گلگت بلتستان پر ثقافتی یلغار کے اسبا ب اور کربلا کے آئینے میں راه حل
گلگت بلتستان پر ثقافتی یلغار کے اسبا ب اور کربلا کے آئینے میں راه حل
تحریر: محمد صادق جعفری (صادق الوعد)
اشاریہ
وہ قومیں زنده ره سکتی ہیں جو شب وروز چیلنجز کا مقابلہ کرتی ہیں۔ جو قومیں اپنے گذشتہ کو آینده کے لئے پل بنانے میں ناکام رہ جائیں۔ جوآباء و اجداد کی وراثت کو فراموش کردیتی ہیں ایسے قوموں کی نہ دنیا میں قدر دانی ہوتی ہے اور نہ آینده نسلیں نیک نامی سے یاد کرتی ہیں۔ خداند متعال قرآن میں فرماتا ہے: وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا.( نساء/ 141) اس آیت کا واضح پیغام یہ ہے کہ خدا وند متعال کسی کافر کو کسی بھی مسلمان پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔چاہئے انفرادی معاملات ہوں، معاشرتی یابین الاقوامی سطح کے مسائل۔ ویسے تو ہر اسلامی ملک پر ثقافتی یلغارکا ایک طوفان آیا ہوا ہے لیکن کچھ مخصوص جگہوں پر اس طوفان کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ان میں سے ایک گلگت بلتستان کا یہ چھوٹا مگر ہر حوالے سے یہ اہم علاقہ بھی ہے۔ لہذا ہمیں یہ کہاوت ” اول تشخیص بعد علاج” پر عمل پیرا ہوکر پہلے ثقافتی یلغار کی راہوں کی شناخت پیدا کرلینی چاہئے تاکہ بہتر انداز میں سدباب کرسکیں- اس مختصر مقالے میں گلگت بلتستان پر ثقافتی یلغار کے اسباب پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اور کربلا کے تناظر میں مناسب راہ حل بیان کریں گے۔
ثقافت کی تعریف اور اہمیت
عصر حاضر میں ایک طرف مغربی ثقافت ہے جس کی شناخت خالق محور کی بجائے عقل محور ، جدید ٹیکنالوجی اور اختلاطی نظام زندگی ہے ۔ دوسری طرف مشرقی ثقافت جس کی حقیقی شناخت وہویت، آسمانی تعلیمات جیسے انسانیت،اخلاقیات، روحانی جذبے سے وابستگی ہے۔ یہی اس ثقافت کے دشمنوں کے ذائقے میں تلخی اور کرواہٹ کا باعث بننے لگی ہے ۔ اسی لئے اس کے خلاف صدیوں سے صف آراء ہیں۔ استعمار ہمیشہ اسلامی ممالک سے مذہبی جڑیں کاٹنے کے لیےبرسرپیکار رہا ہے۔ یہ درحقیقت پوری ارض خاکی سے توحیدی فکر کو ختم کرنے کے لئے پیش خیمہ ہے- مغربی تہذیب،حقیقت میں دو فلسفے (مادیت) اور ( Epicureanism ) یعنی عیش وعشرت، لذت کی پجاری پر قائم ہے ۔ جو قرون وسطی سے پہلے دور کی تہذیب کی طرف بازگشت کرنا ہے۔ ارباب علم و دانش نے ثقافت کی مختلف تعریفیں کی ہیں مثلا: کسی مخصوص معاشرے کے اکتسابی طرز عمل اور فکری خصوصیات کے مجموعے کو ثقافت کہا جاتا ہے۔ 2 عصر حاضر کے بڑے فیلسوف علامہ مصباح نے یوں تعریف کرتے ہیں: ثقافت مختلف عناصر کا مجموعہ ہے جو اس کے رویے کو جانوروں کے رویے سے منفرد اور ممتاز بناتا ہے۔ 3. عمومی طور پر ثقافتی یلغار کا مفہوم افراد یا معاشروں کی کسی دوسرے معاشرے کی ثقافت کو بدل ڈالنا یا اسی غرض سے سعی وتلاش کا نام ہے۔ یہ تبدیلی دو اہم مقامات پر ظاہر ہو سکتی ہے ۔
پہلا ، فکری اور آئیڈیالوجی میدان میں
مغربی تہذیب اور مادہ پرستی کا پہلا ہدف وہ عقائد و افکار ہیں جن پر دوسرے لوگوں کا ایمان ہوتا ہے ان کو ختم کرنا یا تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے ماورائی عقیدہ جیسے خدا ، قیامت ، فرشتے ، وحی جیسے بنیادی مسائل کو خرافات، محض تصورات اور توہمات کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس طرح کہیں گے: تم حقیقت پسند بنو، صحیح سوچو، یہ ماورائی عقیدہ اور خرافات ہے جو کہ قابل تصور ہی نہیں بلکہ یہ سب تمہارے خیالات اور وہمیات ہیں ۔ یا بسا اوقات یہ کہتے نظر آتے ہیں انسان کا بس دل پاک و صاف ہوتو کافی ہے یعنی عمل نہ بھی کریں یا جب غیر عقلی اور غیر شرعی فعل کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اکثر اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے سنائی دیں گے – آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اپنا اپنا عقیدہ ہے ۔ یعنی کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کو دین اور سچائی کی دعوت دے نہ ہی کسی کے عقیدے اور فکر کی مذمت نہیں کرنی چاہئے۔۔ یہ وہ چیزیں ہیں ج. آہستہ انسان کے عقیدہ و افکار کو متزلزل کرنے کے باعث بنتے ہیں ۔ لہذا اگر ہم ان مسائل کو منظم طر یقے سے حل کرنے کوشش نہ کریں تو پورا معاشرا ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہو جائے گا۔
دوسرا، اقدار
کچھ اقدار ایسی ہیں کہ ان پر عقیدہ رکھے بغیر انسانی زندگی تشکیل نہیں پاسکتی۔یعنی انسانی تبھی کہنے کے لائق ہے جب ان اقدار کی پاسداری کریں گے۔ انسان کی زندگی دیگر جانوروں کی زندگی سے ممتاز تب ہوگی، جب اس میں اچھے اور برے کا تصور ہو۔ جو انسان بعض امور کو اس تصور کے ساتھ انجام دیتے ہیں کہ وہ اچھے ہیں۔ کچھ افعال کو اس تصور کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ برے ہیں یہ اس بات کی ثبوت ہے کہ وہ انسانی اقدار کے پابند ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ان اقدار کو دل وجان سے چاہتاہے اس کے باوجود کوئی ان اقدار کو بدلنا چاہے تو یہ ثقافتی اقدار پر یلغار تصور کیا جائے گا ۔
اقدار کو اس لئے بدلنا چاہتے ہیں کیونکہ جو چیز انسانی حیات کی سمت اور طرز زندگی کو متعین کرتی ہے وہ اس کے عقائد اور اقدار ہیں جن پر پورا ایمان ہوتا ہے۔ جب عقائد اور اقدار بدل جائیں تو لوگوں کے رویے خود بخود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ کسی معاشرے کی ثقافت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس معاشرے کے لوگوں کے طرز فکر اور طرز عمل میں مختلف طریقوں سے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی طرف خداوند متعال یوں اشارہ فرماتا ہے: شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ . 4
غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ شیاطین کا کام دوسروں کے حقوق کی پایمالی،ان پر ظلم کرنا ہے بلکہ خداوند متعال شیطانوں کے کام کو ثقافتی یلغار کے زاوئیے سے نظر کرتا ہے ۔یعنی شیاطین کی تمام تر سرگرمیاں اور پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ لوگوں کے افکار اور سوچ کو تبدیل کریں تاکہ لوگ آخرت پر ایمان،معنو یت، ماورائی اقدار سے سے ہاتھ اٹھا لیں۔کیونکہ اگر عقائد اور اقدار کو تبدیل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو یقینا دیگر شعبوں میں بھی فتح پانا آسان ہوگی۔ اس کے علاوہ انحرافات، اخلاقی اور دیگر برائیوں ، اور باطل عقائد کی راہ میں بڑی رکاوٹ صحیح عقائد اور حقیقی اقدار کا مضبوط قلعہ ہے جسے فتح کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ لہذا انبیاء ،اور راہ انبیاء کے دشمنانِ ہمیشہ معاشرتی سطح پر اندیشہ اور افکار کو بدلنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں – 5
اس خطے پر عالمی خصوصی توجہ کے اسباب
میری ناقص دانست کے مطابق ان تمام سرگرمیوں کی اصل وجہ وہ آیئڈیالوجی ہے جو اس خطے کے باشندوں کے فہم وشعور میں، گرجتی لہروں اور گہرے سمندر سے عمیق اس کے باسیوں کے خون میں موج زن ہے۔
تمام اسلامی مکاتب کا مشترکہ عقیدہ نظریہ توحید ہے۔ اسی پر دیگر افکار، اور اقدار استوار ہے ۔ لیکن جن اصول اور افکار کی وجہ سے مکتب تشیع کو امتیاز حاصل ہے وہ متعدد اسباب ہیں ان میں سے تین اہم اصول یہاں بیان کریں گے-
امامت کا تصور
مکتب تشیع میں نظام توحیدی چند اہم ارکان پر مشتمل ہے۔ان میں سے ایک نظام امامت ہے۔ امامت شیعہ مکتب فکر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ معصوم اور عادل امام پر شیعوں کا یہ عقیدہ اپنے اندر ایک انقلابی فکر کو پروان چڑھاتا ہے-اسی عقیدے کے تناظر میں، دوراں عصر حضور آئمہ اطہار (ع) غیر معصوم ،یا نائب امام معصوم کی اذن کے بغیر تشکیل پانے والی حکومتوں کو نامشروع تصور کیا جاتا ہے- عصر غیبت میں کسی بھی ناجائز حکومتوں کا تختہ الٹنے کی اس نظریے میں یہ توانائی ہے ۔( 6 ) کیونکہ شیعہ عقیدے میں امامت کا نظریہ وصایت اور منصوص من اللہ کی بنیاد پر ہے۔جس کا نتیجہ معصوم کی اذن کے بغیر دیگر تمام حکومتوں کی عدم مشروعیت ہے – یہی نظریہ پوری تار یخ اسلام میں انقلابی روح کو پروان چڑھانے اور شیعوں کو ہمیشہ تیار رکھنے کا باعث بنا ہے ۔اسلامی فرقوں میں شیعہ ایسا مکتب ہے جس نے انقلابی فکر کی بدولت ہمیشہ ظلم کے خلاف قیام کیا۔اور انقلابی فکر کو خود سے جدا نہیں کیا ۔یہ حقیقت پوری تاریخ تشیع میں روز روشن واضح ہے ۔عقیدہ امامت (جس پر شیعوں کا پختہ یقین ہوتا ہے) کی وجہ سے ظالم جابر حکمرانوں پر تنقید اور ان کے خلاف احتجاج کرنےکی جرآت پیدا ہوگئی – یہی وجہ تھی کہ شیعہ مسلسل انقلابی عمل میں سرگرم رہتے آرہے ہیں ۔ معاشرتی برائیوں کے خلاف پیش پیش رہے ہیں ۔اس کی ایک جھلک اسلامی انقلاب کی صورت میں ایران کا انقلاب ہے۔
عدالت طلبی کا تصور
مکتب تشیع میں “عدالت ” خدا کی صفات میں سے ایک ہے 7 ۔ اس کی افادیت اور اہمیت کی وجہ سے اصول دین میں شامل ہے۔ تاکہ وہ ظالم جابر حکمران جو اپنی حکومت کو الہی اور شرعی سمجھتے ہیں ان کے خلاف انقلابی موقف اختیار کیا جا سکے۔ اس مکتب میں عدالت کی افادیت الہی امور سے لیکر سیاسی ، سماجی اور دیگر شعبوں کو شامل ہوتی ہے۔ حکمران ، قاضی اور دیگر حکومتی افراد کے لیے ضروری شرائط میں سے ایک قرار د یتے ہیں – لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مکتب تشیع میں انقلابی فکر کے اہم محرک، یہی عدالت خواہی ہے ۔دوسرے لفظوں میں مکتب تشیع کے اسلامی سیاسی نظریے کی اہم خصوصیت، جو ان کی تحریک کا سرچشمہ ہے، وہ عدالت طلبی کی فکر ہے – عدل و انصاف کا نظام جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اس کے قیام کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں – در حقیقت دیگر اسلامی فرقوں کے برخلاف مکتب تشیع، دین اسلام کو عدل و انصاف کا مذہب سمجھتے ہیں – 8 .یہی وجہ ہے کہ تمام معاشرتی امور جیسے حکومت، امام جمعہ و جماعت ، عدلیہ کے لئے عدالت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر تمام امور باطل تصور کیا جائے گا ۔حکمرانی اور منصب قضاوت پر رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ یہی فکر تار یخ اسلام میں شیعوں کے درمیان مختلف تحریکوں کی بنیاد رہی ہے۔ سماجی امور بھی اس قانون سے خارج نہیں- (9) لہذا اس فکر کو معاشرے تک سرایت کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے اپنائے گئے اور ثقافتی یلغار بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
مہدویت کا تصور
مکتب تشیع کے علاوہ دیگر اسلامی مکاتب ،ایک ظالم ، جابر حکمران اور حکومت کو افراتفری سے بہتر سمجھتے ہیں ۔لہذا حکمران جیسا بھی ہو اس کی اطاعت ضروری سمجھتے ہیں لیکن مکتب تشیع میں دو واقعات ا یسے ہیں جن کی وجہ سے انقلابی سوچ کو تقویت ملتی ہے اور ہر حکمران کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتے-
پہلا .عقیدہ غیبت ہے – ہر دور میں امام معصوم (ع) یا نائب امام کی اذن کے بغیر تشکیل پانے والی ساری حکومتیں ظالمانہ اور جابرانہ ہے ۔ ممکنہ طور پر یہی فکر معاشرتی انقلاب کا محرک بن سکتی ہے ۔ 10
دوسرا۔ انتظار کا نظریہ ہے جوکہ نظریہ غیبت کی ذیلی شاخ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں اذن الہی سے ایک حکمران کا ظہور ہونا ہے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔ اس لیے اس عالمی نجات دہندہ کا انتظار شیعوں کو مستقبل کے بارے میں ایک قسم کی امید کی طرف لے جاتا ہے. 11 شیعہ اپنے تمام آرزوں اور آرمانوں کو اس مقررہ وقت تک ناقابل حصول سمجھتے ہیں- اس لیے و ہ ہمیشہ موجودہ حالات سے ناخوش رہتے ہیں – 11 عالمی مصلح کے ظہور کی امید انہیں ہمہ وقت تیار رہنے پر مجبور کردیتی ہے- جس کی وجہ سے ان میں متحرک جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ درحقیقت، انتظار ایک ایسا محرک عنصر ہے جو انسانوں کو حکومت عدل و انصاف کے قیام کی طرف حرکت میں لاتا ہے ۔ 12 دیگر عوامل و اسباب کے ساتھ یہ تین اہم افکار ہیں جن کی بنا پر پورا عالم استکبار اور اس کے آلہ کار اس مکتب کی جڑوں کو کاٹنا چاہتے ہیں ۔
ثقافتی یلغار کی راہیں
یقیناً سوفٹ وار اور ثقافتی جنگ کا ہدف وہ اسلامی نظریات ہیں جو ان کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنتے ہیں- ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ کن طریقوں سے داخل ہوتے ہیں۔ ان کی سد باب کے لئے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ عام طور پر دشمن اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے دو طریقے اپناتے ہیں-
1. اساسی اور بنیادی روش
کسی بھی ملک اور قوم کے خلاف حملے خاص کر سوفٹ وار اور ثقافتی یلغار کے کچھ خاص راہیں اور طر یقے ہوتے ہیں جو در حقیقت اس قوم کا قوت یا ضعف کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے – چونکہ مکتب اسلام خاص کر تشیع فکری اور آئیڈیالوجی کا مکتب ہے لہذا طبیعی امر ہے کہ انحرافات اور بدعات کا مرکز بھی سب سے پہلے علمی مراکز ہی ہوگا –
اس طریقے کا مقصد براہِ راست عوام نہیں ہوتا، بلکہ سب سے پہلے پڑھے لکھے اور علمی طبقہ فکر پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔ ان پڑھے لکھے طبقے کے ذریعے اس کے اثرات آہستہ آہستہ معاشرے کے دوسرے لوگوں تک پھیلایا جاتا ہے۔ کیونکہ علمی مراکز میں پیش ہوکر رفتہ رفتہ سماج اور عوام کو متاثر کرنے میں وقت لگے گا۔ جب کوئی پروفیسر اور گریجویٹ جو اغیار کے افکار سے متاثر ہوجاتے ہیں تو فطری امر ہے کہ وہ اپنے لیکچرز اور مضامین میں وہی مواد استعمال کریں گے جن سے وہ متاثرہیں ۔ انہی نظریات کی بنیاد پر معاشرہ سازی کی کوشش کریں گے ۔ اپنے آلودہ افکار سے پورے معاشرے کو ثقافتی یلغار کے لئے تیار کر یں گے –
2. سطحی اور عامیانہ روش
جو عوام میں ز یادہ موثر ہوتا ہے اور جلدنتیجہ تک پہنچتا ہے – اپنے مقاصد کے حصول کو تیز کرنے ،عوام کے لیے بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں – مختلف نفسیاتی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے، ذرائع ابلاغ، اور مواصلاتی اوزار کو اپنی ثقافت کی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں ۔یوں لا شعوری میں لوگوں کے افکار اور ثقافت کو تبد یل کر تے ہیں ۔ دشمن اس روش سے اس حد تک کامیاب ہو گئے کہ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں انتہائی پرہیز گار اور دین دار گھرانے بھی محفوظ نہ رہ سکے ۔نماز روزے کے پابند بچے تعلیم اور محنت مشقت کے بجائے دن رات فلمیں دیکھنے، قصے کہانی سننے ،جوک وغیرہ میں گزار نے لگتے ہیں – اس لیے میڈیا مغربی ثقافت کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی طرح میڈیا کے ذریعے غیر ثقافتی امورجیسے جشن مے فنگ ، ناچ گانے ، انٹرٹیمنٹ و.. کو ثقافت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ثقافتی یلغار کی سد باب کربلا کے آئینے میں
1. موثرافراد کا نیٹ ورک اور عوامی تحر یک
ثقافتی یلغار میں خواص کے ساتھ عوام کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں موجود ہر ایک کو ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے سب کو تیار رہنا چا ہیے ۔ ثقافتی یلغار کے خلاف سب سے اہم ہتھیار علم و آگہی ہے – جس طرح کسی ملک پر جب عسکری حملہ ہوتا ہے تو ہر شخص عسکری تربیت حاصل کرتا ہے مختلف اقسام کے اسلحے سے لیس ہوتا ہے ثقافتی حملے کے دوراں بھی ہر شخص کو احساس ذمہ داری کے ساتھ علم و دانش کے اسلحے سے خود کو مسلح کرنا ہوگا
اسی طرح جب معاشرے میں بیماری عام ہوجائے تو سب کو ویکسین لگوایا جاتا ہے تاکہ بیماری مذ ید نہ پھیلے ۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو بیمار نہیں ہوں میں ٹیکہ کیوں لگواوں ؟ کیونکہ یہ بیماری جلد یا بدیر پھیل جائے گی اور سب تک پہنچ جائے گی اور پورے معاشرے کو متاثر کردے گی-دوسرے لفظوں میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تصور کو معاشرتی ضرورت تصور کرکے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہئے ۔ یہی وہ تصور ہے جسے امام عالیمقام ع لوگوں کے اذہان میں ڈالنے تحریک کربلا شروع کیں ۔ بلکہ اسے اپنی تحریک کا سرلوحہ قرار دیا ، کیونکہ یہ ایسا تصور ہے جب تک بشر اور یہ دنیا باقی ہے معاشرتی ضرورت ہے انسانی معاشرے کی بقا اسی سے وابستہ ہے۔
2. بصیرت افزائی کی محافل کا انعقاد
ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق ثقافتی جدوجہد میں حصہ لینا اہم فر یضہ ہے۔ سب سے آسان اور بنیادی کام جو کسی سے بھی ساقط نہیں ہوتا ، خواہ وہ بوڑھا ہو یاجوان، مرد ہو یا عورت، و ہ ہے بصیرت افزائی کی محافل کا احیاء۔ ہمیں اس سے غفلت نہیں برتنی چاہئے – جوان، نوجوان،خواتین، مردوں، تاجر، ماہر تعلیم اور دیگر تمام طبقات کے لوگوں کو مختلف سطح پر فکری ، بصیرتی نشست برگزار کرنی چا ہئے۔ خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں ، جب ہرطرف سے لوگ اپنے اپنے علاقے کی طرف رخ کرتے ہیں – مبلغین اور بہتر ین علماء بھی ہر علاقے میں پہنچ جاتے ہیں – اہل محلہ کی ذمہ داری ہے وہ اہل علم اور صاحب فکر افراد سے اس طرح کی نشست کے انعقاد کا مطالبہ کریں بلکہ اہل علم اور علماء کو مجبور کر یں۔ جب اس طرح کی نشست منعقد ہوجائے تو سب کو جوق در جوق شرکت کرنی چاہئے – کوئی بھی بصیرتی نشست جو اسلام اور اس کی اقدار کے بارے میں ہمارے فہم کو قدرے بلند کرتی ہے اس میں شرکت کو لازم سمجھے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی عقائد اور اقدار روز بروز زوال پذیر ہورہے ہیں ۔ اگر زبوں حالی کا یہ سلسلہ کا جاری رہا توہمارا حشر بھی اندلس اور فلسطین سے کم نہیں ہوگا ۔کربلا کے شہدا ء کی سب سب اہم خصوصیت جس نے لاکھوں افراد میں ان کو ایک ممتاز مقام دلائی وہ معرفت اور بصیرت ہے ۔ بصیرت یعنی الگ اور جدا کرنے کی توانائی ، ہر انسان کو زندگی میں ایسے لمحات سے روبرو ہوتا ہے جہاں حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ ، دوست اور دشمن کی پہچان ناممکن ہونے لگتا ہے ایسے موقعوں پر صرف صاحب بصیرت ہی فرق کرسکتا ہے ۔ امام عالیمقام ع کے اصحاب دشمن کے نقشے کو خوب جان چکے تھے جس کے نتیجے میں ہر سختی کو کشادہ روئی کے ساتھ خوش آمدید کہتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام عالی مقام ع کے غلام بھی معرفت اور بصیرت کے اس بلند مقام پر فائز تھے غلام ہوکر شہادت کو صدق دل سے سعادت سمجھتے تھے۔حضرت عباس علمدار ع کے لئے امام معصوم ع نے جو الفاظ استعمال کئے یہی صاحب بصیرت ہونا ہے۔
3. عزت کا تصور
اہل بلتستان کی بڑی خامیوں میں سے ایک یہی ہے کہ اپنی وقار اور عزت کی حفاظت کا ہنر نہیں آتا ۔ جو معاشرہ کربلا کو مانتا ہو ، کربلا سرمشق زندگی کا تصور ہو وہ کیسے اپنی ہرچیز کو ناچیز اور اغیار کے ہاتھ میں موجود ہر ناچیز کو بہت کچھ تصور کرسکتا ہے۔ جو معاشرہ ہر چیز میں کسی اور معاشرہ یا اقوام کی تقلید کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے ، اور اسے اپنے لئے رول ماڈل تصور کرتا ہے نفسیاتی طور پر وہ شکست خوردہ خود کو حقیر اور ذلیل سمجھ لیا ہے ۔آج اگر ہم اپنے معاشرے کی از سرنو جائزہ لیں تو ہر چیز میں خود تحقیری چھلکتی ہے سر کے بال سے لیکر نوحہ خوانی اور سینہ زنی تک میں تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کربلا ہمیں درس عزت اور ئقار دیتی ہے ,امام عالیمقام ع نے کربلا کی تپتی ریت پر بھوک اور پیاس برداشت کیں ، سب کچھ راہ حق میں دے دیے مگر فرمایا: المَوتُ أولی مِن رُكوبِ العار. کربلا کا پیغام یہی ہے جو انسان اللہ کو معبود مانتا ہے اور صرف اسی کے آگے جھکتا ہے وہ انسان عزیز ہے حقیر نہیں .دوسروں کو تقلید کرکے خود کو ذلیل کرنے کا حق نہیں ۔
……………………………………..کتابیات…………………………….
1. قرآن حکیم نساء 141
2. توسلی،غلامعباس و رضا فاضل مترجم ،مبانی جامعہ شناسی، ص۵۹، تہران، سمت، ۱۳۷۰.
3. مصباح یزدی، محمدتقی، تہاجم فرہنگى، ص84 تحقیق و نگارش عبدالجواد ابرا ہیمى. ـ قم: مؤسسہ آموزشى و پژوہشى امام خمینى(قدس سرہ)، 1381
4. انعام 112
5. مصباح یزدی،محمدتقی، تہاجم فرہنگى ، ص71 تحقیق و نگارش عبدالجواد ابراہیمى. ـ قم: مؤسسہ آموزشى و پژوہشى امام خمینى(قدس سرہ)، 1381
6. روح اللّہ حسينيان، تاريخ سياسى تشيّع تا تشكيل حوزۀ علميہ، ص ۱۴. مرکز اسناد انقلاب ،1383
7 ریشہرى، دانشنامہ عقاید اسلامى، ج۸، ص۹۹.موسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث ،۱۳۸۶ش
8. محمّد مسجد جامعى، زمينہ ہاى تفكر سياسى در اسلام در قلمرو تشيّع و تسنّن، ص ۲۶۵-۲۶۶. پبلیشرز،ادیان ، 1385
9. مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۱، ص۸۰.انتشارات صدرا ، قم ایران
10 حمزہ امرايى،انقلاب اسلامى و جنبشہاى اسلامى معاصر، ص ۳۵.مرکز اسناد انقلاب ، 1385
11. حميد اخوان مفرد، ايدئولوژى انقلاب ايران، ص ۱۶۹. پژوہشکدہ امام خمینی و انقلاب اسلامی : 1381
12. زينب متقىزادہ، جغرافياى سياسى شيعيان منطقہ خليج فارس، ص ۳۷. پبلیشرز، شيعہ شناسی قم – ایران 1384 ش
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید