تازہ ترین

کفرستان سے لیکر پاکستان تک کا سفر

اس وقت پوری دنیا میں جہاں کرونا کی وجہ سے خوف ھراس پھیلا ہوا ہے۔ جب یہ کرونا کسی کفرستان میں پہونچا تو لوگ قوم پرستی، فرقہ واریت اور ذاتی عناد اور دشمنی کے خول سے نکل کر سب ایک جسم اور روح کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے دکھائی دئیے جبکہ ھم دیکھتے ہیں کہ جتنے ادیان ومذاہب ہیں اتنے ہی انکے اصول و عقائد اور نظریات یہاں تک کہ رہن سہن کا طریقہ بھی مختلف ہے لیکن کرونا نے ان سب کو متحد کیا اور دن رات سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کرونا کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
لیکن یہی کرونا جب پاکستان میں تشریف لایا تو ھم چند گروہوں میں تقسیم ہوگئے ھم یہاں صرف دو ہی گروہ کا ذکر کرنے پر اکتفا کرینگے۔

شئیر
26 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5391

1- فرقہ پرست ٹولہ
فرقہ پرست ٹولے نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے حریف کو بری طرح بدنام کرنے اور اپنے لیے محبتیں اور چاہتیں سمیٹنے کی مذموم کوشش کی جس کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے، اس کام کے لئے اس ٹولے نے سیاسی لوگوں اور میڈیا کا خوب استعمال کیا، اور خلاف حقیقت باتوں کو اسطرح پیش کیا کی خود جھوٹ ہی شرما گیا۔اسی طرح آزادی صحافت کے نام پر مسلمانوں بالخصوص ایک خاص مذہب سے جھوٹی باتیں منسوب کرکے پاکستانی شہریوں کی ایک کثیر تعدادکو صحافت سے ہی متنفر کیا اور لوگوں کو پیغام دیا آزادی صحافت یعنی جھوٹ، تھمت تذلیل، تحقیر، ظلم ،فریب، فرقہ پرستی، لالچ۔۔۔۔
اس طرح کی ذہنیت رکھنے والوں کو آزادی صحافت کے نام پر کھلی چھوٹ دی جائے کرنے دے تو ملک عزیز کا خدا حافظ۔۔۔۔
2- سیاسی گروہ
جسطرح فرقہ پرستوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا، اسی طرح سیاست دانوں نے بھی اپنی سیاست چمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ھم تاریخ کے اوراق پلٹاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا اس ملک کو فرقہ پرستوں اور سیاست دانوں کی خیانت جتنا نقصان پہنچایا اتنا کسی خارجی دشمن نے نہیں پہنچایا؛ کیونکہ ان دونوں کو دین اور خوف خدا سے کوئی سروکار نہیں۔ فرقہ پرستوں کا دین انکی فرقہ پرستی اور سیاست دانوں کا سب کچھ انکی شیطانی سیاست ہے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ، دین اسلام ، قرآن اور کعبہ کا نام لیتے ہیں تو انکی مجبوری ہے، اس کی آڑ میں یہ لوگ سادہ لوح انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔حضرت امام حسین ؑ فرماتے ہیں:
لوگ دنیا کے غلام ہیں، اور دین انکی زبان پر چکنائی کی مانند ہے، جب تک دین سے ان کا مفاد وابستہ ہے ، دین کا چکر لگاتے ہیں؛ لیکن جب آزمایا جائے تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔
اس موقع پر کہ جب ملک میں وحشت پھیلی ہوئی ہے، اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی اور اسکی روک تھام کے لئے کوشش اور عملی اقدام کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی عادت سے باز نہیں آرہے ہیں، ہم نے اپنے بڑوں سے نالج تو سیکھے ہیں لیکن ایک دوسرے کا ادب برداشت اور ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا نہیں سیکھا؛ اسی لئے آج بھی ہم اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں روز اول کھڑے تھے۔
کافروں کی سرزمینوں میں لوگ کئی خداوں کو ماننے کے باوجود متحد ہیں، ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے احترام کے قائل ہیں جبکہ ایک ہی خدا کا عقیدہ رکھنے کے باوجود ہم تسبیح کے بکھرے دانوں کی مانند اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے کھڑے ہیں۔ ہمیں کلمہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ فکر اور کردار میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے، اور ھم سب کو علامہ اقبال ؒ کے ان افکار پر صدق دل سے توجہ دینے کی ضرورت ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
اللہ تعالیٰ ھم سب انسانوں کو کرونا اور اس طرح کے دوسرے امراض سے نجات عطا فرمائے، البتہ یاد رکھیں کہ فرقہ واریت، لادیینت اور عصبیت جیسے برے اخلاقی رویے ملک و قوم کے لئے کورونا سے زیادہ خطرناک ہیں، جس کے لئے ہمیں متحد ہوکر لڑنا ہوگا۔
والسلام
تحریر: ممتاز علی خاتمی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *