تازہ ترین

گلگت بلتستان۔۔۔ مزید امتحان نہ لیا جائے

   تحریر: سید قمر عباس حسینی qamarhussani@yahoo.com    گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع ہوچکی ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ سیاسی عمائدین اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جی بی پاکستان کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ […]

شئیر
44 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1482

 

 تحریر: سید قمر عباس حسینی

qamarhussani@yahoo.com 

 

گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع ہوچکی ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ سیاسی عمائدین اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جی بی پاکستان کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1970ءمیں صدر پاکستان جنرل محمد یحیٰی خان نے یہاں ایڈوائزری کونسل قائم کی، ذواالفقار علی بھٹو  جب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے 1972ء میں گلگت بلتستان میں تین اضلاع بنا کر ترقی کے راستے کھول دیئے۔ 1977ء کو پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارشل لا نافذ کیا گیا۔ 1982 میں صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے گلگت بلتستان اور دیامر کے تینوں اضلاع کے لئے وفاقی مجلس شوریٰ میں ایک ایک مبصر کی سیٹ مختص کی۔ 1994ء کے انتخابات کو بینظیر بھٹو نے جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی بڑی بڑی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے آئیں، جو اب بھی انتخابات کے موسم میں بڑے بڑے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے آتی ہیں۔ 2002ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے آئینی اصلاحات کے پکیج کا اعلان کرکے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کو اسمبلی میں بدل دیا اور اسی طرح بلتستان کے غیور عوام نے بھی پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

 

1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ  میں بلتستان کے 74 افراد درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور 89-1986 میں 24 جبکہ 1999ء میں 83 افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ جب جنگوں کا موسم آئے تو گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے، جب سیاحت کے  شعبے سے کچھ لینا ہو تو کے2 پاکستان حصہ ہے، دیوسائی کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے، جب سیاچن بارڈر کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے، جب شاہراہ قراقرم کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے، لیکن جب آئینی حقوق  اور اقتصادی راہداری کی بات آئے تو یہ علاقہ متنازع  ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت  ہے اگر اتنا بڑا عرصہ  اس خطے کو بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو  اس میں موقع پرست سیاسی افراد اور جماعتوں کا ہاتھ ہے۔ اگر ہمارے نمائندے اسمبلی میں صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی کرتے تو بہت پہلے آئینی حقوق مل چکے ہوتے، لیکن انہوں نے اس علاقے کے نام پر سیاسی فائدے تو لئے مگر علاقے کے لئے کہیں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت نہ کی۔ جس ابتر حالات سے اس جنت نظیر خطے کو دوچار رکھا گیا ہے، آج بھی ملکی سیاسی سیٹ اپ کے تناظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اس خطے کے عوام کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جائز حیثیت مل سکے۔

 

قوم مفاد پرستوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ سیاسی عمائدین کا نہ کوئی نظریہ ہے، نہ کوئی زبان اور نہ ہی یہ کسی اقدار کے پابند ہیں۔ یہاں  دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ نمائندے ایسے ہوں جو  معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، نہ صرف نوکریوں اور تبادلوں کی سیاست، الیکشن میں اقربا پروری، رشوت، ذاتیات کی جنگ اور علاقہ پرستی جیسے کمترین اور ذلیل ترین ہتھکنڈے ہی سیاست کا دار و مدار ہوں۔ اب ستم بالائے ستم یہ کہ جو علاقہ سالہا سال سے انتظامی، ثقافتی اور دینی اعتبار ایک ہو، اس وحدت کو سیاسی مفادات کی خاطر تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس قوم کا مزید امتحان نہ لیا جائے، عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی بہت لبریز ہوچکا ہے۔

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *