تازہ ترین

کیا قبور کا احترام جائز نہ سمجھنے والوں کا عقیدہ بدل گیا ہے؟/تحریر: محمد حسن جمالی

سوشل میڈیا کا تعلق براہ راست انسان کے ذہن سے ہے۔ یہ جہاں انسان کی ذہن سازی کے لئے مؤثر ہتھیار ہے، وہیں انسانی ذہن کی تخریب کے لئے بھی کارآمد وسیلہ ہے۔ تربیت یافتہ پڑھے لکھے لوگ اسے مفید کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور تعلیم یافتہ تربیت سے تہی افراد اسے منفی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اسے قبیح چیزوں کی تشہیر، مذہبی، لسانی اور قومی تعصبات کی ترویج، اسلامی تعلیمات کے خلاف نظریات کی اشاعت، حق اور باطل کی پہچان کے راستے میں ایجاد شبھات سمیت مختلف پریپیگنڈوں کو پھیلا کر سادہ لوح افراد کو گمراہ کرنے کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان ناپاک اہداف تک رسائی حاصل کرنے کے لئے وہ شب و روز سوشل میڈیا پر مشغول رہتے ہیں۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5452

ایک ہفتہ پہلے سوشل میڈیا پر حضرت عمر ابن عبد العزیز کی قبر منہدم کرنے کا الزام شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں پر لگا کر جو طوفان برپا کیا گیا، وہ بعض گمراہ افراد کا پریپیگنڈہ تھا، حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہ تھاـ اسے پوری منصوبہ بندی کے تحت بعض ناداں افراد نے سوشل میڈیا پر اچھالا اور سادہ لوح افراد نے اسے حقیقت سمجھ کر ان کے ساتھ اپنی آواز ملانے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے واویلا کرنا شروع کر دیاـ اس پریپیگنڈے کا وہ لوگ بھی حصہ بنے، جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ قبروں اور مردوں کا احترام کرنا، ان کی زیارت کرنا جائز نہیں بلکہ بدعت ہے، ایسے میں اس سؤال کا ذہنوں میں ابھرنا فطری ہے کہ کیا قبور کے احترام کو جائز نہ سمجھنے والوں کا عقیدہ بدل گیا ہے۔؟
مشہور بات تو یہ ہے کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں میں کہوں گا پرپیگنڈہ کرنے کے لئے بھی عقل چاہیئے ہوتی ہے۔ کتنے احمق تھے وہ لوگ جنہوں نے عمر ابن عبد العزیز کی قبر مسمار کرنے کا الزام شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں پر لگا کر اپنے تئین سکون کا سانس لیا، ان نادانوں کو اتنا تو پتہ چلنا چاہیئے تھا کہ شیعہ مکتب فکر میں قبور کی بے احترامی جائز نہیں، عام مسلمانوں کی قبروں کو گرانا اس مسلک کے ماننے والوں کے ہاں فعل حرام ہے تو عمر ابن عبد العزیز جیسی مسلمانوں کی شخصیات کی قبور منہدم کرنے کو وہ کیسے جائز سمجھ سکتے ہیں۔؟
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان کی تمام حرکات و سکنات، فعالیتوں اور سرگرمیوں کا محرک اصلی اس کے ذہن میں پختہ ہونے والے نظریات ہوتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں ہونے والی دہشتگردی اور خودکش حملوں میں ملوث افراد ایک خاص فکر اور عقیدے کی بنیاد پر ہی بے گناہ مسلمانوں کی جان سے کھیلتے ہیں، ان کو باقاعدہ ایسے گھناؤنے کاموں کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، ان کے ذہنوں میں اس غلط فکر کو راسخ کیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے مدد لینا شرک ہے۔ اسی طرح شفاعت اور قبور معصومین کی زیارت کا عقیدہ رکھنے والا مشرک ہے، جسے قتل کرنے میں نہ فقط کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ثواب کا کام ہے۔
اس بے بنیاد اور غلط عقیدے کو پھیلانے میں سعودی عرب نے بڑا کردار ادا کیا۔ سلفی اور تکفیری ٹولے کو فنڈنگ سعودی عرب کرتا ہے، یہاں تک کہ وطن عزیز پاکستان میں سعودی فنڈنگ سے بڑے مدارس وجود میں آئے، جو بظاہر تو مدرسے ہیں، لیکن درحقیقت وہ دہشتگروں کی تربیت گاہ ہیں، ان میں ملک کے طول و عرض سے بچوں و نوجوانوں کو جمع کرکے دہشتگردی کی تعلیم وت ربیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ ہزارہ مؤمنین پر ہونے والا دہشتگردی کا حملہ ہو یا دیگر جان سوز دہشتگردی کے سانحات، حملہ کرنے والے دہشتگرد تکفیری مدارس کے طلباء ہی نکلے ۔ یہ اور بات ہے کہ ریاست ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں۔؟
مزے کی بات یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خود ایسے مدارس کی سرپرستی کرتے ہیں، اس کے باوجود اس موقعے پر واضح الفاظ میں انہوں نے بھی بیان داغا انہوں نے اپنے بیان میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے مقدس مزار کی شرپسند عناصر کے ہاتھوں شہادت، پامالی اور بے حرمتی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس دل دہلا دینے والے واقعے سے عالم اسلام کے دل و دماغ لرز اٹھے ہیں، اندوہناک واقعے پر امت مسلمہ کے دل رنجیدہ اور خون کے آنسو رو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسلام مدفون انسانوں کے اجساد و باقیات کی تضحیک کی کسی صورت اجازت نہیں دیتاـ کیا مولانا فضل الرحمن کو اپنی زندگی میں جنت البقیع میں مدفون رسول کی باعظمت بیٹی کی قبر مطہر سمیت ہزاروں اولیاء کرام کے قبور مسمار کرنے پر آل سعود کی کھلے الفاظ میں مذمت کرنے کی توفیق ہوگی۔؟ ہرگز نہیں اس کی وجوہات اظہر من الشمس ہیں اور لکھنے سے بے نیاز۔
مسلمان اپنے دینی اور مذہبی اعتقادات و نظریات کے مطابق اپنی زندگی کی گاڑی کو مقصد کی طرف رواں دواں رکھتے ہیں، اگر ان کے عقائد کی بنیاد قرآنی تعلیمات ہوں تو وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات و اعتقادات کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، وہ کٹ مریں گے، مگر عقیدہ فروشی کے لئے حاضر نہیں ہوں گے۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو شیعہ مذہب کے پیروکاروں کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ نبش قبر کرکے مردوں کی لاشوں کی بے احترامی کرنا جائز نہیں، اگر کسی کو اس میں شک ہے تو وہ اس مکتب فکر کی اعتقادی اور فقہی کتب کا مطالعہ کرکے دیکھ سکتا ہے۔
آج تک یزید اور اس جیسے شیعہ اماموں کے قاتلوں اور دشمنوں کی قبور محفوظ ہیں، شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا، یہاں تک کہ شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام حضرت امام رضا ؑ کا قاتل تو ان کے پہلو میں ہی مدفون ہے اور کسی نے اس کی قبر کی بے احترامی کرنے کا سوچا تک نہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں قبور کی بے احترامی، مردہ جسموں کی پائمالی جائز نہیں، لیکن پراپیکنڈہ کرنے والوں کا تو حقائق سے کیا تعلق؟ انہوں نے تو اپنا شیطانی کام کرکے اپنے برے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان سطور کو لکھنے کا مقصد فقط سادہ لوح لوگوں کو حقیقت سے باخبر کرنا ہے کہ وہ اس طرح کی پراپیگنڈے کے جال میں جلد پھنس کر گمراہ ہونے کے بجائے اپنی خداد عقل کی قوت سے سوچیں، آخر شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والے کیسے اس طرح کے قبیح کاموں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔؟
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کا عقیدہ اور نظریہ تو قبور کی بے احترامی کرنا حرام ہو، لیکن عملا” وہ حضرت عمر ابن عبد العزیز کی قبر مسمار کریں۔؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ انسان کی عملی حرکات کا اصلی محرک اس کے نظریات ہوتے ہیں۔؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ تکفیری خشک عقیدے کے حامل داعشی ٹولے کا کام تھا۔ اب ہم آتے ہیں اس پراپیگنڈے کے اصل مقصد کی طرف۔ بعض نادانوں نے اس پراپیگنڈے کو کیوں اچھالا؟ ان کا مقصد کیا تھا؟ جواب واضح ہے کہ آٹھ شوال کو دنیا بھر میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے یوم انہدام جنت البقیع مناتے ہیں۔ حقیقت میں اس دن آل سعود کے مظالم کا پردہ چاک ہوتا ہے، انہدام جنت البقیع کے باعث اس کا شرمناک چہرہ اس دن پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوتا ہے، جسے چھپانا اب ممکن نہ رہا۔
ہر سال یوم بقیع آل سعود اور اس کے نمک خواروں کے لئے آنکھوں کا کانٹا اور گلے کی ہڈی ثابت ہوتا ہے۔ عقل برہان اور منطق سے جب وہ آل سعود کے مظالم کا دفاع نہ کرسکے تو اس سال ٹھیک یوم بقیع کی تاریخ کو انہوں نے اس پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا پر پھیلایا، خود ساختہ دو ویڈیو کلپ بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کئے، مگر ان کو کامیابی نہیں ملی۔ حالات حاضرہ اور حقائق سے باخبر افراد نے اسے یکسر مسترد کرکے پراپیگنڈہ کرنے والوں کو مایوسی سے دوچار کر دیا، البتہ ان کے اس پراپیگنڈے کو تقویت پہنچانے والے نامی گرامی حضرات کے بیانات پڑھ سن کر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا کہ کیا قبور کا احترام جائز نہ سمجھنے والوں کا عقیدہ بدل گیا ہے۔؟

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *