بعد رسول تمام بلندیوں سے بالا علی (ع)
حضرت علی علیہ السلام آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہ (ص)کے اصحاب میں سے کوئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا۔
آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد ہیں، تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپؑ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :
کعبہ میں ولادت
تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپؑ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کوئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آپ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا ببطن مکۃ عند البیت اِذْوُضِعَا’’آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہیں جو تمام بلندیوں سے بلند و بالا ہیں اس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ‘‘۔بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہوئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوں کی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی ؑ رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔
اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے (۲)
القاب
امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔صدیق(۳) آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے سول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :’’اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم ‘ ‘۔’’میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ‘‘۔
۲۔وصی آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپؑ رسول اللہ (ص) کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’اِنَّ وَصِیّي،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ‘‘۔(۴)’’میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ‘‘۔
۳۔فاروق امام ؑ کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرم (ص) کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی ؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :’’اِنّ ھٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وھٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَۃِ،وَھٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَھٰذَا فَارُوْقُ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ‘‘(۵)۔
’’یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ‘‘۔
۴۔یعسوب الدین لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرم (ص)کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر م (ص)نے حضرت علی ؑ کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا: ھٰذَا(واشارَالی الامام )یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ‘‘(۶)’’یہ (امام ؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا )مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے‘‘۔
۵۔امیر المو منین امیر المو منین آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :’’ یاانس، ’’اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ‘‘اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ‘‘پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:’’ اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے ‘‘ ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی ؑ تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس ) نے عرض کیا : علی ؑ ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی ؑ سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی ؑ کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی ؑ نے فرمایا: ’’یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:’’میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میں صحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ‘‘۔(۷)
۶ حجۃ اللہ آپ کا ایک عظیم لقب حجۃ اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرم (ص) نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرم (ص)نے فرمایا:’’میں اور علی ؑ اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں‘‘(۸)۔یہ آپؑ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپؑ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میں بیان کئے ہیں جیسا کہ ہم نے آپؑ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔آپ کی پرورش حضرت امیر المو منین ؑ نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔
پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش
امام ؑ کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب ؑ کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرم (ص) اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب ؑ کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میں گفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرم (ص) نے حضرت علی ؑ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپؑ (علی ؑ ) رسول اللہ (ص) کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میں پیغمبر اکرم (ص)کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔مو لائے کا ئنات ؑ نے پیغمبر اکرم (ص)کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :’’تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص)سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسول (ص) نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ‘‘۔
آپ نے نبی اور امام ؑ کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی ؑ کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی ؑ کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟
نبی اکرم (ص) کی حمایت
جب رسول اسلام (ص) نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ؑ ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔
اسلام کی راہ میں سبقت
تمام مورخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :’’لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ ‘‘۔ ’’میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے (۹)اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین ؑ دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ؑ ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۱۰)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی ؑ اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :’’وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَءِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰہِ (ص) وَخَدِیْجَۃَ وَاَنَا ثَالِثُھُمَا‘‘۔(۱۱)’’اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ‘‘۔ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ‘‘(۱۲)۔حضرت علی ؑ کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۱۳)
مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔ آپ کی نبی سے محبت آپ رسول اللہ (ص) سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے رسول اللہ (ص) سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:’’کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن الماءِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔(۱۴) ’’خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماں اور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ‘‘۔
حضرت علی ؑ کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوں گا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب’’ حیاۃ الامام امیر المومنین ؑ ‘‘میں ذکر کرچکے ہیں ۔(۱۵)
حوالہ جات
۱: مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السؤل، صفحہ ۲۲۔تذکرۃ الخواص، صفحہ ۷۔کفایۃ الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھۃ المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایۃ الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریۃ الامام (العقاد )، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :’’متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ‘‘۔
۲: حیاۃالامام امیر المو منین ؑ ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔
۳: تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔ ۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔
۴: کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
۵: مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابۃ، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔
۶: مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔
۷: حلیۃ الاولیاء، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔
۸: کنوز الحقائق ’’المناوی‘‘،صفحہ ۴۳۔
۹: صفوۃ الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔
۱۰: امتاع الاسماء، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔
۱۱: حیاۃالامام امیر المومنین ؑ ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔
۱۲: شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔
۱۳: صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔
۱۴: خزانۃ الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔
۱۵: تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید