تازہ ترین

یوم القدس، پیمانہ حق: تحریر ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

آج کا دن بڑی فضلیت و برکتوں والا دن ہے۔ اسی دن کو سید الایام، جمعۃ الوداع کہا گیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن کا انتہائی عقیدت و احترام سے اہتمام کرتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے تمام مسالک کے درمیان مشترکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک خوش کن حقیقت […]

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2403

آج کا دن بڑی فضلیت و برکتوں والا دن ہے۔ اسی دن کو سید الایام، جمعۃ الوداع کہا گیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن کا انتہائی عقیدت و احترام سے اہتمام کرتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے تمام مسالک کے درمیان مشترکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک خوش کن حقیقت ہے کہ جمعۃ الوداع کی اہمیت، حیثیت امت مسلمہ کے تمام مسالک کے نزدیک یکساں ہیں، یعنی اس دن کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمان امت کے تصور سے حقیقی طور پر جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس روز دنیا بھر کے مسلمان بلاتفریق رنگ و نسل، مکتب و مسلک اتحاد کی تسبیح میں پروئے نظر آتے ہیں۔ جس طرح جمعۃ الوداع کی فضلیت اور مرتبہ امت کے تمام مسالک و مکاتب کے درمیان یکساں ہے، اسی طرح بیت المقدس، قبلہ اول کی اہمیت، حیثیت اور فضلیت بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک یکساں ہے۔ بیت المقدس تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاحترام ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت المقدس کی جانب رخ انور کرکے کئی نمازیں ادا کیں۔ جس کے باعث اسے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ مشرق وسطٰی میں عالمی دہشت گرد، شیطان بزرگ امریکہ و برطانیہ نے اپنی نگرانی میں جب آزاد فلسطین کی آزاد سرزمین پر ناجائز اور غاصب ریاست اسرائیل کا وجود قائم کیا، تو فلسطین پر یہودیوں کی آباد کاری اور صہیونی ریاست کے قیام سے قبلہ اول، بیت المقدس بھی صہیونیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اسرائیلی فوجوں نے پہلے پہل قبلہ اول میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا۔ پھر رفتہ رفتہ اسے اپنی تاریخی مذہبی عبادتگاہ کے طور پر متعارف کرانا شروع کر دیا۔ مسجد اقصٰی اور قبلہ اول کی اسرائیلی فوجیوں نے متعدد بار بیحرمتی کی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ اسے نذرآتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا وہ تاریخی منبر بھی جل کر خاکستر ہوگیا، جس پر بیٹھ کے سلطان نے جمعۃ المبارک کے کئی خطبے دیئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے بیت المقدس کو ہیکل سلمانی میں تبدیل کرنے کی عملی سازشوں کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے قبلہ اول کے ارد گرد سرنگیں بھی کھودی گئیں۔

