو توڑنے کی کوشش میں یہ صالح معاشرہ مدینے سے مکہ اور پھر کربلا کا سفر طے کرتا ہے۔ کربلا میں دی گئی قربانی چند افراد کی قربانی نہیں بلکہ ایک مثالی معاشرے کی قربانی ہے۔ کیونکہ انسانی معاشرہ کا ہر رنگ اس چھوٹے سے کربلائی معاشرے میں نظر آتا ہے اور ایک صالح معاشرے کا کو ئی بھی عبادی، ،عائلی ، جذباتی ،نفسیاتی ،سیاسی ،معاشرتی ،روحانی ، جہادی پہلو یہاں تشنہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وہ مقصد کتنا عظیم ہوگا جس کی خاطر اتنا عظیم معاشرہ قربان ہوا۔
امام—–دشمنوں کی اصلاح کے طالب:-
کسی عالم دین نے کربلا کے حقیقی مقصد کو پہچانتے ہوئے ٹھیک ہی کہا ہے کہ “تمام انصار و اقرباء کی شہادت کے بعد بھی امام عالی مقام علیہ السلام اس بات کے متمنی تھے کہ ان کے بدترین دشمن کی بھی عاقبت خراب نہ ہو”۔ ایسی کریمی اور کہاں دیکھنے کو ملے گی کہ آخری دم تک امام چاہتے تھے کہ یزید، عمر بن سعد، عبیداللہ بن زیاد،حرملہ اور شمرذی الجوش جیسے بدترین انسان بھی خداوند کریم کے درِ استغفار کی طرف رجوع کریں۔ فوجِ اعداء کی طرف سے تیروں اور تلواروں کی یورش تھی اور امام دوجہاں کی جانب سے فوج اعداء کو عاقبت ساز خطبے سننے کو ملتے تھے۔ وہ امام کی زندگی کے خاتمے پر تُلے ہوئے تھے اور امام اُنکی دنیا و دین بچنے کا درس دیتے تھے۔ وہ درپئے آزار تھے اور امام عذاب آخرت سے بچنے کا درس دیتے تھے۔ اس صورتِ حال پر ایک عربی شاعر کا یہ مصرعہ بالکل موزوں ہے۔
اُرید حیاۃ ویرید قتلی [۱۰]
میں اس کی زندگی کا خواہاں ہوں اور وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتا ہے۔
امام عالی مقام علیہ السلام مسلسل کوشش کرتے رہے کہ لشکر یذید پر نصیحت آموزباتوں کا اثر ہوجائے۔ یہ لشکر شیطانی، لشکر رحمانی میں تبدیل ہوجائے۔ اتنا بڑا احسان دشمن پر کون کرسکتا ہے کہ دشمن جان کو بھی برائی سے نیکی کی طرف اس وقت دعوت دے جبکہ وہ اُس کو قتل کرنے کی تیاری کررہے ہوں۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کو ارشاد گرامی ہے۔
من حزرک کمن بشرک
ومن و عظک احسن الیک
جس نے تمہیں آگاہ کیا اُس نے تمہیں [روشن مستقبل] کی بشارت دی اور جس نے تمہیں نصیحت کی اس نے تمہارے اوپر احسان کیا۔ [11]
کربلا اور آج کا حسینی معاشرہ :-
جو امام جانی دشمنوں کی عاقبت کے تئیں اس قدر فکر مند تھے وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت کے کس قدر شیدا ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امامت کی پرتو سے یزیدی لشکر کے سالار یعنی حُرکی تقدیر ہی بدل گئی اور امامت کے عقیدے کو جزو ایمان سمجھنے والے کتاب کربلا کے سائے میں اپنی تقدیر سیدھی کیوں نہیں کرسکتے؟
دوستان را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
عزادارئ امام حسین علیہ السلام معاشرہ سازی کا بہترین ذریعہ ہے۔ عزاداری کا اصل مقصد بھی معاشرہ سازی ہی ہے۔ کربلا کی یاد تازہ کرنے میں تاثیر بھی ہے اور نمونہ عمل بھی۔ یعنی کربلا ایک شخص کو عمل کرنے پر بھی تیار کرتی ہے اور ساتھ ہی عمل صالح کا بہترین نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔ واقعہ کربلامیں انوکھا پن یہ ہے کہ یہ بندے کو خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے پر مائل کرتا ہے اور سجدہ شبیری کا بہترین نمونہ پیش کرکے یہ بھی بتایا ہے کہ سجدہ پروردگار کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے؟ عزاداری کو صرف صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے، معاشرے کے آگاہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حسینی معاشرہ کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کریں۔ عام عزادارکو یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کہ کچھ کیا جائے بلکہ اُسے کوئی یہ بتانے والا ہوکہ کیا کیا کرناچاہئے، کس چیز کو اولت دی جائے۔ ماہِ محرم میں صورت حال کا بھر پور فائدہ اُٹھانے والا ہو تو بھولے بھٹکے افراد بھی دین کی طرف آسکتے ہیں۔ بے نمازی بھی ماتم حسینی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے یہ انکا یہ ماتم بے سود ہے، البتہ اگر ہم مصلحانہ اور مثبت زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوئے خدا بڑھتا ہوا آدھا قدم ہے۔ چنانچہ جو شخص ذکر حسین پر کمربستہ ہو اُسے ذکر خدا پرآمادہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ عزادار جو امام بارگاہ میں آجائے اس کی صحیح رہنمائی ہوجائے تو وہ خدا کی بارگاہ میں آکر عبادت گزار بھی ضرور بن جائے گا۔
کربلا کے مثالی معاشرے کو مدنظر رکھ کر تمام سماجی بیماریوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ یزید سے نفرت کا لابدی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اُن برائیوں سے بھی حسین علیہ السلام کے ماننے والوں کو نفرت ہو جن کی وجہ سےحسین علیہ السلام کو قیام کرنا پڑا۔ حُب حسین علیہ السلام حُسن عمل کا متقاضی ہے اور نفرت یزید، بدی سےنفرت کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ کربلا امربالمعروف و نہی عن المنکر اور تولا و تبریٰ جیسے اہم فرائض کو شخصی کردار میں پیش کرتی ہے۔ ان کرداروں کو سامنے رکھ کر یہ اہم فرائض بخوبی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر جیسے فرائض کی ادائیگی صالح سماج جب وجود میں آئے گا تو خیرکا شر پر، اچھائی کا برائی پر رعب طاری ہوگا، اندھیرے پر اُجالے کی بالا دستی ہوگی، عصری یزیدوں کا دائرہ کار اور قافیہ حیات تنگ ہوگا اور ہر حسینی کے ہاتھ پر روزانہ کئی یزیدی بیعت کریں گے۔
حوالہ جات:
Introduction to Sociology, Vol. 1, p8-1
2 ۔سورہ بقرہ آیت نمبر11
–3-تاریخ طبری، ترجمہ سید حیدر علی طبا طبائی ، ص ۲۸۴
-Britannica Encyclopedia, Add 1995, Vol2, pg 602-4
-5تاریخ عاشورہ، ڈاکٹر ابراہیم آیتی
-6 تاریخ طبری، ج۵، ص ۳۱۲
7 – بحوالہ خلافت ملوکیت – علامہ مودودی
-8سورہ آل عمران، آیہ ۱۰۴
9– سورہ آل عمران، آیہ ۱۱۰
10-لہوف — سید ابن طاووس
11- تجلیات حکمت، ص ۴۶۵

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *