کیا اصلاح معاشرہ فقط ایک طبقے کی ذمہ داری ہے؟/ تحریر: محمد حسن جمالی
معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہے ـ معاشرے کی خوبی اور بدی کا میزان اس میں سانس لینے والے افراد ہے بنابرین جیسے افراد ہوں گے ویسا ہی معاشرہ ہوگا اس میں دورائے نہیں ـ

یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ہمارے معاشرے میں فسادات ہیں ، برائیاں ہیں، کوئی بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں جو ہر طرح کی قباحتوں سے پاک ومنزہ ہو، البتہ کمی وبیشی اور نوعیت و اثرات کے اعتبار سے ان میں فرق ضرور پایا جاتا ہےـ
بدیھی ہے کہ کوئی بھی باشعور انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کا معاشرہ غیر صالح ہو بلکہ ہر ایک کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ اس کے معاشرے میں فسادات کا وجود نہ ہو ، اس کا معاشرہ برائیوں سے پاک ہو، اس کا معاشرہ ترقی یافتہ ہو، اس کا معاشرہ امن کا گہوارہ ہو، اس کے معاشرے کی اصلاح ہو ـ
سوال یہ پیدا ہوتا کہ معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری کیا صرف ایک طبقے کی ہے ؟ پرسکون معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے ؟ صالح معاشرے وجود میں لانے کے لئے کن عوامل کو بروئے کار لانا ضروری ہے ؟ جواب یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اس میں رہنے والے افراد کی اصلاح سے جڑی ہوئی ہے اور افراد کی اصلاح تعلیم وتربیت سے ہی ممکن ہوجاتی ہے ـ جب اسلامی تربیتی زرین اصولوں کے مطابق معاشرے کے لوگوں کی تربیت ہوگی ، جب دینی تعلیم کے نور سے ان کے دل منور ہوں گے ،جب انہیں صحیح معنوں میں واجبات محرمات حلال وحرام اور اسلامی وظائف وفرائض کا علم ہوگا، جب ان کے اعتقادات مضبوط ہوں گے ،جب ان کی اخلاقیات درست ہوں گی تو ایسے افراد سے تشکیل پانے والا معاشرہ خود بخود صالح ہوگا ـ
آج اگر ہمارے معاشرے میں کرپشن عام ہورہی ہے ، حق وباطل مخلوط ہورہے ہیں، لوگوں کو جائز وناجائز اور حلال وحرام میں فرق نہیں ہورہا ہے، معاشرے میں دینی اقدار مسخ ہورہے ہیں، حسد غیبت جیسی روحی بیماریاں معاشرے میں مسلسل پھلتی جارہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ مخلتف وجوہات کی بناء پر دینی تعلیم وتربیت سے دور ہوتے جارہے ہیں، وہ معنوی پہلووں سے یکسر طور پر چشم پوشی کرکے مادیات کے اسیر ہوتے جارہے ہیں، ان کے دل ودماغ پر مادی مفادات کا سیاہ پردہ پڑھنے کے باعث وہ دینی تعلیم وتربیت کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں ، دنیا کی عیش ونوش اور زرق وبرق سے متاثر ہوکر وہ ابدی زندگی سے غافل ہوتے جارہے ہیں ـ
صالح معاشرہ وجود میں لانے کے ضروری ہے کہ اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد فکرمند رہے ، خصوصا والدین اپنے بچوں کو مغربی تعلیم دلواکر ان کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچنے سے کہیں زیادہ ان کی دینی تعلیمات کی روشنی میں تربیت سے مزین کرنے کے بارے میں سوچیں اور بھرپور اہتمام کریں ـ آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے والدیں اپنی پوری جمع پونجی اپنے بچوں کی مغربی نظام تعلیم کی مضبوطی پر تو خوش وخرم خرچ کرتے ہیں مگر بچوں کو اسلامی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے لئے پیسے خرچ کرنے کے تصور کرنے تک کو وہ لغو سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہکر اس عظیم وسنگین ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کی وجہ سے معاشرے میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا ہوجائے تو ہمیں کیا ہوگا معاشرے کی اصلاح تو طبقہ علماء کی ذمہ داری ہے ،اگر معاشرہ خراب ہوتا ہے تو اس کی وجہ فقط اس طبقے کی کوتاہی ہے یوں معاشرتی خرابیوں کا پورا ملبہ صنف روحانیت پر گراکر وہ اپنے کو برئ الذمہ قرار دیتے ہیں جب کہ یہ حقیقت کے برخلاف انتہائی منفور فکر ہے ـ
درست ہے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو رہنما کہلاتے ہیں اور ان پر معاشرے کی اصلاح کی ذمے داریاں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں ـ لیکن یہ مسلم ہے کہ اسلامی معاشرے میں ہر فرد اصلاح معاشرہ کا ذمہ دار ہے اور والدین کے لئے اپنی اولاد کی تربیت کرنا نہ فقط مباح یا ایک مستحب عمل ہے بلکہ نصوص دینی کے مطابق یہ ان کے فرائض میں شمار ہوتا ہے ـ قرآن کی صریح آیہ ہے ۔(قوا انفسکم و اھلیکم نارا)اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں
۔حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:(وتجب للولد علی الوالد ثلاث خصال اختیارہ لوالدیہ لتحسین اسمہ والمبالغة فی تادیبہ) باپ پر واجب ہے کہ وہ بیٹے کے لیے اچھا نام اختیارکرے اور باادب بنائے اور یہاں پر ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین اپنی دعا میں ایک پیارا جملہ ارشاد فرماتے ہیں : (الھم اعنی علی تربیتھم وتادیبھم وبرھم) خدایا اپنی اولاد کی تربیت، ادب اور نیکی کرنے میں میری مدد فرما اور اسی طرح بچے کی تربیت کے بارے ایک اور فرمان ان امام کا منقول ہے ۔(وحق ولدک فان تعلم انہ منک ومضاف الیہ فی عاجل الدنیابخیرہ وشرہ وانک مسئول عما ولیتہ بہ من حسن الادب ،والد لالة علی ربہ والمعونة لہ علی طاعتہ) اپنے فرزند کاتم پر ایک حق یہ ہے کہ تم اسے اپنا سمجھو اور یہ بھی جان لو کہ اس دنیا میں اسکی ہر اچھائی وبرائی اور ہر نیکی وبدی کا تعلق تم سے ہے اور تمہیں یہ جاننا چاہئے کہ سرپرست ہونے کی وجہ سے اپنے فرزند میں حسن ادب ،پیوست کرنے کی ذمہ داری تم پر ضرور ی ہے اور اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے کا فرض بھی تمہارے سر پر ہے اس کے علاوہ خدا کی عبادت واطاعت میں بچے کی مدد کرنا تمہارا کام ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ اچھی تربیت کرو کہ اگر عہد ہ بر آہوگئے توتم نے گویاحق ادا کردیا اورخدا کی بار گاہ سے تمہیں اچھا اجر ملے گا اور اگر کوتاہی کی تواس کی سزا بھی تمھیں ملے گی۔
معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار فقط ایک طبقے کو ٹھرانا لاعلمی کی دلیل ہے ـ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد پر اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جس طرح نماز واجب عمومی ہے ویسے ہی امر بالمعروف ونہی از منکر کرنا بھی ایک عمومی فریضہ الہی ہے لہذا ضروری ہے اصلاح معاشرہ کے لئے اس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد کوشاں رہے تب جاکر صالح معاشرے کا قیام ممکن ہوگا ـ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا کہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کررہی ہے ، جسے لکھنے والے نے اپنی تحریر میں مساجد اور مدارس کی ویرانی سے لیکر معاشرے کے اندر نئے ابھرنے یا ابھر کر جوان ہونے والے فسادات اور برائیوں کا ذمہ دار طبقہ روحانیت کو ٹھرانے کی کوشش کی گئی ہے اور آنجناب نے آیہ نفر سے استدلال کرتے ہوئے بڑے جزباتی انداز میں غیر مناسب باتیں جیسے )(ان کو اگر کوٸی خوف ہے تو فقر و تنگدستی سے۔۔۔۔۔
ان کو خوف ہے کہ اگر ایران و عراق کے پر آساٸش مقامات سے گلگت بلتستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان تبلیغ کے لٸے مستقل طور پر تشریف لاٸیںگے تو ان کے بیوی بچوں کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔بچوں کی تعلیم کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔مجتہدین سے ملنے والے مشاہروں کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔
حالانکہ یہ فقر کا خوف شیطان کی چال کے سوا کچھ نہیں۔
اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡر ……. ) لکھ کر یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ معاشرے کی تمام برائیوں کا سرچشمہ نجف وقم سے علماء کا تبلیغ کے لئے اپنے اوطان نہ لوٹنا ہے اور ابھی تک ان کی نظر آیہ نفر پر نہیں پڑھی ہے ـ کاش لکھنے والے حقائق ذرا سمجھ کر یہ شکوہ لکھنے بیٹھ جاتے اور ایران و عراق میں شب وروز ایک کرکے تعلیمات آل محمد کے حصول میں دل لگا کر عرق ریزی کرنے والے علماء کی حالات زندگی جان کر قلم اٹھانے کی کوشش کرتے تو آپ کھبی بھی ایسی بے بنیاد باتیں نہ لکھتے ـ محترم جناب راقم “فقر کے خوف سے وہ واپس نہ آنے والی بات تب ممکن ہوسکتی تھی کہ وہ ایران وعراق میں مالدار ہوتے ثروتمند ہوتے وہ تو ان مقامات پر فقر ہی کی زندگی تو گزار رہے ہیں ـ وہ اگر بقول آپ کے فقر سے خوف کھاتے ہوتے تو اس لائن کو چھوڑ کر کسی اور شعبہ زندگی اپنا کر خوب کماتے ، بینک بیلنس بناتے ـ مال بنانے کے لئے ایران وعراق سے بہتر ملکوں میں ہجرت کرجاتے ـ دوسری بات یہ ہے کہ موصوف نے بہت حساس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے لیکن اسے تمام زوایا سے جانچ پڑتال کرنے کے بجائے فقط کچھ باتیں لکھ کر ابھام چھوڑا ہے جو مناسب نہیں ـآیہ نفر سے استدلال کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن ناتمام صورت میں ـ ان کو وضاحت کرنی چاہئے کہ تفقہ فی الدین سے مقصود کیا ہے ؟ پھر تفقہ فی الدین کے لئے کتنے علوم پڑھنا ضروری ہے؟ کتنے سال درکار ہیں؟ انذار کب واجب ہے کن شرائط کے ساتھ؟ دوسری طرف سے ” فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون” کو بھی لاکر اس پر روشنی ڈالنی چاہئے تھی مگر …. مختصر یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر کوئی قلم اٹھاتا ہے تو انصاف کا دامن چھوڑنا کم ظریفی کی نشانی ہوتی ہے ـ اسی طرح موصوف نے استقراء ناقص کا سہارا لیا ہے یعنی بعض جزئیات کو دیکھ کر کل پر حکم لگایا گیا ہے جو علمی دنیا میں درست نہیں ـ خیر اشارہ کرنا مقصو تھا ـ بلاشبہ لکھنے والے کو سوء تفاہم ہوا ہے ـ امید ہے وہ اپنی تحریر پر نظر ثانی کریں گے ـ بہر صورت ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا اصلاح معاشرہ فقط ایک طبقے کی ذمہ داری ہے؟
دیدگاهتان را بنویسید