ہماری پاکیزہ اسلامی ثقافت کی 72 اہم جھلکیاں
ہماری پاکیزہ اسلامی ثقافت کی 72 اہم جھلکیاں
تحریر: ایس ایم شاہ
1: ایمان داری ہماری ثقافت پے،
2: امانت داری ہماری ثقافت ہے،
3: کفایت شعاری ہماری ثقافت ہے،
4: خود داری ہماری ثقافت ہے،
5: آپس کی رواداری ہماری ثقافت ہے،
6: مہمانوں کی خاطر داری ہماری ثقافت ہے،
7: علماء کی تابع داری ہماری ثقافت ہے،
8: تنازعات میں ناطرف داری ہماری ثقافت ہے،
9: احترام میں مراتب داری ہماری ثقافت ہے،
10: پردہ ہماری ثقافت ہے،
11: حیا ہماری ثقافت ہے، 12: حیادار آنکھوں کے ساتھ خواتین کا حیا و عفت کی ملکہ بنے رہنا ہماری ثقافت ہے،
13: دوسروں کی ماؤں بہنوں کو اپنی مائیں بہنیں سمجھنا ہماری ثقافت ہے،
14: سواری وغیرہ پر مردوں کا اپنی جگہے سے اٹھ کر خواتین کو جگہ دینا ہماری ثقافت ہے،
15: پردے کو زیور سمجھنا ہماری ثقافت ہے،
16: پردے میں خواتین کا اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا ہماری ثقافت ہے،
17: خرید و فروش کے معاملات میں ملاوٹ سے پاک چیزیں بازار میں پیش کرنا ہماری ثقافت ہے۔
18: خریدار کی پشیمانی پر فروخت شدہ چیز کو واپس لینا ہماری ثقافت ہے۔
19: مجبوری کے مواقع پر قرض فراہم کرنا ہماری ثقافت ہے۔
20: علماء کا احترام کرنا ہماری ثقافت ہے،
21: علما کا کہنا ماننا ہماری ثقافت ہے،
22: علماء کی سرپرستی میں رہنا ہماری ثقافت ہے،
23: علماء کی تعظیم کے لیے اٹھنا ہماری ثقافت ہے،
24: جس محفل میں کوئی عالم دین ہو وہاں سب خاموش رہ کر ان کی قیمتی اور علمی باتیں غور سے سنتے رہنا ہماری ثقافت ہے،
25: اپنے مسائل کی گھتیاں سلجھانے کے لیے علماء کے در پر جانے کو شرف سمجھنا ہماری ثقافت ہے،
26: علماء کی دست بوسی کرنا ہماری ثقافت ہے،
27: علماء کے خلاف اٹھنے والی ہر زبان کو کاٹنا ہماری ثقافت ہے،
28: علماء کے دفاع میں سینہ سپر ہونا ہماری ثقافت ہے،
29: جاہلوں سے دور رہنا ہماری ثقافت ہے،
30: لبرل طبقے سے اظہار بیزاری کرنا ہماری ثقافت ہے،
31: صراط مستقیم سے منحرف لوگوں کو سرکوب کرتے رہنا ہماری ثقافت ہے،
32: زمین، جائیداد، پیسے وغیرہ کے بارے میں دو افراد یا دو گروہوں کے آپس میں تنازعہ ہونے کی صورت ایک دو لبرل اور قوم پرست وکیلوں کے ہتھے چڑھنے سے بچ کر جو اس وجہ سے سماج میں علماء کا رول کمزور کرنا چاہتا ہے؛ کیونکہ لوگوں کے تنازعات علماء کے ذریعے فوری اور مفت میں حل ہونے کے باعث ان کا کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے. اس وجہ سے وہ اکثر بے بنیاد الزامات کے تحت علماء کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔(البتہ بہت سارے متدین، حق پرست، انصاف پسند وکلاء بھی ہیں وہ ہماری مراد نہیں) یوں اپنی نسلیں سرکاری عدالتوں کا چکر کاٹتے ہوئے تباہ و برباد کرنے، آپس کی نہ ختم ہونے والی دشمنیوں اور رنجشوں کو جنم دینے، لاکھوں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہانے، اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے اور دماغی ٹینشن میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے گاؤں کے، اپنے علاقے کے یا اپنے شہر کے کسی عالم دین یا وہاں کے علماء کے کسی فورم کی طرف رجوع کرکے فریقین اپنے تنازعات کو حل کراکے خواہ فریقین میں سے جس کے حق میں بھی فیصلہ آجائے اس کی اعتنا کئے بغیر فریقین کا اس عالم دین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور ان کے حق میں دعائے خیر دیتے ہوئے آپس میں شیر و شکر ہوکر خوش و خرم واپس گھروں کو لوٹ آکر تاحیات بھائی بھائی بن کر زندگی گزارنا ہماری ثقافت ہے۔
33: قوم پرستی کا نعرہ لگاکر ہماری جوانوں کو گمراہ کرکے 1400سال پہلے کے دورِ جاہلیت کی طرف لے جانے والوں کو ہر فورم پر سرکوب کرنا ہماری ثقافت ہے،
34: محب وطن شہری ہونا ہماری ثقافت ہے،
35: ملکی، اعتقادی، اخلاقی، سرحدوں کے دفاع کے لئے خون کے آخری قطرے تک بہانے کا جذبہ رکھنا ہماری ثقافت ہے۔
36: جاہلوں کی باتوں پر کان نہ دھرنا ہماری ثقافت ہے،
37: بے حیائی پھیلانے والوں کو رسوا کرتے رہنا ہماری ثقافت ہے،
38: حسینیت کا پرچار کرتے رہنا ہماری ثقافت ہے،
