تازہ ترین

گنگوپی سے حیدرآباد تک

 شہید قلب تاریخ ہے۔ تاریخ سے خصوصاً اگر تاریخ اسلام سے شہادت کا صفحہ نکال دیا جائے تو گویا تاریخ، تاریخ نہیں رہے گی بلکہ الفاظ کا ملبہ بن جائے گی۔

شئیر
52 بازدید
مطالب کا کوڈ: 181

 

وہی اقوام، قبائل اور ممالک دنیا میں سربلند ہوتے ہیں جن کی رگوں میں اپنے شہیدوں کی یاد لہو بن کر دوڑتی ہے۔ جن اقوام اور ممالک کی نسل نو کے ذہنی صفحات سے شہداء کی یادیں محو ہوجاتی ہیں، وہ اقوام اور ممالک بھی بہت جلد نظریاتی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ شہداء کے کارناموں، قربانیوں اور ذکر کو نسل در نسل منتقل کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جو نسل در نسل ہر صاحب شعور کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
مئی کا مہینہ اپنی عمر کے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور ارباب سخن و فہم بخوبی جانتے ہیں کہ تاریخ پاکستان میں ۲۲ مئی وہ “یومِ سیاہ” ہے کہ جس دن  پاکستان کے بدترین  آمر اور ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اپنے بیرونی آقاوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے 1988ء میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے نہتّے عوام پر کرائے کے قاتلوں سے لشکر کشی کروائی تھی۔ اس لشکر کشی کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا کہ ایک تخمینے کے مطابق صرف جلال آباد کے قبرستان میں 72 شہداء دفن ہیں۔ اس کے علاوہ ان گنت تعداد میں درختوں کو کاٹا گیا، باغوں کو اجاڑا گیا، فصلوں کو آگ لگائی گئی، گھروں کو گرایا گیا اور مویشیوں کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔

اس ظلم و ستم سے پردہ اٹھانا، اس شبخون میں مارے جانے والوں کو یاد کرنا اور اس لشکر کشی کے حقائق کو منظر ِ عام پر لانا جہاں ہماری نسلِ نو کے لئے مفید ہے، وہیں  پر ہمارے حکمرانوں اور حکومتی اداروں کو آئینہ دکھانے کے لئے بھی ضروری ہے۔ شمالی علاقہ جات کے فلک بوس کہستانوں کے درمیان رقم ہونے والی ظلم و ستم کی اس تاریخ کے اوراق جتنے بھیانک اور دلخراش ہیں، اسی قدر حسین اور دلکش بھی ہیں۔ خوف، وحشت اور قتل و غارت کی سطر سطر ایک ظالم حکمران کی طاقت سے عبارت ہے جبکہ دلکشی، محبّت، اخوّت اور بھائی چارے کا لفظ لفظ اس علاقے کے مکینوں نے اپنے دم خم سے رقم کیا ہے۔

اس علاقے کے باسیوں میں سے ایک ہمارے جاننے والے “ذاکر حسین آغا” بھی ہیں۔ مئی 1988ء میں ان کی عمر کوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔ انھیں بس اتنا کچھ یاد ہے کہ “گنگوپی” سکردو میں وہ اپنے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کے ایک خالہ زاد بھائی بھاگتے ہوئے آئے اور آتے ہی انہوں نے کہا کہ گلگت پر حملہ ہوگیا ہے اور میں گلگت جا رہا ہوں۔ انہوں نے مقامی زبان میں ایک “لوئی” یعنی چادر مانگی جسے وہ لپیٹ کر فوراً نکل گئے۔ میں اور والدہ دنگ رہ گئے، حملہ ہوگیا ہے۔۔۔ ہوں۔۔۔ کس نے حملہ کر دیا؟ کیوں۔۔۔ اس طرح کے کئی سوالات میرے دماغ میں گردش کرنے لگے۔

ذاکر حسین آغا کے بقول “کچھ ہی گھنٹوں میں پورا گلگت بلتستان میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا اور حکومتی آشیرباد کے باعث لوگوں کا خون پانی کی طرح بہتا رہا، گھر جلتے رہے اور سہاگ اجڑتے رہے، لیکن نہ ہی تو انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں سے کوئی اشک ٹپکا اور نہ ہی سرکار کے ماتھے پر پسینہ آیا۔ اس بات کو مدّتیں گزر گئیں تو ایک روز میرے ایک ماموں زاد بھائی نے بتایا کہ گلگت پر حملے کے دوران جب وہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ایک درّے سے گزر رہے تھے تو پہاڑ کی چوٹی سے حملہ آوروں نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ چند ہی منٹوں میں وہ سب ڈھیر ہوگئے، اتفاق سے میرے ماموں کو کوئی گولی نہیں لگی تھی، انہوں نے دیگر پانچ چھ لاشوں کو گھسیٹ کر نزدیک کیا اور خود انہی لاشوں کے نیچے لیٹ گئے۔

اتنی دیر میں حملہ آور بھی پہاڑ کی چوٹی سے گھومتے پھرتے نیچے آئے، انہوں نے لاشوں کا سرسری جائزہ لیا اور تیزی سے واپس چوٹی کی طرف بھاگ گئے۔ حملہ آوروں کے پلٹتے ہی میرے ماموں زاد بھی وہاں سے تیزی سے بھاگے اور انہوں نے بہت دور کہیں جاکر دیگر لوگوں کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ جب وہ دیگر لوگوں کے ہمراہ لاشوں کو اٹھانے کے لئے پہنچے تو اس وقت تک حملہ آوروں نے پہاڑ کی چوٹی سے پتھر مار مار کر لاشوں کو ناقابلِ شناخت بنا دیا تھا اور لاشوں پر پتھروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ان لاشوں کے درمیان ایک لاش گنگوپی کے رہائشی شہید غلام حیدر کی بھی تھی۔ شہید غلام حیدر کی شہادت کے بعد ان کے گاوں کا نام گنگوپی رام سے تبدیل کرکےحیدر آباد سکردو رکھ دیا گیا۔”

قارئین کرام! اس حملے میں کئی “غلام حیدر” بے جرم و خطا مارے گئے، کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کا یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس محلّے یا گاوں کے رہنے والے تھے، ان نامعلوم شہیدوں میں سے ایک نام شہید لال مست خان کا بھی ہے کہ جو شہید غلام حیدر کے ہمراہ سکردو کے قبرستان “قتل گاہ شریف” میں دفن ہیں۔ ان قبرستانوں اور یاداشتوں کے علاوہ ان شہیدوں کی نشانیوں میں سے ان کے وہ یتیم بچے بھی ہیں، جو اس وقت جوان ہوچکے ہیں۔ آیئے۔۔۔! مئی کے مہینے کے ان باقی بچے کھچے دنوں میں ہی سہی ۔۔۔ کچھ لمحے ان شہداء کے بچوں کے ساتھ بیٹھیں، ان سے ان کی یتیمی کا حال سنیں، ان شہداء کے واقعات اور کہانیوں کو دہرا کر نسلِ نو کو یہ بتائیں کہ ایک گنگوپی کو حیدرآباد بنانے کے لئے کتنے حیدر علی اپنی جانوں پر کھیلے اور کتنے لال مست خان گمنامی کی آغوش میں سوئے۔

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *