64 سال مزید نہیں
گلگت بلتستان کی 80 فیصد آبادی فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ انتہائی پرامن لوگ ہیں۔ ضیاءالحق کے زمانے میں یہاں سپاہ صحابہ والوں نے تخریب کاریاں شروع کی تھیں اور آج وہ بہت تیز ہو چکی ہیں۔
گلگت گزشتہ تین روز سے کرفیو کی لپیٹ میں ہے۔ سڑکوں پر لاشیں پڑی ہیں اور انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں۔ فرقہ وارانہ نفرت جنوبی پنجاب اور ہمارے قبائلی علاقوں سے نکل کر وہاں پھیل رہی ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو امریکہ سے مدد مل رہی ہے۔ کشمیر تو ہماری وہ شہ رگ ہے جس کے بغیر ہم 64 سال سے زندہ ہیں۔ خدانخواستہ اگر گلگت بلتستان کی شہ رگ پر کسی دشمن کاہاتھ آ گیا، تو پھر ہمارے پاس 64 سال نہیں ہوں گے۔
تحریر: نذیر ناجی
جس طرح ہمارے آج کے سیاستدانوں اور اسٹریٹجک ماہرین کو یہ پتہ نہیں کہ بلوچستان، پاکستان کا حصہ کیسے بنا یا بنایا گیا تھا۔؟ اسی طرح وہ گلگت بلتستان کے بارے میں بھی نہیں جانتے کہ آج وہ پاکستان کا ایک صوبہ کیوں ہے۔؟ یاددہانی کے لئے عرض کر رہا ہوں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا ایک متنازعہ حصہ تھا، جسے وہاں کے لوگوں نے 1947ء میں ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا تھا۔ آزادی کے بعد گلگت بلتستان کی آبادی نے اپنی خواہش کے تحت خود پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں بھی دوسرے وفاقی یونٹوں کی طرح ایک علیحدہ یونٹ کی حیثیت دی جائے، لیکن پاکستانی حکمرانوں نے انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی کا عذر پیش کر کے یہ کہا کہ فی الحال ہمیں مجبوراً انہیں پاکستان کا حصہ بنانا پڑیگا۔ جب انتظامی ڈھانچہ تشکیل پا جائے گا تو اسے صوبے کا درجہ دے دیا جائے گا۔
اس کے بعد یہ وعدہ کسی کو یاد نہ رہا، مگر گلگت بلتستان کے لوگ مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ انہیں ان کی شناخت واپس دی جائے۔ 1963ء میں علاقے کے لوگوں سے پوچھے بغیر گلگت بلتستان کا انتہائی اہمیت کا حامل رقبہ چین کی تحویل میں دے دیا گیا۔ پاکستان سے محبت کی بنا پر مقامی آبادی نے اس تبدیلی کو بھی قبول کر لیا اور آخر کار موجودہ حکومت نے انہیں ان کا صوبہ دینے کا تاریخی وعدہ پورا کر دیا۔ یہاں جو چیز انتہائی قابل غور ہے وہ یہ کہ مشرقی پاکستانیوں کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی جنگ آزادی خود لڑی۔ اپنی آزادی خود حاصل کی اور اپنی خوشی سے پاکستان کا حصہ بنے۔
پاکستان کے موجودہ علاقوں میں سابق صوبہ سرحد کے اندر شدید اختلاف رائے تھا۔ اسی کی بنیاد پر وہاں ریفرنڈم ہوا کہ صوبے کو پاکستان میں شامل کیا جائے یا نہیں۔؟ سرخ پوش تحریک نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور بائیکاٹ کے نتیجے میں صوبے کو پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے پاکستان کی حمایت میں قرارداد پاس کی تھی۔ لیکن عوام کی طرف سے کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور سندھ تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ بنا۔ 1938ء میں جو قرارداد پاس کی گئی تھی، درحقیقت وہ بمبئی پریذیڈینسی سے علیحدہ صوبہ بننے کے بعد قائم ہونے والی اسمبلی میں پاس ہوئی تھی۔ اس اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کا مطالبہ سامنے ہی نہیں آیا تھا۔ قرارداد 1938ء میں پاس ہوئی جبکہ قرارداد پاکستان 1940ء میں پیش کی گئی۔
اسی طرح پنجاب میں چلنے والی تحریک پاکستان چند روز تک محدود ہے۔ آزادی سے پہلے پنجاب میں جو انتخابات ہوئے تھے، ان میں مسلم لیگ کو اکثریت نہیں ملی تھی۔ ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ پنجابی جاگیرداروں کی جماعت یونینسٹ پارٹی نے مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔ جس میں وزارت عظمٰی یونینسٹ پارٹی کے خضر حیات ٹوانہ کے حصے میں آئی۔ اس دوران قیام پاکستان کی منزل قریب آ چکی تھی۔ چنانچہ مسلم لیگ نے صوبائی حکومت کے خلاف ایک احتجاجی تحریک کا اعلان کر کے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اپنا نام لکھوا لیا۔ مسلم لیگی کارکن گرفتار ہوئے۔ جاگیرداروں نے بھی جیل میں پکنک منائی مگر متحدہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کے دوران جو قربانیاں دی گئیں، پنجاب کی یہ تحریک اس کا عشرعشیر بھی نہیں تھی۔
قیام پاکستان کے فارمولے پر اتفاق رائے کا وقت قریب آیا تو پنجاب کے انگریز گورنر نے یونینسٹوں کو اشارہ کر دیا کہ اب پاکستان بننے والا ہے، اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ مسلم لیگ کی طرف رخ کر لیں۔ چند ایک سر پھروں کو چھوڑ کر باقی سارے یونینسٹ راتوں رات مسلم لیگی بن گئے اور اس طرح مغربی پنجاب، پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اگر پنجاب والوں نے ریڈکلف ایوارڈ میں اپنا کیس پیش کرنے کی پہلے سے تیاری کر لی ہوتی تو فیروزپور اور گورداسپور پاکستان کا حصہ بن سکتے تھے۔ خاص طور پہ تحصیل بٹالہ کا بھارت میں جانا تو کسی طور ممکن نہ ہوتا۔ مگر پنجاب کی مسلم لیگ اپنا کیس ہی اچھی طرح نہ لڑ سکی۔ اس سے قیام پاکستان میں پنجاب مسلم لیگ کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اب میں اپنی بات کی طرف واپس آتا ہوں کہ قیام پاکستان کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں مشرقی پاکستان کے عوام نے دے دی تھیں اور ان کے بعد اپنے علاقے کو دشمن سے آزاد کرانے اور پاکستان میں شامل کرنے کیلئے گلگت بلتستان کے عوام نے قربانیاں دی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں بھی فیصلہ ملک کے اس حصے کے حکمرانوں نے کیا جن کا پاکستان بنانے میں خاص حصہ نہیں تھا اور اب گلگت بلتستان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ ملک کے اس حصے سے تعلق رکھنے والے لوگ کر رہے ہیں، جنہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کے لئے نہ کبھی جنگ لڑی اور نہ ہی اپنے علاقے کا کنٹرول خود حاصل کر کے اسے پاکستان میں شامل کیا۔
مشرقی پاکستان سے محروم ہو کر ہم نے کیا کچھ گنوایا؟ اس کا اندازہ اسلام کے نام پر ہمارے ملک کو تباہی کی دلدل میں دھکیلنے والے ابھی تک نہیں کر پائے۔ مشرقی پاکستان ہم سے جدا نہ ہوتا تو ہماری جمہوریت آج 40سال کی نشوونما کے بعد بہت نکھر چکی ہوتی۔ مشرقی پاکستان کی قیادت، پاکستان کو کبھی افغان جنگ میں ملوث نہ ہونے دیتی۔ کشمیر کا معاملہ طے ہو چکا ہوتا۔ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تیزرفتار ترقی ہمیں خوشحالی کی منزل کے قریب لا چکی ہوتی۔ دنیا میں ہم باوقار قوموں کی صف میں کھڑے ہو چکے ہوتے۔ ہمارا معاشرہ تشدد کی لعنت سے محفوظ ہوتا۔ کوئی اسامہ ہمارے ملک میں روپوش نہ ہو سکتا اور کوئی حافظ سعید قومی ڈسپلن سے باغی ہو کر غیرملکوں میں دہشتگردی کے کھاتے کھولنے کی جرات نہ کرتا۔ یہ سب کچھ ہمیں مشرقی پاکستان سے محروم ہونے کے بعد دیکھنا پڑ رہا ہے اور آج جو کچھ گلگت بلتستان میں ہو رہا ہے، اگر میں اس کے نتائج کی طرف ذرا سا بھی اشارہ کر دوں تو آپ کے حواس ٹھکانے آ جائیں گے۔
آیئے! دیکھتے ہیں گلگت بلتستان کا جغرافیائی محل وقوع کیا ہے۔؟ یہ علاقہ ایک طرف خیبرپختونخوا سے ملتا ہے، تو دوسری طرف آزاد کشمیر سے۔ قراقرم روڈ اسی علاقہ میں سے گزرتی ہے اور یہیں پر ہماری اور چین کی سرحدین ملتی ہیں۔ اس کے شمال میں واخان کی پٹی واقع ہے، جو افغانستان کا حصہ ہے۔ مگر یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے پاکستان براہ راست زمینی طور پر وسطی ایشیا سے جا ملتا ہے۔ چین گلگت بلتستان میں زبردست تعمیراتی اور ترقیاتی کام کر رہا ہے۔ چین ہمارے اس علاقے میں ایک بڑا آبی ذخیرہ تعمیر کرنے جا رہا ہے، جس کے 80 فیصد اخراجات وہ خود اٹھائے گا۔ چین کا یہ آبی ذخیرہ ہمارے دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے شہ رگ کا کام کرے گا۔ اگر یہ ذخیرہ قائم نہ ہو سکا تو ہم بھاشا ڈیم کا خواب کبھی پورا نہیں کر پائیں گے اور یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ ہماری آبی شہ رگ دریائے سندھ کا ابتدائی حصہ گلگت بلتستان میں ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں یہ لکھا تھا کہ بھارت سے افغانستان کا فضائی سفر صرف پندرہ منٹ کا ہے تو وہ اسی علاقے سے ہو سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے پرواز کر کے گلگت اور بلتستان پر صرف پندرہ منٹ کی پرواز کے بعد آپ واخان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ آج امریکہ اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھ لیں۔ اپنی اور ان دونوں کی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر اپنی اہلیت کو دیکھ لیں اور پھر سوچ لیں کہ میں کس بات پر فکرمند ہوں۔؟ اگر گلگت اور بلتستان پر ہمارا حکومتی کنٹرول ختم ہو گیا، جو ابھی پوری طرح قائم بھی نہیں ہوا، تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔؟
گلگت کی 80 فیصد آبادی فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ انتہائی پرامن لوگ ہیں۔ ضیاءالحق کے زمانے میں یہاں سپاہ صحابہ والوں نے تخریب کاریاں شروع کی تھیں اور آج وہ بہت تیز ہو چکی ہیں۔ گلگت گزشتہ تین روز سے کرفیو کی لپیٹ میں ہے۔ سڑکوں پر لاشیں پڑی ہیں اور انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں۔ فرقہ وارانہ نفرت جنوبی پنجاب اور ہمارے قبائلی علاقوں سے نکل کر وہاں پھیل رہی ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو امریکہ سے مدد مل رہی ہے۔ کشمیر تو ہماری وہ شہ رگ ہے جس کے بغیر ہم 64 سال سے زندہ ہیں۔ خدانخواستہ اگر گلگت بلتستان کی شہ رگ پر کسی دشمن کاہاتھ آ گیا، تو پھر ہمارے پاس 64 سال نہیں ہوں گے۔
“روزنامہ جنگ”
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید