تازہ ترین

 گلگت و بلتستان ۔۔۔۔ جہاں انسانی حقوق بھی میسر نہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

کسی کو اتنی رقم میسر نہ ہو کہ وہ اپنا یا اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو یہی غربت ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے اور اسکے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ دوا حاصل کرسکے تو یہ غربت ہے۔ جب کسی کے پاس سر چھپانے کی جائے پناہ نہ ہو تو یہ غربت ہے اور جب بارش میں کسی کے گھر کی چھت ایسے ٹپکتی ہو کہ جیسے وہ گھر میں نہیں کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہو تو یہ غربت ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بجائے چائے پلانے پر مجبور ہو تو یہ غربت ہے۔ گلگت بلتستان کی آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، مگر یہاں ابھی تک غریب اور غربت کا نہ ختم ہونے والا سیلاب امڈ رہا ہے۔

شئیر
38 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1505

تحریر: سید قمر عباس حسینی

qamarhussani@yahoo.com

 

غربت (Poverty) کی اصطلاح کا ذکر عام طور پر کسی انسان یا معاشرے کی بنیادی ضروریات زندگی کے پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ یعنی جب کسی کو اتنی رقم میسر نہ ہو کہ وہ اپنا یا اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو یہی غربت ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے اور اسکے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ دوا حاصل کرسکے تو یہ غربت ہے۔ جب کسی کے پاس سر چھپانے کی جائے پناہ نہ ہو تو یہ غربت ہے اور جب بارش میں کسی کے گھر کی چھت ایسے ٹپکتی ہو کہ جیسے وہ گھر میں نہیں کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہو تو یہ غربت ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بجائے چائے پلانے پر مجبور ہو تو یہ غربت ہے۔ گلگت بلتستان کی آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، مگر یہاں ابھی تک غریب اور غربت کا نہ ختم ہونے والا سیلاب امڈ رہا ہے۔ اس خطہ بے آئین میں یوں تو غربت کو ختم کرنے کے لئے صرف بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں چونکہ پاکستان میں ہر کام اقرباء پروری اور تعلقات کی بیس پر انجام پاتا ہے، اس لئے یہاں بھی غریبوں کے نام پر امیروں کی جیبیں بھری جاتی ہیں۔

 

بلتستان  کے غریب طبقے کی حالت زار کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، اِس حالِ زار میں کچھ ملازمین بھی شامل ہے، جن کی آمدن ان کے کل خرچے سے بھی کم ہے لیکن سماج میں زندگی گزارنے کی خاطر غیرت کے نام پر کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے بلکہ انتہائی کٹھن زندگی گزارتے رہتے ہیں، ان کی سسکیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ انھوں نے کس کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گلگت  بلتستان کے امراء کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کا خون چوسیں، غریبوں کے نام پر اپنی جیبیں بھریں، انہیں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے بلتستان کا غریب، بہت ہی غریب ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ مختلف NGO,s فلاح و بہبود کے نام پر مصروف عمل ہیں، لیکن یہ بھی غریبوں کی فلاح کے لئے کام نہیں کرتیں بلکہ امیروں کی فلاح اور ان کی امارت میں اضافہ کرنے کے لئے مصروف ہیں، جبکہ یہاں کے دیہاتوں اور دیہی آبادیوں میں خصوصاً کم از کم 50 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس بنیادی ضرورت کو بھی پورا کرنے کے بھی وسائل نہیں ہیں۔ انھیں پیٹ بھر کر کھانا، صاف پانی اور موسم کے اعتبار سے لباس و مکان تک دستیاب نہیں۔ اگر بیمار ہوجائیں تو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بغیر علاج کے تڑپ تڑپ کر آہوں اور سسکیوں میں جان دیدیتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال تک نہیں ہوتا۔ مختصراً یہ عرض کر دوں کہ اس خطہ بے آئین میں لوگوں کو ابھی اتک ابتدائی انسانی حقوق بھی میسر نہیں، آئینی حقوق تو دور کی بات ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *