حضرت فاطمہ زہرا (س)کی طرز زندگی بشریت کے لیے راہنما ہے۔
مقدمہ:
جناب حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرز زندگی کیسی تھی؟
آیا ہماری طرز زندگی بھی ویسے ہی ہے جیسی زندگی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تھی؟
آج کے اس ماڈرن دور میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے مادیات میں بے شمار ترقی کی ہے اور انسانوں کے لیے ان کی زندگی میں بے شمار آسانیاں اور آرامش پیدا کی گئی ہے تاکہ انسان بہت کم عرصے میں کمالات کے بہت سارے منازل طے کرسکے آیا انسان اس مطلوبہ کمال تک پہنچ گیا یے جہاں پہنچنا چاہیےتھا ؟ انسان اپنی اس موجودہ طرز زندگی سے راضی اور مطمئن ہے؟ جواب ملے گا ھرگز نہیں ! اور مشاہدے میں بھی یا بات آئی ہے کہ انسان جہاں مادیات میں وہ بے انتہاء ترقی کرچکے ہیں لیکن معنوایات میں وہ حیوانوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں جیسا کہ قرآن نے بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے (أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ)(1)
<<یہ لوگ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی پست تر ہیں یہی لوگ ہی غافلین میں سے ہیں>>
کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے کی جو طرز زندگی ہے وہ انحراف کا شکار ہوگئے ہیں زمانہ قدیم میں ہمارے معاشرے کا طرز زندگی خدائی اور اچھے احساسات اور جذبات سے سرشار تھے اب وہ انحراف کا شکار ہوچکے ہیں
اس وقت زیادہ تر مسلمان ممالک کے لوگ مغربی لوگ اور ان کے کلچر کو فالو کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو ان کی زندگی کی طرح گزارنا چاہتے ہیں جبکہ مغرب میں نہ بہن بھائی کا تمیز ہے،نہ ہی ماں بیٹے کا تمیز ہے ،نہ ہی حلال حرام کی تمیز ہے کچھ بھی نہیں ہیں اس کے باوجود کچھ نادان مسلمان ان کو ہی فالو کرتے ہیں اور ان کی طرز زندگی گزارنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمانوں میں الحمد اللہ بہت سارے اچھے اور بہترین نمونے اور آئیڈیل موجود ہیں ہمیں چاہیے ہم ان آئیڈیلز کی طرز زندگی کو پہلے سمجھیں اور اسی طرح اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کریں ویسے تو ہمارے پاس الحمد للہ بہت سارے نیک اور اچھے آئیڈیلز ہیں میں اس مختصر مقالہ میں ان میں سے صرف ایک آئیڈیل کی طرز زندگی بیان کرنے کی کوش کروں گا جو عالمين کی عورتوں کے سردار ہیں جس کے بارے میں خود رحمت للعالمین ارشاد فرماتے ہیں <<الفاطمة ام أبيها>>
بہت سارے شیعہ سنی علماء کرام نے اس حدیث کو نقل کی ہیں(2)
ہمیں چاہئے ہم اپنی زندگی کے تمام تر معیارات کو مکتب اھلبیت ع کے اصول و قواعد کے تحت گزارے تاکہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوسکیں
جناب سیدہ س وہ آیڈیل ہے جس کے بارے میں زمانے کا امام امام مہدی علیہ السلام یہ فرمارہا ہے: «اِنَّ لی فی ابنة رسولِ الله اُسوةٌ حَسَنَةٌ»
خواتین کو فخر کرنا چاہیے چونکہ سارے اھلبیت ع اور بڑے بڑے مجتہدین یہ بات کرتے ہیں کہ ان کے لیے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آیڈیل اور نمونہ عمل ہے۔جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے طرز زندگی کے الگ الگ پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور واقعا ھم جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حقیقی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہیں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی معرفت حاصل کرنے کے کیے قرآن کا سہارا لینے کی ضرورت ہے چونکہ فاطمہ سر الہی ہے اور قرآن کلام الہی ہے۔
آیے محترم قارئین ھم جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرز زندگی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
*✅1۔جناب فاطمہ س انسانی شکل میں حوریہ:*
جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: «انّ فاطمه خلقت حوریه فی صورة انسیه>>(3)
بیشک فاطمہ انسان کی شکل میں حوریہ خلق ہوئی ہے۔
یہاں سے تمام عالم بشریت کو یہ درس ملتا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے کچھ خاص آداب ہے اگر اس کا خیال رکھا جایے تو بچہ بہت ہی خبصورت پاک پاکیزہ اور باکمال پیدا ہوسکتا ہے مفاتیح الجنان اور آداب اسلامی کی کتابوں میں موجود ہے وہاں پر قارئین رجوع کرسکتے ہیں۔
رسول اللہ ارشاد فرماتے ہیں:فاطمه حوراء انسیه فکلّما اشتقت الی رائحة الجنة شممتُ رائحة ابنتی فاطمه، فما قبّلتها قطّ الاّ وجدت رائحة شجرة طوبی منها»(4)
فاطمہ انسانی حور ہے میرا دل جب بھی بھشت کی خوشبو کے لیے تڑپے تو فاطمہ کو سونگھتا ہوں
جب بھی فاطمہ کا بوسہ لیا شجرہ طوبی کی خشبو سے سیراب ہوجاتا تھا۔
*✅2۔جناب حضرت فاطمہ س کا ایمان:*
ایمان یعنی اللہ تعالی کے بارے میں گہری معرفت اور سچے دل سے اس اس پر یقین رکھنا۔
جناب سیدہ س کا ایمان اسقدر عالی اور محکم تھا خود آئمہ علیہم السلام آپ س کو اپنے لیے اسوہ عمل قرار دے رہے ہیں رسول اللہ فرماتے ہیں: انّ ابنتی فاطمه ملأ الله قلبهما وجوارحها ایماناً الی مشامئها۔۔(5)اللہ تعالی نے میری بیٹی فاطمہ کے پورے اعضاء و جوارح اور دل کو ایمان سے بھر دیا ہے۔
یہی ہمارے لیے درس ہے ہم بھی اپنی زندگی میں اللہ پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے کچھ ملے یا نہ ملے، جس کسی نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر ہمیشہ اللہ پر ایمان اور بھروسہ رکھا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے شک کی وہ ناکام اور نامراد ہوگیا۔
*3۔جناب فاطمہ س کی عبادت اور نماز شب:*
بے شک جناب سیدہ فاطمہ کی عبادت اسقدر عظیم تھی جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہوجاتی تو سارے ملائکہ آپ کی تسبیح و تقدیس سننے کے لیے صف لگاتے تھے
اور آپ کے ساتھ فرشتے بھی ھم صدا ہوجاتے تھے۔
یقینا اللہ کی عبادت اور نماز شب انسان کی زندگی میں بہت بڑا کرادرا ادا کرسکتا ہے اس کی زندگی کو تبدیل کرسکتا ہے اگر چہ عبادت فقط نماز میں منحصر نہیں ہے لیکن کمال بندگی نماز ہی میں پاسکتے ہیں نماز کے ذریعے انسان اپنی نفس اور اپنے اعمال کی اصلاح کرسکتے ہیں
*✅4۔ جناب فاطمہ س کی شخصیت اور آپ کا ادب:*
کسی بھی انسان کی شخصیت اس کی رفتار اور آداب سے پہچانی جاتی ہے ۔جناب ام سلمہ زوجہ رسول اللہ روایت بیان کرتی ہے : رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا میری بیٹی فاطمہ کی تربیت کی جایے لیکن خدا کی قسم میں نے جناب فاطمہ س کو مجھ سے زیادہ باادب اور مہذب پایا اور ہر چیز کے بارے میں مجھ سے زیادہ اور بہتر جانتی تھی<<کانت والله أداب منی واعرف بالاشیاء کلها>>(6)
*✅5۔جناب فاطمہ س کی شادی اور جھیزیہ:*
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ہر آیے دن شادی بیاہ کے رسومات میں عجیب و غریب قسم کے خرافات اضافہ ہوتے جارہے ہیں اور نئے آنے والے جوانوں کے لیے شادی کے راہ میں بہت ساری رکاوٹیں اور مشکلات کھڑے کرتے جارہے ہیں آیندہ نہ چندان دور ! بلکہ بہت ہی قریب میں جوانوں کے لیے شادی کرنا بہت مشکل ہوگا جب شادی بیاہ مشکل ہوجایے تو اس معاشرے میں زنا،ریپ عام ہوجایے گا اس طرح وہ انسانی عظیم معاشرہ درندگی اور وحشی بن جایے گا امام علی علیہ السلام اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی اور ان کے جھیزیہ ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔۔۔
حضرت فاطمہ زہرا کا مہر 40 مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علی ع کے پاس ایک تلوار، ایک زرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام ص نے فرمایا : یا علی تلوار کو جہاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو۔ رسول اکرم ص نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو! جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچا۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ہوا۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم ص کے گھر لایا گیا تھا، اس میں چودہ چیزیں تھی۔
شہزادی عالم، زوجہ علی ع فاطمہ زہراء ع کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا۔ رسول اکرم ص اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے(7)
کاینات کے امیر اور خیرنساء العالمین کی مثالی شادی نے دنیا کو یہ درس دیا کہ اگر انسان نظام ہدایت کی محوریت میں انتہائی سادہ طریقے سے شادی کرناچاہئے اور بہت ہی نیک اور مثالی زندگی بسر کرنا چاہے تو انکے لئے حضرت علی اور حضرت زہرا کی مثالی شادی آئیڈیل اور نمونہ ہے۔
*✅6۔جناب فاطمہ اور شوہر داری:*
حضرت فاطمہ س کی زندگی میں پیغمبر اکرم ص کے زمانے کی دیگر خواتین کی طرح بہت سے مشکلات اور مسائل تھے، لیکن کبھی بھی آپ س نے ان مشکلات اور غربت کو اپنے نام دار شوہر امام علی علیہ السلام کے سامنے بیان نہیں کیا ہمارے معاشرے میں ساری خواتین کو چاہیئے جناب فاطمہ س کی سیرت پر چلیں اور اپنی زندگی میں موجود مشکلات اور پریشانیوں میں صبر کرے اور شوہر کی غربت میں اس طعنہ نہ دیں بلکہ اس کا حوصلہ دیں اسطرح ہی ممکن ہے ایک خبصورت اور نورانی زندگی کا آغاز ہوجایے۔
امیر المومنین ع ہمیشہ جناب فاطمہ س کے بہترین شوہرداری اور اپنے وظیفے کو بہترین طریقے سے انجام دینے پر لطف اندوز ہوتے تھے اور آپ سے راضی رہا کرتے تھے جیسا کہ جناب فاطمہ س نے اپنی زندگی کے آخر ایام میں جب آپ پر مسلمانوں نے ظلم کیا اور آپ کے پہلو زخمی کیا آپ کے پیٹ میں جو بچہ تھا جناب محسن کو شہید کیا گیا آپ بستر بیمار پر تھی امیر المومنین علی (ع) سے خطاب کیا: اے میرے چچازاد آپ نے مجھے زندگی میں کبھی بھی جھوٹے اور خائن نہیں دیکھا اور جب سے میں آپ کے ساتھ ہوں کبھی میں نے آپ کی مخالفت نہیں کی ہے۔!؟
امام علی علیہ السلام نے یہ سننے کے بعد فرمایا:«معاذ الله انت اعلم بالله و ابرّ واتقی و اکرم و اشدّ خوفاً من الله ان اوّنجک بمخالفتی»(8)
“خدا سے پناہ مانگتا ہوں خدا کی قسم آپ زیادہ عالمہ ہے اور آپ اس قدر نیک ، پرہیزگار اور خدا شناس ہو کہ معاذ اللہ میں آپ کو تنبیہ کروں ”
اگر آج کے معاشرے میں عورتیں اپنے شوہروں کو اپنے رویے اور بہترین شوہرداری سے مطمئن اور راضی کرے تو یقینا ان عورتوں کو انعام ملنا چاہیے، اگر ایسا ہو جائے تو یقینا ہمارے معاشرے کے بہت سے اخلاقی مسائل حل ہو جائیں گے اور طرز زندگی میں بہتری آئے گی۔ہمارے معاشرے کی اصلاح خواتین کے ہاتھ میں ہے جو اگر اپنے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا کریں اور اس پر عمل کریں صحیح معنوں میں جناب فاطمہ س کی طرز زندگی سے سبق حاصل کرلینا چاہئے۔
*✅7۔جناب فاطمہ س اور بچوں کی تربیت:*
مشہور و معروف حدیث :ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اس سے مراد یہ ہے بچوں کے جنتی اور جہنمی ہونے میں ماں کا کردار ہے ماں چاہے تو بچے کی ایسی تربیت کرے وہ زمانے کا حسین بن جایے اگر تربیت خراب ہو تو وہ زمانے کا یزید بن جایے
جناب فاطمہ س اپنے بچوں کی پرورش میں ہم سب کے لیے ایک نمونہ عمل ہیں، کیونکہ انھوں نے ایسے بچوں کی پرورش کی جنہوں نے خدا کے دین کی حفاظت کی، انھوں نے حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم جیسے بچوں کی پرورش کی، جن میں سے ہر ایک نے خدا کے دین کی ترویج میں عظیم الہی کردار ادا کیا۔ جناب فاطمہ س نے اپنے طرز عمل سے اپنے بچوں کو علم، ہمت اور تقویٰ کو بہت بہتر انداز میں سیکھا یا ۔وہ جرات جو امام حسین علیہ السلام نے اپنی والدہ سے سیکھی، وہ کربلا میں دنیا کو سکھائی، اور وہ عزت جو زینب اور ام کلثوم نے اپنی ماں سے سیکھی تھی کوفہ اور شام میں سب کو سکھایا کہ دین کی راہ میں رواداری ضروری ہے۔
*✅8۔جناب فاطمہ س اور پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرنا:*
قرآن ہمسائیگی کا حکم دیتا ہے اور پڑوسیوں کے حقوق کے خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایسے ہی تھے ، اسی لیے امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنی والدہ کو ہمیشہ اپنی عبادت اور نماز شب میں ہمیشہ پڑوسیوں کے لیے دعا مانگتے ہوے دیکھا ہے،میں نے کہا اماں جان آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں؟ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پڑوسیوں کے لیے دعا کرنی چاہئے۔(9)
اگر ہم زہرا مرضیہ س جیسے پڑوسیوں کے حقوق کا احترام کریں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا انداز زہرا سے سیکھیں تو معاشرے میں کیا خوبصورت واقعات رونما ہوں گے؟
*✅9۔جناب فاطمہ س کی حیا اور عفت:*
عفت اور حیا انسان کی باطنی طاقت ہے، روایات میں عفت اور حیا کو تقویٰ اور ایمان کا لازمہ قرار دیا گیا ہے۔ جناب فاطمہ س بھی عفت و حیاء کی ایک مثال ہے ، آپ بچپن سے ہی عفت کا مظہر تھی، روایت ہے کہ جب جناب فاطمہ س گھر سے باہر نکلے، ابو بکر کے دربار سے فدک کو واپس لینے کے لیے ایسا پردہ کیا
«هی لاثت خمارها علی رأسها واشتملت بجلبابها تطأ ذیولها»(10)
اسطرح آپ نے حجاب کی آپ کا سر سے لیکر پاوں تک مکمل چادر کے اندر تھی چلتے ہوے چادر پاوں کے نیچے تک آتی تھی۔
امیر المومنین نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا ہے تو وہ سب جواب دینے سے عاجز تھے، میں نے حضرت فاطمہ س سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: و عن علی ع أنه قال قال لنا رسول الله ص أی شی?ء خیر للمرأة فلم یجبه أحد منا فذکرت ذلک لفاطمة ع فقالت ما من شی?ء خیر للمرأة من أن لا ترى رجلا و لا یراها فذکرت ذلک لرسول الله ص فقال صدقت إنها بضعة منی»(11)
“عورت کے لیے سب سے افضل اور بہتر چیز یہ ہے کہ عورت کو نہ کوئی نامحرم دیکھے اور نہ ہی وہ کسی نامحرم کو دیکھے” رسول خدا ص اس جواب سے بہت خوش ہوے اور فرمایا : بلکل صحیح جواب دیا ہے بیشک فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔
اگر عورتیں اس درس کو جناب سیدہ سے سیکھ لیں تو یقینا معاشرے بہت سارے مشکلات ختم ہوسکتی ہے خواتین کو اپنے پہنے والے لباس میں ان چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ایسا لباس انتخاب کرے جس سے پورا بدن ڈھک سکے اور نامحرم کی نظر سے محفوظ رہ سکے تمام خواتین و حضرات کو چاہیے عفت اور حیا کے معاملے میں جناب فاطمہ س کی پیروی کرے۔(12)
*✅10۔جناب فاطمہ س اور سچ بولنا:*
انسان کو چاہئے ہمیشہ اپنی زندگی میں سچ بولیں اور سچ کا ساتھ دیں جیسا کہ روایت میں ہے ہر برائی کی چابی جھوٹ ہے اور بہت بڑی گناہ ہے۔(13)
جناب فاطمہ اپنی زندگی میں سچ اور سچائی کی اعلی مثال تھی جناب عائشہ کہتی ہے میں نے فاطمہ سے زیادہ سچا کسی اور کو نہیں دیکھا وہ بلکل اپنے باپ رسول اللہ کی طرح سچی تھی۔(14)ہمیں چاہئے اپنی طرز زندگی میں سچ اور سچائی کو جناب فاطمہ س سیکھیں اور عمل پیرا ہوجاے۔
*✅11۔ جناب فاطمہ س کا محتاج اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا:*
قرآن اور روایات ہمیں ضرورتمند ،مسیکن،یتیم ،فقیر، اور بے چاروں کی مدد کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہ وہ عظیم کام ہے جس کے بارے میں کل قیامت کے دن پوچھا جایے گا،قیامت کے دن جہنمیوں سے پوچھا جایے گا تمھیں کس جرم میں جھنم میں ڈالا گیا ہے؟ کہینگے ہمیں چند جرم کی وجہ سے جھنم میں ڈالا گیا ہے:1۔ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔2۔ھم غریبوں کی مدد نہیں کرتے تھے۔۔۔
عن علی ع أنه قال قال لنا رسول الله ص أی شی?ء خیر للمرأة فلم یجبه أحد منا فذکرت ذلک لفاطمة ع فقالت ما من شی?ء خیر للمرأة من أن لا ترى رجلا و لا یراها فذکرت ذلک لرسول الله ص فقال صدقت إنها بضعة منی»(15)
جناب سیدہ فاطمہ غریبوں اور فقیروں کی ہر ممکن مدد کیا کرتی تھی انہیں کھلاتے تھے جب پنجتن پاک علیہم السلام نے تین دن روزہ رکھا اور افطار کے وقت کبھی یتیم،کبھی اسیر،کبھی فقیر آتے اور اپنا سب کچھ انہیں دیتے آپ کی شان میں سورہ دھر نازل ہوئی(16)
ہمارے معاشرے میں موجود جو پیسے والے ہیں ان کو چاہے جناب فاطمہ س سے درس حاصل کرتے ہوے اپنے ارد گرد فقیر غریب غرباء کی مدد کی جایے اور ان پر رحم کرے تو یقینا معاشرے سے فقیر اور غربت ہی ختم ہوجائے معاشرے میں بہت سے مسائل غربت اور نداری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اگر مخیر حضرات ان پر توجہ دے تو یقینا ان کی زندگی بدل جایے اور یہی ہے حقیقت میں طرز زندگی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اللہ تعالی ہم سب کو جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرز زندگی کو سمجھ کر اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما الہی آمین
*🔰منابع و ماخذ:🔰*
(1)۔سورہ اعراف آیت 189
(2)الکاشف فی معرفة من له روایة فی الکتب الستة، حرف الفاء
ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص57؛ بحار الانوار، ج 43، ص 167
(3)علامه مجلسی، بحارالانوار، بیروت، دار صادر، بیتا، ج 43، ص 7.
(4)علامه مجلسی، بحارالانوار، بیروت، دار صادر، بیتا، ج 43، ص 7.
(5)علامه مجلسی، بحارالانوار، بیروت، دار صادر، بیتا، ج 43، ص 7.
(6)علامه مجلسی، بحارالانوار، بیروت، دار صادر، بیتا، ج 43، ص 7۔
(7)اربلی، کشف الغمه فی معرفة الائمه ج 1 ص 360 ؛. محمد باقر مجلسی ،جلاء العیون – ص 115 114۔
(8)اربلی، کشف الغمه فی معرفة الائمه ج 1 ص 360 ؛. محمد باقر مجلسی ،جلاء العیون – ص 115 114۔
(9)۔ شیخ مفیدالاختصاص ،ص336۔
(10)طبرسی، الاحتباج، چاپ اول، قم، اسوه، 1413، ج 1، ص 253.
(11)قاضی نعمان ، دعائم?الإسلام ج 2 ص 215۔
(12) رک امیرعلی حسنلو ،پوشش در سیره معصومان ؛قم پژوهشگاه فرهنگ وعلوم 1392۔
(13) الکافی،ج2،ص338-
14فاطمه الزهرا بهجه قلب المصطفی،ص257۔
(15)قاضی نعمان ، دعائم?الإسلام ج 2 ص 215 ۔
(16)انسان/8۔
دیدگاهتان را بنویسید