اسرائیل کے قیام کے وقت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے مشرق وسطٰی میں گھونپے گئے ایک خنجر سے تعبیر کیا۔ انقلاب اسلامی ایران کے رونما ہونے کے بعد پیشوا امام خمینی نے قبلہ اول کی آزادی کو امت مسلمہ کا دیرینہ مسئلہ و خواب قرار دیا۔ انہوں نے پورے عالم اسلام کی توجہ قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کی جانب مبذول کرانے کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا۔ یہ امام خمینی رضوان اللہ کی بصیرت کا ہی اعجاز ہے کہ انہوں نے عالم اسلام کے دیرینہ مسائل کو دنیائے عالم میں اجاگر کرنے اور مسلمانوں میں اپنے سیاسی حقوق کا شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک ایسے یوم کا انتخاب کیا، جو نہ صرف فضائل و مراتب میں تمام مکاتب کے یہاں یکساں مقبول ہے بلکہ مقصد و ہدف کا انتخاب بھی اتنا جامع رکھا کہ وہ حق و باطل کا پیمانہ قرار پایا۔ یہ امام خمینی رضوان اللہ کے اس مجاہدانہ حکم کا ہی ثمر ہے کہ آج پوری دنیا کے باشعور عوام یوم القدس قومی، مسلکی، لسانی، تفریق سے بالاتر ہوکر منا رہے ہیں۔ صرف اسلامی دنیا کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، یورپ، افریقہ کے دور دراز ممالک میں یوم القدس کے عوامی اجتماعات اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فضائیں اللہ اکبر، یارسول اللہ، حزب فقط حزب الہی، مردہ باد امریکہ، اسرائیل، بھارت کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یوم القدس، یوم اسلام اتحاد بین المسلمین کے حقیقی مظہر کے مصداق ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے مذہبی و سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر منا رہی ہیں۔ شہر شہر، قصبے قصبے اور گاؤں گاؤں سے ریلیاں بعد از جمعہ برآمد ہوں گی۔ جب شہر کے ہر چوک، ہر شاہراہ پر امریکہ، اسرائیل، بھارت کے جھنڈے نذرآتش کئے جاتے ہیں، جب ان ممالک کے حکمرانوں کے پتلے نذرآتش کئے جاتے ہیں۔ تو ذہن میں یہ سوال تو ضرور اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ان ممالک سے اظہار نفرت کیا جا رہا ہے۔ آخر کیوں ان کے کردار کی مذمت کی جا رہی ہے تو جواب ایک ہی ملتا ہے کہ یہ ظالم ہیں۔ فلسطین، کشمیر، عراق، شام، افریقہ، افغانستان و دیگر ان کے ظلم کا شکار ہیں۔ یقینی طور پر آج (یوم القدس) کے مظاہرے اس حدیث نبوی کی صداقت کی بھی دلیل ہیں۔ جس میں بیان فرمایا گیا کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک عضو میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم بے چین ہوگا۔‘‘ اس تناظر میں سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اہل یمن مسلمان نہیں۔؟ کہ ہر قسم کے خوفناک اور خطرناک اسلحہ سے لیس کئی ممالک کی افواج نے ایک پوری انسانی آبادی کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے اور بیدردی سے اس آبادی پر گولہ بارود برسا رہی ہے۔ اس برسات میں بے گناہ، معصوم پرامن شہری، بچے، بوڑھے، خواتین بلاتفریق نشانہ بن رہے ہیں، معصوم بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں، ورثاء زخمی بچوں کے کٹے ہوئے اعضاء اٹھا کر رحم اور مدد کی فریادیں کر رہے ہیں، مگر عالمی انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں، شائد کہ مرنے اور زخمی ہونیوالے مسلمان ہیں اس لیے۔ یو این او، سلامتی کونسل پر موت کا سکوت جاری ہے، کیا محض اس لئے کہ جو اسلحہ استعمال ہو رہا ہے، وہ نام نہاد بڑی طاقتوں کا ہے، لہذا انہیں یہ ظلم و بربریت اس قابل محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسکے خلاف کوئی ایکشن لیں۔

کیا سعودی عرب کے جنگی جرائم اسرائیل، امریکہ و بھارت سے کم ہیں۔ ایک جانب اہل یمن پر آتش و آہن برسا رہا ہے تو دوسری جانب محض اسرائیل کے تحفظ کیلئے شام میں دہشت گردوں کی معاونت و پشت پناہی کے ذریعے بدامنی کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور دہشت گردوں کو مجاہدین قرار دینے پر مصر ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے ایک ایسے پڑوسی ملک کا محاصر ہ کر رکھا ہے کہ جس سے کسی قسم کا کوئی براہ راست تنازعہ بھی نہیں ہے اور مسلک و نظریئے کے اعتبار سے دونوں میں زیادہ دوریاں بھی نہیں۔ اب اسی سلفی، دیوبندی قطر کو اشیائے خورد و نوش اسی ایران کے ذریعے میسر آرہی ہیں کہ جو قطر کا ہم مسلک، ہم قوم یا ہم زبان نہیں مگر پھر بھی وہ قطر کے کام آیا۔ تجزیہ کار سعودی عرب قطر مخاصمت پر حیرت سے انگشت بذنداں ہیں۔ بعض دانشوروں نے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ریاض کانفرنس اور قطر سعودی عرب مخاصمت سے آل سعود ہر حوالے سے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب نے ایک خاص مکتب فکر کی پیشوائی کا جو لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اب وہ بھی اتر چکا ہے۔ وہ حماس جو سنی ہے، مگر اسرائیل کے خلاف ہے۔ سعودی عرب کو قبول نہیں جبکہ ایران و دیگر اسلامی ممالک اس کے حمایت کنندہ ہیں۔ وہ اخوان جو آزاد فلسطین کا موقف رکھتی ہے اور اسرائیل کو مسترد کرتی ہے، اسی اخوان کی حمایت کرنے پر قطر بھی سعودی عرب کے زیر عتاب ہے، حالانکہ قطر سعودی عرب کا ہم نوالہ، ہم پیالہ تھا۔