39: یزیدیوں سے برسرپیکار رہنا ہماری ثقافت ہے۔
40: حق کے دفاع میں تن من دھن کی قربانی دینا ہماری ثقافت ہے،
41: جہاں اذان ہو وہاں کام چھوڑ کر عبادت الٰہی میں مصروف ہوجانا ہماری ثقافت ہے،
42: غریبوں کی مدد کرنا ہماری ثقافت ہے،
43: بے سہاروں کا سہارا بننا ہماری ثقافت ہے،
44: بے کسوں کی آس بننا ہماری ثقافت ہے،
45: مریضوں کی عیادت کرنا ہماری ثقافت ہے،
46: ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا ہماری ثقافت ہے،
47: غم اور مصیبت کے موقع پر سب جمع ہوکر صاحبِ مصیبت کا غم بانٹنا ہماری ثقافت ہے۔
48: تحمّل مزاجی ہماری ثقافت ہے،
49: کفایت شعاری ہماری ثقافت ہے،
50: اچھے کاموں میں شراکت داری ہماری ثقافت یے،
51: برے کاموں سے دوری ہماری ثقافت ہے،
52: اچھے کام انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری ثقافت ہے،
53: برے کام انجام دینے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان کی مذمت کرنا ہماری ثقافت ہے،
54: رشتے داروں سے روابط برقرار رکھنے والوں کو عزت کی نظر سے دیکھنا ہماری ثقافت ہے،
55: تمام رشتے داروں سے قطعِ تعلق کرنے والوں کو بری نظر سے دیکھنا ہماری ثقافت ہے۔
56: انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہماری ثقافت ہے،
57: والدین کی زندگی میں ان کے احترام میں بھائیوں کا الگ نہ ہونا ہماری ثقافت ہے،
58: بڑھاپے میں والدین کا سہارا بننا ہماری ثقافت ہے۔
59: باپ کی رحلت کے بعد بڑے بھائی کو باپ کا احترام دینا ہماری ثقافت ہے۔
60: اپنے مصیبت کے اوقات میں کربلا والوں کی مصیبتوں کو یاد کرکے اپنے غم کو ہلکا کرنا ہماری ثقافت ہے،
61: اہل بیت اطہار علیہم السلام کے غم کے موقع پر فرش عزا بچھانا اور اہل بیت علیہم السلام کی خوشی کے موقع پر جشن منانا ہماری ثقافت ہے،
62: جوان لڑکے لڑکیوں کی بروقت شادی کراکے شادی کے بندھن میں باندھ کر ان کے لئے ذریعۂ معاش کا اہتمام ہونے تک والدین ان کی کفالت کرتے ہوئے انہیں پرسکون زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرکے بد کاری اور اخلاقی جرائم سے دور رکھنا ہماری ثقافت ہے،
63: ہفتے کے مختلف دنوں میں دعائے کمیل، دعائے توسل اور حدیث کساء کے پروگراموں کے انعقاد کے ذریعے معنوی غذا فراہم کرکے ذہنی سکون کا سامان فراہم کرتے رہنا ہماری ثقافت ہے،
64: طویل سفر پر جانے والوں کے ہاں خدا حافظی کے لئے جانا اور سفر سے واپسی پر ان کے ہاں ملاقات کے لئے جانا ہماری ثقافت ہے۔
65: مالی مشکلات کے باوجود بھی خود داری کا مظاہرہ کرنا ہماری ثقافت ہے،
66: ضرورت مندوں کے ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہماری ثقافت ہے،
67: ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہماری ثقافت ہے۔
68: بڑوں کا ادب کرنا ہماری ثقافت ہے،
69: چھوٹوں پر شفقت کرنا ہماری ثقافت ہے،
70: محنت شعاری اور کفایت شعاری ہماری ثقافت ہے
71: ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور مغربی ثقافتی یلغار کی رو میں بہنے سے خود بچتے رہنا اور دوسروں کو بچائے رکھنا ہماری ثقافت ہے اور
72: مظلوموں کا دفاع کرنا ہماری ثقافت ہے۔
یہ 72 اسلامی ثقافتی اقدار ہمارے ہاں دو چار سالوں میں بہ آسانی زندہ نہیں ہوئے بلکہ ان اقدار کو زندہ کرنے اور ان کی حفاظت کے لئے 72 کے ماننے والوں نے صدیاں صرف کی ہیں۔ علمائے کرام نے کسی قسم کی مادی سہولیات کے نہ ہونے کے باوجود بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر اور ہمارے متدین عوام نے ان کی پیروی کرتے ہوئے ہر قسم کی قربانیاں دے کر ان ثقافتی اقدار کا احیاء اور تحفظ کیا ہے۔ آج اگر علماء، دانشور اور متدین عوام ہمارے اسلامی ثقافتی اقدار کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر نکل کر ثقافتی واک کرتے ہیں تو یہ معمولی کام کے لئے نہیں بلکہ صدیوں کی ہماری قربانیوں کے بچاؤ اور ان کی حفاظت کے لئے ہے۔ یاد رکھئے! زندہ قومیں اپنی ثقافت اور اپنے اقدار کی حفاظت خود کرتی ہیں؛ کیونکہ ہاری ہوئی جنگیں تو جیت میں بدل سکتی ہیں لیکن اگر ہم مغربی ثقافتی یلغار کی رو میں بہہ گئے تو اس کا تدارک کسی صورت ممکن نہیں۔
دیدگاهتان را بنویسید