وہ شام جو اسرائیل کے خلاف مقامتی تحریکوں کا اہم ترین مورچہ ہے، اسے زیر کرنے کیلئے سعودی عرب محض امریکی و اسرائیلی ایماء پر اپنے معاشی وسائل جھونکے ہوئے ہے۔ یمن میں وہ حوثی کہ جن کا نعرہ ہی الموت الامریکہ، الموت الاسرائیل ہے، ان کے اوپر سعودی عرب مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا یہ کردار اسلامی دنیا کیلئے اتنا ہی ضرر رساں ہے کہ جتنا امریکہ و اسرائیل کا۔ حرمین مقدس کی وجہ سے عالم اسلام کا مرکز سمجھا جانے والا سعودی عرب اگر سرکاری طور پر امریکہ و اسرائیل کے مفادات کی چوکیداری کرے اور ان کے وسیع تر مذموم ایجنڈے کو پروان چڑھانے کیلئے اہل اسلام کے وسائل انہی کے خلاف خرچ کرے تو کیا آج امریکہ و اسرائیل و بھارت سے پہلے سعودی مظالم کی نفی نہیں کرنی چاہیئے۔ جب پتلے جلائے جائیں تو کیا ان میں آل سعود کے پتلے شامل نہیں ہونے چاہیئں۔ مجھے گلہ اسرائیل ،امریکہ، بھارت سے نہیں کہ وہ غزہ، کشمیر، شام، افغانستان، عراق، کے مسلمانوں پرسے موت برسا رہے ہیں۔ مجھے گلہ یو این و دیگر عالمی تنظیموں سے بھی نہیں کہ وہ ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ میں نے اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، سلامتی کونسل سے کوئی امیدیں وابستہ نہیں کی ہوئیں کہ وہ اپنی قرادادوں کی روشنی میں عالم اسلام کے خلاف نام نہاد طاقتوں کے جنگی جرائم کے مقدمے چلائیں گے۔

میرا سوال تو امت مسلمہ کے سجدہ ریز سروں سے ہے، جو عبادات میں اتنے مگن ہیں کہ اسلامی دنیا کے بچوں کی دلخراش چیخیں بھی ان پر اثر انداز نہیں ہو رہی، ملت اسلامیہ کی ان آنکھوں سے ہے، جو ابھی تک ان عالمی اداروں سے امید کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ اگر ایمان کا تعلق ظلم کے خلاف قیام سے ہے تو پھر اس ظلم پر خاموش رہ کر سجدے کرنے والوں کی نمازیں باطل ہیں۔ تاہم ملت اسلامیہ میں ایسے غیور فرزندان توحید کی کمی نہیں، جو ایمان کے پہلے درجے پر فائز ہیں۔ یہی وہ فرزندان توحید ہیں، جو وقت کی ظالم و جابر طاغوتی و سامراجی طاقتوں کے سامنے ہر حوالے سے سینہ سپر ہیں۔ ان میں جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی، بچے بھی ہیں، خواتین بھی۔ ملت کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے یہ لوگ نظریہ اسلامی کی ترویج و ترغیب کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور یہی ایمان کے اول درجے پر فائز حزب اللہی شام میں دہشتگردوں سے مصروف جنگ ہیں، سرحدوں پر اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ کہیں یمن کی سرحدوں کی محافظت کر رہے ہیں تو کہیں کشمیر میں بھارتی درندوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو باطل کے خلاف ہر میدان میں مصروف جنگ ہیں۔ ایمان کے اول درجے پر فائز یہی وہ لوگ ہیں، جو آج یوم القدس کے اجتماعات میں ظالموں کی سرکوبی کے عزم کے اعادے کے ساتھ موجود ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا شمار انہی میں ہو جو کہ ایمان کے اول درجے پر موجود ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *